Sunday, March 1, 2015

امامت: شیعہ کافر کیونکہ یہ اماموں کو نبیوں سے بلند درجہ دیتے ہیں

اس الزام کا جواب یہ ہے کہ:۔

1۔ انبیاء کے مختلف درجات کی بحث ایک "ثانوی" بحت ہے جس پر ایمان و کفر کا دارومدار نہیں ہے۔ بلکہ دین کی اصل ہے انبیاء علیھم السلام پر ایمان لانا ہے۔

2۔ بہت سی روایات ہیں جس میں رسول اللہ (ص) نے درجات کی بحث کو غیر ضروری قرار دیا ہے، یا پھر خود کو موسی علیہ السلام پر فوقیت نہٰیں دی، یا پھر جناب یونس علیہ السلام کو سب پر فضیلت دی ہے۔ چنانچہ یہاں سے بھی ثابت ہوا کہ اسلام یا کفر کا دارومدار فضائل کی بحث پر نہیں ہے۔ یہ ان تکفیری حضرات کی اپنی بنائی ہوئی شریعت ہے۔

3۔ بذات خود سنی صحیح حدیث کے مطابق رسول اللہ (ص) نے گواہی دی ہے کہ امت مسلمہ کے کچھ لوگوں کے فضائل و درجات اسقدر بلند ہوں گے کہ انبیاء ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ اب لگائیے رسول (ص) پر کفر کے فتوے کیونکہ رسول (ص) بذات خود امت مسلمہ کے ان چند لوگوں کو انبیاء علیھم السلام سے بلند تر درجہ پر قرار دے رہے ہیں۔

4۔ اور جب عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ امام مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام مہدی علیہ السلام امت کے ان لوگوں میں سے ہیں جن کے مقام و مرتبے پر انبیاء رشک کرتے ہوں گے۔
 
5۔ اور فاطمہ سلام اللہ علیھا جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ اب چاہے کوئی مریم علیہ السلام کو نبی ہی کیوں نہ مان لے، مگر انکا درجہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے کم تر مانا جائے گا۔
 
6۔ اور یہ تکفیری اپنی ہی کتابوں میں موجود ان روایات کا کیا کریں گے جہاں عمر کی تعریف کرنے میں انہیں انبیاء سے بھی بلند کر دیا گیا ہے؟


اور یہ وہ روایت ہے جو ان مخالفین کے دعوؤں کا مکمل قلع قمع کر کے پاش پاش کر رہی ہے، اور اسی لیے یہ لوگ اس روایت کو چھپاتے پھرتے ہیں۔

 
حدثنا زهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالا حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة بن عمرو بن جرير، أن عمر بن الخطاب، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم " إن من عباد الله لأناسا ما هم بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الأنبياء والشهداء يوم القيامة بمكانهم من الله تعالى " . قالوا يا رسول الله تخبرنا من هم . قال " هم قوم تحابوا بروح الله على غير أرحام بينهم ولا أموال يتعاطونها فوالله إن وجوههم لنور وإنهم على نور لا يخافون إذا خاف الناس ولا يحزنون إذا حزن الناس " . وقرأ هذه الآية { ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون } .
ترجمہ:
عمر ابن الخطاب کہتے ہیں: رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں ایسے بھی ہیں جو انبیاء ہیں اور نہ شہید، مگر اسکے باوجود انبیاء اور شہداء ان پر رشک کرتے ہوں گے کیونکہ انہیں یوم قیامت اللہ کے ہاں وہ مکان و رتبہ حاصل ہو گا (جو انبیاء و شہداء سے بھی بلند ہو گا)۔رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اس پر رسول (ص) نے جواب دیا، یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور انہیں مال متاع اور رشتے داری کی کوئی لالچ نہیں۔ انکے چہرے چمکتے ہوں گے نور کے عرشوں پر۔ اور (روز قیامت) انکو کوئی ڈر نہ ہو گا جبکہ دوسرے لوگ کو خوف گھیرے ہو گا۔ پھر رسول اللہ (ص) نے یہ آیت تلاوت فرمائی:"الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم و لاھم یحزنون" (اللہ کے اولیاء پر کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی حزن)۔
حوالہ:
سنن ابو داؤد
سعودی مفتی البانی صاحب کہتے ہیں کہ یہ حدیث "صحیح ہے۔ یہی حدیث مسند احمد بن حنبل (جلد 5، حدیث 22984) پر موجود ہے اور شیخ الارنوؤط کہتے ہیں:
صحيح لكن من حديث معاذ بن جبل
یعنی یہ حدیث صحیح ہے اگرچہ یہ حدیث معاذ ابن جبل سے ہے۔ یہی حدیث ایک اور "سند" سے ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے (مسند ابو یعلی، 10/495) اور اسکے حاشیہ پر حسن سلیم اسد صاحب لکھتے ہیں
إسناده صحيح
یعنی اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور شیخ الارنوؤط کہتے ہیں کہ یہ "صحیح" ہے۔ الہیثمی نے اسکو مجمع الزاوئد میں عمرو بن عبسہ سے نقل کیا ہے اور اسکو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
رواه الطبراني ورجاله موثقون
یعنی طبرانی نے اسے نقل کیا ہے اور اسکے تمام رجال ثقہ ہیں۔ امام الترمذی نے اسکو اپنی کتاب سنن ترمذی میں معاذ بن جبل کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ اس کو نقل کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں:
وفي باب عن أبي الدرداء وابن مسعود وعبادة بن الصامت وأبي هريرة وأبي مالك الأشعر
یعنی اس حدیث کو صحابی ابو درداء، صحابی ابن مسعود، صحابی عبادہ ابن صامت، ابو ہریرہ اور ابو مالک اشتر نے بھی روایت کیا ہے۔ ۔۔ (آگے امام ترمذی لکھتے ہیں) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی یہ حدیث المستدرک میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ شیخ مبارکپوری اپن کتاب تحفہ الاحوذی میں لکھتے ہیں:
وفي الباب عن أبي الدرداء وابن مسعود وعبادة بن الصامت وأبي مالك الأشعري وأبي هريرة أما حديث أبي الدرداء فأخرجه الطبراني بإسناد حسن وأما حديث ابن مسعود فأخرجه الطبراني في الأوسط وأما حديث عبادة بن الصامت فأخرجه أحمد بإسناد صحيح وأما حديث أبي مالك الأشعري فأخرجه أحمد وأبو يعلى بإسناد حسن والحاكم وقال صحيح الاسناد
ترجمہ:
اس حدیث کو ابو درداء، ابن مسعود، عبادہ بن صامت، ابو مالک الاشتر اور ابو ہریرہ نے روایت کیا ہے۔ ابو درداء کی روایت کو طبرانی نے حسن اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابن مسعود کی روایت کو طبرانی نے الاوسط میں نقل کیا ہے۔ عبادہ بن الصامت کی روایت کو احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابو مالک الاشتر کی روایت کو احمد بن حنبل اور ابو یعلی نے حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے جبکہ حاکم کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
چنانچہ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ یہ حدیث رسول کئی طریقوں سے کئی صحابہ سے مروی ہے، چنانچہ یہ بالکل "صحیح" روایت ہے ۔ نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انبیاء علیھم السلام پر ایمان لانا ایمان کا حصہ ہے مگر انکے رتبوں کا مسئلہ ثانوی ہے ۔ مگر یہ مخالفین چاہتے ہیں کہ رسول (ص) کی حدیث کو چھوڑ کر اپنی خود ساختہ بدعتی شریعت نافذ کریں جس میں رتبے کی بنا پر دوسروں پر کفر کے فتوے لگاتے پھریں۔ ان حضرات کو انکی خود ساختہ شریعت مبارک ہو جہاں یہ شیعہ دشمنی میں قول رسول کو رد کرتے ہوئے شریعت کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کر رہے ہیں۔

چلیں اب ناصبی حضرات کی باری کہ وہ ثابت کریں کہ مراتب کا مسئلہ ایسا ہی بنیادی اساسی معاملہ ہے جیسا کہ توحید و رسالت کی گواہی دینا ہے۔ اور اسکے بعد وہ رسول اللہ (ص) پر بھی معاذ اللہ اپنی جہالت کی وجہ سے کفر کا فتوی لگا دیں کیونکہ رسول اللہ (ص) کے نزدیک بھی امت میں ایسے لوگ آئیں گے کہ جن کے رتبہ و درجے پر انبیاء رشک کرتے ہوں گے۔
 

شاہ عبدالعزیز بھی کافر ہے کیونکہ وہ تمام انبیا سے قبل ابو بکر و عمر و عثمان کی پیدائش کا عقیدہ رکھتا ہے
 سورج کبھی عمر سے بہتر شخص پر طلوع نہیں ہوا

اہلسنت کے محدث امام حاکم یہ صحیح سنی روایت نقل کرتے ہیں:
"جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا کہ حضرت ابو بکر نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ: "سورج کبھی عمر سے بہتر شخص پر طلوع نہیں ہوا ہے"۔ (حوالہ: المستدرک، جلد 3، صفحہ 90)
تو اب لنگڑے لولے بہانے بنانے کی بجائے لگائیے اس پر کفر کے فتوے۔ 
 
اللھم صلی علی محمد و آل محمد
 

پی ایس: عیسی علیہ السلام کا امام مہدی کے پیچھے نماز ادا کرن 

رسول اللہ (ص) نے خود کو موسی علیہ السلام یا حضرت یونس پر فضیلت دینے سے منع فرمایا

ہم سب کو علم ہے کہ رسول اللہ (ص) کا درجہ بلند تر ہے اور کوئی اسکا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مگر رسول اللہ (ص) پھر بھی اس چیز کو دین کی "اساس" قرار دینے ہوئے یہ نہیں کہا کہ جو ان درجات کو صحیح بیان نہ کرے گا وہ اسلام و ایمان سے نکل کر کافر ہو جائے گا۔ 
صحیح البخاری، کتاب الانبیا:
حدیث نمبر : 3413
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أبي العالية، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " ما ينبغي لعبد أن يقول إني خير من يونس بن متى ". ونسبه إلى أبيه.
ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے‘ ان سے ابو العالیہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے ۔ آپ نے ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ان کا نام لیا تھا
اسی طرح ایک اور صحیح روایت میں رسول اللہ (ص) نے اپنے آپ کو موسی علیہ السلام پر فوقیت دینے سے منع فرمایا۔ جبکہ ایک اور صحیح روایت میں رسول اللہ (ص) نے خود کو کسی بھی نبی پر فضیلت دینے سے منع فرمایا۔

فاطمہ مریم سے افضل ہیں اگرچہ کہ مریم نبی ہی کیوں نہ ہوتیں: اہلسنت عالم دین آلوسی


مشہور مفسر محمود آلوسی کتاب روح المعانی میں اپنا کا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اسی نظریہ[ کہ جناب سیدہ کونین فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت مریم سے بھی افضل ہیں] کو ابو جعفر رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ہے۔ اور یہی نظریہ اہلبیت کے ائمہ سے مشہور ہے اور وہ عقیدہ جس کی طرف میں آلوسی مائل ہوں وہ یہ ہے کہ فاطمہ بتول [س]اولین اور آخرین کی خواتین سے افضل ہیں اس وجہ سے کہ آپ بضعۃ رسول [ص] ہیں اور دوسری دلیلوں بھی ہیں آپ کے افضل ہونے کی ہیں۔۔۔۔۔ اور اگر ہم جناب مریم کی بنی ہونے کے بھی قائل ہوجائیں تب بھی فاطمہ [سلام اللہ علیہا] مریم سے افضل رہیں گی اس لئے روح ِوجود اور سید وجودیعنی رسول[ص]کے حصہ[سیدہ] کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے ۔
عربی متن
"وإلى هذا ذهب أبو جعفر رضي الله تعالى عنه وهو المشهور عن أئمة أهل البيت والذي أميل إليه أن فاطمة البتول أفضل النساء المتقدمات والمتأخرات من حيث إنها بضعة رسول الله صلى الله عليه وسلم بل ومن حيثيات أخر أيضاً ، ولا يعكر على ذلك الأخبار السابقة لجواز أن يراد بها أفضلية غيرها عليها من بعض الجهات وبحيثية من الحيثيات وبه يجمع بين الآثار وهذا سائغ علىالقول بنبوة مريم أيضاً إذ البضعية من روح الوجود وسيد كل موجود لا أراها تقابل بشيء "
حوالہ : روح المعانی ، الوسی ۔ جلد ۳ ص ۱۵۵
آن لائن حوالہ لنک :http://sh.rewayat2.com/tafseer/Web/1049/005.htm

0 comments:

Post a Comment