Saturday, February 14, 2015

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاعلماء نجران سے مناظرہ

”نجران“مکہ اور یمن کے درمیان ایک شہر تھا جس میں ۷۳ بستیاں تھےں ،صدر اسلام میں وہاں عیسائی مذہب رائج تھا اور اس وقت وہاں بہت ہی پڑھے لکھے اور عظیم علماء رہتے تھے،خلاصہ کے طور پر یہ کہہ دینا بہتر ہوگا کہ اس وقت نجران ،آج کا ”ویٹکان“تھا۔
اس وقت شہر نجران کا بادشاہ ”عاقب“ نام کا ایک شخص تھا، جس کے ہاتھ میں مذہب کی باگ ڈور تھی اس کا نام ”ابو حارثہ“تھا،اور جو شخص ہر دل عزیز، محترم اور لوگوں کے نزدیک قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا اس کا نام ”ایہم“تھا۔
جب پورے عالم میںاسلام کی آواز گونجی تو عیسائی علماء جنھوں نے پیغمبر کے بارے میں جو بشارتیں توریت اور انجیل میں پڑھ رکھی تھیں اس کے سلسلہ میں ہمیشہ ہی بہت حساس رہتے تھے جب انھوں نے اسلام کی آواز سنی تو تحقیق کرنا شروع کر دیا۔
نجران کے عیسائی عوام نے اپنے نمائندوں کے ساتھ ایک خصوصی گروہ بنا کر تین مرتبہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ اچھی طرح اور قریب سے ان کی نبوت کی تحقیقکرسکیں۔
ایک دفعہ یہ گروہ ہجرت سے پہلے مکہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ کیا اور دو دفعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آکر اس گروہ نے آپ سے مناظرہ کیا۔
ہم ان کے تینوں مناظروں کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔
۱۔علمائے نجران سے پہلا مناظرہ
نجران کے عیسائی علماء کا ایک گروہ مکہ کی طرف اس قصد سے روانہ ہو اکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قریب سے دیکھے اور ان کی نبوت کے بارے میں تحقیق کرے ،یہ لوگ کعبہ کے نزدیک پہنچ کر پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور وہیں مناظرہ اور گفتگو شروع کر دی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی خوش اخلاقی سے ان کے سوالات سنے اور جواب دیئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں جنھیں سن کر ان لوگوں کے دل بھر آئے، اور فرط مسرت سے ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور اپنی تحقیقات میں انھیں ایسی چیزیں معلوم ہوئیں جو توریت اور انجیل سے بالکل مطابق تھیں جب انھوں نے یہ تمام چیزیں پیغمبر کی ذات میں دیکھیں تو مسلمان ہوگئے۔[42]
مشرکین بالخصوص ابو جہل اس مناظرہ سے بہت زیادہ ناراض ہوا اور جب نمائندہ نجران مناظرہ ختم کر کے واپس جانے لگے تو ابوجہل چند لوگوں کے ساتھ آیا اور راستے میں انھیں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ ہم نے تم لوگوں جیسا پاگل اور دیوانہ آج تک نہیں دیکھا تم لوگوں نے اپنی قوم وملت کے ساتھ خیانت کی اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے گرویدہ ہو گئے ان لوگوں نے بڑے ہی نرم لہجہ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے جو بھی کیا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔[43]
۲۔عیسائیوں کے اکابر علماء سے مناظرہ
دوسرا مناظرہ نجران کے عظیم سیاسی مذہبی راہنماوٴں سے مدینہ میں ہجرت کے نویں سال واقع ہوا جس کی نوبت مباہلہ تک پہنچ گئی اور وہ اس طرح ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خطوط سر براہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن میں ایک خط آپ نے نجران کے پوپ ابو حارثہ کو بھی لکھا تھا جس میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔
چار افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس خط کو لے کر نجران کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کو پوپ کی خدمت میں پیش کیا ،پوپ خط پڑھ کر بہت ناراض ہوا اور غصہ میں آکر اسے پھاڑ دالا اور آپ کے ان نامہ بروں کا کوئی احترام نہیں کیااور یہ ارادہ کیا کہ اس خط کے سلسلہ میں نجران کے پڑھے لکھے لوگ غور وفکر کریں ،نجران کے پڑھے لکھے اور مقدس لوگ جیسے شرحبیل، عبدا للہ بن جبّار بن فیض غور وفکر اور مشورہ کے لئے بلائے گئے۔
ان تینوں افراد نے کہا: ”چونکہ یہ بات نبوت سے متعلق ہے اس لئے ہم اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی نظریہ نہیں دے سکتے ہیں“۔پوپ نے اس مسئلہ کو نجران کے عوام کے سامنے پیش کیا،ان کی رائے لینے پر بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ہماری قوم کی طرف سے کچھ ہو شمند اور علم وعقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہ کے پا س جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث ومناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔
اس سلسلہ میں بحث وگفتگو بہت زیادہ ہوئی [44]لیکن آخر میں یہ طے پایا کہ نجران کے ساٹھ افراد جن میں سے چودہ عظیم علماء منجملہ عاقب ابو حارثہ اور ایہم بھی تھے مناظرے کے لئے مدینہ جائیں۔
ساٹھ آدمیوںپر مشتمل یہ قافلہ پیغمبر سے مناظرہ کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔
بیشک کسی بھی مذہب کے بارے میں بحث ومناظرہ جو بغیر دھوکا دھڑی اور فریب کے ہو اور اس میں منطقی بحث ہو تو بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ بحث ومناظرہ کو سازش اور فریب کا رنگ دے کر عوام کو دھوکا دے تو یقینا ایسے بحث و مناظرہ کو شدت سے روکنا چاہئے۔
نجران کے نمائندوں نے جان بوجھ کر بہت ہی زرق و برق لبا س زیب تن کیا اور بہت سے زیور پہنے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف جذب کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔[45]
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی ہو شیاری سے ان کے اس فعل کی طرف توجہ کی اور ان کے اس فریب کو ناکارہ بنا نے کے لئے ایک طریقہ اپنایا کہ جب علمائے نجران پیغمبر کی خدمت میں اس زرق وبرق لباس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان سے کوئی بات کی ،پیغمبر کی اتباع میں وہاں بیٹھے ہوئے مسلمانوں نے بھی ان سے کسی طرح کی کوئی بات نہیں کی۔
علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور عبد الرحمن اور عثمان سے پہلے کی جان پہچان کی بنا پر بے توجہی کا سبب معلوم کیا تو یہ لوگ انھیں حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علی علیہ السلام نے علمائے نجران سے فرمایا: ”تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبر کی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاوٴ انشاء اللہ ضرور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔
علمائے نجران نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اس حکم کا اتباع کیا اور کامیاب ہو ئے۔
مناظرہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ بحث وگفتگو میں ہر طرح کی آزادی ہو اور مناظرہ کی فضا بھی ہموار ہو،پیغمبر مسجد میں پنجگانہ نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے اور تمام مسلمان آپ کے گرد جمع ہوجاتے تھے ،عیسائی گروہ مسلمانوں کے اس طرح کے اجتماع سے بہت ہی حیران تھا لیکن تمام عیسائی اپنے عقیدے کے مطابق ایک گوشے میں مشرق(بیت المقدس )کی طرف رخ کر کے نماز ادا کیا کرنے لگے،بعض مسلمانوں نے چاہا کہ ان کی اس آزادی میں مانع ہوں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو روک دیا۔
ہمیں اس مختصر سی بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی علماء مدینہ میں بالکل آزاد تھے اور ان پر کسی بھی طرح کی قید وبندش نہیں تھی اورنہ ہی وہ کسی کے تحت تھے۔
نتیجہ میں تین روز گزر جانے پر نماز جماعت کے بعد مسجد ہی میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔
علمائے نجران کے ۶۰/افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیٹھ گئے اور بحث ومناظرہ کو سننے کے لئے تھوڑے فاصلہ پر مسلمان بھی بیٹھ گئے، قابل توجہ بات یہ تھی کہ چند یہودیوں نے بھی مسیحیوں اور مسلمانوں سے بحث کرنے کے لئے اس جلسہ میں شرکت کی تھی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محبت اور خلوص سے ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور آئے ہوئے علمائے نجران کو توحید واسلام کی دعوت دی اور فرمایا: ”آوٴہم سب مل کر وحدہ ٘ لا شریک کی عبادت کریں تاکہ ہم سب کے سب ایک زمرہ میں آجائیں اور خدا کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاریں اس کے بعد آپ نے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرمائیں۔
پوپ: ”اگر اسلام کا مطلب خدا پر ایمان رکھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے تو ہم تم سے پہلے ہی مسلمان ہیں“۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”حقیقی اسلام کی چند علامتیں ہیں اور تین چیزیں ہمارے درمیان ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تم لوگ اہل اسلام نہیں ہو،پہلی یہ کہ تم صلیب کی پوجا کرتے ہو،دوسری یہ کہ تم سور کے گوشت کو حلال جانتے ہو ،تیسری یہ کہ تم اس بات کے معتقد ہو کہ خدا صاحب اولاد ہے۔
علمائے نجران: ”ہمارے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح خدا ہیں کیونکہ انھوں نے مردوں کو زندہ کیا ہے اور لا علاج بیماروں کو شفا بخشی ہے حضرت مسیح نے مٹی سے پرندہ بنایا اس میںروح پھونکی اور وہ اڑ گیا وغیرہ وغیرہ اس طرح کے ان کے تمام کام ان کی خدائی پر دلالت کرتے ہیں“۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم : ”نہیں ایسانہیں ہے کوئی بھی ایسا کام خدائی پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ وہ خدا کے ایک بندہ ہی ہیں، جنھیں خداوندمتعال نے جناب مریم علیہ السلام کے رحم میں رکھا اور اس طرح کے تمام معجزات ا نہیں عنایت فرمائے۔وہ کھانا کھاتے تھے پانی پیتے تھے ان کے گوشت ،ہڈی اور کھال تھی اور اس طرح جو بھی ہوگا وہ خدا نہیں ہو سکتا ہے“۔
ایک نمائندہ: ”حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ ان کی ماں جناب مریم علیہ السلام نے بغیر کسی سے شادی کئے انھیں جنم دیا، یہی ہماری دلیل ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا ان کا باپ ہے“۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی الٰہی سورہٴ آل عمران آیت ۶۱ کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا: ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم جیسی ہے جس طرح خداوند متعال نے جناب آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے خاک سے پیدا کیا اسی طرح جناب عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور اگر باپ کا نہ ہونا خدا کے بیٹے ہونے پر دلیل بن سکتا ہے تو جناب آدم کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ کیونکہ ان کے باپ اور ماں دونوں نہیں تھے“۔
علمائے نجران نے جب یہ دیکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وہ حضرات جو ریاست دنیا کے چکر میں اسلام لانا نہیں چاہتے تھے انھوں نے مناظرہ کو ختم کر دیا اور کہنے گلے اس طرح کے جوابات ہمیں مطمئن نہیں کر رہے ہیں لہٰذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تیار ہیں یعنی دونوں طرف کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز ونیاز کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں تاکہ خدا جھوٹوں کو ہلاک کردے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ آل عمران کی ۶۱ آیت کے نازل ہونے پر انکی اس بات کو قبول کر لیا۔
تمام مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع ہو گئی اور جہاں دیکھئے وہیں لوگ بیٹھ کر چہ می گوئیاں کرنے لگے کہ دیکھئے مباہلہ میں کیا ہوتا ہے؟ لوگ بڑی بے صبری سے مباہلہ کا انتظار کررہے تھے کہ بڑے انتظار کے بعد ۲۴ ذی الحجة کا دن آہی گیا، علمائے نجران اپنے خاص جلسہ میں نفسیاتی طور پر یہ طے کر چکے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثیر تعداد میں لوگ آئیں تو بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ان کے ساتھ مباہلہ کے لئے تیار ہو جانا ، کیونکہ اس صورت میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس لئے کہ وہ لوگوں کو جمع کرکے دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن اگر یہ دیکھو کہ پیغمبر اپنے چند خاص افراد کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے ہوئے ہیں تو ہر گز مباہلہ نہ کرنا کیونکہ نتیجہ بہت ہی خطرناک نکلے گا۔
علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز ونیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کرنے لگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار افراد یعنی اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا اور اپنے داماد علی علیہ السلام اور اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ تشریف لارہے ہیں، شرحبیل (عیسائیوں کا ایک عظیم اور بڑا عالم )نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم !میں وہ صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے چاہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ ہٹ جائے تو یقینا وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ان سے ڈرو اور مباہلہ نہ کرو،اگر آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مباہلہ کروگے تو نجران کا ایک بھی عیسائی اس روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا خدا کے لئے میری بات ضرور مان لو چاہے بعد میںکچھ ماننا یا نہ ماننا۔
شرحبیل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں میں عجیب اضطرابی کیفیت پیدا کر دی اور انھوں نے اپنے ایک آدمی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیج کر ترک مباہلہ کی در خواست کی اور صلح کی التماس کی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کرم اور رحمت خداوند سے ان کی اس گزارش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا جو چار نکات پر مشتمل تھا:
۱۔اہل نجران کی یہ ذمہ داری ہے(تمام اسلامی ممالک کی امنیت کے سلسلہ میں)کہ وہ ہر سال دو ہزار جوڑے کپڑے دو قسط میں مسلمانوں کو دیں۔
۲۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے نمائندہ نجران میں ایک ماہ یا ایک ماہ سے زیادہ مہمان کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔
۳۔جب بھی کبھی یمن میں اسلام کے خلاف کوئی سازش بلند ہو تو اہل نجران کے لئے واجب ہے کہ وہ ۳۰ ڈھال ۳۰ گھوڑے اور ۱۳۰ اونٹ عاریہ کے طور پر حکومت اسلامی کی حفاظت کے لئے دیں۔
۴۔اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔
علماء نجران کی اس کمیٹی نے صلح نامہ کے تمام شرائط کو قبول کر لیا اور وہ لوگ شکست خوردہ حالت میں مدینہ سے نجران کی طرف روانہ ہوئے[46] ،ضمناً یہ بھی بتاتے چلیں کہ اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی عظمت ومنزلت کے لئے آیہ مباہلہ زندہ ثبوت ہے۔
۳۔ علمائے نجران کے تیسرے گروہ سے مناظرہ
نجران کے عیسائیوں کا تیسرا گروہ جو قبیلہ بنی الحارث سے تعلق رکھتا تھا اس نے نجران میں تحقیق کر کے اسلام قبول کر لیا تھا بعض ان کی نمائندگی کرنے کے لئے خالدبن ولید کے ساتھ مدینہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں مشرف ہو کر اظہار اسلام کیا اور کہا کہ ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو ہدایت کی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا: ”تم لوگ کیسے اپنے دشمنوں پر غالب ہوئے؟“
انھوں نے کہا: ”اول یہ کہ ہم لوگوں میں کسی طرح کاکوئی تفرقہ واختلاف نہیں تھا دوسرے یہ کہ ہم نے کسی پر ظلم کی ابتداء نہیں کی“۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”صدقتم “تم نے سچ کہا“۔ [47]
نتیجہ یہ ہے:
جیسا کہ پہلے بھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ نجران کے پہلے اور تیسرے گروہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کی اور اس کے بعداسلام کو قبول کر لیا لیکن دوسرا گروہ وہ تھا جس کی مباہلہ کی نوبت پہنچ گئی اور آخر کار انھوں نے مباہلہ ترک کرنے کی خواہش کی انھوں نے بھی اسلام کے قوانین کے سلسلہ میں تحقیق کی اور اس کی حقانیت کو سمجھ گئے لیکن انھوںنے اپنے پہلے گروہ کی روش اختیار نہ کی اور مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ظاہر ًاسلام قبول نہیں کیا۔
۱۔پوپ نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کا خط پھاڑ ڈالا یہ اس کی ریاست طلبی اور تعصب کی دلیل تھی جو حق قبول کرنے میں مانع ہوا۔
۲۔وہ مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے کیونکہ اگر وہ اسلام اور محمد کی حقانیت کے سلسلے میں تحقیق نہ کی ہوتی تو مباہلہ کے ترک کرنے کی درخواست ہرگز نہ کرتے۔یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسلام اور محمد کے مکتب کے بارے میں اچھی خاصی تحقیق رکھتے تھے اور اس کی حقانیت کو سمجھ چکے تھے۔
۳۔تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ نجران کے نمائندے جب مدینہ سے واپس جارہے تھے تو ایک نمائندہ نے راستہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا بھلا کہا تو ابو حارثہ (پوپ)نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ پیغمبر کو کہیں بُرا بھلا کہتے ہیں؟یہی بات اس کا باعث ہوئی کہ اس شخص نے مدینہ واپس آکر اسلام قبول کر لیا۔
تاریخ کا یہ رخ بھی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ علمائے نجران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صداقت کو سمجھ گئے تھے۔
۴۔نجران کے علماء جب واپس پہنچے تو لوگوں کو اپنی روداد سنائی،ان کی روداد سن کر نجران کا ایک راہب اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے عبادت خانہ سے چیخ کر کہا: ”اے لوگو!جلدی آوٴ اور مجھے نیچے لے چلو ورنہ میں ابھی اپنے آپ کو نیچے گرا کر اپنی زندگی تمام کر لوں گا“۔
لوگ اسے سہار ا دے کر عبادت خانہ سے نیچے لے آئے وہ دوڑا ہوا مدینہ کی طرف آیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہ کر اس نے کچھ مدت تک علمی استفادہ کیا اور قرآنی آیتیں سنیں ،کچھ دنوں بعد وہ نجران واپس گیا،واپس جاتے وقت وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے یہ وعدہ کر کے گیا تھا کہ جب مدینہ دوبارہ آئے گا تو اسلام قبول کر لے گا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔[48]
غرض تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک حقیقت اسلام ثابت ہو چکی تھی اور وہ اچھی خاصی تحقیق بھی کر چکے تھے لیکن چند چیزیں جیسے ریاست طلبی، دنیا داری اور اہل نجران سے خوف وغیرہ ان کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ بن رہیں تھیں۔
--------------------------------------------
حوالاجات
[42] سورہٴ مائدہ کی ۸۳ ویں آیت ۔
[43] سیرہ حلبی ج۱،ص۳۸۳۔
[44] یہ مفصل گفتگو بحار الانوار ج۲۱ص۲۷۶پر ذکر ہوئی ہے۔
[45] حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس حرکت کا توڑ کر لیا تھا لیکن پھر بھی بعض ضعیف الاعتقاد لوگ متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ،یہ لوگ حسرت سے کہتے تھے کہ اے کاش! ہم لوگ بھی ان عیسائیوں کی طرح مالدار ہوتے،یہاں تک کہ اس بارے میں سورہ آل عمران کی ۱۵ ویں آیت نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوتا ہے: ”(اے پیغمبر !)کہہ دو کہ کیا میں تم کو ایسی چیز کا پتہ بتاوٴں جو اس مادی سرمایہ سے بہتر ہوان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک دوسرے جہان میں ایسے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں رواں ہیں وہ اس میں ہمیشہ اپنی پاکیزہ بیویوں کے ساتھ رہیں گے۔
[46] [46] بحار الانوار ج۲۱،ص۳۱۹۔سیرہ ابن ہشام ج۲،ص۱۷۵، فتوح البدان ص ۱۷۶ اور اقبال ابن طاووٴس ص۴۹۶۔
[47] البدایہ ،ج۵،ص۹۸۔
[48] البدایہ ،ج۵،ص۵۵۔

0 comments:

Post a Comment