Saturday, February 14, 2015

آیہٴ ”رضوان“ کے بارے میں ایک مناظرہ

مجھے یاد ہے کہ ایک شافعی عالم سے میری ملاقات ہوئی جو قرآن کی آیات و احادیث سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا تھا اس نے شیعوں پر اس طرح اعتراض کرنا شروع کردیا۔
شیعہ لوگ اصحاب پیغمبر پر لعن وطعن کرتے ہیں یہ کام قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کے مطابق خدا وند متعال ان سے خوش و راضی ہے جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کر چکے ہوں ان پر لعن و طعن کرنا صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں سورہ فتح کی ۱۸ ویں آیت میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:
”لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا
فِی قُلُوبِہِمْ فَاٴَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْہِمْ وَاٴَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا“۔
”بالتحقیق خدا وند متعال ان مومنوں سے راضی ہوا جو اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے خدا کو ان کے دل کی بات معلوم تھی لہٰذا اس نے ا ن پر سیکنہ نازل کیا اور انھیں فتح قریب سے نوازا“۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجة میں چودہ ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے مکہ عمرہ کرنے کی خاطر روانہ ہوئے تھے ان لوگوں میں عثمان، ابو بکر ،عمر اور طلحہ وزبیر جیسے لوگ بھی شامل تھے لیکن جیسے ہی یہ لوگ ”عسفان نامی “ایک مقام پر پہنچے تو انھیں خبر ملی کہ مشرکوں نے مسلمانوں کو روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے لہٰذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ حدیبیہ (جو مکہ سے بیس کلیو میٹر کے فاصلہ پر ہے اور وہاں آب و غذا اور درخت موجود ہیں)کے پاس کوئی حتمی بات طے نہ ہونے تک ٹھہرے رہیں۔
پھر آپ نے عثمان اور چند دوسرے لوگوں کو قریش کے پاس بات چیت کے لئے روانہ کر دیا اچھی خاصی دیر ہوجانے کے بعد بھی جب ان کے بارے میں کچھ اطلاع نہ ملی تو یہ خبر اڑ گئی کہ عثمان کوقتل کر دیا گیا ہے یہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مسلمانوں سے تجدید بیعت کرائی اور اسی بیعت کو ”بیعت رضوان “کے نام سے جانا جاتا ہے۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مسلمانوں سے عہد لیا کہ آخری وقت تک مشرکوں سے لڑیں گے مگر کچھ ہونے سے پہلے یہ لوگ واپس آگئے مکر اس بیعت کی خبر سے مشرک بڑے مرعوب ہوگئے اور انھوں نے سہیل بن عمر کو آنحضرت کی خدمت میں بھیجا اور آخر کار اس بات پر صلح ہو گئی کہ مسلمان اگلے سال مکہ آئیں لیکن اِس سال واپس چلے جائیں۔[5]
مولف:
پہلی بات تو یہ کہ یہ آیت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
دوسری بات یہ کہ یہ آیت بیعت میں شامل ہونے والے منافقوں جیسے عبد اللہ ابی اور اوس بن خولی وغیرہ کو شامل نہیں کرتی، کیونکہ آیت میں مومن کی شرط ہے اور یہ لوگ ہر گز مومن نہیں تھے۔
تیسری بات یہ کہ مذکورہ آیت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس وقت ان لوگوں سے راضی ہوا جب انھوں نے بیعت کی نہ کہ ہمیشہ ان سے راضی رہے گا۔
اسی دلیل کے لئے ہم قرآن مجید کے اسی سورہ میں پڑھتے ہیں:
”فَمَنْ نَکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ اٴَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللهَ فَسَیُؤْتِیہِ اٴَجْرًا عَظِیمًا“۔
”جو بھی اپنا عہد توڑتا ہے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے اور جو اللہ سے کئے گئے عہد کو پورا کرتا ہے تو اللہ اسے عظیم اجر دے گا“۔
اس آیت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نکث یعنی بیعت توڑنے کا امکان موجود تھا جیسا کہ بعد میں چند جگہوں پر یہ بات آشکار ہوئی۔اسی طرح یہ آیت ابدی رضایت پر دلالت نہیںکرتی بلکہ انھیں میں سے ممکن ہے کہ دو گروہ ہو جائیں جن میں ایک وفادار ثابت ہو اور دوسر عہد شکن۔اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ اس آیت سے خارج ہو گئے جنھوں نے وفا نہیں کی اور اسی کی وجہ سے ہماری لعن وطعن ان پر پڑتی ہے اور اس بات میں آیت کی رو سے کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔
---------------------------
حوالاجات
[5] تاریخ طبری ،۲،ص ۲۸۱ کا خلاصہ۔

0 comments:

Post a Comment