جب خليفه دوم کے اخلاق اور نسب کو دیکھتے ہوئے ام کلثوم سے مقائسہ کرتے
ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ دو ایک دوسرے کے لئے بالکل مناسب
نہیں تھے
امّ*كلثوم رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی بیٹی تھیں اور صدیقہ طاہرہ[سلام اللہ علیہا] کی گود میں پروان پائی اور جبکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق عمر کی دو تہائی زندگی کا حصہ بت پرستی میں گزرا اور انھوں نے حنتمہ جیسی ماں کے دامن میں پرورش پائی۔
علماء اہل سنت نےعمر کے تلخ مزاج ، اخلاق سو ، اور ذاتی جھگڑالو پن کو صراحت سے نقل کیا ہے جبکہ ام کلثوم ایک چھوٹی معصوم بچی اور اس خاندان سے تھیں جس کے اخلاق اور آداب اسلامی تمام بشریت کے لئے اسوہ ِعمل ہیں :
انکے نزدیک شادی کے وقت امّ*كلثوم محتاط اندازے کے مطابق ۷ یا ۸ سال سے زیادہ کی نہیں تھیں جبکہ خلیفہ دوم کی عمر کم سے کم ۵۷ سال تھی ، ان دو میں کیا ملاپ ہے؟
ہم دونوں میں ملاپ اور سنخیت نہ ہونے اور عمر کا ام کلثوم کے کفو نہ ہونے کی اہل سنت کی جہت سے تحقیق کرینگے ۔
غير هاشمي، هاشمي کا کفو نہیں ہے :
[اگرچہ اس بات میں شیعہ حضرات کے اندر متعدد رائے ہوں لیکن اس بات میں کہ عمر ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اور اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے موزوں نہیں تھی ،بلاشبہ شیعہ کے اندر دو رائے نہیں ہے ، جبکہ ہم اس بات کو اہل سنت کے جہت سے بیان کر رہے اور وہ شادی بھی کروانے والے ہیں پس شادی کروانے والے پر لازم ہے کہ اپنے مذھب کے مطابق شادی کی شرائط کا خیال رکھے]
بعض علماء اہل سنت نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ شادی میں تناسب دینی اور نسبی کا ہونا ضروری ہے اور غیر قریشی، قریشی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ہاشمی ، ہاشمی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ بنی ہاشم کو رسول خدا صلى الله عليه وآله کی وجہ سے برتری حاصل ہے اور کوئی بھی قوم اس قوم کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔
یہی وجہ تھی اميرمؤمنین عليه السلام نے فرمایا :میں نے اپنی بیٹیوں کو جعفر کے بیٹوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔
أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ.
عمر بن خطاب،نے علي بن ابى طالب [علیہ السلام ]سے انکی بیٹی ام کلثوم کی خواستگاری کی تو فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو صرف جعفر کے بیٹوں سے شادی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي 227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، ح520، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر:الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
بجيرمى شافعى، (متوفى 1221هـ) نے واضح طور پر کہا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے عمر اور ابوبکر سے رشتہ سے انکار ان دونوں کا اہل بیت کی عورت کے کفو نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا ۔
وفي شرح الخصائص: وخُصّ أن آله لا يكافئهم في النكاح أحد من الخلق وأما تزويج فاطمة لعليّ، فقيل: إنه لم يكن إذ ذاك كفؤاً لها سواه... وزوّجت له بأمر الله لما رواه الطبراني عن ابن مسعود: أنه لما خطبها منه أبو بكر وعمر ردهما وقال: ( إن الله أمرني أن أُزَوّج فاطِمَةَ مِنْ عَليّ ) وزوجها له في غيبته على المختار ويمكن أنه وكل واحداً في قبول نكاحه فلما جاء أخبره بأن الله تعالى أخبره بذلك فقال رضيت.
شرح خصائص میں موجود ہے کہ پيامبر (صلى الله عليه وآله کی خصوصیات میں سے )* انکے گھر والوں سے کوئی بھی شادی کرنے میں کفو نہیں ہے اور فاطمہ [سلام اللہ علیہا] اور علی [علیہ السلام ] کی شادی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ علی [علیہ السلام ] کے علاوہ کوئی دوسرا انکا کفو نہیں تھا ۔۔۔ ان دونوں کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی اس لئے طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ : جب ابوبکر اور عمر نے رسول خدا صلى الله عليه وآله سے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کا رشتہ مانگا تو آپ [ص] نے رد کردیا اور فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی شادی علی [علیہ السلام] سے کردوں۔۔۔۔۔
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج 4، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1417هـ ـ 1996م، الطبعة: الأولى.
اور حاشيه منهج الطلاب میں لکھا ہوا ہے کہ:
فَالنَّسَبُ مُعْتَبَرٌ بِالْآبَاءِ إلَّا أَوْلَادُ بَنَاتِهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ يُنْسَبُونَ إلَيْهِ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ ح ل ( قَوْلُهُ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ) فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى بَعْضِ الْمُدَّعَى وَهُوَ قَوْلُهُ وَلَا غَيْرُ هَاشِمِيٍّ وَمُطَّلِبِيٍّ كُفُؤًا لَهُمَا.
نسب صرف باپ کا معیار ہے ؛ لیکن صرف پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیٹیوں کی اولاد کا نسب آپ کا نسب کہلتاہے اس لئے کہ انکی بیٹیوں کی اولاد آپ سے منسوب ہیں اور آپ کے نسب سے کہلاتے ہیں پس انکا کوئی بھی کفو نہیں ہےاور قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ۔۔ [مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب کیا ] اس قول میں بعض مدعی پر دلالت موجود ہے یعنی غیر ہاشمی ، ہاشمی کا اور غیر مطلّبی، مطلّبی کفو نہیں ہے !
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، حاشية البجيرمي على منهج الطلاب، ج 3، ص 417، ناشر: المكتبة الإسلامية - ديار بكر – تركيا.
بجيرمى کے کلام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے کفو نہیں اسی لئے آپ ص نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عمر اور ابوبکر کو نہیں دی ۔ تو کیا علی علیہ السلام اس سنت کے برخلاف عمل کرتے ؟
مقدسى حنبلى نے احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے :
وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے قریشی کا غیر قریشی اور ہاشمی کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے اس قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی وجہ سے کہ فرمایا : اللہ نے نسل اسماعیل میں کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
شهاب الدين قليوبى نے صراحت سے کہا بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے :
قوله: ( وبنو هاشم إلخ ) نعم الأشراف الأحرار منهم لا يكافئهم غيرهم، وخرج بالأحرار ما لو تزوج هاشمي برقيقة بشرطه، وولدت بنتا فهي مملوكة لسيد الأمة وله تزويجها برقيق ودنيء النسب وإن كانت هاشمية لأن تزويجها بالملكية، ولذلك لو زوجها السلطان بذلك لم يصح.
آزاد بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشيتان. قليوبي: على شرح جلال الدين، المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
کیا نسب ِعمر اور ام کلثوم میں مقائسہ ہوسکتا ہے کیا صھاک کا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اور حنتمہ کا حضرت زہرا [سلام اللہ علیہا ]سےجو اہل جنت کی سردار ہیں ، مقائسہ ہو سکتا ہے ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ؟ کیا خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے برابر ہوسکتا ہے ؟
امّ*كلثوم کو اميرمؤمنین علی علیہ السلام کی بیٹی مان لیں تو کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عمر انکے کفو تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب بھی نسبی کفو کو شادی کے لئے شرط مانتے ہیں اور پست نسب کو اصیل نسب لڑکی سے شادی سے منع کرتے تھے ۔
سرخسى حنفى بزرگ عالم اهل سنت نے كتاب المبسوط میں لکھا ہے :
وبلغنا عن عمر رضي الله عنه أنه قال لأمنعن النساء فروجهن الا من الأكفاء... وفيه دليل أن الكفاءة في النكاح معتبرة.
عمر کی ہم تک روایت پہنچی ہے کہ : میں کسی بھی عورت کی شادی نہیں ہونے دونگا مگر اسکے کفو سے ۔۔۔ پس اس قول میں دلیل موجود ہے کہ نکاح میں کفو ہونا لازم ہے ۔
السرخسي، شمس الدين أبو بكر محمد بن أبى سهل (متوفي483هـ)، المبسوط، ج 4، ص 196، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
اور عبد الرزاق صنعانى نے بھی یہی بات لکھی ہے :
عن إبراهيم بن محمد بن طلحة قال قال عمر بن الخطاب لأمنعن فروج ذوات الأحساب إلا من الأكفاء.
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 152، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 96؛
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 26، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.
السيواسي، كمال الدين محمد بن عبد الواحد (متوفاي681هـ)، شرح فتح القدير، ج 3، ص 292، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الثانية.
ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 19، ص 28، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.
کیا خليفه دوم بھی اس قانون کے پاسدار تھے ؟ کیا خليفه دوم اور امّ*كلثوم میں تناسب سن اور تناسب اور کفائت نسبی کا لحاظ رکھا گیا تھا ؟
عمر ، ام كلثوم کے سن میں ہم کفو نہیں تھے :
خود خليفه دوم ، جوان عورتوں کی بوڑھے مردوں سے شادی کے خلاف تھے
سعيد بن منصور نےسنن میں لکھتے ہیں:
أُتِيَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِامْرَأَةٍ شَابَّةٍ زَوَّجُوهَا شَيْخَاً كَبِيرَاً فَقَتَلَتْهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ، وَلْيَنْكَحِ الرَّجُلُ لُمَّتَهُ مِنَ النسَاءِ، وَلْتَنْكَحِ المَرْأَةُ لُمَّتَهَا مِنَ الرجَالِ يَعْنِي شِبْهَهَا
عمر بن خطاب کے پاس ایک ایسی جوان عورت کو لایا گیا تھا جس کی شادی ایک بوڑھے سے کر دی گئی تھی جو اسی جوان عورت کے ہاتھ قتل ہوا ۔ عمر نے کہا اللہ سے ڈرو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہم کفو سے شادی کرے اسی طرح عورت بھی ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 243، ح809، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 263
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الإفصاح عن أحاديث النكاح، ج 1، ص 32، تحقيق: محمد شكور أمرير المياديني، ناشر: دار عمار - عمان - الأردن، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
کیا عمر اور ام کلثوم میں سن کا لحاظ رکھا گیا ہے ؟
اهل سنت کے نقل کے مطابق یہ شادی ۱۷ ہجری کو ہوئی ہے جیسا کہ ابن اثیر جزری نے لکھا ہے :
وفيها أعني سنة سبع عشرة... تزوج عمر أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي ابنة فاطمة بنت رسول الله ودخل في ذي القعدة.
۱۷ ہجری میں عمر نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب [علیہ السلام ] و بنت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]۔۔۔۔۔۔۔ سے شادی کی اور ذیقعدہ میں زفاف کیا !
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 382، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص215 ـ 220، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 111
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص236 ـ 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
امّ*كلثوم نبى مكرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوئیں اور نکاح کے وقت انکی عمر ۷ یا ۸ سال سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں بھی اشارہ کیا ہے
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
عمر نے امّ*كلثوم سے شادی کی جبکہ وہ نابالغ لڑکی تھیں.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
دوسری طرف عمر بن خطاب ۲۳ ہجری میں قتل ہوئے اور قتل کے وقت 63 سال کے تھے پس 17 ہجری میں شادی کے وقت 57 سال کے تھے یعنی عمر اور ام کلثوم میں 50 سال کا فرق تھا ۔
ہمارا اہل سنت کے نام نہاد علماء سے سوال ہے کہ 7 سالہ ام کلثوم اور 57 سالہ عمر بن خطاب میں کیا میل اور ملاپ تھا ؟
جبکہ عمر اور ابوبکر نے ان ہی کی والدہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان دونوں کو عمر[سن] کے فرق کی وجہ سے رد کردیا تھا ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور نسائى نے سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
ابوبكر اور عمرنے فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے کہا : فاطمه [سلام اللہ علیہا]چھوٹی ہیں ، [لیکن]اسکے فورا بعد علی [عليه السلام] نے خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کروادی۔
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986
کیا یہ عمر[سن] کا فرق اتنے سال گزرنے کے بعد حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سب سے چھوٹی بیٹی میں اور شیخین میں ختم ہوگیا ہے ؟
اميرمؤمنین عليه السلام، چونکہ اس شادی کے مخالف تھے اور وہ ہی پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم کے کلمات کو دھرایا جو آپ صلی اللہ علیہ ّ آلہ نے حضرت سیدہ[سلام اللہ علیہا] کی خواستگاری کے موقعہ پر ارشاد فرمائے تھے کہ وہ چھوٹی ہیں
ہم تو ان سے یہی سوال کر سکتے ہیں کہ 57 سالہ بوڑھے اور 7 سالہ نا بالغ بچی میں کیا ربط ہے؟ روايات اهل سنت، کے مطابق خليفه دوم دوسرے کے لئے تو عمر[سن] کے تناسب کو لازم قرار دیتے ہیں اور بڈھے کو جوان عورت سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ہی اس قانون کے پابند نہیں ہیں اور بڑھاپے میں ایک نابالغ سے شادی کرتے ہیں ۔؟ یہ تو اس محاورہ کا مصداق قرار پائے گا ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“؟
کیا یہ عمل اس آیت کا مصداق نہیں ہے ؟:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبرِِّ وَ تَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَ أَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَلا تَعْقِلُون البقرة /44.
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔۔۔ ۔
عمر، اخلاقي صلاحيت نہیں رکھتے ہیں ام کلثوم سے شادی کرنے کے لئے :
یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی لخت جگر کو بد اخلاق اور جسور شخص کو نہیں دے گا دوسری طرف عمر بن خطاب کا شدت پسندی کا اخلاق لوگوں میں خصوصا انکے خاندان میں مشہور تھا اسی بد اخلاقی کی وجہ سے انکی متعدد خواستگاریاں رد کر دی گئیں تھیں چونکہ ہم نے مقاله http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=128'> آيت محمد رسول اللہ کی تحقیق میں تفصیل سے بحث کی ہے یہاں ان مطالب کو نہیں دھرائیں گے فقط چند مطالب کو بطور مثال مختصر بیان کرتے ہیں :
عتبہ کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار ،انکی تلخ مزاجی کی وجہ سے :
بلاذرى، طبرى، ابن اثير اور ابن كثير کے نقل کے مطابق جب یزید بن ابوسفیان اس دنیا سے چلا گیا توعمر نے اس کی بیوی ام ربان بن عتبہ سے خواستگاری کی اس نے قبول نہیں کیا اور اسکی علت اس طرح بیان کی :
لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.
عمر بن خطاب عبوس اور تلخ مزاج ہے جب گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے ہوئے بد مزاج اور تلخ اخلاق رکھتا ہے گھر کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے [ اور بیویوں کو گھر سے نکل کی جازت نہیں دیتا ہے ] اور اس کی نیکی بہت کم ہے [اپنے عیال کی ضروریات پوری نہیں کرتا ہے ] ۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
ابو بكر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار انکی بد اخلاقی کی وجہ سے:
وہ افراد جن کی کوشش ہے کہ عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم بنت علی[علیہ السلام] سے ثابت کریں ناکہ ابوبکر کی بیٹی سے اس کی وجہ عمر کی ذاتی شدت پسندی اور تلخ مزاجی کو علت قرار دیتے ہیں :
ابن عبدالبر، کے مطابق امّ*كلثوم بنت ابوبكر نے اپنی بہن عائشه سے کہا :
تم کیا یہ چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جس کا اخلاق بہت برا اور شدت پسند ہے کیا میں اسکے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟
پھر مزید کہتی ہیں :
والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به
اللہ کی قسم اگر تم نے یہ کام کیا تو میں قبر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم پر جاکر اور[بطور احتجاج] وہاں نال و فریاد کرونگی ۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
ملاحظہ کیجئے ام کلثوم بنت ابوبکر جیسی ایک کم سن بچی بھی عمر جو خلیفہ مسلمین ہیں اور انکے والد کے قریب ترین دوست ہیں پھر بھی عمر سے شادی پر آمادہ نہیں ہے :
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام عمر کی یہ صفات ناپسندیدہ اور اخلاق سوء کو نظر انداز کر دیں ؟ اور اپنی پارہ جگر کو جو کم سن بھی ہے عمر کے حوالے کردیں ؟
عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتے ہیں :
عمر کی ایک بری صفت یہ بھی تھی کہ ہمیشہ اپنی بیوی کی پٹائی کیا کرتے تھے ۔ ابن ماجہ نے سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لکھا ہے :
اشعث بن قيس سے نقل ہے وہ کہتا ہے :
ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.
ایک رات میں عمر کا مہمان تھا جب آدھی رات ہوگئی تو عمر نے اپنی بیوی کی پٹائی شروع کردی تب میں نے جاکر بچ بچاو کروایا اور دونوں کو الگ کردیا
جب عمر میرے پاس آئے تو کہا
فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.
اے اشعث! ایک قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہےاسے یاد رکھو وہ یہ ہے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا [ یعنی کیا شیر مادر کی طرح حلال ہے؟] ! ! ! ! !
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛
المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.
اسی روايت سے مشابہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے :
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا کوئی عاقل اپنی بیٹی کو ایسے شخص کو دے گا جو بیویوں کی پٹائی میں نام و شہرت رکھتا ہو ؟
عمر کی اخلاقی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اميرمؤمنین عليه السلام اپنی بیٹی ایسے شخص کو دے جو اس قدر بد اخلاق ہو اور جس کا نتیجہ روح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا باعث بنے ؟
عمر دینداری کے لحاظ سے ام کلثوم کے ہم کفو نہیں تھے :
اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،کفائت دینی بھی شادی کی شروط میں سے ہے.
أبو طالب مکی نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے کہ :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ] ہے تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
ابن قدامه مقدسى، فقيه حنابله نے تصریح کی ہے کہ كفائت ديني شادی کی شروط میں سے ہیں اور فاسق ، عفیفہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ کوئی قوم بھی بنی ہاشم کے ہم کفو نہیں ہوسکتی ہیں اور ان سے شادی کا حق نہیں رکھتی ہے :
فصل: والكفء ذو الدين والمنصب فلا يكون الفاسق كفءا لعفيفة لأنه مردود الشهادة... وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
دیندار اور منصب دار کفائت کا حامل ہے پس فاسق ،عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اس لئے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔۔ ۔ اور احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ غیر قریش، قریش کا کفو نہیں ہے اسی طرح بنی ہاشم کا غیر انکا کفو نہیں ہے ۔۔۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
استدلال ابن قدامه کی روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسلم نيشابورى نےصحيح میں وَاثِلَةَ بن الْأَسْقَعِ سے نقل کیا ہے ۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1782، ح2276، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب فَضْلِ نَسَبِ النبي صلى الله عليه وسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
امير مؤمنین (ع)، خليفه دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب، خائن و... جانتے ہیں :
ابن قدامه کے کلام کے مطابق، خليفه دوم کسی بھی صورت میں امير مؤمنین عليه السلام کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ عمر نہ بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی ام کلثوم کےدین میں ہم کفو ہیں
یہ کہ عمر بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن عمر ام کلثوم کے دینی لحاظ سے بھی کفو نہیں تھے اس کی دلیل اہل سنت کی صحیح السند روایات ہیں اگرچہ یہ لوگ ان مطالب کو قبول کرنے میں بہانہ تراشی کرتے ہیں لیکن یہ بات واضح طور پر صحیح السند کے ساتھ موجود ہے جس کا شافی جواب آج تک دینے میں قاصر ہیں :
روايت اول (ظالم فاجر):
عبد الرزاق صنعانى نے سند صحيح سے خود خليفه دوم سے نقل کیا ہے وہ عباس اور علی علیہ السلام کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں :
ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر....
میں نے ابوبكر کے بعد دو سال حكومت کی اور ان دو سالوں میں وہی کیا جس پر رسول اللہ [ص] اور ابوبکر نے عمل کیا جبکہ تم دونوں مجھے ان دو سالوں میں ظالم اور فاجرو فاسق سمجھتے ہو ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
روايت دوم (كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا):
مسلم نيشابورى نے بھی عمر بن الخطاب سے صحيح میں نقل کیا ہے عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کو مخاطب کر کے کہا :
ثُمَّ تُوُفِّىَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَوَلِىُّ أَبِى بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِى كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.
ابوبكر،* کی موت کے بعد میں جانشين پيامبر[ص] و ابوبكر ہوں ، تم دونوں مجھے کذاب ، گناہگار ۔ مکار اور خائن اور غدار جانتے ہو۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
یہ امام علی علیہ السلام کاحقیقی نظریہ ہے جو خلیفہ اول اور دوم کے بارے میں تھا اس لئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے عمر کے کلام کا انکار نہیں کیااس طرح متعدد صحابہ موجود تھے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، زبير بن عوام، سعد بن أبى وقاص و... انھوں نے بھی اس کی نفی نہیں کی خصوصا یہ واقعہ عمر کی خلافت کے آخری سالوں کا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت اس زمانہ تک اپنے نظریہ پر ثابت قدم تھے ۔
اب کیا کوئی بھی عقلمند اپنی بیٹی کو کذاب ، خائن ، مکار ، اور فاسق کو دے گا ؟
صحيح*ترين اهل سنت کی كتاب بخاری میں موجود روایت کے مطابق منافق کی چار خصلتیں ہیں : کذاب ، خیانت کار ، مکار ، فاسق و فاجر ۔ گذشتہ اہل سنت کی دو روایت کے مطابق یہ چاروں صفات اور خصلتیں خلیفہ دوم میں موجود ہیں اور اسکی تائید امام علی علیہ السلام بھی کرتے ہیں :
حدثنا سُلَيْمَانُ أبو الرَّبِيعِ قال حدثنا إِسْمَاعِيلُ بن جَعْفَرٍ قال حدثنا نَافِعُ بن مَالِكِ بن أبي عَامِرٍ أبو سُهَيْلٍ عن أبيه عن أبي هُرَيْرَةَ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ وإذا أؤتمن خَانَ
حدثنا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ قال حدثنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن مَسْرُوقٍ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو أَنَّ النبي (ص) قال أَرْبَعٌ من كُنَّ فيه كان مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كانت فيه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كانت فيه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتى يَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ وإذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا عَاهَدَ غَدَرَ وإذا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ.
پيغمبر (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ منافق کی تین علامت ہیں جب بولے گا تو جھوٹ ، اور جب وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کریگا اور جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا !
رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہے کہ چار علامت ایسی ہیں کہ جس میں بھی یہ ہونگیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں صرف ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو وہ علامت نفاق شمار ہوئی مگر اس خصلت کو ترک کردے ۔ [وہ چار خصلت یہ ہیں ] جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا جب بولے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرےگا وعدہ خلافی کرے گا اور جب دشمنی کرے گا تو فسق و فجور کرے گا!
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 21، ح 33 و 34، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
پس کتب اہل سنت کی روایات صحیح السند کے مطابق خلیفہ دوم ان خصلتوں کے مالک تھے ۔اس بناء پر ہم سوال کرینگے کہ کیا منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کا ہم پلہ ہو سکتا ہے ؟ اور اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے مطابق عمر ام کلثوم کے کفو نہیں ہیں اور ان سے شادی نہیں کر سکتے ہیں۔
شراب خواري خليفه، کفو نہ ہونے کی دلیل :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق شرابی کو بیٹی دینا جائز نہیں ہے اور شرابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کام کیا ہو اس نے قطع رحمی کی ہے ۔
پہلے گزر گیا ہے کہ ابوطالب نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی ہے اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
عبد الرزاق صنعانى جو بخارى کے استاد شمار ہوتے ہیں ، نے المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن مسهر عن الشيباني عن حسان بن مخارق قال بلغني أن عمر بن الخطاب ساير رجلا في سفر وكان صائما فلما أفطر أهوى إلى قربة لعمر معلقة فيها نبيذ قد خضخضها البعير فشرب منها فسكر فضربه عمر الحد فقال له إنما شربت من قربتك فقال له عمر إنما جلدناك لسكرك.
عمر بن خطاب ایک روزہ دار شخص کے ہمراہ سفر پر تھے جب اس نے افطار کیا تو عمر کے مشکیزہ سے جس میں شراب تھی اور اونٹ نے اسے خوب ہلایا تھا ، اس سے پیا اور مست ہو گیا تب عمر نے اسے حد اور سزا دی تو اس روزہ دار نے کہا میں نے تو تمہارے ہی مشکیزہ سے پیا تھا تو عمر نے کہا میں نے تمہیں مست ہونے پر سزا دی ہے !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 502، ح28401، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
ابن عبد ربه نے عقد الفريد میں لکھا ہے :
وقال الشعبي شرب أعرابي من إداوة عمر فانتشى فحده عمر وإنما حده للسكر لا للشراب.
شعبى نے کہا ایک بدو نے عمر کی مشک سے پیا اور مست ہو گیا عمر نے اسے حد لگائی اور یہ مست ہونے کی وجہ سے تھی پینے کی وجہ سے نہیں تھی ۔!
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 382، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ عمر اگر شرابی نہیں تھے تو انکی مشک میں شراب کیا کر رہی تھی ؟ شاید اس حد کی وجہ عمر کی مشک کو خالی کرنے کی وجہ سے ہو ؟ [اس میں بہت سے اھم نکات ہیں جو اہل فہم پر مخفی نہیں ہیں ] جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہم نے تمام روایات کو اہل سنت کی کتب سے نا کہ شیعہ کتب سے نقل کیا ہے اب اہل سنت کے نام نہاد علماء پر لازم ہے کہ ان تمام کا شافی اور قانع کنندہ جواب دیں۔
بدعت گزار ، عفيفه لڑکی ، کا كفو نہیں ہے :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،دین میں بدعت*گزار ، مسلمان عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اور اس سے شادی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔
أبو طالب مكى نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
دوسری طرف خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کا احوال اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے
محمد بن اسماعيل بخارى نے صحيح میں لکھا ہے :
وَعَنْ بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عبد الرحمن بن عَبْدٍ القارىء أَنَّهُ قال خَرَجْتُ مع عُمَرَ بن الْخَطَّابِ رضي الله عنه لَيْلَةً في رَمَضَانَ إلى الْمَسْجِدِ فإذا الناس أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فقال عُمَرُ إني أَرَى لو جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ على قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ على أُبَيِّ بن كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ معه لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قال عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هذه وَالَّتِي يَنَامُونَ عنها أَفْضَلُ من التي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكان الناس يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبد الرحمن بن عبد*القارى سے روايت عمر رمضان کی ایک رات مسجد میں وارد ہوئے، وہاں لوگوں کو الگ الگ سنت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا
عمر نےکہا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا پھر اس کا عزم کر کے ان کو ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔ پھر دوسری رات عمر نے دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کیساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ، تو عمر نے کہاکہ یہ اچھی بدعت ہے!
یہ اس بات سے افضل ہے کہ لوگ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر عبادت کریں رات پہلے ہی پہر میں وہ عبادت کر لیں !
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 707، ح1906، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَاب فَضْلِ من قام رَمَضَانَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کی فہرست بہت طولانی ہے مزید اطلاع کے لئے کتابhttp://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=132'> النص والإجتهاد کی طرف رجوع کیا جائے مرحوم شرف الدین نے بہت خوبصورت اندازمیں ان مطالب کو بیان کیا ہے ۔
نتيجه:
بیان شدہ مطالب کے مطابق ، خلیفہ دوم کسی بھی صورت میں ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ علی علیہ السلام ان شرائط کو نظر انداز کر دیں اور اپنی بیٹی ایسے شخص سے بیاہ دیں جو کسی بھی صورت میں انکے ہم پلہ نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض محال کر لیا جائے یہ شادی امام علی علیہ السلام نے[ام کلثوم بنت ابوبکر کی یا خود ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ] کروائی تھی تب بھی مخالفین کا مدعی ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی داستان کی طرح ہے جب انھوں نے لوطی گناہگاروں کو پیش کش کی میری [قوم ] کی بیٹیوں سے شادی کر لو اور یہ پیش کش کرنا، ثابت نہیں کرتا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور لوطی جماعت کے تعلقات بہت اچھے تھے ؟
امّ*كلثوم رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی بیٹی تھیں اور صدیقہ طاہرہ[سلام اللہ علیہا] کی گود میں پروان پائی اور جبکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق عمر کی دو تہائی زندگی کا حصہ بت پرستی میں گزرا اور انھوں نے حنتمہ جیسی ماں کے دامن میں پرورش پائی۔
علماء اہل سنت نےعمر کے تلخ مزاج ، اخلاق سو ، اور ذاتی جھگڑالو پن کو صراحت سے نقل کیا ہے جبکہ ام کلثوم ایک چھوٹی معصوم بچی اور اس خاندان سے تھیں جس کے اخلاق اور آداب اسلامی تمام بشریت کے لئے اسوہ ِعمل ہیں :
انکے نزدیک شادی کے وقت امّ*كلثوم محتاط اندازے کے مطابق ۷ یا ۸ سال سے زیادہ کی نہیں تھیں جبکہ خلیفہ دوم کی عمر کم سے کم ۵۷ سال تھی ، ان دو میں کیا ملاپ ہے؟
ہم دونوں میں ملاپ اور سنخیت نہ ہونے اور عمر کا ام کلثوم کے کفو نہ ہونے کی اہل سنت کی جہت سے تحقیق کرینگے ۔
غير هاشمي، هاشمي کا کفو نہیں ہے :
[اگرچہ اس بات میں شیعہ حضرات کے اندر متعدد رائے ہوں لیکن اس بات میں کہ عمر ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اور اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے موزوں نہیں تھی ،بلاشبہ شیعہ کے اندر دو رائے نہیں ہے ، جبکہ ہم اس بات کو اہل سنت کے جہت سے بیان کر رہے اور وہ شادی بھی کروانے والے ہیں پس شادی کروانے والے پر لازم ہے کہ اپنے مذھب کے مطابق شادی کی شرائط کا خیال رکھے]
بعض علماء اہل سنت نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ شادی میں تناسب دینی اور نسبی کا ہونا ضروری ہے اور غیر قریشی، قریشی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ہاشمی ، ہاشمی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ بنی ہاشم کو رسول خدا صلى الله عليه وآله کی وجہ سے برتری حاصل ہے اور کوئی بھی قوم اس قوم کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔
یہی وجہ تھی اميرمؤمنین عليه السلام نے فرمایا :میں نے اپنی بیٹیوں کو جعفر کے بیٹوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔
أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ.
عمر بن خطاب،نے علي بن ابى طالب [علیہ السلام ]سے انکی بیٹی ام کلثوم کی خواستگاری کی تو فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو صرف جعفر کے بیٹوں سے شادی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي 227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، ح520، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر:الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
بجيرمى شافعى، (متوفى 1221هـ) نے واضح طور پر کہا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے عمر اور ابوبکر سے رشتہ سے انکار ان دونوں کا اہل بیت کی عورت کے کفو نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا ۔
وفي شرح الخصائص: وخُصّ أن آله لا يكافئهم في النكاح أحد من الخلق وأما تزويج فاطمة لعليّ، فقيل: إنه لم يكن إذ ذاك كفؤاً لها سواه... وزوّجت له بأمر الله لما رواه الطبراني عن ابن مسعود: أنه لما خطبها منه أبو بكر وعمر ردهما وقال: ( إن الله أمرني أن أُزَوّج فاطِمَةَ مِنْ عَليّ ) وزوجها له في غيبته على المختار ويمكن أنه وكل واحداً في قبول نكاحه فلما جاء أخبره بأن الله تعالى أخبره بذلك فقال رضيت.
شرح خصائص میں موجود ہے کہ پيامبر (صلى الله عليه وآله کی خصوصیات میں سے )* انکے گھر والوں سے کوئی بھی شادی کرنے میں کفو نہیں ہے اور فاطمہ [سلام اللہ علیہا] اور علی [علیہ السلام ] کی شادی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ علی [علیہ السلام ] کے علاوہ کوئی دوسرا انکا کفو نہیں تھا ۔۔۔ ان دونوں کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی اس لئے طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ : جب ابوبکر اور عمر نے رسول خدا صلى الله عليه وآله سے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کا رشتہ مانگا تو آپ [ص] نے رد کردیا اور فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی شادی علی [علیہ السلام] سے کردوں۔۔۔۔۔
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج 4، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1417هـ ـ 1996م، الطبعة: الأولى.
اور حاشيه منهج الطلاب میں لکھا ہوا ہے کہ:
فَالنَّسَبُ مُعْتَبَرٌ بِالْآبَاءِ إلَّا أَوْلَادُ بَنَاتِهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ يُنْسَبُونَ إلَيْهِ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ ح ل ( قَوْلُهُ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ) فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى بَعْضِ الْمُدَّعَى وَهُوَ قَوْلُهُ وَلَا غَيْرُ هَاشِمِيٍّ وَمُطَّلِبِيٍّ كُفُؤًا لَهُمَا.
نسب صرف باپ کا معیار ہے ؛ لیکن صرف پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیٹیوں کی اولاد کا نسب آپ کا نسب کہلتاہے اس لئے کہ انکی بیٹیوں کی اولاد آپ سے منسوب ہیں اور آپ کے نسب سے کہلاتے ہیں پس انکا کوئی بھی کفو نہیں ہےاور قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ۔۔ [مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب کیا ] اس قول میں بعض مدعی پر دلالت موجود ہے یعنی غیر ہاشمی ، ہاشمی کا اور غیر مطلّبی، مطلّبی کفو نہیں ہے !
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، حاشية البجيرمي على منهج الطلاب، ج 3، ص 417، ناشر: المكتبة الإسلامية - ديار بكر – تركيا.
بجيرمى کے کلام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے کفو نہیں اسی لئے آپ ص نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عمر اور ابوبکر کو نہیں دی ۔ تو کیا علی علیہ السلام اس سنت کے برخلاف عمل کرتے ؟
مقدسى حنبلى نے احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے :
وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے قریشی کا غیر قریشی اور ہاشمی کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے اس قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی وجہ سے کہ فرمایا : اللہ نے نسل اسماعیل میں کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
شهاب الدين قليوبى نے صراحت سے کہا بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے :
قوله: ( وبنو هاشم إلخ ) نعم الأشراف الأحرار منهم لا يكافئهم غيرهم، وخرج بالأحرار ما لو تزوج هاشمي برقيقة بشرطه، وولدت بنتا فهي مملوكة لسيد الأمة وله تزويجها برقيق ودنيء النسب وإن كانت هاشمية لأن تزويجها بالملكية، ولذلك لو زوجها السلطان بذلك لم يصح.
آزاد بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشيتان. قليوبي: على شرح جلال الدين، المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.
کیا نسب ِعمر اور ام کلثوم میں مقائسہ ہوسکتا ہے کیا صھاک کا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اور حنتمہ کا حضرت زہرا [سلام اللہ علیہا ]سےجو اہل جنت کی سردار ہیں ، مقائسہ ہو سکتا ہے ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ؟ کیا خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے برابر ہوسکتا ہے ؟
امّ*كلثوم کو اميرمؤمنین علی علیہ السلام کی بیٹی مان لیں تو کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عمر انکے کفو تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب بھی نسبی کفو کو شادی کے لئے شرط مانتے ہیں اور پست نسب کو اصیل نسب لڑکی سے شادی سے منع کرتے تھے ۔
سرخسى حنفى بزرگ عالم اهل سنت نے كتاب المبسوط میں لکھا ہے :
وبلغنا عن عمر رضي الله عنه أنه قال لأمنعن النساء فروجهن الا من الأكفاء... وفيه دليل أن الكفاءة في النكاح معتبرة.
عمر کی ہم تک روایت پہنچی ہے کہ : میں کسی بھی عورت کی شادی نہیں ہونے دونگا مگر اسکے کفو سے ۔۔۔ پس اس قول میں دلیل موجود ہے کہ نکاح میں کفو ہونا لازم ہے ۔
السرخسي، شمس الدين أبو بكر محمد بن أبى سهل (متوفي483هـ)، المبسوط، ج 4، ص 196، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
اور عبد الرزاق صنعانى نے بھی یہی بات لکھی ہے :
عن إبراهيم بن محمد بن طلحة قال قال عمر بن الخطاب لأمنعن فروج ذوات الأحساب إلا من الأكفاء.
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 152، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 96؛
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 26، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.
السيواسي، كمال الدين محمد بن عبد الواحد (متوفاي681هـ)، شرح فتح القدير، ج 3، ص 292، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الثانية.
ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 19، ص 28، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.
کیا خليفه دوم بھی اس قانون کے پاسدار تھے ؟ کیا خليفه دوم اور امّ*كلثوم میں تناسب سن اور تناسب اور کفائت نسبی کا لحاظ رکھا گیا تھا ؟
عمر ، ام كلثوم کے سن میں ہم کفو نہیں تھے :
خود خليفه دوم ، جوان عورتوں کی بوڑھے مردوں سے شادی کے خلاف تھے
سعيد بن منصور نےسنن میں لکھتے ہیں:
أُتِيَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِامْرَأَةٍ شَابَّةٍ زَوَّجُوهَا شَيْخَاً كَبِيرَاً فَقَتَلَتْهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ، وَلْيَنْكَحِ الرَّجُلُ لُمَّتَهُ مِنَ النسَاءِ، وَلْتَنْكَحِ المَرْأَةُ لُمَّتَهَا مِنَ الرجَالِ يَعْنِي شِبْهَهَا
عمر بن خطاب کے پاس ایک ایسی جوان عورت کو لایا گیا تھا جس کی شادی ایک بوڑھے سے کر دی گئی تھی جو اسی جوان عورت کے ہاتھ قتل ہوا ۔ عمر نے کہا اللہ سے ڈرو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہم کفو سے شادی کرے اسی طرح عورت بھی ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 243، ح809، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 263
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الإفصاح عن أحاديث النكاح، ج 1، ص 32، تحقيق: محمد شكور أمرير المياديني، ناشر: دار عمار - عمان - الأردن، الطبعة: الأولى، 1406هـ.
کیا عمر اور ام کلثوم میں سن کا لحاظ رکھا گیا ہے ؟
اهل سنت کے نقل کے مطابق یہ شادی ۱۷ ہجری کو ہوئی ہے جیسا کہ ابن اثیر جزری نے لکھا ہے :
وفيها أعني سنة سبع عشرة... تزوج عمر أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي ابنة فاطمة بنت رسول الله ودخل في ذي القعدة.
۱۷ ہجری میں عمر نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب [علیہ السلام ] و بنت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]۔۔۔۔۔۔۔ سے شادی کی اور ذیقعدہ میں زفاف کیا !
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 382، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص215 ـ 220، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 111
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص236 ـ 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
امّ*كلثوم نبى مكرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوئیں اور نکاح کے وقت انکی عمر ۷ یا ۸ سال سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں بھی اشارہ کیا ہے
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
عمر نے امّ*كلثوم سے شادی کی جبکہ وہ نابالغ لڑکی تھیں.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.
دوسری طرف عمر بن خطاب ۲۳ ہجری میں قتل ہوئے اور قتل کے وقت 63 سال کے تھے پس 17 ہجری میں شادی کے وقت 57 سال کے تھے یعنی عمر اور ام کلثوم میں 50 سال کا فرق تھا ۔
ہمارا اہل سنت کے نام نہاد علماء سے سوال ہے کہ 7 سالہ ام کلثوم اور 57 سالہ عمر بن خطاب میں کیا میل اور ملاپ تھا ؟
جبکہ عمر اور ابوبکر نے ان ہی کی والدہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان دونوں کو عمر[سن] کے فرق کی وجہ سے رد کردیا تھا ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور نسائى نے سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
ابوبكر اور عمرنے فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے کہا : فاطمه [سلام اللہ علیہا]چھوٹی ہیں ، [لیکن]اسکے فورا بعد علی [عليه السلام] نے خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کروادی۔
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986
کیا یہ عمر[سن] کا فرق اتنے سال گزرنے کے بعد حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سب سے چھوٹی بیٹی میں اور شیخین میں ختم ہوگیا ہے ؟
اميرمؤمنین عليه السلام، چونکہ اس شادی کے مخالف تھے اور وہ ہی پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم کے کلمات کو دھرایا جو آپ صلی اللہ علیہ ّ آلہ نے حضرت سیدہ[سلام اللہ علیہا] کی خواستگاری کے موقعہ پر ارشاد فرمائے تھے کہ وہ چھوٹی ہیں
ہم تو ان سے یہی سوال کر سکتے ہیں کہ 57 سالہ بوڑھے اور 7 سالہ نا بالغ بچی میں کیا ربط ہے؟ روايات اهل سنت، کے مطابق خليفه دوم دوسرے کے لئے تو عمر[سن] کے تناسب کو لازم قرار دیتے ہیں اور بڈھے کو جوان عورت سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ہی اس قانون کے پابند نہیں ہیں اور بڑھاپے میں ایک نابالغ سے شادی کرتے ہیں ۔؟ یہ تو اس محاورہ کا مصداق قرار پائے گا ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“؟
کیا یہ عمل اس آیت کا مصداق نہیں ہے ؟:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبرِِّ وَ تَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَ أَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَلا تَعْقِلُون البقرة /44.
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔۔۔ ۔
عمر، اخلاقي صلاحيت نہیں رکھتے ہیں ام کلثوم سے شادی کرنے کے لئے :
یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی لخت جگر کو بد اخلاق اور جسور شخص کو نہیں دے گا دوسری طرف عمر بن خطاب کا شدت پسندی کا اخلاق لوگوں میں خصوصا انکے خاندان میں مشہور تھا اسی بد اخلاقی کی وجہ سے انکی متعدد خواستگاریاں رد کر دی گئیں تھیں چونکہ ہم نے مقاله http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=128'> آيت محمد رسول اللہ کی تحقیق میں تفصیل سے بحث کی ہے یہاں ان مطالب کو نہیں دھرائیں گے فقط چند مطالب کو بطور مثال مختصر بیان کرتے ہیں :
عتبہ کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار ،انکی تلخ مزاجی کی وجہ سے :
بلاذرى، طبرى، ابن اثير اور ابن كثير کے نقل کے مطابق جب یزید بن ابوسفیان اس دنیا سے چلا گیا توعمر نے اس کی بیوی ام ربان بن عتبہ سے خواستگاری کی اس نے قبول نہیں کیا اور اسکی علت اس طرح بیان کی :
لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.
عمر بن خطاب عبوس اور تلخ مزاج ہے جب گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے ہوئے بد مزاج اور تلخ اخلاق رکھتا ہے گھر کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے [ اور بیویوں کو گھر سے نکل کی جازت نہیں دیتا ہے ] اور اس کی نیکی بہت کم ہے [اپنے عیال کی ضروریات پوری نہیں کرتا ہے ] ۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
ابو بكر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار انکی بد اخلاقی کی وجہ سے:
وہ افراد جن کی کوشش ہے کہ عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم بنت علی[علیہ السلام] سے ثابت کریں ناکہ ابوبکر کی بیٹی سے اس کی وجہ عمر کی ذاتی شدت پسندی اور تلخ مزاجی کو علت قرار دیتے ہیں :
ابن عبدالبر، کے مطابق امّ*كلثوم بنت ابوبكر نے اپنی بہن عائشه سے کہا :
تم کیا یہ چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جس کا اخلاق بہت برا اور شدت پسند ہے کیا میں اسکے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟
پھر مزید کہتی ہیں :
والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به
اللہ کی قسم اگر تم نے یہ کام کیا تو میں قبر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم پر جاکر اور[بطور احتجاج] وہاں نال و فریاد کرونگی ۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
ملاحظہ کیجئے ام کلثوم بنت ابوبکر جیسی ایک کم سن بچی بھی عمر جو خلیفہ مسلمین ہیں اور انکے والد کے قریب ترین دوست ہیں پھر بھی عمر سے شادی پر آمادہ نہیں ہے :
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام عمر کی یہ صفات ناپسندیدہ اور اخلاق سوء کو نظر انداز کر دیں ؟ اور اپنی پارہ جگر کو جو کم سن بھی ہے عمر کے حوالے کردیں ؟
عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتے ہیں :
عمر کی ایک بری صفت یہ بھی تھی کہ ہمیشہ اپنی بیوی کی پٹائی کیا کرتے تھے ۔ ابن ماجہ نے سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لکھا ہے :
اشعث بن قيس سے نقل ہے وہ کہتا ہے :
ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.
ایک رات میں عمر کا مہمان تھا جب آدھی رات ہوگئی تو عمر نے اپنی بیوی کی پٹائی شروع کردی تب میں نے جاکر بچ بچاو کروایا اور دونوں کو الگ کردیا
جب عمر میرے پاس آئے تو کہا
فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.
اے اشعث! ایک قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہےاسے یاد رکھو وہ یہ ہے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا [ یعنی کیا شیر مادر کی طرح حلال ہے؟] ! ! ! ! !
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛
المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.
اسی روايت سے مشابہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے :
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا کوئی عاقل اپنی بیٹی کو ایسے شخص کو دے گا جو بیویوں کی پٹائی میں نام و شہرت رکھتا ہو ؟
عمر کی اخلاقی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اميرمؤمنین عليه السلام اپنی بیٹی ایسے شخص کو دے جو اس قدر بد اخلاق ہو اور جس کا نتیجہ روح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا باعث بنے ؟
عمر دینداری کے لحاظ سے ام کلثوم کے ہم کفو نہیں تھے :
اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،کفائت دینی بھی شادی کی شروط میں سے ہے.
أبو طالب مکی نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے کہ :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ] ہے تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
ابن قدامه مقدسى، فقيه حنابله نے تصریح کی ہے کہ كفائت ديني شادی کی شروط میں سے ہیں اور فاسق ، عفیفہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ کوئی قوم بھی بنی ہاشم کے ہم کفو نہیں ہوسکتی ہیں اور ان سے شادی کا حق نہیں رکھتی ہے :
فصل: والكفء ذو الدين والمنصب فلا يكون الفاسق كفءا لعفيفة لأنه مردود الشهادة... وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
دیندار اور منصب دار کفائت کا حامل ہے پس فاسق ،عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اس لئے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔۔ ۔ اور احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ غیر قریش، قریش کا کفو نہیں ہے اسی طرح بنی ہاشم کا غیر انکا کفو نہیں ہے ۔۔۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.
استدلال ابن قدامه کی روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسلم نيشابورى نےصحيح میں وَاثِلَةَ بن الْأَسْقَعِ سے نقل کیا ہے ۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1782، ح2276، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب فَضْلِ نَسَبِ النبي صلى الله عليه وسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
امير مؤمنین (ع)، خليفه دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب، خائن و... جانتے ہیں :
ابن قدامه کے کلام کے مطابق، خليفه دوم کسی بھی صورت میں امير مؤمنین عليه السلام کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ عمر نہ بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی ام کلثوم کےدین میں ہم کفو ہیں
یہ کہ عمر بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن عمر ام کلثوم کے دینی لحاظ سے بھی کفو نہیں تھے اس کی دلیل اہل سنت کی صحیح السند روایات ہیں اگرچہ یہ لوگ ان مطالب کو قبول کرنے میں بہانہ تراشی کرتے ہیں لیکن یہ بات واضح طور پر صحیح السند کے ساتھ موجود ہے جس کا شافی جواب آج تک دینے میں قاصر ہیں :
روايت اول (ظالم فاجر):
عبد الرزاق صنعانى نے سند صحيح سے خود خليفه دوم سے نقل کیا ہے وہ عباس اور علی علیہ السلام کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں :
ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر....
میں نے ابوبكر کے بعد دو سال حكومت کی اور ان دو سالوں میں وہی کیا جس پر رسول اللہ [ص] اور ابوبکر نے عمل کیا جبکہ تم دونوں مجھے ان دو سالوں میں ظالم اور فاجرو فاسق سمجھتے ہو ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.
روايت دوم (كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا):
مسلم نيشابورى نے بھی عمر بن الخطاب سے صحيح میں نقل کیا ہے عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کو مخاطب کر کے کہا :
ثُمَّ تُوُفِّىَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَوَلِىُّ أَبِى بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِى كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.
ابوبكر،* کی موت کے بعد میں جانشين پيامبر[ص] و ابوبكر ہوں ، تم دونوں مجھے کذاب ، گناہگار ۔ مکار اور خائن اور غدار جانتے ہو۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
یہ امام علی علیہ السلام کاحقیقی نظریہ ہے جو خلیفہ اول اور دوم کے بارے میں تھا اس لئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے عمر کے کلام کا انکار نہیں کیااس طرح متعدد صحابہ موجود تھے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، زبير بن عوام، سعد بن أبى وقاص و... انھوں نے بھی اس کی نفی نہیں کی خصوصا یہ واقعہ عمر کی خلافت کے آخری سالوں کا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت اس زمانہ تک اپنے نظریہ پر ثابت قدم تھے ۔
اب کیا کوئی بھی عقلمند اپنی بیٹی کو کذاب ، خائن ، مکار ، اور فاسق کو دے گا ؟
صحيح*ترين اهل سنت کی كتاب بخاری میں موجود روایت کے مطابق منافق کی چار خصلتیں ہیں : کذاب ، خیانت کار ، مکار ، فاسق و فاجر ۔ گذشتہ اہل سنت کی دو روایت کے مطابق یہ چاروں صفات اور خصلتیں خلیفہ دوم میں موجود ہیں اور اسکی تائید امام علی علیہ السلام بھی کرتے ہیں :
حدثنا سُلَيْمَانُ أبو الرَّبِيعِ قال حدثنا إِسْمَاعِيلُ بن جَعْفَرٍ قال حدثنا نَافِعُ بن مَالِكِ بن أبي عَامِرٍ أبو سُهَيْلٍ عن أبيه عن أبي هُرَيْرَةَ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ وإذا أؤتمن خَانَ
حدثنا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ قال حدثنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن مَسْرُوقٍ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو أَنَّ النبي (ص) قال أَرْبَعٌ من كُنَّ فيه كان مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كانت فيه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كانت فيه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتى يَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ وإذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا عَاهَدَ غَدَرَ وإذا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ.
پيغمبر (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ منافق کی تین علامت ہیں جب بولے گا تو جھوٹ ، اور جب وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کریگا اور جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا !
رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہے کہ چار علامت ایسی ہیں کہ جس میں بھی یہ ہونگیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں صرف ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو وہ علامت نفاق شمار ہوئی مگر اس خصلت کو ترک کردے ۔ [وہ چار خصلت یہ ہیں ] جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا جب بولے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرےگا وعدہ خلافی کرے گا اور جب دشمنی کرے گا تو فسق و فجور کرے گا!
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 21، ح 33 و 34، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
پس کتب اہل سنت کی روایات صحیح السند کے مطابق خلیفہ دوم ان خصلتوں کے مالک تھے ۔اس بناء پر ہم سوال کرینگے کہ کیا منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کا ہم پلہ ہو سکتا ہے ؟ اور اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے مطابق عمر ام کلثوم کے کفو نہیں ہیں اور ان سے شادی نہیں کر سکتے ہیں۔
شراب خواري خليفه، کفو نہ ہونے کی دلیل :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق شرابی کو بیٹی دینا جائز نہیں ہے اور شرابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کام کیا ہو اس نے قطع رحمی کی ہے ۔
پہلے گزر گیا ہے کہ ابوطالب نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی ہے اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
عبد الرزاق صنعانى جو بخارى کے استاد شمار ہوتے ہیں ، نے المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن مسهر عن الشيباني عن حسان بن مخارق قال بلغني أن عمر بن الخطاب ساير رجلا في سفر وكان صائما فلما أفطر أهوى إلى قربة لعمر معلقة فيها نبيذ قد خضخضها البعير فشرب منها فسكر فضربه عمر الحد فقال له إنما شربت من قربتك فقال له عمر إنما جلدناك لسكرك.
عمر بن خطاب ایک روزہ دار شخص کے ہمراہ سفر پر تھے جب اس نے افطار کیا تو عمر کے مشکیزہ سے جس میں شراب تھی اور اونٹ نے اسے خوب ہلایا تھا ، اس سے پیا اور مست ہو گیا تب عمر نے اسے حد اور سزا دی تو اس روزہ دار نے کہا میں نے تو تمہارے ہی مشکیزہ سے پیا تھا تو عمر نے کہا میں نے تمہیں مست ہونے پر سزا دی ہے !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 502، ح28401، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
ابن عبد ربه نے عقد الفريد میں لکھا ہے :
وقال الشعبي شرب أعرابي من إداوة عمر فانتشى فحده عمر وإنما حده للسكر لا للشراب.
شعبى نے کہا ایک بدو نے عمر کی مشک سے پیا اور مست ہو گیا عمر نے اسے حد لگائی اور یہ مست ہونے کی وجہ سے تھی پینے کی وجہ سے نہیں تھی ۔!
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 382، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ عمر اگر شرابی نہیں تھے تو انکی مشک میں شراب کیا کر رہی تھی ؟ شاید اس حد کی وجہ عمر کی مشک کو خالی کرنے کی وجہ سے ہو ؟ [اس میں بہت سے اھم نکات ہیں جو اہل فہم پر مخفی نہیں ہیں ] جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہم نے تمام روایات کو اہل سنت کی کتب سے نا کہ شیعہ کتب سے نقل کیا ہے اب اہل سنت کے نام نہاد علماء پر لازم ہے کہ ان تمام کا شافی اور قانع کنندہ جواب دیں۔
بدعت گزار ، عفيفه لڑکی ، کا كفو نہیں ہے :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،دین میں بدعت*گزار ، مسلمان عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اور اس سے شادی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔
أبو طالب مكى نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
دوسری طرف خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کا احوال اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے
محمد بن اسماعيل بخارى نے صحيح میں لکھا ہے :
وَعَنْ بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عبد الرحمن بن عَبْدٍ القارىء أَنَّهُ قال خَرَجْتُ مع عُمَرَ بن الْخَطَّابِ رضي الله عنه لَيْلَةً في رَمَضَانَ إلى الْمَسْجِدِ فإذا الناس أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فقال عُمَرُ إني أَرَى لو جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ على قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ على أُبَيِّ بن كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ معه لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قال عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هذه وَالَّتِي يَنَامُونَ عنها أَفْضَلُ من التي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكان الناس يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبد الرحمن بن عبد*القارى سے روايت عمر رمضان کی ایک رات مسجد میں وارد ہوئے، وہاں لوگوں کو الگ الگ سنت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا
عمر نےکہا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا پھر اس کا عزم کر کے ان کو ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔ پھر دوسری رات عمر نے دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کیساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ، تو عمر نے کہاکہ یہ اچھی بدعت ہے!
یہ اس بات سے افضل ہے کہ لوگ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر عبادت کریں رات پہلے ہی پہر میں وہ عبادت کر لیں !
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 707، ح1906، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَاب فَضْلِ من قام رَمَضَانَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کی فہرست بہت طولانی ہے مزید اطلاع کے لئے کتابhttp://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=132'> النص والإجتهاد کی طرف رجوع کیا جائے مرحوم شرف الدین نے بہت خوبصورت اندازمیں ان مطالب کو بیان کیا ہے ۔
نتيجه:
بیان شدہ مطالب کے مطابق ، خلیفہ دوم کسی بھی صورت میں ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ علی علیہ السلام ان شرائط کو نظر انداز کر دیں اور اپنی بیٹی ایسے شخص سے بیاہ دیں جو کسی بھی صورت میں انکے ہم پلہ نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض محال کر لیا جائے یہ شادی امام علی علیہ السلام نے[ام کلثوم بنت ابوبکر کی یا خود ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ] کروائی تھی تب بھی مخالفین کا مدعی ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی داستان کی طرح ہے جب انھوں نے لوطی گناہگاروں کو پیش کش کی میری [قوم ] کی بیٹیوں سے شادی کر لو اور یہ پیش کش کرنا، ثابت نہیں کرتا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور لوطی جماعت کے تعلقات بہت اچھے تھے ؟
0 comments:
Post a Comment