Sunday, March 1, 2015

خیبر کے وقت متعہ حرام ہونے کے دعوے پر تفصیلی بحث

سوال: اگر علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو واقعی خیبر میں متعہ کی رسول اللہ ص سے حرمت کا بتلا دیا تھا تو پھر ابن عباس اپنی زندگی کے آخر تک متعہ کے جواز کا فتوی کیوں دیتے رہے؟

انسان چالیں چلتا ہے، مگر اللہ سب سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے۔
بہت سے صحابہ نے گواہیاں دیں کہ وہ رسول اللہ ص، پھر حضرت ابو بکر اور پھر اسکے بعد جناب عمر کی خلافت کے نصف یا آخر تک عقد متعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد اس کی ممانعت کر دی۔

اس پر بھائی لوگوں نے جھوٹا عذر گھڑا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی حرمت صحیح اور مکمل طور پر نہیں پہنچائی اس لیے یہ جانے انجانے میں ان تمام سالوں تک عقد المتعہ کے نام پر غلط کاری کرتے رہے۔

مگر انکا یہ بہانہ الٹا ان کے گلے صدیوں سے پڑا ہوا ہے کہ آپکا تو دعوی ہے کہ حضرت علی نے خصوصی طور پر عبداللہ ابن عباس کو رسول اللہ ص کی اس حرمت کا بتلایا تھا کہ خیبر میں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام کر دیا تھا۔ تو اب آپ ابن عباس کی "لاعلمی" کا کونسا بہانہ بنا سکتے ہیں؟

آپکی روایات کا اب ایک جم غفیر ہے جو ثابت کر رہا ہے کہ ابن عباس نے طویل زندگی پائی اور اپنی زندگی کے آخر تک (جب وہ نابینا ہو گئے) کسی ایسی رسول اللہ ص سے مروی حرمت کا دور دور تک پتا نہیں، اور اس لیے وہ مسلسل عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے۔

بے شک و بلا شبہ تاریخ ایک ایسا TOOL ہے جو ایسی بہت سے جھوٹے اور گھڑے ہوئے قصوں کا قصہ ہی تمام کر دیتی ہے۔ (اسی لیے شاید بھائی لوگ سب سے زیادہ اس سے الرجک ہیں)

اب ذرا آنکھیں کھول کر پڑھئیے اپنی ہی کتاب کی صحیح روایت:
صحیح مسلم، کتاب النکاح
و حدثني حرملة بن يحيى أخبرنا ابن وهب أخبرني يونس قال ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير
أن عبد الله بن الزبير قام بمكة فقال إن ناسا أعمى الله قلوبهم كما أعمى أبصارهم يفتون بالمتعة يعرض برجل فناداه فقال إنك لجلف جاف فلعمري لقد كانت المتعة تفعل على عهد إمام المتقين يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له ابن الزبير فجرب بنفسك فوالله لئن فعلتها لأرجمنك بأحجارك قال ابن شهاب فأخبرني خالد بن المهاجر بن سيف الله أنه بينا هو جالس عند رجل جاءه رجل فاستفتاه في المتعة فأمره بها فقال له ابن أبي عمرة الأنصاري مهلا قال ما هي والله لقد فعلت في عهد إمام المتقين قال ابن أبي عمرة إنها كانت رخصة في أول الإسلام لمن اضطر إليها كالميتة والدم ولحم الخنزير ثم أحكم الله الدين ونهى عنها
ترجمہ:
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن زبیر مکہ میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ کچھ لوگوں (ابن عباس) کے دلوں کو اللہ نے اسی طرح اندھا کر دیا ہے جس طرح انکی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے کہ وہ متعہ کے جواز حق میں فتوی دیتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بزرگ (ابن عباس) جوابا کہنے لگے کہ (اے ابن زبیر) تو بدمعاش مفسدہ پرواز ہے۔ اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں متعہ تمام متقیوں کے پیشوا اور امام یعنی رسالت مآب ﷺ کے سامنے کیا جاتا تھا۔ اس پر ابن زبیر کہنے لگا کہ اچھا ایک دفعہ تو یہ تجربہ اپنے اوپر تو کر اور پھر دیکھ میں اس متعہ کرنے پر تجھے کیسے سنگسار کرتا ہوں۔

تمام علماء متفق ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس اپنی زندگی کے آخری دور میں جا کر نابینا ہوئے تھے۔ مثلا دیکھئے البدایہ و النہایہ جس میں ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس نے سن 68 ہجری (یعنی رسول اللہ ص کی وفات کے 58 سال بعد) وفات پائی اور آپ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے
حوالہ: البدایہ و النہایہ (اردو ترجمہ)، جلد 8، صفحہ 1291، سن 68 کے حالات

چنانچہ کیا کوئی عقل اور تدبر و تفکر کرنے والا شخص اس جھوٹ پر اب یقین کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے "نصف صدی" سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد (58 سال) کے بعد بھی ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی، جنہیں آپ خود حبر الامت اور ترجمان القران کا لقب دیتے ہیں انہیں اپنی زندگی کے آخر تک علی ابن ابی طالب کی خبیر والی حرمت کا پتا ہوتا ہے اور نہ دور دور تک کسی اور حرمت کا؟؟؟
چنانچہ ابن عباس کا رسول ص کی وفات کے 58 سال بعد تک عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دے رہے ہیں جو اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ یہ خیبر و فتح مکہ والی روایات مکمل طور پر جھوٹی روایات ہیں اور ابن عباس کی وفات کے وقت تک انکا وجود تک نہ تھا بلکہ اُن کے بہت بعد میں لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کرنا شروع کر دیں۔
(نوٹ: ابن عباس اور ابن زبیر کے مابین اس جھگڑے کے متعلق اور بہت سی روایات ہیں جو وقت آنے پر پیش ہوں گی)

ابن عباس پر مزید جھوٹ کا باندھے جانا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا
اب مرتے کیا کرتے کہ ایسے بُرے پھنسے تھے کہ دم نکلا جا رہا تھا۔
چنانچہ جھوٹ کا یہ تیر آگے آگے بے دریغ چلایا جاتا رہا،۔۔۔ ۔ مگر انسان چالیں چلتا ہے مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

چنانچہ آخری حربے کے طور پر ابن عباس پر جھوٹ باندھا گیا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نقل کرنے یا جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا بستر مرگ پر ابن عباس کے پاس وہ کونسی نص ہاتھ آ گئی جو کہ رسول اللہ ص کی وفات کے پورے 58 سال تک انکے پاس نہ آئی تھی؟
یہ ایسی گھٹیا حرکت تھی کہ خود اہلسنت کی بہت سے علماء اس جھوٹ پر احتجاجا چیخ اٹھے۔ مثلا:
علامہ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
قال ابن بطال: روى أهل مكة واليمن عن ابن عباس إباحة المتعة، وروي عنه الرجوع بأسانيد ضعيفة وإجازة المتعة عنه أصح، وهو مذهب الشيعة.ترجمہ: ابن بطال کہتےہیں: اہل مکہ اور اہل یمن ابن عباس سے اباحت کا قول روایت کرتے ہیں۔ اور یہ روایت کمزور ضعیف سند رکھتی ہے کہ ابن عباس نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا، جبکہ اسکے مقابلے میں عقد المتعہ کی اجازت دینے والی روایت صحیح ہے، اور یہ مذہب ہے شیعہ کا بھی۔
آنلائن فتح الباری، جلد 9، کتاب النکاح

مرقاۃ جو مستند سمجھے جانی والی شرح ہے المشکوۃ کی، اس میں ملا علی قاری لکھتے ہیں:
ولا تردد في أن ابن عباس هو الرجل المعرض به وكان قد كف بصره فلذا قال ابن الزبير كما أعمى أبصارهم وهذا إنما كان في حال خلافة عبد الله بن الزبير وذلك بعد وفاة على كرم الله وجهه فقد ثبت أنه مستمر القول على جوازها ولم يرجع
ترجمہ:
اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ ابن عباس کا مضحکہ اڑایا گیا کیونکہ وہ نابینا تھے، چنانچہ اسی پر ابن زبیر نی کہا تھا کہ جن کی آنکھیں اندھی ہیں، اور یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب عبداللہ ابن زبیر علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلیفہ بنا تھا، اور یہ بات ثابت ہے کہ ابن عباس مستقل طور پر اسکے بعد عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے اور انہوں نے کبھی اس سے رجوع نہیں کیا

حوالہ: مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
اور فتح القدیر جو فقہ کی کتاب الھدایہ کی مستند شرح ہے، اس میں ہے:
"اور ابن عباس کا عقد المتعہ کے جواز میں قول ثابت ہے انکی زندگی کے آخری دن تک"

اور مولانا مودودی لکھتے ہیں اپنی کتاب رسائل و مسائل، جلد 3، صٖفحہ 53 پر کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آیا ابن عباس نے اپنے آخری وقت میں عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا؟ اس پر مودودی صاحب جواب دیتے ہیں:
"اس مسئلےپر مجھ سے پہلے کے اہل علم کی آراء میرے سامنے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے اور اس باب میں جو روایات میں نے دیکھی ہیں اُن کے مطابق ابن عباس نے کبھی عقد المتعہ سے رجوع نہیں کیا، بلکہ اسکے بالکل برخلاف آپ اسکے جواز میں فتوی دیتے رہے۔۔۔ اور پھر فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی نے مکہ شہر کے روایوں سے نقل کیا ہےکہ: "اہل مکہ نے ابن عباس سے جو فتوی نقل روایت کیا ہے وہ صرف متعہ کے جواز کا ہے، اگرچہ اسی روایات بھی ہیں جہاں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا، مگر انکی سندیں کمزور ہیں، جبکہ صحیح روایات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ اسکے جواز میں باقی رہے۔ بعد میں ابن حجر قبول کرتے ہیں کہ اس کے رجوع کرنے والی روایات میں اختلاف ہے۔

ابن عباس کے بعد انکے شاگرد، جو بلند پایہ تابعین ہیں، اُنکا عقد المتعہ پر قائم رہنا
اس ابن عباس کے عقد المتعہ سے رجوع کرنے والے جھوٹ کا سب سے بڑا دھڑم تختہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں ابن عباس کے جو بلند پایہ شاگرد تابعین ہیں، وہ سب کے سب عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہتے ہیں اور مسلسل اسکے حق میں فتوے دیتے ہیں۔
یہ بھی وہی چیز ہوئی کہ انسان نے اپنی چال چلی مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا تھا اور جھوٹ حق بات کے سامنے پاؤں نہیں جما سکا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:

التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير الصفحة

قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }
ترجمہ:
امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔ تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔
اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی، اور شرح موطا امام مالک میں علامہ زرقانی لکھتے ہیں:
قال ابن عبد البر: أصحاب ابن عباس من أهل مكة واليمن على إباحتها
ترجمہ: ابن عبدالبر کہتے ہیں:"ابن عباس کے اصحاب جو کہ مکہ اور یمن سے تھے، وہ عقد المتعہ کی اباحت میں یقین رکھتے تھے۔"
اور تفسیر مظہری میں ہے:
متعہ کی حلت کا فتوی تابعین کی ایک جماعت نے دیا ہے جن میں سے ابن جریح، طاؤس، عطاء، اور حضرت ابن عباس کے شاگرد اور سعید بن جبیر اور فقہاء مکہ بھی تھے۔
تفسیر مظہری، جلد 3، صفحہ 19

تفصیل کا وقت نہیں، اس لیے مختصرا ان بلند پایہ شاگردوں کا تعارف کہ جو ابن عباس کی وفات کے بعد بھی مستقل طور پر عقد المتعہ کے حق میں فتوی دیتے تھے کیونکہ انکے زمانے تک بھی یہ خیبر و فتح مکہ و اوطاس و حجۃ الوداع پر متعہ کو حرام کرنے والی جھوٹی گھڑی ہوئی روایات نہیں پہنچی تھیں، بلکہ یہ اُنکے بھی بعد گھڑی گئیں۔

طاؤس:
انکی وفات 106 ہجری میں ہوئی۔
انکی 85 روایات صحیح بخاری اور 78 روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

سعید بن جبیر:
انکی وفات سن 94 یا 95 ہجری میں ہوئی ہے۔
انکی 147 روایات صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ اور صحیح مسلم میں انکی 78 روایات موجود ہیں۔

عطاء:
انکی وفات 114 یا 115 ہجری میں ہوئی ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں انکی سو سے زیادہ روایات نقل ہیں۔

سوال: ابن عباس، طاؤس، عطاء، سعید ابن جبیر نے مرتے دم عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیا، تو پھر انہوں نے اس مسئلے پر صرف علمی مخالفت کی جنگ ہی کیوں جاری رکھی اور کیوں نہیں انہوں نے آپکی شرائط کے مطابق تلوار اٹھا کر قتل و خون شروع کر دیا؟

ابن عباس کے متعلق روایات تو بہت زیادہ ہیں، مگر مختصر وقت میں ممکن نہیں کہ ہر ہر چیز کا احاطہ کیا جائے، اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اعتراضات اور الزامات کو طومار بھرا پڑا ہے۔ بس اللہ سے استقامت کی دعا ہے اور انشاء اللہ جلد تمام مسائل پر گفتگو انجام کو پہنچنے والی ہے۔

اختتام پر ابن عباس کی ایک روایت:

امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]



مثلا ابو نضرہ کو کچھ علم نہیں۔ اور پھر وہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھتے ہیں کہ تقریبا نصف صدی گذرنے کے بعد عبداللہ ابن عباس اور عبداللہ ابن زبیر عقد المتعہ پر لڑ رہے ہیں، تو اسکی حقیقت کیا ہے۔ اس پر جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ ص کا ذکر کرتے ہیں اور نہ خیبر اور نہ فتح مکہ کا، بلکہ وہ سیدھا سادھا جواب دیتے ہیں کہ وہ اور دیگر صحابہ رسول اللہ ص کے دور میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے دور میں، اور پھر حضرت عمر کی خلافت کے نصف یا آخر تک برابر عقد المتعہ کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد عقد المتعہ کی ممانعت کر دی، اور اسکے بعد ہم پھر عقد المتعہ پر نہیں پلٹے۔

یاد رہے ابو نضرہ اور جابر بن عبداللہ انصاری کا یہ واقعہ بھی نصف صدی بعد کا ہے کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کی لڑائی ہوئی تھی۔

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔

اور خیبر والی اس روایت پر تو خود اہلسنت علماء نے شدید تنقید کی ہے، تو پھر بھلا آپ اسے کس طرح بطور حجت ہمارے خلاف پیش کر رہے ہیں۔ مثلا
وقال ابن عبد البر وذكر النهي عن المتعة يوم خيبر غلط وقال السهيلي النهي عن المتعة يوم خيبر لا يعرفه أحد من أهل السير ورواة الأثر
ترجمہ: ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ متعہ کی ممانعت خیبر والے دن ہوئی۔ السھیلی خیبر میں متعہ کی ممانعت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ راویوں اور اہل سیر (مؤرخین) میں سے کسی نے اس چیز کو نقل نہیں کیا۔
حوالہ: عمدۃ القاری، جلد 8، صفحہ 311

اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنها
ترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201


کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟

اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات 
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔

غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا
انسان اپنی چالیں چلتا ہے، مگر بلا شک و شبہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اور جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس احمق نے غزوہ خیبر پر متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت گھڑی ہے، اُس کے جھوٹ کا پول کھول دینے کا پورا انتظام اللہ تعالی نے کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ سن 7 ہجری میں غزوہ خیبر تک اہل کتاب کے ساتھ نکاح یا کسی بھی قسم کے عقد کی اجازت ہی نہ تھی۔
علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد ، جلد 3، صفحہ 183 میں اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے تحریر فر ماتے ہیں:
وأيضا : فإن خيبر لم يكن فيها مسلمات وإنما كن يهوديات وإباحة نساء أهل الكتاب لم تكن ثبتت بعد إنما أبحن بعد ذلك في سورة المائدة بقوله ۔۔۔
ترجمہ:
"غزوہ خیبر میں صحابہ کرام کے ساتھ کوئی مسلمان عورت نہیں گئی تھی، اور خیبر میں صرف یہودی عورتیں تھیں اور اُس وقت تک اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کرنے کی اجازت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کی اجازت غزوہ خیبر کے بعد سورۃ المائدہ میں نازل ہوئی۔"

نوٹ: یاد رکھئیے کہ سورۃ المائدہ اور سورۃ الفتح سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتیں تھیں۔




1۔ آپکی کتابوں میں خیبر و علی و ابن عباس والی ایک ہی روایت آخری ایک دو روایوں کے فرق سے "تکرار" کی صورت میں روایت کی گئی ہے۔ اگر اس تکرار کو ہٹا دیا جائے تو یہ خیبر، علی و ابن عباس کی فقط ایک ہی روایت ہے۔ چنانچہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کتنے درجنوں کتب میں کتنی درجن مرتبہ یہ نقل ہوئی ہے۔
2۔ آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ جو صحابہ عمر ابن خطاب کے دور تک عقد المتعہ کرتے رہے انہیں اصل میں اسکی حرمت کا علم نہ تھا۔
3۔ مگر جب آپ کہیں گے کہ علی نے ابن عباس کو اس حرمت کا بتلایا تھا، تو پھر یہ "لاعلمی" والا عذر ختم ہو جائے گا۔
4۔ چنانچہ اس صورت میں یہ ممکن نہیں کہ ابن عباس نصف صدی گذرنے کے بعد عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیں اور ابن زبیر انکو سنگسار کرنے کی دھمکی دے۔
5۔ اگر خالی ابن عباس ہوتے تو بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ ان سے شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو، یا پھر ان پر بہت بڑی الزام تراشی کی جائے کہ وہ جان بوجھ کر علی ابن ابی طالب کی صورت احکام خداوندی کو ٹھکرا کر زناکاری کے حق میں فتوے دے رہے تھے، مگر یہاں تو ابن عباس کے ساتھ جابر بن عبداللہ انصاری بھی موجود ہیں جنہیں نصف صدی بعد ابن زبیر کے واقعے کے وقت بھی خیبر میں ایسی کسی حرمت کا پتا نہیں اور وہ سیدھا سادھا کہہ رہے ہیں کہ یہ حضرت عمر ہیں جنہوں نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد عقد المتعہ کو حرام قرار دیا۔
5۔ اور پھر اُس صحیح السند روایت کا کیا کریں گے جس میں علی ابن ابنی طالب کھل کر عمر ابن الخطاب سے اختلاف کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنی رائے سے یہ ممانعت نہ کرتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔
6۔ پھر انہی کی اتباع میں ابن عباس بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر عمر ابن الخطاب اس کی ممانعت نہ کرتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔
اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ ہمارے دلائل پر سے آپکی نظریں پھسلتی چلی جاتی ہیں۔

اور یاد آیا کہ آپ نے ابھی تک پچھلے 1400 سالہ تاریخ میں ایک بھی ایسا معاشرہ نہیں پیش کیا ہے کہ جو آپکے زعم کے مطابق آئیڈیل تھا۔



خیبر کے حوالے سے میں نے مزید کچھ ثبوت بھی پیش کیے تھے کہ جنہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یاد دہانی کے لیے ایک مرتبہ پھر یہ پیش خدمت ہیں۔
غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا
انسان اپنی چالیں چلتا ہے، مگر بلا شک و شبہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اور جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس احمق نے غزوہ خیبر پر متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت گھڑی ہے، اُس کے جھوٹ کا پول کھول دینے کا پورا انتظام اللہ تعالی نے کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ سن 7 ہجری میں غزوہ خیبر تک اہل کتاب کے ساتھ نکاح یا کسی بھی قسم کے عقد کی اجازت ہی نہ تھی۔
علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد ، جلد 3، صفحہ 183 میں اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے تحریر فر ماتے ہیں:
وأيضا : فإن خيبر لم يكن فيها مسلمات وإنما كن يهوديات وإباحة نساء أهل الكتاب لم تكن ثبتت بعد إنما أبحن بعد ذلك في سورة المائدة بقوله ۔۔۔
ترجمہ:
"غزوہ خیبر میں صحابہ کرام کے ساتھ کوئی مسلمان عورت نہیں گئی تھی، اور خیبر میں صرف یہودی عورتیں تھیں اور اُس وقت تک اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کرنے کی اجازت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کی اجازت غزوہ خیبر کے بعد سورۃ المائدہ میں نازل ہوئی۔"

نوٹ: یاد رکھئیے کہ سورۃ المائدہ اور سورۃ الفتح سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتیں تھیں۔

اسی لیے اللہ تعالی مسلمان کو غور و فکر اور تدبر اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ اور اگر انسان عقل رکھتا ہے اور پھر انصاف کرنے کا بھی قائل ہے، تو پھر اسے سیدھی راہ آرام سے ملتی جائے گی۔ انشاء اللہ۔
کیا علی ابن ابی طالب وہ واحد شخص تھے جنہوں نے خیبر میں عقد متعہ کی ممانعت سنی؟

اگر تکرار نکال دی جائے تو یہ صرف ایک ہی روایت ہے جو بتلا رہی ہے کہ علی ابن ابی طالب ابن عباس کو بتلایا کہ خیبر میں پالتو گدھے کے گوشت اور عقد المتعہ حرام کر دیا گیا تھا۔ پورے ذخیرہ حدیث میں ایک بھی ایسا اور راوی نہیں ہے جسے یہ علم ہو کہ خیبر میں متعہ کو رسول اللہ نے حرام کیا جبکہ دسیوں مختلف روایات اور صحابہ ایسے ہیں جنہوں نے خیبر میں صرف اور صرف پالتو گدھے کی حرمت کے متعلق سنا جبکہ ان کو دور دور تک متعہ کی حرمت کا علم نہیں۔
کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟

اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات 
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔
اب شوکت کریم بھائی کچھ ایسا عجیب و غریب استدلال لے کر آئے کہ جس کا مجھے سر سمجھ آیا نہ پیر۔
کاش انہوں نے اپنے ان علماء سے کچھ نصیحت پکڑ لی ہوتی جو کہ انہیں حقائق کی بنیاد پر یہ لکھ رہے ہیں کہ:
اور خیبر والی اس روایت پر تو خود اہلسنت علماء نے شدید تنقید کی ہے، تو پھر بھلا آپ اسے کس طرح بطور حجت ہمارے خلاف پیش کر رہے ہیں۔ مثلا
وقال ابن عبد البر وذكر النهي عن المتعة يوم خيبر غلط وقال السهيلي النهي عن المتعة يوم خيبر لا يعرفه أحد من أهل السير ورواة الأثر
ترجمہ: ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ متعہ کی ممانعت خیبر والے دن ہوئی۔ السھیلی خیبر میں متعہ کی ممانعت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ راویوں اور اہل سیر (مؤرخین) میں سے کسی نے اس چیز کو نقل نہیں کیا۔
حوالہ: عمدۃ القاری، جلد 8، صفحہ 311

اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنها
ترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201

اور اگر ابن عباس اس معاملے میں اکیلے ہوتے تو بھی شاید ان سے غلطی مان لی جاتی، مگر نصف صدی گذرنے کے باوجود جب ابن زبیر والی لڑائی اٹھتی ہے تو اس پر جابر بن عبداللہ انصاری بھی صاف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے دور میں اور پھر حضرت ابو بکر کے دور میں اور پھر حضرت عمر کی خلافت میں مستقل عقد المتعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عقد المتعہ سے منع کر دیا عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد۔ یعنی اس نصف صدی گذر جانے کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری ہوں یا ابو نضرہ یا عطاء یا دیگر تابعین، کسی کو خیبر کا پتا ہے نہ فتح مکہ کا، بلکہ انہیں سرے سے ہی رسول اللہ ص کی جانب سے متعہ کی کسی حرمت کا علم نہیں اور وہ کھل کر حضرت عمر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے عقد المتعہ کی ممانعت کی جب عمرو بن حریث کا واقعہ پیش آیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی روایات کہ جن کا کوئی جواب پیش نہیں کیا جاتا:

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ

0 comments:

Post a Comment