"ووٹ صرف حسین کا"۔۔۔ یہ آواز۔۔۔"نور" ہے" اور تم نور سے ڈرتے ہو!روشنی سے ڈرتے ہو؟ یہ آواز تو زندگی ہے ،گلے دبانے سے ،زبانیں کاٹنے سے اور پابندِ سلاسل کرنے سے یہ آواز نہیں مرسکتی۔بھلا روشنی بھی کبھی مری ہے؟ تم نے آج تک کتنے ہی محسن نقوی موت کے گھاٹ اتارے اورکتنے ہی سبطِ جعفر قتل کئے،تم نے آج تک کتنے ہی گلے کاٹے،کتنی ہی زبانوں کو گنگ کیا،کتنے ہی میثم تمّار دار پر چڑھائے لیکن بتاو تو سہی۔۔۔کیا ان کی" آواز" مر گئی؟ یہ آواز توروشنی ہے، روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے۔ ہر شب ,ہر انسان کےدل ودماغ میں فرشتوں کے قدموں کی چاپ ایسے ہی سنائی دیتی ہے جیسےرات کے سینے میں کوئی جگنو رینگ رہاہو،روشنی جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس کی ہزار شکلیں ہیں ہزار جنم ہیں اور ہزارجسم ہیں۔کسی غریب کی کٹیا میں جس سے اجالا ہے وہ بھی روشنی ہے اور شاہجہان کے محل میں جو چمک رہی ہے وہ بھی روشنی ہے،مسافر کی لالٹین سے روشنی پھوٹتی ہے اور اسٹریٹ لائٹ سے بھی روشنی۔روشنی مدھم بھی ہے ،روشنی تیز بھی ،روشنی سرخ بھی ہے،روشنی سفید بھی ،جو آئینے اور پانی میں منعکس ہے وہ بھی ہے روشنی اور جو آتش پاروں میں جھلکتی ہے وہ بھی ہے روشنی۔ سورج کی شعاعوں ،چاند کی کرنوں اورآبشار کے قطروں سےہر طرف روشنی ہی روشنی پھوٹتی ہے۔ جیسی روشنی عالم آفاق میں ہے ویسی ہی روشنی عالم نفوس میں بھی ہے۔ چراغ بھی روشنی ہے،امید بھی روشنی ہے،قلم بھی روشنی ہے،کتاب بھی روشنی ۔ روشنی شہیدوں کے لہو سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی دعا و مناجات سے بھی روشنی علماء کے قلم سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی کشف و کرامات سےبھی روشنی مومن کے دل سے بھی نکلتی ہے،روشنی انبیاء کے معجزات سےبھی اور روشنی حورالعین کی آنکھوں سے بھی جھلکتی ہے۔۔۔ انسان کے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے لیکن اس کے باوجود وہ روشنی کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ یہ مشرق و مغرب کے سفر ،یہ کتابوں کے انبار،یہ فتووں کے ڈھیر،یہ نعروں کی بھرمار ،سرخ و سبز جھنڈوں کی تقسیم، یہ سب روشنی کی تلاش میں سرگردانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ جس طرح کاغذ پر بکھرے ہوئے لوہے چون کو مقناطیس دکھایا جائے تو لوہے چون کے ذرّات صف بستہ رقص کرنے لگتے ہیں ایسے ہی انسان کو اگر روشنی کی امید دلائی جائے توانسان بھی رقص کرنے لگتاہے اورجھوم اٹھتاہے۔ نمرود نے جنابِ ابراہیم[ع] کی آوازِ حق کو خاموش کرنے کے لئے انہیں آگ میں پھینکا۔نمرودخود خاکستر ہوگیا،لیکن جنابِ ابراہیم کی آواز آج بھی ہر سال حج کے موقع پر لبّیک اللھم لبیک لا شریک لک لبّیک کی صورت میں پوری آب و تاب کے ساتھ گونجتی ہے۔
مکّے کے کافروں نے جس آوازِ حق کو شعبِ ابی طالب میں محصور کرنا چاہاتھا وہ آج اشھدان لا الہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی صورت میں پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ مدینے کے یہودیوں نے جس آواز کو مدینے میں دبانا چاہاتھا وہ آج لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی صورت میں مشرق و مغرب میں سنائی دے رہی ہے۔ یزید نے جس آواز کو کربلا میں دبانا چاہاتھا وہ آج "ووٹ صرف حسین کا " بن کر پاکستان کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔
نادانو!اس آواز سے مت ڈرو،اس آواز کو سمجھنے کی کوشش کرو
تم جتنا اس آواز کو دبانے کی کوشش کرو گئے یہ اتنی ہی زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرے گی۔
مکّے کے کافروں نے جس آوازِ حق کو شعبِ ابی طالب میں محصور کرنا چاہاتھا وہ آج اشھدان لا الہ الااللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی صورت میں پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ مدینے کے یہودیوں نے جس آواز کو مدینے میں دبانا چاہاتھا وہ آج لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی صورت میں مشرق و مغرب میں سنائی دے رہی ہے۔ یزید نے جس آواز کو کربلا میں دبانا چاہاتھا وہ آج "ووٹ صرف حسین کا " بن کر پاکستان کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔
نادانو!اس آواز سے مت ڈرو،اس آواز کو سمجھنے کی کوشش کرو
تم جتنا اس آواز کو دبانے کی کوشش کرو گئے یہ اتنی ہی زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرے گی۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ یہ آواز دبنے والی نہیں ہے۔تم جتنے سبطِ جعفر مارو گئے،اس آواز میں اتنا ہی سوز بڑھتاہی جائے گا۔تم جتنے محسن نقوی شہید کروگئے اس آواز کو دنیا میں پہنچانے کے لئے اتنے ہی زیادہ موثر قلم جنم لیں گئے،
اس لئے کہ تاریکی جتنی زیادہ ہوتی ہے نور کی ٹمٹماتی ہوئی کرن بھی اتنی ہی زیادہ چمکتی ہے۔
آج ہزاروں قمقموں اور سینکڑوں برق پاروں کے باوجودانسان کے آنگن میں ابھی تک روشنی نہیں اتری۔
آج!
انسان مضطرب ہے،
انسان بے چین ہے،
انسان بے سکون ہے،
انسان بے قرار ہے۔۔۔
اس لیے کہ انسان کو روشنی چاہیے۔
انسان کے اضطراب،بے چینی،بے سکونی اور بے قراری کا علاج روشنی ہے۔۔۔
جی ہاں! روشنی ۔
روشنی نعروں اور ریلیوں سے نہیں آتی ،روشنی روٹی اور نوکری سے نہیں آتی،چیلے کاٹنے اور منتر پڑھنے سے نہیں آتی۔
روشنی سچ اور حق سے آتی ہے۔۔۔
اگر انسان کو سچ اور حق مل جائے تو گویا اسے حسین ابن علی[ع] کا کارواں مل گیا اور جسے حسین ابن علی [ع] کا کارواں مل گیا اسے روشنی مل گئی،اسےسکون مل گیا،اسےقرار مل گیا۔
حسین ابنِ علی کا کارواں روشنی ہے اور یہی حقیقی روشنی ہے۔
ان انتخابات کے شورو غل میں میں جب فرصت ملے تو فرقوں،بینروں،نعروں پوسٹروں،قبیلوں،برادریوں اور پارٹیوں پر نہ جائیے،صرف اور صرف حسین ابنِ علی کا دامن تلاش کیجئے۔ووٹ صرف اور حسین ابنِ علی کی خاطر دیجئے اور یقین کیجئے کہ اگر آپ نے خلوصِ نیّت کے ساتھ ووٹ صرف حسین[ع] کو دیا تو نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس ووٹ کا اجر یقینا حسین ابن علی [ع]کے ہاں محفوظ ہے۔
یقین کیجئے کہ جسے حسین ابنِ علی مل گئے اسے روشنی مل گئی۔ روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے لیکن چمگادڑ۔۔۔
اس لئے کہ تاریکی جتنی زیادہ ہوتی ہے نور کی ٹمٹماتی ہوئی کرن بھی اتنی ہی زیادہ چمکتی ہے۔
آج ہزاروں قمقموں اور سینکڑوں برق پاروں کے باوجودانسان کے آنگن میں ابھی تک روشنی نہیں اتری۔
آج!
انسان مضطرب ہے،
انسان بے چین ہے،
انسان بے سکون ہے،
انسان بے قرار ہے۔۔۔
اس لیے کہ انسان کو روشنی چاہیے۔
انسان کے اضطراب،بے چینی،بے سکونی اور بے قراری کا علاج روشنی ہے۔۔۔
جی ہاں! روشنی ۔
روشنی نعروں اور ریلیوں سے نہیں آتی ،روشنی روٹی اور نوکری سے نہیں آتی،چیلے کاٹنے اور منتر پڑھنے سے نہیں آتی۔
روشنی سچ اور حق سے آتی ہے۔۔۔
اگر انسان کو سچ اور حق مل جائے تو گویا اسے حسین ابن علی[ع] کا کارواں مل گیا اور جسے حسین ابن علی [ع] کا کارواں مل گیا اسے روشنی مل گئی،اسےسکون مل گیا،اسےقرار مل گیا۔
حسین ابنِ علی کا کارواں روشنی ہے اور یہی حقیقی روشنی ہے۔
ان انتخابات کے شورو غل میں میں جب فرصت ملے تو فرقوں،بینروں،نعروں پوسٹروں،قبیلوں،برادریوں اور پارٹیوں پر نہ جائیے،صرف اور صرف حسین ابنِ علی کا دامن تلاش کیجئے۔ووٹ صرف اور حسین ابنِ علی کی خاطر دیجئے اور یقین کیجئے کہ اگر آپ نے خلوصِ نیّت کے ساتھ ووٹ صرف حسین[ع] کو دیا تو نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس ووٹ کا اجر یقینا حسین ابن علی [ع]کے ہاں محفوظ ہے۔
یقین کیجئے کہ جسے حسین ابنِ علی مل گئے اسے روشنی مل گئی۔ روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے لیکن چمگادڑ۔۔۔
0 comments:
Post a Comment