Wednesday, February 18, 2015

افسانہ عقد ام کلثوم - تیسرا زاویہ : اس قضیہ کے نقل میں تعارض

اس شادی کے جھوٹ اور افسانہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل اس ماجری میں پائے جانے والا شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف اور تناقض اتنا زیادہ ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے انسان اسشادی کے صحیح ہونے میں شک کرتا ہے اور اسے اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ صرف ایک افسانہ ہے۔
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه اس تناقض اور اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:
والحديث بنفسه مختلف، فتارة يروى: أن أمير المؤمنين عليه السلام تولى العقد له على ابنته. وتارة يروى أن العباس تولى ذلك عنه. وتارة يروى: أنه لم يقع العقد إلا بعد وعيد من عمر وتهديد لبني هاشم. وتارة يروى أنه كان عن اختيار وإيثار.
ثم إن بعض الرواة يذكر أن عمر أولدها ولدا أسماه زيدا. وبعضهم يقول: إنه قتل قبل دخوله بها. وبعضهم يقول: إن لزيد بن عمر عقبا. ومنهم من يقول: إنه قتل ولا عقب له. ومنهم من يقول: إنه وأمه قتلا. ومنهم من يقول: إن أمه بقيت بعده. ومنهم من يقول: إن عمر أمهر أم كلثوم أربعين ألف درهم. ومنهم من يقول: مهرها أربعة آلاف درهم. ومنهم من يقول: كان مهرها خمسمائة درهم.
وبدو هذا الاختلاف فيه يبطل الحديث، فلا يكون له تأثير على حال.

خود اس روایت میں کافی اختلاف موجود ہے کبھی روایت کہتی ہے اس عقد ام کلثوم کی خود امام علی[ع] نےسرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے کہ عباس نے سرپرستی کی اور متولی ہوئے اور بعض میں کہا جاتا ہے یہ عقد اس وقت تک نہیں ہوا جب تک عمر نے دھمکیاں نہ دی اور بنی ہاشم کو جب تک ڈرایا اور دھمکایا نہ گیا اور بعض روایت میں ہے کہ یہ عقد اختیار اور میل باطنی سے ہوا ۔
بعض راوی کہتے ہیں کہ اس ام کلثوم سے عمر کی زید نامی اولاد ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر ام کلثوم سے شب زفاف سے پہلے ہی قتل کردیا گئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زید بن عمر کی بھی اولاد ہوئی او ر بعض کہتے ہیں زید کی اولاد نہ ہوئی بعض کہتے ہیں کہ زید بن عمر اور انکی ماں ام کلثوم ایک ساتھ مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ زید کی ماں اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہی بعض کہتے ہیں عمر نے ام کلثوم کا مہر چالیس ہزار درھم معین کیا اور بعض کہتے ہیں چار ہزار درھم اور بعض کہتے ہیں پانچ سو درھم مہر تھا اسی اختلاف حدیث کی وجہ سے یہ حدیث باطل ہوجاتی ہے اور اس روایت کا کوئی اثرو تاثیر باقی نہیں رہتی ہے۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 90، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.

چونکہ اختلاف بہت زیادہ ہے اور یہ مقالہ اس کی گنجائش نہیں رکھتا ہے فقط چند موارد کو اہل سنت کی دلیل سے بیان کرینگے ۔
1. ام كلثوم نے عمر کے بعد کس سے شادی کی ؟
اپل سنت یہ جانتے تھے کہ ام کلثوم عمر کے بعد زندہ رہی ہیں لہذا انکے لئے کافی شوہر گھڑے گئے ہیں ۔
اہل سنت میں سب سے پہلےجس نے اس افسانہ کو لکھا ہے وہ
محمد بن سعد زهرى ( متوفى 230هـ) ہے اس نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے اسکے دوسرے علماء اہل سنت کی طرح بغیر تناقض کو دیکھے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔

محمد بن سعد لکھتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي وأمها فاطمة بنت رسول الله وأمها خديجة بنت خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ فلم تزل عنده إلى أن قتل وولدت له زيد بن عمر ورقية بنت عمر ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها ثم خلف عليها أخوه محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب فتوفي عنها فخلف عليها أخوه عبد الله بن جعفر بن أبي طالب بعد أختها زينب بنت علي بن أبي طالب.

امّ*كلثوم، بنت علي بن أبى طالب[ع]... کہ انکی والدہ فاطمه بنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم تھی ...ان سے نابالغ سن میں عمر بن خطاب نے شادی کی اور وہ عمر کے قتل تک انکے پاس تھی اور ان سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمر پیدا ہوئی عمر کے بعد عون بن جعفر سے پھر محمد بن جعفر سے ام کلثوم نے شادی کی اور جب محمد بن جعفر بھی فوت کر گئے تو انکے بھائی عبد اللہ بن جفعر نے ام کلثوم کی بہن زینب کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ۔ ۔ ۔

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 178.

اس روایت میں آیا ہے کہ ام کلثوم نے عمر کے قتل کے بعد اپنے چچا زاد عون بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی محمد بن جعفر اور انکے بعد انکے بھائی عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن راوی نے روایت کرتے وقت یہ فراموش کردیا ہے کہ عون بن جعفر اور محمد بن جعفر دونوں جنگ شوشتر سال 16 یا 17 ہجری میں شہید ہوگئے تھے اور وہ عمر کے قتل سے پہلے خلیفہ دوم کی زندگی میں ہی شہید ہوگئے تھے یعنی دوسرا اور تیسرا شوہر پہلے شوہر سے قبل مر گئے !

ابن حجر نے الاصابه کہتے ہیں:

استشهد عون بن جعفر في تستر وذلك في خلافة عمر وما له عقب.
عون بن جعفر جنگ شوشتر میں زمان خلافت عمر میں شہید ہوئے اور انکی کوئی اولاد نہ تھی .
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 4، ص 744، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حجر عسقلانی اسی کتاب کے دوسرے مقام پر محمد بن جعفر کے احوال میں لکھتے ہیں :
محمد بن جعفر بن أبي طالب بن عبد المطلب... أنه كان يكنى أبا القاسم وأنه تزوج أم كلثوم بنت علي بعد عمر قال واستشهد بتستر.

محمد بن جعفر بن ابى طالب بن عبد المطلب...انکی كنيت او ابوالقاسم تھی انھوں نے عمر کے بعد ام کلثوم سے شادی کی اور وہ جنگ تستر میں شہید ہوئے!
العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 6، ص 7768، رقم: 7769، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
بڑوں سے یہ کہاوت چلی آئی ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا ہے اگر محمد بن جعفر اور عون بن جعفر جنگ تستر میں شہید ہوئے تو انھوں نے کیسے عمر کے بعد زندہ ہوکر ام کلثوم سے شادی کی ؟!

اس کے علاوہ ام کلثوم کی جناب زینب [س]کے شوہر عبد اللہ بن جعفر سے شادی ممکن نہیں ہے اور روایت کا مضمون دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا بنتا ہے اس لئے کہ حضرت زینب[س] واقعہ کربلا کے بعد تک زندہ اور عبد اللہ کی بیوی تھِیں ۔
اور یہ بھی نہیں ہو سکتا ہے کہ عبد اللہ نے زینب[س] کے بعد ام کلثوم سے شادی کی ہو اس لئے کہ ام کلثوم اہل سنت کے مطابق زمانہ امام حسن[س] میں مدینہ فوت ہوگئی تھیں اور اسکی دلیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ۔
بعض علماء اہل سنت اس جھوٹ کی طرف متوجہ ہوئے کہ ام کلثوم نے عون و محمد بن جعفر سے شادی ہونا تاریخ سے سازگار نہیں ہے لہذا ادعا کیا کہ ام کلثوم نے عمر کے بعد عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی ہے

ثم هلك عمر عن أم كلثوم فتزوجها عبد الله بن جعفر فلم تلد منه.
عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی لیکن کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔
الزبير بن بكار بن عبد الله بن مصعب الزبيري أبو عبد الله (متوفي256هـ)، المنتخب من كتاب أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، ج 1، ص 31، تحقيق: سكينة الشهابي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ.

جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے اس لئے اہل سنت اور شیعہ کا اتفاق ہے کہ
حضرت زينب سلام الله عليها نے زمانہ امير مؤمنین عليه السلام میں عبد الله بن جعفر سے شادی کی اور تا حیات انکی بیوی رہی ۔
.
2. عقد کے وقت ام کلثوم کا سن ۔
شادی کے وقت امّ*كلثوم کی عمر کے بارے میں اہل سنت کے علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے اور خلیفہ دو م کی آبرو رکھنے کے لئے ام کلثوم کو اتنا چھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے بوسہ دینا ، گلے لگانا اور حتی کہ پیر ننگے کرنا بھی انکے لئے حرام نہ رہے ۔

ابھی تک اس حد تک نہ پہنچی تھی کہ شہوت انگیز ہو:

ابن حجر هيثمى ، الصواعق المحرقه میں کہتے ہیں :
وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
بوسہ لینا اور گلے لگانا تکریم کی خاطر تھا اس لئے کہ وہ اس عمر کی نہیں ہوئی تھی کہ شہوت انگیز ہو حتی کہ عمر کے لئے ایسا کرنا حرام ہو !!!

الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.


چھوٹی اور نابالغ جو دوسری لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :

عبد الرزاق صنعانى اسے ایسی چھوٹی بچی کہا ہے جو دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی ہو :
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري....
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

محمد بن سعد زهرى، نے بھی نابالغ بچی لکھا ہے :
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.

اور دوسری روایت میں تو صبیہ یعنی بہت چھوٹی بچی لکھا ہے :
لما خطب عمر بن الخطاب إلى علي ابنته أم كلثوم قال يا أمير المؤمنين إنها صبية.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : اے امیر المومنین وہ تو بہت چھوٹی ہے [صبیہ ] ہے

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 464، ناشر: دار صادر بيروت.
ابن عساكر اور ابن جوزى نے بھی اسی مطلب کو نقل کیا ہے .
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 485، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

بلاذرى، ابن عبد البر، زمخشرى اور... نے کہا ہے کہ وہ عمر سے شادی کے وقت"صغیرہ" تھی

خطب عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي - رضي الله تعالى عنهم - فقال: إنها صغيرة.
جب عمر، نے امّ*كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ، تو علي (عليه السلام) نے فرمایا : وہ بہت چھوٹی ہے۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 296؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1954، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 468.

ابن جوزى نے کہا، یہ شادی 17 ہجری میں ہوئی اور عمر نے اس وقت شادی کہ جب وہ نابالغ تھیں :
وفي هذه السنة (17هـ) تزوج عمر رضي الله عنه أم كلثوم بنت علي رضي الله عنه... فزوجها إياه ولم تكن قد بلغت فدخل بها في ذي القعدة ثم ولدت له زيدا.
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.


10 سال یا اس سے زیادہ :


اور جب ام کلثوم کے لئے اولاد ثابت کرنا ہوتو انکی عمر اسی کے مطابق بتاتے ہیں اور انھیں 10 سال یا اس سے زیادہ کا بتاتے ہیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية أمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولدت في أواخر عهد النبي صلى الله عليه وسلم وتزوجها عمر بن الخطاب ولها عشر سنين أو أكثر فولدت له زيدا وماتت هي وابنها زيد في يوم واحد
ام کلثوم بنت علی [ع]اور بنت فاطمہ بنت رسول خدا [ص] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے آخری ایام زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے شادی کی شادی کے وقت انکی عمر 10سال یا اس سے زیادہ تھِی عمر کا ان سے بیٹا زید ہوا اور ماں بیٹا ایک ہی دن میں دنیا سے چلے گئے۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 211، 328، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.

ذهبى اپنی ایک کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ام کلثوم سال 6 هجرى میں پیدا ہوئی :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم الهاشمية شقيقة الحسن والحسين ولدت في حدود سنة ست من الهجرة ورأت النبي صلى الله عليه وسلم ولم ترو عنه شيئا. خطبها عمر بن الخطاب وهي صغيرة.

امّ*كلثوم بنت علي بن ابوطالب[ع]، خواهر حسن[ع] و حسين[ع]،* ۶ہجری میں پیدا ہوئیں انھوں نے رسول [ص]کو درک کیا لیکن آپ [ص] سے کوئی روایت نقل نہیں کی ہے عمر نے ان سے کمسنی میں خواستگاری کی ۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 500، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اگر ہم یا تو شادی کو اہل سنت کے نظریہ کے مطابق 17 یا 18 ہجری میں مانے یا پھر وہ گیارہ یا بارہ سال کی تھی مانے !!!
جب کہ ذھبی دوسرا مقام پر لکھتے ہیں کہ ام کلثوم رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوئی عمر نے ان سے جب شادی کی تو بہت چھوٹی اور صغیرہ تھیں :
أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب الهاشمية. ولدت في حياة جدها صلى الله عليه وسلم، وتزوجها عمر وهي صغيرة.
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 137، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.


اور ابن سعد کے مطابق جو گزر گیا کہ ام کلثوم یا صبیہ تھی یا نابالغ تھیں پس کیسے قبول کر سکتے ہیں سال 8 ہجری میں پیدا ہو ئی ہوں !!.

3. ام كلثوم کے مہر کی مقدار:
ام کلثوم کے مہر میں بھی اختلاف ہے بعض نے 10 ھزار دینار اور اکثرعلماء اہل سنت نے اس کی مقدار 40 ہزار درھم کہی ہے ۔
الف: دس هزار دينار:
يعقوبى تاریخ میں لکھا ہے :
فتزوجها وأمهرها عشرة آلاف دينار.
انکا مہر دس ہزار دینار تھا.
اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفاي292هـ، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص150، ناشر: دار صادر بيروت.

ب: 40 هزار دينار:
لما تزوج زينب بنت علي فانه أصدقها اربعين الف دينار.
الكتاني، الشيخ عبد الحي (متوفاي1382هـ)، نظام الحكومة النبوية المسمى التراتيب الإدراية، ج 2، ص 405، ناشر: دار الكتاب العربي بيروت.

ج: 40 هزار درهم:
اکثر علماء اہل سنت نے 40 ہزار درھم کہا ہے :
أن عمر تزوج أم كلثوم على أربعين ألف درهم
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 3، ص 494، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ؛
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
مہر کی مقدار میں اختلاف کےعلاوہ اس میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ اہل سنت کی صحیح السند روایت کے مطابق خود عمر نے زیادہ اور گراں مہر رکھنے سے منع کیا ہے
ابن ماجه قزوينى نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ ثنا يَزِيدُ بن هَارُونَ عن بن عَوْنٍ ح وحدثنا نَصْرُ بن عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ثنا يَزِيدُ بن زُرَيْعٍ ثنا بن عَوْنٍ عن مُحَمَّدِ بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ كان أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بها مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُثَقِّلُ صَدَقَةَ امْرَأَتِهِ حتى يَكُونَ لها عَدَاوَةٌ في نَفْسِهِ وَيَقُولُ قد كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أو عَرَقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ رَجُلًا عَرَبِيًّا مَوْلِدًا ما أَدْرِي ما عَلَقُ الْقِرْبَةِ أو عَرَقُ الْقِرْبَةِ.
عمر بن الخطاب کہتےہیں کہ عورتوں کے مہر گراں نہ رکھو اس لئے کہ اگر یہ دنیاوی یا خدا کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو تم سب میں اس کے حقدار محمد [ص]تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے اور اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا مہر بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا اور مرد اپنی بیوی کا مہر زیادہ رکھتا ہے پھر اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ (بیوی مطالبہ کرتی ہے اور یہ ادا نہیں کرسکتا) اور کہتا ہے میں نے تیرے لئے مشقت برداشت کی یہاں تک مشکیزہ کی رسی بھی اٹھانی پڑی یا مشک کے پانی کی طرح مجھے پسینہ آیا۔ ابوالعجفاء کہتے ہیں کہ میں اصل عرب نہ تھا بلکہ بائیں طور پر دوسرے علاقہ کا تھا اس لئے علق القربہ یا عرق القربہ کا مطلب نہیں سمجھا۔
!!!
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 607، ح1887، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت.

البانى نے اس روایت کو صحيح ابن ماجه شماره 1532 میں تصحيح کی ہے .
اور ابوداوود نے سنن میں لکھا ہے :
حدثنا محمد بن عُبَيْدٍ ثنا حَمَّادُ بن زَيْدٍ عن أَيُّوبَ عن مُحَمَّدٍ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ الله فقال ألا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها النبي صلى الله عليه وسلم ما أَصْدَقَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةً من نِسَائِهِ ولا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ من بَنَاتِهِ أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً
عمر نے کہا خبردار عورتوں کے بھاری بھر کم مہر مت ٹھہراؤ کیونکہ اگر یہ چیز دینا میں بزرگی اور اللہ کے نزدیک پرہیز گاری کا سبب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زائد مہر نہ اپنی کسی بیوی کا باندھا اور نہ کسی بیٹی کا۔

السجستاني الأزدي، سليمان بن الأشعث أبو داود (متوفاي275هـ)، سنن أبي داود، ج 2، ص 235، ح2106، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

البانى اس روايت کو صحيح ابى داوود شماره 1852 میں صحیح قرار دیا ہے .

اور ترمذى نے بھِی اس روایت کو نقل کرکے صحیح قرار دیا ہے :
حدثنا بن أبي عُمَرَ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ عن أبي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قال قال عُمَرُ بن الْخَطَّابِ ألا لَا تُغَالُوا صَدُقَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لو كانت مَكْرُمَةً في الدُّنْيَا أو تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بها نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ما عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَكَحَ شيئا من نِسَائِهِ ولا أَنْكَحَ شيئا من بَنَاتِهِ على أَكْثَرَ من ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً.
قال أبو عِيسَى هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وأبو الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ هَرِمٌ وَالْأُوقِيَّةُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا وَثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً أربعمائة وَثَمَانُونَ دِرْهَمًا
الترمذي السلمي، محمد بن عيسى أبو عيسى (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج 3، ص 422، ح1114، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

اور سيوطى نے جامع الأحاديث میں لکھا ہے :
عن مسروقٍ قَالَ: رَكِبَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ المِنْبَرَ ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ مَا إِكْثَارُكُمْ في صِدَاقِ النسَاءِ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ وَإِنَّمَا الصدَاقُ فِيمَا بَيْنَهُمْ أَرْبَعُمَائَةُ دِرْهَمٍ فَمَا دُونَ ذالِكَ، فَلَوْ كَانَ الإِكْثَارُ في ذالِكَ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ أَوْ مَكْرُمَةً لَمْ تَسْبِقُوهُمْ إِلَيْهَا ) ( ص، ع ).
مسروق سے روايت ہے کہ عمر نےمنبر رسول [ص]سے کہا اے لوگوں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی عورتوں کا مہر بھاری بھرکم رکھتے ہو جبکہ رسول[ص] اور انکے اصحاب چار سو درھم یا اس سے کم مہر رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 271، ح3318.

اس بناء پر اول تو مہر ام کلثوم سنت رسول [ص]کے برخلاف ہے کیوں گذشتہ تمام روایات میں بیان ہوا کہ حضرت رسول [ص]کسی بھی عورت اور بیٹی کا زیادہ مہر نہیں رکھتے تھے
ثانياً: یہ مہر خود مخالف سیرت و سنت عمر ہے۔ کیا اہل سنت ایسی نسبت عمر کی طرف دے سکتے ہیں جس سے انکا یہ فعل اس آیت کا مصداق قرار پائے گا:
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ. كَبرَُ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لَا تَفْعَلُون. الصف / 2 و 3.

اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتےاللہ کے نزدیک یہ طریقہ بڑا ہی ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ کچھ کہو جو کہ خود نہ کرو۔

4. کیا ام کلثوم سے عمر کی اولاد ہوئی؟
اس شادی کے افسانہ ہونے کی دلیل ام کلثوم کی اولاد کی کہانی بھی ہے بعض کہتے ہیں کہ ام کلثوم کوئی اولاد نہیں ہوئی بعض کہتے ہیں صرف ایک زید نامی بیٹا ہوا اور بعض کہتے ہیں زید اور رقیہ اور بعض کہتے ہیں زید ، رقیہ ، فاطمہ کو ام کلثوم نےجنم دیا۔
کوئی بھی اولاد نہیں تھی :
مسعودى شافعى نے عمر کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
أولاد عمر. وكان له من الولد: عبد اللّه، وحفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وعاصم، وعبيد اللّه، وزيد، من أًم، وعبد الرحمن، وفاطمة، وبنات آخر، وعبد الرحمن الأصغر - وهو المحدود في الشراب، وهو المعروف بأبي شحمة - من ام.
عمر کی اولاد: عمر کی مندرجہ اولاد ہیں
عبد الله ، حفصه زوجہ پيامبر (ص)* و عاصم و عبيد الله و زيد ایک ماں سے ؛ اور عبد الرحمن و فاطمه اور دوسری بیٹیاں اور عبد الرحمن اصغر یہ وہی ہے جو شراب نوشی کی بناء پر سزا یافتہ ہے جو ابوشحمہ کے نام سے مشہور ہے ، ایک دوسری ماں سے ۔
المسعودي، أبو الحسن على بن الحسين بن على (متوفاى346هـ)، مروج الذهب، ج 1، ص 299

اس نقل کی بناء پر عمر کا زید ایک بیٹا تھا اور اس کے بھائی عاصم اور عبد اللہ تھے ایک ماں اور ان تینوں کی ماں ام کلثوم بنت جرول تھی اور عمر کی کوئی بھی اولاد ام کلثوم سے ہوئی ہو ، نقل نہیں ہوئی ہے ۔
صرف ایک بیٹا تھا:
اہل سنت کے کافی علماء نے ام کلثوم سے صرف ایک فرزند ذکر کیا ہے :
بيهقى نے سنن كبراى میں کہا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيد بن عمر ضرب ليالي قتال بن مطيع ضربا لم يزل ينهم له حتى توفي ثم خلف على أم كلثوم بعد عمر عون بن جعفر فلم تلد له شيئا حتى مات.
امّ*كلثوم، نے عمر سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا پھر رات کی لڑائی میں ابن مطیع نے ایسی ضرب لگائی کہ مرتے دم تک اس درد میں رہا پھر ام کلثوم نے عمر کے بعد عون بن جعفر سے شادی کی اور اس سے انکی کوئی اولاد نہ ہوئی یہاں تک دنیا سے چلے گئیں۔
البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج 7، ص 70، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 - 1994.

اور نويرى نے نهاية الأرب میں لکھا ہے :
وتزوج أم كلثوم عمر بن الخطاب فولدت له زيد بن عمر، ثم خلف عليها بعده عون بن جعفر فلم تلد له حتى مات.
امّ*كلثوم نے عمر بن خطاب سے شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اس کے بعد ام کلثوم نے عون بن جعفر سے شادی کی اور ان سے بچہ نہیں ہوا یہاں تک وہ مر گئیں
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 18، ص 142، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
اور صفدى نے، بھی ام کلثوم کے لئے فقط ايك فرزند ذکر کیا ہے :
وأم كلثوم تزوجها عمر بن الخطاب رضي الله عنه فولدت له زيدا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 1، ص 79، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

اور ابن كثير دمشقى سلفى نے بھی لکھا ہے :
وأما أم كلثوم فتزوجها أمير المؤمنين عمر بن الخطاب فولدت له زيدا ومات عنها فتزوجت بعده ببني عمها جعفر واحدا بعد واحد....

امّ*كلثوم، نے عمر کے ساتھ شادی کی جس سے زید بن عمر پیدا ہوا اور عمر کے مرنے کے بعد ام کلثوم نے اپنے چچا جعفر کے لڑکوں سے شادی کی ایک کے بعد ایک ۔۔۔۔
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 5، ص 293، ناشر: مكتبة المعارف بيروت.

دو اولاد تھی:
اكثر علماء اہل سنت نے کہا ہے کہ دو اولا تھی ، :
وزيد الأكبر لا بقية له ورقية وأمهما أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم وأمها فاطمة بنت رسول الله.
اور زيد اكبر، کہ جس کی اولاد نہ تھی اور رقيه؛ ان دونوں کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب بن عبد المطلب بن هاشم اور بنت فاطمه بنت رسول خدا (ص)* تھیں .
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 3، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي 236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة، ناشر:دار المعارف؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 450، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

تین اولاد تھی :
بلاذرى نے انساب الأشراف میں ام کلثوم کی زید کے علاوہ دوبہنوں کا ذکر کیا :
عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب: كانت تحته فاطمة بنت عمر، وأمها أم كلثوم، بنت علي بن أبي طالب، وجدتها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم،وأخوها لأبيها وأمها زيد بن عمر بن الخطاب، فولدت لعبد الرحمن: عبدَ الله وابنةً. وإبراهيم بن نعيم النحام بن عبد الله بن أسيد بن عبد بن عوف بن عبيد بن عويج بن عدي بن كعب، كانت عنده رقية بنت عمر، أخت حفصة لأبيها، وأمها: أم كلثوم بنت علي.
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 1، ص 189.

زيد عمر کا بھائی یا عمر کا بیٹا؟
ابن عساكر دمشقى، نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام کلثوم خطاب کی بیوی تھی نا کہ عمر بن خطاب کی
وحدثني عمر بن أبي بكر المؤملي حدثني سعيد بن عبد الكبير عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وكان سبب ذلك أن حربا وقعت فيما بين عدي بن كعب.
... عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن خطاب كه جن کی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] تھی روایت کی ہے ...
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

زيد اصغر، زيد اكبر سے بڑے !!!
اس سے بھی اھم ترین بات وہ ہے جس کی طرف اہل سنت کے علماء نے اشارہ کیا ہے : کہ اہل سنت کے علماء نے عمر کے دو بیٹوں کا نام زید بتایا ہے ایک ام کلثوم بنت جردل سے اور دوسرا ام کلثوم بنت علی [ع]سے ام کلثوم بنت جردل زمانہ جاہلیت میں عمر کی بیوی تھی اور عمر اسلام لانے کے بعد اس سے الگ ہوگئے اور اس عورت نے کسی اور سے شادی کر لی ۔
وأمُّ عبيد الله أم كلثوم: واسمها مليكة بنت جرول الخزاعية، وكانت على شركها حين نزلت ولا تمسكوا بعصم الكوافر فطلقها عمر فتزوجها أبو فهم بن حذيفة صاحب الخميصة، وقد تقدم ذكره في أول الكتاب.
عبید اللہ کی ماں ام کلثوم سے مشہور ہے جس کا اصل نام ملیکہ بنت جردل خزاعی ہے اور جب یہ آیتولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو وہ کافر ہی رہی تو عمر نے اسے طلاق دیدی تو اس سے ابن حذیفہ نے شادی کی ۔۔۔ ۔

الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 258.

اور ابن حجر عسقلانى نے کہا:
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي شقيق عبد الله بن عمر المصغر أمهما أم كلثوم بنت جرول كانت تحت عمر ففرق بينهما الإسلام لما نزلت ولاتمسكوا بعصم الكوافر فتزوجها أبو الجهم بن حذيفة وكان زوجها قبله عمر ذكر ذلك الزبير وغيره فهذا يدل على أن زيدا ولد في عهد النبي.

زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، برادر عبد الله بن عمر اصغر؛ ان دونوں کی ماں ام کلثوم بنت جرودل ہے اور یہ عمر کی بیوی تھی جب یہ آیت ولا تمسكوا بعصم الكوافر نازل ہوئی تو اسلام نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی پھر اس سے ابو جھم نے شادی کی اور اس سے پہلے وہ عمر کی بیوی تھی اس بات کو زبیر اور دیگران نے ذکر کیا ہے اور یہ بات یہ بتاتی ہے کہ زید [اصغر] رسول اکرم [ص]کی زندگی میں پیدا ہوا ہے
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 2، ص 628، رقم: 2961، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
نکتہ یہاں پر ہے کہ وہ زید ام کلثوم بنت جرول کا بیٹا جو زمانہ رسول[ص] میں پیدا ہوا ہے ان لوگوں نے اسے " زید اصغر " قرار دیا ہے اور ام کلثوم بنت علی[ع] کے بیٹے کو ان لوگوں نے زید اکبر قرار دیا ہے اوریہ مطلب ام کلثوم کے بیٹے زید کے سرے سے ہونے کو مخدوش کرتا ہے کیسے ہوسکتا ہے چھوٹے بیٹے کو اکبر اور بڑے کو اصغر بنادیا جائے۔
علماء اہل سنت نے اس مشکل کو سمجھے بغیر نقل کیا ہے کہ :
وزيد الأكبر ورقية وأمهم أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وأمها فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وزيد الأصغر وعبيدالله وأمهما أم كلثوم بنت جرول. وفرق الإسلام بين عمر وبين أم كلثوم بنت جرول
زيد اكبر و رقيه، کہ ان دو کی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب و فاطمه بنت رسول خدا (ص)* ہیں و زيد اصغر و عبيد الله انکی ماں ام کلثوم بنت جردل ہے اسلام نے عمر اور بنت جردل کے درمیان جدائی ڈال دی تھی۔
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 131، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.

اس بناءپر ، کلام اہل سنت سے ثابت ہوا ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر تھی اور زید بن عمر ام کلثوم بنت جرول سے تھا نہ کہ ام کلثوم بنت امام علی[ع] سے البتہ اہل سنت کے علماءنے اس کے علاوہ ایک اور ام کلثوم کو عمر کی بیوی قرار دیا ہے عاصمی مکی عمر کی زوجات کی تعداد بتاتے ہوا لکھتا ہے :
والرابع عاصم أمه أم كلثوم جميلة بنت عاصم بن ثابت بن أبى الأفلح حمى الدبر.
عمر، کا بیٹا عاصم ہے اسکی ماں ؛ امّ*كلثوم جميله بنت عاصم بن ثابت بن ابى افلح ہے .
العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 2، ص 508، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.
يعنى خليفه دوم کی امّ*كلثومنام کے سے چار بیویاں تھیں : 1. امّ*كلثوم بنت جرول؛ 2. امّ*كلثوم بنت ابوبكر؛ 3. امّ*كلثوم بنت عاصم بن ثابت؛ 4. امّ*كلثوم بنت امير المؤمنین.!!!.

گویا اہل سنت کے علماء نے تشابہ اسمی کی و جہ سے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا ۔

عمر نے، اپنی بیٹی رقيه کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی :

اس قصہ کے جھوٹے ہونے کی ایک اور تائید اہل سنت کے علماء کا یہ دعوی ہے کہ عمر نے خود اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ۔
ابن قتيبه دينورى لکھتا ہے:
ويقال إن اسم بنت أم كلثوم من عمر رقية وأن عمر زوجها إبراهيم بن نعيم النحام فماتت عنده ولم تترك ولدا.
اور کہا گیا ہے کہ عمر نے اپنی بیٹی رقیہ بنت ام کلثوم کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی اور وہ رقیہ ابراہیم کی زوجیت میں فوت کر گئی اور کوئی اولاد نہ ہوئی۔
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 185، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة .

اور ابن اثير جزرى نے بھی لکھا:
وقد ذكر الزبير بن أبي بكر أن عمر بن الخطاب زوج ابنته رقية من إبراهيم بن نعيم بن عبد الله النحام
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی.
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 1، ص 71، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م.
ابن حجر عسقلانى اس بارے میں لکھا :
وقال الزبير زوج عمر بن الخطاب إبراهيم هذا ابنته قلت وعند البلاذري أنه كانت عنده رقية بنت عمر من أم كلثوم بنت علي.
زبير بن ابى بكر نے کہا كه : عمر بن خطاب نے اس بیٹی کی شادی ابراہیم بن نعیم سے کی ؛ بلاذرى نے بھی کہا ابراہیم کی بیوی رقیہ بنت عمر و ام کلثوم بنت علی[ع] تھی۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 1، ص 178، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ دوم کی شادی ام کلثوم سے ۱۷ یا ۱۸ ہجری میں ہونا کہتے ہیں اور عمر کی وفات ۲۳ ہجری میں ہوئی یعنی عمر نے ام کلثوم کے ساتھ ۶ سال گزارے ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہوئے زید ام کلثوم !!! کا بیٹا رقیہ سے بڑا تھا اور زید خود اپنے پاپ کی زندگی کے آخری ایام میں پیدا ہوا پس کیسے قبول کر سکتے ہیں کہ رقیہ اس چھوٹی سی عمر یعنی ایک سال یا دو سال میں بیاہ دی گئی ہو ؟
ابن حجر نے زید کی تاریخ ولادت کے بارے میں کہا ہے
وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين.
زید کی ولادت اپنے باپ کے آخری ایام ِزندگی ۲۳ ہجری میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
شاید عمر نے ام کلثوم سے بہت چھوٹی عمر میں شادی کی تھی اسی لئے خواہش ہو کہ اپنی دودھ پیتی بیٹی کو دلہن بنا دے !!!.

5. ام كلثوم و زيد کی تاريخ وفات:

تاريخ وفات امّ*كلثوم اور زيد میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے کہا امام حسن[ع] کے زمانہ میں فوت کر گئے اور بعض نے کہا عبد الملک بن مروان نے انھیں زہر دیا۔

زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں موت (73 ـ 86هـ):
عبد الرزاق صنعانى،نے ان دونوں کی موت کو زمانہ حكومت عبد الملك بن مروان میں ذکر کی ہے اور سال 86 هجرى میں وفات کی ہے یعنی ام کلثوم اور زید حد اقل ۷۸ ہجری تک زندہ ہونگے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.

عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

سعيد بن العاص کی امارت مین وفات پائی (48 ھـ 54هـ):
روايات مشهور اهل سنت یہ ثات کرتی ہیں کہ یہ دونوں زمانہ سعيد بن العاص كه سال 48هـ سے 54هـ تک امير مدينه میں فوت کر گئے ۔

صفدى نے الوافى بالوفيات میں لکھا ہے :
وتوفي زيد رحمه الله شابا في حدود الخمسين للهجرة.
زيد رحمه الله جوانى میں تقریبا سال 50 هجرى میں دنیا سے چلے گیا.
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.
اور ابن حجر عسقلانى کہتے ہیں :
زيد بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي أمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب مات مع أمه في يوم واحد وكان مولده في آخر حياة أبيه سنة ثلاث وعشرين ومات وهو شاب في خلافة معاوية في ولاية سعيد بن العاص على المدينة
زيد بن عمر بن خطاب قرشى عدوى، انکی ماں امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] ہے یہ دونوں ایک ہی دن میں وفات کر گئے
زید کی ولادت اپنے باپ کی حیات سال 23 میں ہوئی اور زید کی وفات خلافت معاويه اور زمانہ امیر مدینہ سعيد بن عاص میں ہوئی.
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، الإيثار بمعرفة رواة الآثار ج 1، ص 79، تحقيق: سيد كسروي حسن، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1413هـ.
اس دو نقل میں 20 سال کا فرق ہے !!!.

واقعه كربلا کے بعد وفات :

خطبہ ام کلثوم کوفہ میں جسے ابن طیفور نے نقل کیا ہے بتاتا ہے کہ کربلا کے واقعے کے بعد تک ام کلثوم زندہ تھی۔

قالت أبدأ بحمد الله والصلاة والسلام على جدي أما بعد يا أهل الكوفة...
أبي الفضل بن أبي طاهر المعروف بابن طيفور (متوفاى380 هـ )، بلاغات النساء، ص 24، ناشر: منشورات مكتبة بصيرتي ـ قم و ص 11، طبق برنامه الجامع الكبير.

6. ام كلثوم و زيد کی وفات کا سبب :

وفات امّ*كلثوم و زيد کے سبب میں بھی اختلاف ہے بعض کہتے ہیں مریضی کی وجہ اور اسی مریضی میں فوت کر گئے،۔

مريضي کی وجہ سے وفات :
محمد بن حبيب بغدادى نے المنمق میں اور ابن عساكر دمشقى نے تاريخ مدينة دمشق میں اور صفدى نے الوافى فى الوفيات میں لکھا ہے :
وقد ذكر بعض أهل العلم أنه وأمه أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب رحمة الله عليهم وكانت تحت عبد الله بن جعفر بن أبي طالب عليه مرضاً جميعاً وثقلاً ونزل بهما وأن رجالاً مشوا بينهما لينظروا أيهما يموت قبل صاحبه فيرث منه الآخر وأنهما قبضا في ساعة واحدة ولم يدر أيهما قبض قبل صاحبه فلم يتوارثا.

بعض اهل علم نے کہا ہے کہ زید اور انکی والدہ امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب (رحمة الله عليهم) نے جب وہ عبد اللہ بن جعفر کی بیوی تھی دونوں مریض ہوئے اور ایک ہی وقت میں وفات کی ہم لوگ انکے پاس آنا جانا رکھتے تھے تاکہ دیکھیں کون پہلے مرتا ہے اور کون وارث بنتا ہے لیکن یہ دونوں ایک ہی وقت اور لمحہ میں مر گئے اور معلوم نہیں ہو سکا کہ پہلے کون مرا ہےاسی وجہ سے ارث دونوں میں تقسیم نہ ہو سکی ۔
البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبيب بن أمية (متوفاي245هـ)، المنمق في أخبار قريش، ج 1، ص 312، تحقيق: خورشيد أحمد فارق، ناشر: عالم الكتب - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ ـ 1985م؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 487 تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 24، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

پتھر لگنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی:

بعض نے کہا زید پتھر لگنے کی وجہ سے مر گئے .
ابن حبان نے لکھا:
فأما أم كلثوم فزوجها على من عمر فولدت لعمر زيدا ورقية وأما زيد فأتاه حجر فقتله.
امّ*كلثوم کی علي[ع] نے عمر سے شادی کروائی جس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئی اور زید کو پتھر لگا جس نے جان لے لی!۔

التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، الثقات، ج 2، ص 144، تحقيق السيد شرف الدين أحمد، ناشر: دار الفكر، الطبعة: الأولى، 1395هـ 1975م.

ابن قتيبه دينورى کا یہ اعتقاد ہے کہ زید ، بنى عويج و بنى رزاح کے درمیان ہونے والی جنگ میں قتل ہوا۔

وأما زيد بن عمر بن الخطاب فرمى بحجر في حرب كانت بين بني عويج وبين بني رزاح فمات ولا عقب له ويقال أنه مات هو وأم كلثوم أمه في ساعة واحدة فلم يرث واحد منهما من صاحبه...
اور زيد بن عمر، عويج اور بنى رزاح کی جنگ میں پتھر لگنے کی وجہ سے وفات کر جاتے ہیں اور انکی کوئی اولاد نہ تھی۔
اسی طرح کہا گیا ہے کہ انکی والدہ بھی اسی گھڑی میں انکے ساتھ وفات کر گئ اسی وجہ سے ایک دوسرے سے ارث نہیں لےسکے ...
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، المعارف، ج 1، ص 188، تحقيق: دكتور ثروت عكاشة، ناشر: دار المعارف - القاهرة.

اور بعض علماء اهل سنت نے کہا قبلیہ بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں مارا گیا:

وتوفيت أم كلثوم وابنها زيد في وقت واحد وقد كان زيد أصيب في حرب كانت بين بني عدي ليلا كان قد خرج ليصلح بينهم فضربه رجل منهم في الظلمة فشجه وصرعه فعاش أياما ثم مات وهو وأمه في وقت واحد وصلى عليهما ابن عمر...

امّ*كلثوم اور انکے بیٹے زيد نے ایک ہی گھڑی میں وفات پائی ، زید رات کے وقت بنی عدی کے درمیان ہونے والی جنگ میں صلح کے لئے گئے تھے تاریکی میں اسے سر پر کسی نے ضرب لگائی اور وہ زخمی ہوگئے زید اس کے بعد چند روز زندہ رہا اور اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی وقت میں وفات کر گیا اور ابن عمر نے ان پر نماز پڑھائی ....

القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1956، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م

تیر لگنے کی وجہ سے وفات :

فولدت له زيد بن عمر وهو زيد الأكبر ورقية بنت عمر وكانت وفاتها ووفاة ابنها في ساعة واحدة وكان سبب موته سهما أصابه ليلا في ثائرة وقعت بين عدي وبني حذيفة
امّ*كلثوم، کا عمر سے زید نامی لڑکا ہو اور یہی زید اکبر ہے اسی طرح رقیہ اور زید اور ام کلثوم ایک ہی وقت میں مر گئے زید کی موت کا سبب بنی عدی اور بنی حذیفہ میں ہونے والی جنگ میں تیر کا لگنا تھا ۔

السهيلي، عبد الرحمن بن عبد الله أبو القاسم (متوفاي581هـ)، الفرائض وشرح آيات الوصية، ج 1، ص 138، تحقيق: د. محمد إبراهيم البنا، ناشر: المكتبة الفيصلية - مكة المكرمة، الطبعة: الثانية، 1405هـ.

موت کا سبب زہر کھانا :

عبد الرزاق صنعانى، بخاری کے استاد نے لکھا ہے :
قال عبد الرزاق وأم كلثوم من فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ودخل عليها عمر وأولد منها غلاما يقال له زيد فبلغني أن عبد الملك بن مروان سمهما فماتا وصلى عليهما عبد الله بن عمر وذلك أنه قيل لعبد الملك هذا بن علي وبن عمر فخاف على ملكه فسمهما.
عبد الرزاق کہتے ہیں: اور امّ*كلثوم بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) جس سے عمر نے شادی کی اور اس سے زید پیدا ہوا ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ان دونوں کو عبد الملک بن مروان نے زہر دے کر مارا ہے عبد اللہ بن عمر نے ان دونوں پر نماز پڑھائی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد الملک کو کہا گیا کہ زید علی[ع] اور عمر کا بیٹا ہے اسی لئے اپنے خلافت کے لئے خطرہ دیکھا تو دونوں کو زہر دے دیا !
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن

0 comments:

Post a Comment