اهل سنت
نے عمر اور ام کلثوم کی شادی کو ثابت کرنے کے سلسلے میں متعدد ایسی جعلی
روایات کو گھڑا ہے کہ جس کےپڑھنے اور سننے سے ہر مسلمان شرم سے پانی پانی
ہوجاتا ہے.
ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ۔، علی [ع] نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی [ع] نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی ! ۔۔۔ ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي ( عليه السلام ) سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی [ع] نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی[ع] انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی[ع] کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
ام کلثوم کو سجا ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما !
اسی طرح خطيب بغدادى نے كتاب تاريخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے :
فقام على فأمر بابنته من فاطمة فزينت ثم بعث بها إلى أمير المؤمنين عمر فلما رآها قام إليها فأخذ بساقها وقال قولي لأبيك قد رضيت قد رضيت قد رضيت فلما جاءت الجارية إلى أبيها قال لها ما قال لك أمير المؤمنين قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال قولي لأبيك قد رضيت فأنكحها إياه.
علي (عليه السلام) نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا ، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے سوال کیا :عمر نے کیا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 6، ص 182، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا:
چونکہ خلفاء ثلاثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى الله عليه وآله جانتے تھے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى الله عليه وآله کے تمام اختیارات اور مرتبہ کے بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے ،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔
خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى الله عليه وآله نے نماز و رکعت کی تعداد اور کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف حى علي خير العمل اذان سے اور الصلاة خير من النوم کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج ، زکات اور ۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی 25 سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔
جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى الله عليه وآله کی طرح معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے لئے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں ۔
وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔
روايات اهل سنت، کے مطابق عبد الله، خليفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں
عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے :
13200 عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر ومعمر عن أيوب عن نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن يشتري جارية فراضاهم على ثمن وضع يده على عجزها وينظر إلى ساقيها وقبلها يعني بطنها.
ابن عمر سے روايت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور اسکی ساق اور پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج[ شرمگاہ]پر نگاہ کرو اور یہاں فرج[شرمگاہ] سے مراد اس کا پیٹ ہے !!!
قُبُل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ابن عمر کی بلا تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ پیروی کرنےوالوں کی سرش میں تلاش کیا جائے ۔
اور دوسری روايت میں ہے :
13202 عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دينار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم يبتاعون جارية فلما رأوه وهم يقلبونها أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن ساقها ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرني بن أبي نجيح عن مجاهد قال وضع بن عمر يده بين ثدييها ثم هزها.
ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلیاں برہنہ کی پھر اسکے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہلایا !!
اور اس کے آگے لکھتے ہیں :
13205 عبد الرزاق عن بن جريج عن نافع أن بن عمر كان يكشف عن ظهرها وبطنها وساقها ويضع يده على عجزها.
ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے !!
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 7، ص 286، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا لازمی ہو بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں کے ساتھ دھرایا ۔
ابن عبد البر نے كتاب الإستيعاب میں لکھا ہے :
عن أبي ارباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضى الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضا.
وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانمت أعظم ساقا اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم ارسل معاوية بسر بن ارطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق.
ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ اپنی طولانی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اللہ سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس بات کی اللہ سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے اللہ سے رزو بلاء اور روز عورت [ستر ، شرمگاہ ] سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بلاء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک دوسرے کو قتل کرینگے اور روز عورت وہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے لیکن شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے مسلمانوں عورتوں کو کنیز بنا کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔!
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 1، ص 161، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى الله عليه وآله سے نقل کرینگے کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى الله عليه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد اللہ بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع !!!.
سعدى کے بقول :
اگر ز باغ رعيت ملك خورد سيبي
برآورند غلامان او درخت از بيخ
[یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غلام اس درخت کو جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔
محمد بن اسماعيل صنعانى نے سبل السلام میں لکھا ہے:
دلت الأحاديث على أنه يندب تقديم النظر إلى من يريد نكاحها وهو قول جماهير العلماء والنظر إلى الوجه والكفين لأنه يستدل بالوجه على الجمال أو ضده والكفين على خصوبة البدن أو عدمها.
وقال الأوزاعي ينظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ينظر إلى جميع بدنها. والحديث مطلق فينظر إلى ما يحصل له المقصود بالنظر إليه ويدل عليه فهم الصحابة لذلك ما رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي.
۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے بدن کو دیکھا جا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر صحابہ کا فہم دلالت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی[ع] کی پنڈلی کو برہنہ کرنا !۔
الصنعاني الأمير، محمد بن إسماعيل (متوفاي852هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج 3، ص 113، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379هـ.
علماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ کرتے ہیں :
بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خليفه کا ناموس رسول خدا صلى الله عليه وآله، پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں
ابن حجر ھیثمی نے لکھا ہے :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام [ عمر کے لئے ] حرام ہوجائے!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس سے دست درازی حرام نہ ہو ؟
اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج تک کسی کو دیکھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا چاہتا ہو ؟
البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین بچوں کی ماں بن جائے ! ! !
ان روایات کی تحقیق منصف حضرات کی نظر میں :
اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں
سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے :
ذكر جدي في كتاب منتظم ان علياً بعثها لينظرها و ان عمر كشف ساقها و لمسها بيده، هذا قبيح والله. لو كانت امة لما فعل بها هذا. ثم باجماع المسلمين لايجوز لمس الاجنبيه.
میرے جد [ یعنی ابن جوزی ] نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي (عليه السلام) نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، اللہ کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز بھی ہوتی تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے علاوہ اجماع مسلمین ہے کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص288 ـ 289، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
اس فعل سے متعلق علماء شيعه کا نظریہ :
شهيد قاضى نور الله تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وإني لأقسم بالله على أن ألف ضربة على جسده عليه السلام وأضعافه على جسد أولاده أهون عليه من أن يرسل ابنته الكريمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إياه ليريها فيأخذها ذلك الرجل ويضمها إليه ويقبلها ويكشف عن ساقها وهل يرضى بذلك من له أدنى غيرة من آحاد المسلمين.
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کے بدن پر ہزار وار اور اس سے زیادہ آپ کی اولاد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا ہے ؟
الصوارم المهرقة - الشهيد نور الله التستري - ص 200
اور سيد ناصر حسين الهندى اس بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حيائه قد افترى أن سياقه المنكر أن عمر بن الخطاب معاذ الله قد كشف ساق سيدتنا أم كلثوم (ع) وهذا كذب عظيم، وبهتان جسيم، تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري الكذاب قد فاق في الفرية والفضيحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السياق السابق الذي أورده ابن عبد البر، أولا بغير سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سياق المذكور وضع اليد على الساق....
ومن البين أن وضع اليد على الساق وإن كان منكرا قبيحا جدا، ولكن هذا الخبيث الذي يقول: فكشف عن ساقها، يظهر خبثه صراحة... ومما يضحك الثكلى أن وضاع هذا السياق السائق إلى الجحيم قد نسب إلى سيدتنا أم كلثوم سلام الله عليها أنها لما أحست بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت بالله وهددته بلطم عين إمامه.
انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب نے معاذ اللہ ام کلثوم [س] کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا بہتان ہے کہ جس [کے سننے ] سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب اور بہتان باندھنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہاتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔
اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے جاعل اور جہنم کی طرف بلانے والے کہی ہے کہ ام کلثوم [س] نےجب یہ محسوس کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دھمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔!!!
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف ایسی بات کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک ملاقات کے لئے بھیجے؟
ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت کے بڑے علماء مثل ذھبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے :
ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ اسے درک نہ کر سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟
کیا خلیفہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟
ام كلثوم، عمر کو امير المؤمنين کہتی ہیں !!!
حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندھا کردے لیکن اسی عالم میں اسے امیر المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟
سيد ناصر حسين الهندى نے كتاب إفحام الأعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
ومما يدل على قلة حياء هؤلاء الكذابين أنهم ينسبون إلى سيدتنا أم كلثوم ( ع ) أنها وصفت عمر بن الخطاب بأمير المؤمنين ولا يشعرون أن السيدة التي ولدت في بيت النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كيف تخاطب رجلا وضع يداه على ساقها، أو كشف ساقاها، واستحق عنده أن يكسر أنفه أو يلطم عينيه بهذا الخطاب الجليل.
ولعمري أن الواضع للسياق الأول أحق بالتعسير والتنديد، حيث أورد في سياقه بعد ذكر التشوير والتهديد، أنها لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شيخ سوء، أفيكون هذا الشيخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنين؟ حاشا وكلا إن هذا لاختلاق واضح والله لا يهدي كيد الخائنين.
وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر دلالت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام کلثوم [ع] کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا!!! لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى الله عليه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے نزدیک اندھے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا مستحق ہو اور وہ اسطرح مودّبانہ طریقہ سے مخاطب کرے!!!
اللہ کی قسم پہلی روایت گھڑنے والا زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ آنے کے بعد تمام ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے [کس] پلید بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔!
آیا جس بڈھے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے ؟
یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور اللہ خائن افراد کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
مغيره ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر بے جان :
اهل سنت ادّعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا :
ابن خلكان نے وفيات الأعيان میں لکھا ہے :
ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.
ام جميل (یہ وہ عورت ہے کہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی ]یہ عمر کے ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال کیا : کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے!
عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے خلاف جھوٹ بولا ہو [اور تمہارے خلاف جھوٹی شہادت زنا دی ہو] میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.
اور ابوالفرج اصفهانى نے لکھا :
حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بن شعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء
ام جميل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغیرہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر - لبنان.
مغيره کا امّ*جميل، سے زنا مشهور و معروف تھا اسی طرح امّ*جميل زانیہ ہونے میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی غیرت اس توہین کے خلاف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر چکی تھی
ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ۔، علی [ع] نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی [ع] نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی ! ۔۔۔ ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.
عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي ( عليه السلام ) سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی [ع] نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی[ع] انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی[ع] کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.
ام کلثوم کو سجا ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما !
اسی طرح خطيب بغدادى نے كتاب تاريخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے :
فقام على فأمر بابنته من فاطمة فزينت ثم بعث بها إلى أمير المؤمنين عمر فلما رآها قام إليها فأخذ بساقها وقال قولي لأبيك قد رضيت قد رضيت قد رضيت فلما جاءت الجارية إلى أبيها قال لها ما قال لك أمير المؤمنين قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال قولي لأبيك قد رضيت فأنكحها إياه.
علي (عليه السلام) نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا ، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے سوال کیا :عمر نے کیا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 6، ص 182، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.
عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا:
چونکہ خلفاء ثلاثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى الله عليه وآله جانتے تھے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى الله عليه وآله کے تمام اختیارات اور مرتبہ کے بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے ،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔
خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى الله عليه وآله نے نماز و رکعت کی تعداد اور کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف حى علي خير العمل اذان سے اور الصلاة خير من النوم کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج ، زکات اور ۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی 25 سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔
جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى الله عليه وآله کی طرح معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے لئے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں ۔
وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔
روايات اهل سنت، کے مطابق عبد الله، خليفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں
عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے :
13200 عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر ومعمر عن أيوب عن نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن يشتري جارية فراضاهم على ثمن وضع يده على عجزها وينظر إلى ساقيها وقبلها يعني بطنها.
ابن عمر سے روايت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور اسکی ساق اور پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج[ شرمگاہ]پر نگاہ کرو اور یہاں فرج[شرمگاہ] سے مراد اس کا پیٹ ہے !!!
قُبُل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ابن عمر کی بلا تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ پیروی کرنےوالوں کی سرش میں تلاش کیا جائے ۔
اور دوسری روايت میں ہے :
13202 عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دينار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم يبتاعون جارية فلما رأوه وهم يقلبونها أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن ساقها ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرني بن أبي نجيح عن مجاهد قال وضع بن عمر يده بين ثدييها ثم هزها.
ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلیاں برہنہ کی پھر اسکے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہلایا !!
اور اس کے آگے لکھتے ہیں :
13205 عبد الرزاق عن بن جريج عن نافع أن بن عمر كان يكشف عن ظهرها وبطنها وساقها ويضع يده على عجزها.
ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے !!
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 7، ص 286، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا لازمی ہو بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں کے ساتھ دھرایا ۔
ابن عبد البر نے كتاب الإستيعاب میں لکھا ہے :
عن أبي ارباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضى الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضا.
وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانمت أعظم ساقا اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم ارسل معاوية بسر بن ارطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق.
ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ اپنی طولانی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اللہ سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس بات کی اللہ سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے اللہ سے رزو بلاء اور روز عورت [ستر ، شرمگاہ ] سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بلاء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک دوسرے کو قتل کرینگے اور روز عورت وہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے لیکن شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے مسلمانوں عورتوں کو کنیز بنا کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔!
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 1، ص 161، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى الله عليه وآله سے نقل کرینگے کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى الله عليه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد اللہ بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع !!!.
سعدى کے بقول :
اگر ز باغ رعيت ملك خورد سيبي
برآورند غلامان او درخت از بيخ
[یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غلام اس درخت کو جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔
محمد بن اسماعيل صنعانى نے سبل السلام میں لکھا ہے:
دلت الأحاديث على أنه يندب تقديم النظر إلى من يريد نكاحها وهو قول جماهير العلماء والنظر إلى الوجه والكفين لأنه يستدل بالوجه على الجمال أو ضده والكفين على خصوبة البدن أو عدمها.
وقال الأوزاعي ينظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ينظر إلى جميع بدنها. والحديث مطلق فينظر إلى ما يحصل له المقصود بالنظر إليه ويدل عليه فهم الصحابة لذلك ما رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي.
۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے بدن کو دیکھا جا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر صحابہ کا فہم دلالت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی[ع] کی پنڈلی کو برہنہ کرنا !۔
الصنعاني الأمير، محمد بن إسماعيل (متوفاي852هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج 3، ص 113، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379هـ.
علماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ کرتے ہیں :
بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خليفه کا ناموس رسول خدا صلى الله عليه وآله، پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں
ابن حجر ھیثمی نے لکھا ہے :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام [ عمر کے لئے ] حرام ہوجائے!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس سے دست درازی حرام نہ ہو ؟
اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج تک کسی کو دیکھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا چاہتا ہو ؟
البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین بچوں کی ماں بن جائے ! ! !
ان روایات کی تحقیق منصف حضرات کی نظر میں :
اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں
سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے :
ذكر جدي في كتاب منتظم ان علياً بعثها لينظرها و ان عمر كشف ساقها و لمسها بيده، هذا قبيح والله. لو كانت امة لما فعل بها هذا. ثم باجماع المسلمين لايجوز لمس الاجنبيه.
میرے جد [ یعنی ابن جوزی ] نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي (عليه السلام) نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، اللہ کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز بھی ہوتی تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے علاوہ اجماع مسلمین ہے کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص288 ـ 289، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
اس فعل سے متعلق علماء شيعه کا نظریہ :
شهيد قاضى نور الله تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وإني لأقسم بالله على أن ألف ضربة على جسده عليه السلام وأضعافه على جسد أولاده أهون عليه من أن يرسل ابنته الكريمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إياه ليريها فيأخذها ذلك الرجل ويضمها إليه ويقبلها ويكشف عن ساقها وهل يرضى بذلك من له أدنى غيرة من آحاد المسلمين.
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کے بدن پر ہزار وار اور اس سے زیادہ آپ کی اولاد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا ہے ؟
الصوارم المهرقة - الشهيد نور الله التستري - ص 200
اور سيد ناصر حسين الهندى اس بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حيائه قد افترى أن سياقه المنكر أن عمر بن الخطاب معاذ الله قد كشف ساق سيدتنا أم كلثوم (ع) وهذا كذب عظيم، وبهتان جسيم، تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري الكذاب قد فاق في الفرية والفضيحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السياق السابق الذي أورده ابن عبد البر، أولا بغير سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سياق المذكور وضع اليد على الساق....
ومن البين أن وضع اليد على الساق وإن كان منكرا قبيحا جدا، ولكن هذا الخبيث الذي يقول: فكشف عن ساقها، يظهر خبثه صراحة... ومما يضحك الثكلى أن وضاع هذا السياق السائق إلى الجحيم قد نسب إلى سيدتنا أم كلثوم سلام الله عليها أنها لما أحست بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت بالله وهددته بلطم عين إمامه.
انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب نے معاذ اللہ ام کلثوم [س] کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا بہتان ہے کہ جس [کے سننے ] سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب اور بہتان باندھنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہاتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔
اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے جاعل اور جہنم کی طرف بلانے والے کہی ہے کہ ام کلثوم [س] نےجب یہ محسوس کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دھمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔!!!
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف ایسی بات کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک ملاقات کے لئے بھیجے؟
ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت کے بڑے علماء مثل ذھبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے :
ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ اسے درک نہ کر سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟
کیا خلیفہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟
ام كلثوم، عمر کو امير المؤمنين کہتی ہیں !!!
حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندھا کردے لیکن اسی عالم میں اسے امیر المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟
سيد ناصر حسين الهندى نے كتاب إفحام الأعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
ومما يدل على قلة حياء هؤلاء الكذابين أنهم ينسبون إلى سيدتنا أم كلثوم ( ع ) أنها وصفت عمر بن الخطاب بأمير المؤمنين ولا يشعرون أن السيدة التي ولدت في بيت النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كيف تخاطب رجلا وضع يداه على ساقها، أو كشف ساقاها، واستحق عنده أن يكسر أنفه أو يلطم عينيه بهذا الخطاب الجليل.
ولعمري أن الواضع للسياق الأول أحق بالتعسير والتنديد، حيث أورد في سياقه بعد ذكر التشوير والتهديد، أنها لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شيخ سوء، أفيكون هذا الشيخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنين؟ حاشا وكلا إن هذا لاختلاق واضح والله لا يهدي كيد الخائنين.
وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر دلالت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام کلثوم [ع] کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا!!! لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى الله عليه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے نزدیک اندھے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا مستحق ہو اور وہ اسطرح مودّبانہ طریقہ سے مخاطب کرے!!!
اللہ کی قسم پہلی روایت گھڑنے والا زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ آنے کے بعد تمام ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے [کس] پلید بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔!
آیا جس بڈھے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے ؟
یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور اللہ خائن افراد کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.
مغيره ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر بے جان :
اهل سنت ادّعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا :
ابن خلكان نے وفيات الأعيان میں لکھا ہے :
ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.
ام جميل (یہ وہ عورت ہے کہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی ]یہ عمر کے ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال کیا : کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے!
عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے خلاف جھوٹ بولا ہو [اور تمہارے خلاف جھوٹی شہادت زنا دی ہو] میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.
اور ابوالفرج اصفهانى نے لکھا :
حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بن شعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء
ام جميل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغیرہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر - لبنان.
مغيره کا امّ*جميل، سے زنا مشهور و معروف تھا اسی طرح امّ*جميل زانیہ ہونے میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی غیرت اس توہین کے خلاف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر چکی تھی
0 comments:
Post a Comment