Wednesday, February 18, 2015

آٹھواں زاویہ : شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر

شيعه کتب میں بھی اس باب میں روایات موجود ہیں لیکن جب ایک ایک روایت کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت نہ تنہا امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب کے اچھے تعلقات کو بیان نہیں کرتی ہیں بلکہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ شادی جبر اور زور گوئی پر ہوئی۔[یاد رہے اس زاویہ کو مطالعہ کرتے ہوئے پہلے زاویہ کو مد نظر ضرور رکھیں ]
مرحوم كلينى رضوان الله تعالى عليه نے كتاب كافى میں ان روایات کو نقل کیا ہے :
1. مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ لَمَّا خَطَبَ إِلَيْهِ قَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إنها صَبِيَّةٌ قَالَ فَلَقِيَ الْعَبَّاسَ فَقَالَ لَهُ مَا لِي أَ بِي بَأْسٌ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ خَطَبْتُ إِلَى ابْنِ أَخِيكَ فَرَدَّنِي أَمَا وَاللَّهِ لَأُعَوِّرَنَّ زَمْزَمَ وَلَا أَدَعُ لَكُمْ مَكْرُمَةً إِلَّا هَدَمْتُهَا وَلَأُقِيمَنَّ عَلَيْهِ شَاهِدَيْنِ بِأَنَّهُ سَرَقَ وَلَأَقْطَعَنَّ يَمِينَهُ فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ فَأَخْبَرَهُ وَسَأَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهِ فَجَعَلَهُ إِلَيْهِ.
هشام بن سالم نے امام صادق عليه السلام سےنقل کیا ہے کہ : جب عمر نے ام کلثوم کی خواستگاری کی تو امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا وہ بہت چھوٹی ہیں امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا :عمر عباس سے ملے اور ان سے عمر نے کہا: مجھ میں کیا برائی ہے ؟. عباس نے کہا :کیوں کیا بات ہوگئی ہے ؟. عمر نے کہا :میں نے تمہارے بھتیجے سے خواستگاری کی لیکن انھوں نے مجھے رد کردیا ۔ خبردار میں آب زمزم کے چشمہ کو بھر کر بند کردونگا اور تم بنی ہاشم کے لئے کوئی بھی فضیلت باقی نہیں چھوڑونگا اور اسے ختم کرکے رہوں گا اور علی [ع] کے خلاف دو گواہوں کو تیار کرونگا جو انکے چور ہونے پر گواہی دینگے اور انکے ہاتھ کو کاٹ دونگا تب عباس، علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انھیں عمر کی زور گوئی کی خبر دی اور عباس نے علی [ع] سے چاہا کہ معاملہ انکے حوالے کردیں پس علی علیہ السلام نے معاملہ انکے حوالے کردیا ۔

الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

2.. حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ سَمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلْ حَيْثُ شَاءَتْ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِه.

عبد الله بن سنان اور معاويہ بن عمار کہتے ہیں :* امام صادق عليه السلام سے ایسی عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو سوال کیا کہ وہ وہ اپنے گھر میں عدّت گزارے گی یا جہاں بھی اس کی مرضی ہو فرمایا : اس کی مرضی ہے اس لئے کہ علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو عمر کے قتل کے بعد اپنے گھر لے آئے تھے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
3. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) عَنِ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا أَيْنَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا تَعْتَدُّ أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلَى حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا مَاتَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِهِ.
سليمان بن خالد کہتے ہیں : امام صادق عليه السلام سے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو ، سوال کیا وہ عدت اپنے شوہر کے گھر میں گزارے گی یا جہاں بھی چاہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا : جہاں چاہے ۔پھر فرمایا ہے :جب عمر مر گئے تو علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو اپنے گھر کے کر آگئے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
4. عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَ حَمَّادٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) فِي تَزْوِيجِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ فَرْجٌ غُصِبْنَاه.
امام صادق عليه السلام سے ازدواج امّ*كلثوم کے بارے میں سوال کیا گیا امام علیہ السلام نے فرمایا وہ ایک ناموس ہے جو ہم سے غصب کی گئی [ یہ ایک معنی کی بناء پر لیکن دوسرا معنی کی بناء پر خود شادی مشکوک ہوحاتی ہے یعنی وہ ایک عورت ہے جس کے بہانہ سے ہم پر دباو ڈالا گیا۔
قابل غور بات یہ ہے امام علیہ السلام بلیغ اور فصیح ہوتے ہوئے یہ "ذلك فرج غصب منا" نہیں فرما رہے ہیں کہ بلکہ خود کو مغصوب قرار دے رہے ہیں اور فرماتے ہیں " غصبناه، يا غصبنا عليه" جو دیگر منابع شیعہ و سنی ]بنقل ازشیعہ] میں آیا ہے اور معنی غصبنا یہ ہے کہ ہم مغصوب ہوئے ناکہ وہ ناموس ۔

الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
اولاً: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان روایات سے یہ اخذ نہیں ہوتا ہے کہ جس ام کلثوم کی طرف ان روایات اور دیگر روایات شیعہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ہے جو امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقی بیٹی ہیں بلکہ تین احتمال پائے جاتے ہیں۔

ثانياً: اهل سنت ان روایات سے استدلال نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے شادی ہوئی تھی تو تب بھی امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب میں اچھے تعلقات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ زیادہ زیادہ ان روایات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر ہوئی ہے اور ام کلثوم صغیر ہونے کے ساتھ نہ خود راضی تھیں نہ انکے والد ۔
کیا ایسی شادی عمر بن خطاب کے لئے مایہ فضیلت بن سکتی ہے ؟ اور کیا یہ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور خلیفہ دوم میں اچھے مراسم تھے ؟
سيد مرتضى علم الهدى اس کے بارے میں کہتے ہیں :
فأما انكاحه عليه السلام إياها، فقد ذكرنا في كتابنا الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه عليه السلام ما أجاب عمر إلى انكاح بنته إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة بعد كلام طويل مأثور....
والذي يجب أن يعتمد في نكاح أم كلثوم، أن هذا النكاح لم يكن عن اختيار ولا إيثار، ولكن بعد مراجعة ومدافعة كادت تفضي إلى المخارجة والمجاهرة....
وقد تبيح الضرورة أكل الميتة وشرب الخمر، فما العجب مما هو دونها؟

ام کلثوم کی عمر بن خطاب سے شادی کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں تفصیل سے دیا ہے اور وہاں بیان کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے عمر سے شادی قبول نہیں کی مگر جب جبر سےکام لیا گیا اور دھمکایا گیا اور مسلسل اصرار اور تنازع کے بعد جو کہ روایات میں مذکور ہے ۔۔۔ وہ چیز جو اس شادی میں مد نظر رکھنا چاِہئے وہ یہ ہے کہ یہ شادی اختیار اور میل باطنی سے نہیں ہوئی لیکن جب مسلسل اصرار اور زور گوئی کی گئی کہ نزدیک تھا ایک آشکار لڑائی شروع ہوجاتی ۔۔۔ اور ضرورت مردار اور شراب کو بھی حلال کردیتی ہے چہ جائے جب اس سے چھوٹی بات ہو ۔
[نوٹ پہلے زاویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے ساتھ ان روایات کی نفی کرتے ہوئے جو فحش اور اہل بیت کی تذلیل پر دلالت کرتی ہیں [روایات ساق اہل سنت۔ مترجم ]
المرتضي علم الهدي، أبو القاسم علي بن الحسين بن موسى بن محمد بن موسى بن إبراهيم بن الإمام موسى الكاظم عليه السلام (متوفاي436هـ)، رسائل المرتضى، ج 3 ص 149،تحقيق: تقديم: السيد أحمد الحسيني / إعداد: السيد مهدي الرجائي، ناشر: دار القرآن الكريم قم، 1405هـ.

ضرورت کے وقت کافر سے بھی شادی جائز ہوجاتی ہے :
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه" سید مرتضی "کے استاد اس بحث میں کہتے ہیں :
ثم إنه لو صح لكان له وجهان لا ينافيان مذهب الشيعة في ضلال المتقدمين على أمير المؤمنين عليه السلام: أحدهما: أن النكاح إنما هو على ظاهر الإسلام الذي هو: الشهادتان، والصلاة إلى الكعبة، والاقرار بجملة الشريعة. وإن كان الأفضل مناكحة من يعتقد الإيمان، وترك مناكحة من ضم إلى ظاهر الإسلام ضلالا لا يخرجه عن الإسلام، إلا أن الضرورة متى قادت إلى مناكحة الضال مع إظهاره كلمة الإسلام زالت الكراهة من ذلك، وساغ ما لم يكن بمستحب مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان محتاجا إلى التأليف وحقن الدماء، ورأي أنه إن بلغ مبلغ عمر عما رغب فيه من مناكحته ابنته أثر ذلك الفساد في الدين والدنيا، وأنه إن أجاب إليه أعقب صلاحا في الأمرين، فأجابه إلى ملتمسه لما ذكرناه.
والوجه الآخر: أن مناكحة الضال - كجحد الإمامة، وادعائها لمن لا يستحقها - حرام، إلا أن يخاف الإنسان على دينه ودمه، فيجوز له ذلك، كما يجوز له إظهار كلمة الكفر المضاد لكلمة الإيمان، وكما يحل له أكل الميتة والدم ولحم الخنزير عند الضرورات، وإن كان ذلك محرما مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان مضطرا إلى مناكحة الرجل لأنه يهدده ويواعده، فلم يأمنه أمير المؤمنين عليه السلام على نفسه وشيعته، فأجابه إلى ذلك ضرورة كما قلنا إن الضرورة تشرع إظهار كلمة الكفر، قال تعالى: (إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ).
اگر اس شادی کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی دو توجیہ ہو سکتی ہے اور یہ دو توجیہ امام علی علیہ السلام پر سبقت لینے والوں کی گمراہی کے شیعہ نظریہ کےمخالف نہیں ہے ۔
1. پہلی توجیہ :شرط ازدواج کہ نکاح ظاہر اسلام پر ہوتا ہے۔ جو شہادتین ، کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ، اجمالی طور پر شریعت کو قبول کرنے ، سے تعبیر ہے اگرچہ افضل ہے کہ شادی صاحب ایمان سے ہو ۔اسی طرح افضل ہے کہ ایسے افراد سے رشتہ داری نہ کی جائے جو اپنی ضلالت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوتے ہوں مگر جب ضرورت ہو کہ ایسے گمراہ شخص سے شادی کی جائے تو اس کے اظہار اسلام کی بناء پر وہ کراہیت بھی بر طرف ہوجائے گی اور جو کام اختیاری حالت میں مستحب نہ تھا وہ زمانہ اضطرار میں جائز ہوجاتا ہے ۔ اور امیر المومنین علیہ السلام کو ضروت تھی بہت سی جانوں کو قتل اور بگاڑ سے بچائیں اور امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ عمر کی زور گوئی کے بعد بھی انکار دین اور دنیا میں فساد پرپا ہونے کا باعث بنے گا اور امام علیہ السلام نے دین و دنیا کے فساد سے بچتے ہوئے عمر کی بات کو قبول کیا ۔
2. دوسری توجیہ : اگر ہم قائل ہوں کہ گمراہ شخص سے شادی مثلا امامت منکر شخص یا وہ شخص جوایسے کی امامت کا قائل جو امامت کا حقدار نہیں ہے ، حرام ہے مگر جب انسان کو اپنے دین اور جان پر خوف ہو تو ایسی شادی جائز ہوجائے گی جس طرح ایسے مجبور شخص کے لئے ایسا کفریہ بات کہنا بھی جائز ہوجائے گی جو کلمہ ایمان کے منافی ہو ، اور یہ اسی طرح جب مردار ، خون ، خنزیر کھانا ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔اگرچہ اختیاری حالت میں یہ سب حرام ہے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اس وقت ام کلثوم کی شادی پر مضطر تھے اس لئے عمر نے امام علی علیہ السلام کو تہدید کی تھی پس امام علی علیہ السلام اپنے اور اپنے چاہنے والوں کی جان پر خوف محسوس کر رہے تھے اور ضرورت کے تحت اس امر پر ناچار ہوئے جیسا ہم نے پہلے کہا شریعت ضرورت اور اضطرار میں کلمہ کفر کو بھی زبان پر جاری کرنے کی اجازت دیتی ہے جیسا فرمان خداوندی ہے :،(إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ۔{ مگر جسے مجبور کیا جائے جبکہ اسکا دل ایمان سے مطمئن اور سرشار ہو ، }۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 92 ـ 93، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.

عمر ، عاتكه کے ساتھ زبردستی شادی کرتے ہیں :
ام کلثوم کے ساتھ عمر کی پہلی جبری شادی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ اتفاق ہو چکا ہے, اس سے پہلے عاتکہ بنت زید سے زبردستی شادی کر چکے ہیں ۔
محمد بن سعد الطبقات الكبرى میں لکھتے ہیں:
أَنَّ عَاتِكَةَ بِنْتَ زَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ اللَّهِ بنِ أَبي بَكْرٍ، فَمَاتَ عَنْهَا وَاشْتَرَطَ عَلَيْهَا أَلاَّ تَزَوَّجَ بَعْدَهُ، فَتَبَتَّلَتْ وَجَعَلَتْ لاَ تَزَوَّجُ، وَجَعَلَ الرجَالُ يَخْطِبُونَهَا وَجَعَلَتْ تَأْبَى، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِوَلِيهَا: اذْكُرْنِي لَهَا، فَذَكَرَهُ لَهَا فَأَبَتْ عَلى عُمَرَ أَيْضَاً، فَقَالَ عُمَرُ: زَوجْنِيهَا: فَزَوَّجَهُ إِيَّاهَا، فَأَتَاهَا عُمَرُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَعَارَكَهَا حَتَّى غَلَبَهَا عَلى نَفْسِهَا فَنَكَحَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: أُفَ أُفَ أُفَ، أَفَّفَ بها ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَتَرَكَهَا لاَ يَأْتِيهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَوْلاَةً لَهَا أَنْ تَعَالَ فَإِني سَأَتَهِيَّأُ لَكَ.
علي بن زيد کہتے ہیں: عاتكه بنت زيد، عبد الله بن ابوبكر کی بیوی تھیں اور عبد الله انکے ساتھ یہ شرط رکھی تھی میرے مرنے کے بعد کسی سے بھی شادی نہ کرنا " عاتکہ عبد اللہ کے بعد اس کی شرط پر باقی تھی شادی نہ کرنے کا ا راداہ رکھتی تھیں لوگ اس سے خواستگاری کرتے لیکن وہ ان کو رد کردیتی پس عمر نے انکے ولی سے کہا میرے لئے بھی خواستگاری کا ذکر کرو لیکن عمر کو بھی رد کر دیا لیکن عمر نے کہا : اس کی مجھ سے شادی کر دو پس اس نے شادی کر دی عمر اسکے پاس آئے اور دونوں میں اصرار اور انکار کی لڑائی ہوئی لیکن عمر نے اس پر غالب ہوکر اس سے وطی کرلی جب مجامعت سے فارغ ہوئے تو کہا اف اف اف اور اسے ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور اسے چھوڑنے کے بعد دوبارہ رجوع نہیں کیا پس عاتکہ نے اپنی کنیز کے ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ : میرے پاس آئیں میں تیار ہوں۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت.


خاندان اهل بيت عليهم السلام کے ساتھ جبری شادیاں :
حجاج بن يوسف کی عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی سے زبردستی شادی:
نظریہ اهل سنت کے مطابق ، حضرت زينب سلام الله عليها کی عبد الله بن جعفر سے ایک بیٹی تھی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے جبری شادی کی تھی ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں :
وتزوجت زينب بنت علي من فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عبد الله بن جعفر بن أبي طالب؛ فولدت له ابنة تزوجها الحجاج بن يوسف.
زينب بنت علي و بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) نے عبد الله بن جعفر بن ابى طالب سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے شادی کی !
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ - 2003م.

ابن أبى طيفور نے بلاغات النساء میں، الآبى نے نثر الدرر میں، زمخشرى نے ربيع الأبرار میں، اور دیگر علماء اہل سنت نے لکھا ہے :
لما زفت ابنة عبد الله بن جعفر " وكانت هاشمية جليلة " إلى الحجاج بن يوسف ونظر إليها في تلك الليلة وعبرتها تجول في خديها فقال لها بأبي أنت وأمي مما تبكين قالت من شرف اتضع ومن ضعة شرفت.
عبد الله بن جعفر کی بیٹی کو زفاف کے لئے حجاج بن یوسف کے پاس لےجایا گیا تو وہ لڑکی بہت اشکبار تھی حجاج نے سوال کیا میرے ماں پاپ قربان کیوں رو رہی ہو؟ کہا اس شرافت و فضیلت پر جو میرے ہاتھ سے جاری ہے اور اس پستی پر جو فضیلت میں بدل رہی ہے ۔
ابن طيفور، أبو الفضل أحمد بن أبي طاهر (متوفاي280هـ)، بلاغات النساء، ج 1، ص 51؛
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 39، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 92؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 2، ص 48، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.

کیا حجاج بن یوسف نے جو ظلم و ستم خاندان اہل بیت علیہم السلام اور بنی ہاشم کے ساتھ کئے ہیں اس شادی کی وجہ سے ان سب کا انکار کیا جائے گا؟ اور یہ ثابت کیا جائے گا کہ حجاج کے بنی ہاشم اور خاندان نبوت سے بہت اچھے مراسم تھے ؟!

مصعب بن زبيرکی سكينه بنت الحسين عليهما السلام کے ساتھ زبردستی شادی ۔
اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق سکینہ بنت حسین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد زندہ رہیں اور کئی شادیاں کی ۔
اہل سنت کے عالم سبط ابن جوزى حنفی نے تذكرة الخواص میں امام حسين عليه السلام کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
وأما سكينة: فتزوجها مصعب بن الزبير فهلك عنها... وأول من تزوجها مصعب بن الزبير قهراً....
معصب بن زبير نے سکینہ کے ساتھ شادی کی ۔۔۔۔۔ اور مصعب نے ان سے جبری اور زبردستی شادی کی تھی ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص249 ـ 250، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

روايت "جن " کتب اہل سنت میں :
ہم نے گذشتہ بحث میں روایات صحیح السند اہل سنت سے ثابت کیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام خلیفہ دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب ، خيانتكار، گناهكار و پيمان شكن جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت کیا کہ انکا تلخ مزاج اور بد اخلاقی ذاتی جھگڑالو پن ۔ شراب خوری ، بدعت گزاری اور دیگر امور اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئے ہیں
اسی طرح خليفه دوم کا فاطمه زهرا سلام الله عليها سے رویہ اور انکی شہادت میں انکار کردار کتب اہل سنت میں مستند اور معتبر طریق سے ثابت ہے
اس بناء پر اگر شادی عمر کی زور گوئی اور جبر سے بھی ہوئی ہو تو امکان نہیں رکھتا ہے کہ علی علیہ السلام عمر کو ناموس رسالت تک رسائی دیں ۔
اهل سنت زليخا اور عزيز مصر اسی طرح آسيه اور فرعون کے بارے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ چونکہ آسیہ کا مقام جنت میں اور رسول خدا [صلی اللہ علیہ و الہ] کی جنت میں بیوی بننے والی ہیں اس بناء پر فرعون آسیہ سے نزدیکی نہ کر پائے تو جب بھی فرعون آسیہ سے نزدیکی کرنا چاہتا تھا ،اللہ آسیہ کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا ۔
اسی طرح زلیخا کہ جو بعد میں یوسف علیہ السلام کی بیوی بننے والی تھی جب بھی عزیز مصر اس سے خلوت کرنا چاہتا تھا خداوند اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا :
عبد الرحمن صفورى نے نزهة المجالس میں لکھا ہے :
قيل كانت زليخا من بنات الملوك وكان بينها وبين مصر نصف شهر فرأت في منامها يوسف فتعلق حبه بقلبها فتغير لونها فسألها أبوها عن ذلك فقالت رأيت صورة في منامي لم أرى أحسن منها فقال أبوها لو عرفت مكانه لطلبته لك ثم رأته في العام الثاني فقالت له بحق الذي صورك من أنت قال أنا لك فلا تختاري غيري فاستيقظت وقد تغير عقلها فقيدها أبوها بالحديد ثم رأته في العام الثالث فقالت بحق الذي صورك أين أنت قال بمصر فاستيقظت وقد صح عقلها فأخبرت أباها بذلك ففك القيد منها وأرسل إلى ملك مصر أن لي بنتا قد خطها الملوك وهي راغبة إليك فكتب إليه قد أردناها فجهزها أبوها بألف جارية وألف عبد وألف بعير وألف بغلة فلما دخلت مصر وتزوجها الملك بكت بكاء شديدا وسترت وجهها وقالت للخادم ليس هو الذي رأيته في المنام فقالت الجارية اصبري فلما رآها الملك افتتن بها وكان إذا أراد النوم معها مثل الله له جنية في صورتها وحفظها ليوسف فلما اجتمع بها وجدها بكرا كما حفظ آسية بنت مزاحم رضي الله عنها من فرعون لأنها من زوجات النبي صلى الله عليه وسلم في الجنة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پادشاه نے زليخا کو دیکھا ، تو اسکا عاشق ہوگیا اور جب بھی بادشاہ اسکے ساتھ سونے کا ارادہ کرتا، اللہ اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا اور اسے یوسف علیہ السلام کے لئے بچاکر رکھتا جب یوسف علیہ السلام نے اس سے شادی کی تو وہ باکرہ نکلیں اسی طرح آسیہ بن مزاحم کو فرعون سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ جنت میں زوجات رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں سے ہونگی ۔
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي 894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 262، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر:دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.

اور اہل سنت کے مطابق ہر وہ واقعات جو گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں وہ اس امت میں بھی ہونگے اس بناء پر اس احتمال کی بناء پر اللہ نے خلیفہ دوم کے پاس ام کلثوم کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجا ہو جس طرح آسیہ اور زلیخا کی جگہ جنیہ بھیجتا رہا ہے

0 comments:

Post a Comment