خداوند نے قرآن كريم میں تمام مومنین کو مخاطب کر کے کہا :
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كاَنَ يَرْجُواْ اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الاَْخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا. الأحزاب / 21.
اس آیت میں اللہ نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ کی عبارت بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر دلالت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور آپ ہر زمانہ میں آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں:
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حضرت زهرا سلام الله عليها کی خوستگاری کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جوابِِ انکار دیا اور ان سے منہ موڑ لیا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لائق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ اخلاق اور دیگر صفات میں ۔۔۔
ابن حجر هيثمى نے شیعہ کے خلاف کتاب باب 11 صواعق محرقه میں لکھا ہے :
وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبها فأعرض عنه صلى الله عليه وسلم ثم عمر فأعرض عنه فأتيا عليا فنبهاه إلى خطبتها فجاء فخطبها.
ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے کہ ابو بکر نے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 471، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
ابن حبان نے صحيح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کیخواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی [ع] نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
.
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص 399، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م؛
الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج 1، ص 549، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، النكت الظراف على الأطراف (تحفة الأشراف)، ج 2، ص 83، تحقيق: عبد الصمد شرف الدين، زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1403 هـ - 1983 م؛
ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 259، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .
حاكم نيشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا :
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
یہ حديث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔
النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 181، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.
اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یہ ہے کہ اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔
عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں :
عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے30 سال اورخلافت کے متعدد سال؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھلا نہ سکے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع کیا تھا ۔
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے امّ*كلثوم کی امام علي (عليه السلام) سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں موجود مهاجرين اور انصار سے کہا:
رفئوني فرفؤوه وقالوا بمن يا أمير المؤمنين قال بابنة علي بن أبي طالب.
مجھے مبارکباد دو [رفئوني فرفؤوه ]انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ کہا علی [ع] کی بیٹی سے شادی کی۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 259؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 23، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 294، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
رفئوني یا بالرفاء والبنين کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهليت میں مرسوم تھی لیکن جب رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے :
وكانت ترفئة الجاهلية أن يقال ( بالرفاء والبنين ) ثم نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها.
جاهليت میں رفئوني اور بالرفاء والبنين کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی پھر نبی کریم [صلى الله عليه وآله وسلم] نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 16، ص 205، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
اور عينى، شارح صحيح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے :
قوله: ( بارك الله لك ) وهذه اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنين، لأنه من أقوال الجاهلية، والنبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ذلك لموافقتهم فيه، وهذا هو الحكمة في النهي.
بارك الله لك کہنا بالرفاء والبنين کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں سے ہیں اور رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 146، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے 8 ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اھم واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے خطبات میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟
خرج إلى رسول الله مهاجرا في أول سنة ثمان فشهد غزوة مؤتة ثم رجع فعرض له مرض فلم يسمع له بذكر في فتح مكة ولا الطائف ولا خيبر ولا في حنين
انھوں نے سال 8 ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین
میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، ناشر: دار صادر - بيروت.
احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الْحَكَمُ بن نَافِعٍ حدثنا إسماعيل ابن عَيَّاشٍ عن سَالِمِ بن عبد بن عبد اللَّهِ عن عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ قال تَزَوَّجَ عَقِيلُ بن أبي طَالِبٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينِ فقال مَهْ لاَ تَقُولُوا ذلك فان النبي صلى الله عليه وسلم قدنهانا عن ذلك وقال قُولُوا بَارَكَ الله فِيكَ وَبَارَكَ الله فيها
عقيل بن ابى طالب [علیہ السلام ] نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات بالرفاء والبنين؛ سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم[صلى الله عليه وآله ] نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی میں برکت عنایت فرمائے۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 201، ح1738، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلاف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جاہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے ؟کیا رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟
تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور مخالفت حکم رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ خیز توجیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔
حلبى نے سيرت میں لکھا ہے :
أن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه جاء إلى مجلس المهاجرين الأولين في الروضة فقال رفئوني فقالوا ماذا يا أمير المؤمنين قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كلامه ولعل النهى لم يبلغ هؤلاء الصحابة حيث لم ينكروا قوله كما لم يبلغ سيدنا عمر رضي الله تعالى عنهم.
ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مهاجرين جو مزار رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] میں موجود تھے ،سے کہا مجھے بالرفاء والبنين. کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ عمر نےجواب دیا میں نے ام کلثوم بنت علی [ع] سے شادی کر لی ہے ! شاید رسول [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے ! تاکہ عمر پر اعتراض کرتے اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے ! !
الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 42، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400هـ.
حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین سے نابلد ہیں کیا ایسا شخص مسند خلافت رسول خدا صلى الله عليه وآله پر بیٹھنے کا اہل ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر مهاجرين الأولين کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔!!!.
کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ 20 سال رسول خدا صلى الله عليه وآله کی صحبت میں رہنے والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟
کیا ایسا شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟
کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟
رسول خدا صلى الله عليه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا:
اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السلام سے بغض کا حساب پورا کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی !اور جب یہ بات بی بی [سلام اللہ علیہا]کو معلوم ہوئی تو ناراض ہوئیں! اور رسول خدا صلى الله عليه وآله سے شکایت کی جب رسول خدا صلى الله عليه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا! :
وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا، وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُل وَاحِد ". فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ.
فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ناراضی کرے اللہ کی قسم بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی [ع] نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ دی !۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1364 ح 3523، كتاب فضائل الصحابة، ب 16، باب ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا!:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بن الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا في أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بن أبي طَالِبٍ فلا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إلا أَنْ يُرِيدَ بن أبي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي ما أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي ما آذَاهَا.
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی طالب[ع] سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، لیکن علی [ع] میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ کرلے ، کیونکہ فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 2004، ح4932، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عن ابْنَتِهِ في الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
چونکہ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه سلام الله عليها علی علیہ السلام سے غضبناک ہوئیں ۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول[ص] کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السلام ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے ۔؟
فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں آیت ذرنى ومن خلقت وحيدا نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اگر بنت رسول [ص]اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ حرام کام کیا ؟ [شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو ]
وليد بن مغيره اور ابوجهل،* دونوں ہی رسول اکرم[ ص ]کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔
آيا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟
نتيجه:
[پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی [ع] سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے - مترجم ]
[اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السلام پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی علیہ السلام کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ ملعونہ کا ہے جس نے اپنے 100 سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا ]
امام علی علیہ السلام پورے وجود سے نہج البلاغہ میں اعلان فرما رہے ہیں :
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ.
میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخلاق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی کا حکم دیتے ۔
نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 198.
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كاَنَ يَرْجُواْ اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الاَْخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا. الأحزاب / 21.
اس آیت میں اللہ نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ کی عبارت بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر دلالت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور آپ ہر زمانہ میں آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں:
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حضرت زهرا سلام الله عليها کی خوستگاری کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جوابِِ انکار دیا اور ان سے منہ موڑ لیا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لائق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ اخلاق اور دیگر صفات میں ۔۔۔
ابن حجر هيثمى نے شیعہ کے خلاف کتاب باب 11 صواعق محرقه میں لکھا ہے :
وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبها فأعرض عنه صلى الله عليه وسلم ثم عمر فأعرض عنه فأتيا عليا فنبهاه إلى خطبتها فجاء فخطبها.
ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے کہ ابو بکر نے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 471، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
ابن حبان نے صحيح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کیخواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی [ع] نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
.
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص 399، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م؛
الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج 1، ص 549، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، النكت الظراف على الأطراف (تحفة الأشراف)، ج 2، ص 83، تحقيق: عبد الصمد شرف الدين، زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1403 هـ - 1983 م؛
ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 259، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .
حاكم نيشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا :
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
یہ حديث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔
النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 181، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.
اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یہ ہے کہ اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔
عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں :
عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے30 سال اورخلافت کے متعدد سال؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھلا نہ سکے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع کیا تھا ۔
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے امّ*كلثوم کی امام علي (عليه السلام) سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں موجود مهاجرين اور انصار سے کہا:
رفئوني فرفؤوه وقالوا بمن يا أمير المؤمنين قال بابنة علي بن أبي طالب.
مجھے مبارکباد دو [رفئوني فرفؤوه ]انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ کہا علی [ع] کی بیٹی سے شادی کی۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 259؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 23، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 294، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
رفئوني یا بالرفاء والبنين کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهليت میں مرسوم تھی لیکن جب رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے :
وكانت ترفئة الجاهلية أن يقال ( بالرفاء والبنين ) ثم نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها.
جاهليت میں رفئوني اور بالرفاء والبنين کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی پھر نبی کریم [صلى الله عليه وآله وسلم] نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 16، ص 205، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
اور عينى، شارح صحيح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے :
قوله: ( بارك الله لك ) وهذه اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنين، لأنه من أقوال الجاهلية، والنبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ذلك لموافقتهم فيه، وهذا هو الحكمة في النهي.
بارك الله لك کہنا بالرفاء والبنين کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں سے ہیں اور رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 146، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے 8 ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اھم واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے خطبات میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟
خرج إلى رسول الله مهاجرا في أول سنة ثمان فشهد غزوة مؤتة ثم رجع فعرض له مرض فلم يسمع له بذكر في فتح مكة ولا الطائف ولا خيبر ولا في حنين
انھوں نے سال 8 ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین
میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، ناشر: دار صادر - بيروت.
احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الْحَكَمُ بن نَافِعٍ حدثنا إسماعيل ابن عَيَّاشٍ عن سَالِمِ بن عبد بن عبد اللَّهِ عن عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ قال تَزَوَّجَ عَقِيلُ بن أبي طَالِبٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينِ فقال مَهْ لاَ تَقُولُوا ذلك فان النبي صلى الله عليه وسلم قدنهانا عن ذلك وقال قُولُوا بَارَكَ الله فِيكَ وَبَارَكَ الله فيها
عقيل بن ابى طالب [علیہ السلام ] نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات بالرفاء والبنين؛ سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم[صلى الله عليه وآله ] نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی میں برکت عنایت فرمائے۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 201، ح1738، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلاف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جاہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے ؟کیا رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟
تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور مخالفت حکم رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ خیز توجیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔
حلبى نے سيرت میں لکھا ہے :
أن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه جاء إلى مجلس المهاجرين الأولين في الروضة فقال رفئوني فقالوا ماذا يا أمير المؤمنين قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كلامه ولعل النهى لم يبلغ هؤلاء الصحابة حيث لم ينكروا قوله كما لم يبلغ سيدنا عمر رضي الله تعالى عنهم.
ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مهاجرين جو مزار رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] میں موجود تھے ،سے کہا مجھے بالرفاء والبنين. کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ عمر نےجواب دیا میں نے ام کلثوم بنت علی [ع] سے شادی کر لی ہے ! شاید رسول [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے ! تاکہ عمر پر اعتراض کرتے اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے ! !
الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 42، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400هـ.
حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین سے نابلد ہیں کیا ایسا شخص مسند خلافت رسول خدا صلى الله عليه وآله پر بیٹھنے کا اہل ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر مهاجرين الأولين کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔!!!.
کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ 20 سال رسول خدا صلى الله عليه وآله کی صحبت میں رہنے والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟
کیا ایسا شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟
کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟
رسول خدا صلى الله عليه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا:
اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السلام سے بغض کا حساب پورا کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی !اور جب یہ بات بی بی [سلام اللہ علیہا]کو معلوم ہوئی تو ناراض ہوئیں! اور رسول خدا صلى الله عليه وآله سے شکایت کی جب رسول خدا صلى الله عليه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا! :
وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا، وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُل وَاحِد ". فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ.
فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ناراضی کرے اللہ کی قسم بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی [ع] نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ دی !۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1364 ح 3523، كتاب فضائل الصحابة، ب 16، باب ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا!:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بن الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا في أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بن أبي طَالِبٍ فلا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إلا أَنْ يُرِيدَ بن أبي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي ما أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي ما آذَاهَا.
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی طالب[ع] سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، لیکن علی [ع] میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ کرلے ، کیونکہ فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 2004، ح4932، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عن ابْنَتِهِ في الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
چونکہ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه سلام الله عليها علی علیہ السلام سے غضبناک ہوئیں ۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول[ص] کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السلام ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے ۔؟
فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں آیت ذرنى ومن خلقت وحيدا نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اگر بنت رسول [ص]اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ حرام کام کیا ؟ [شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو ]
وليد بن مغيره اور ابوجهل،* دونوں ہی رسول اکرم[ ص ]کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔
آيا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟
نتيجه:
[پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی [ع] سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے - مترجم ]
[اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السلام پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی علیہ السلام کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ ملعونہ کا ہے جس نے اپنے 100 سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا ]
امام علی علیہ السلام پورے وجود سے نہج البلاغہ میں اعلان فرما رہے ہیں :
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ.
میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخلاق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی کا حکم دیتے ۔
نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 198.
0 comments:
Post a Comment