Sunday, March 1, 2015

عصمت کا مفہوم اور لفظ معصوم کی تشریح اور وضاحت

معصوم عربی لغت کے اعتبار سے " اسم مفعول" کا صیغہ ہے جو "مضروب " کے وزن پر اتا ہے جس کے معنی ہیں " بچایا ہوا یا وہ جسے بچایا گیا " اور یہ "العصمة " سے مشتق ہے جو بچنے بچانے اور محفوظ رہنے کے معنوں میں اتا ہے. علم الصرف کے مطابق یہ از " باب فعل یفعل . ضرب یضرب " کے قبیلے سے ہے . ہم تفصیل میں گئے بغیر اس مختصر ادبیاتی بحث کیبعد لفظ معصوم یا عصمت کے عقلی قرانی و روائی اور استقرائی مفہوم کیطرف مختصرا نظر کرتے ہیں. اصطلاح میں عصمت وہ قوت ہے جو اپنے حامل کو خطاء و معصیت سے روکتی ہے. لہذا صاحب عصمت نہ تو کویی واجب ترک کرتا ہے اور نہ کویی حرام عمل بجا لاتا ہے جبکہ اسے اختیار ہے کہ وہ چاہتا تو حرام بجا لاتا اور واجب کو ترک کردیتا. ( کیونکہ عصمت کو اگر اجباری مانیں تو اس پر ثواب و اجر کے وہ حقدار نہی ٹہرتے) لیکن اسکا علم ا سے غلطیوں سے روکتا ہے اور اسکا تقوی میں اعلی ترین مقام اسے معصیت وخواہشات نفس کی پیروی سے باز رکہتا ہے . 1- عصمت پر دلیل عقلی - عقل جسے روایات صحیحہ میں اللہ کی حجتوں میں سے حجت باطنیہ کہا گیا ہے یہ حکم صادر کرتا ہے کہ نبی یا امام منصوص من اللہ کا معصوم ہونا ضروری ہے. کیونکہ اگر ان سے غلطیوں اور خطاء کا صدور ممکن فرض کیا جایے تو پہر سارے احکامات دینیہ و شریعت الہیہ مشکوک ہوکر رہ جایے. کیونکہ سہو نسیان یا غلطی کے صدور کی انکیطرف نسبت سے یہ گمان بہی ممکن ہے کہ شاید انہوں نے کویی حکم پہنچانے میں غلطی کی ہو یا بہول گئے ہوں. پس ضروری ہے کہ نبی یا امام کو معصوم مانا جایے . ورنہ پورا دین مشکوک رہ جاییگا. پہر اکمال دین کا دعوی بہی درست نہ ہوگا جبکہ دین کے کامل و نعمتوں کے بذریعہ اسلام تمام ہونے پر سورہ مایدہ کی ایت بطور دلیل موجود ہے 2- عصمت پر دلیل قرانی. پہلی دلیل ایت تطہیر ہے ( انما یرید اللہ لیذہب ....... الاحزاب 33) جس میں اللہ نے اہل بیت کو ہر رجس و گندگی سے دور رکہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے. پس ارادہ خدا فعل خدا ہے جو کہ پلک جہپکنے سے قبل ہوجاتا ہے جیسا کہ سورہ یس کی اخری ایت میں ہے کہ " اسکا امر جب وہ اسکا ارادہ کرے تو (کن یعنی ہوجا) کہنے کیساتہ ہی ( فیکون) پس ہوجاتا ہے" . لہذا اہل بیت میں پاکیزگی و عصمت و طہارت ان میں اللہ عزوجل کے ارادہ کرتے ہی نافذ وجاری ہوچکا ہے اور وہ قیامت تک ہر رجس و گندگی اور غلاظت ( معصیت و خطاء ودیگر اخلاقی وانسانی رذایل) سے پاک ہیں. (الف) اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ( النساء .59) یہاں پر اطاعت مطلقہ کا حکم ہے. اگر رسول سے کہیں کویی غلطی ہوگئی ہوتی تو اللہ لوگوں کو بیان کرتا کہ البتہ فلاں معاملے میں رسول کی اطاعت نہ کرنا. لیکن ایسا نہ کہا گیا. بلکہ متعدد دیگر ایات میں بہی رسول کی اطاعت کا مطلقا حکم دیا گیا. (ب) ( وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوہ) یعنی جو رسول دیں وہ لو اور جس سے منع کریں اسے رک جاو.(الحشر.7) (ج) ( واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واحذروا المایدہ.92) اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ کا خوف کرو " ایسی بیشمار ایات ہیں جن کے ذکر سے طوالت کا خوف ہے. جن میں مطلق اطاعت رسول طلب کی گئی اور سرتا پا تسلیم کا کہا گیا ورنہ دایرہ ایمان سے خارج یا اعمال کو حبط کرنے کی خبر دی گئی 3- عصمت پر دلیل روائی - (الف) تفسیر صافی میں امام باقر و صادق علہما السلام سے روایت نقل کی گئی ہے. اپ نے فرمایا. ( اللہ نے جناب ایوب علیہ السلام کو سات سال ازمایش میں مبتلاء کیا جبکہ ان سے کویی غلطی سرزد نہ ہویی تہی کیونکہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں.انکے دل زنگ الود نہی ہوتے. وہ معصیت نہی بجا لاتے اور صغیرہ و کبیرہ سے بچتے ہیں ) (1) (ب) امام صادق فرماتے ہیں ( ہم ہی خزینہ علم الہی ہیں. اور ہم ہی اس کے امر کے ترجمان ہیں. اور ہم ہی وہ لوگ ہیں جو معصوم ہیں ) (2) اس مضمون کی روایات بیحد زیادہ ہیں ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں. (ج) اہل سنت کے جید عالم الذہبی جو نقد حدیث میں ایک اعلی مقام کے حامل ہیں انہوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ نے فرمایا.( جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی معصیت کی اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ) (3) پس ارادہ نبی و علی ( بمطابق مقدمہ صغری کبری ) ارادہ خدا ہے لہذا اگر ارادہ اللہ کا ہو تو اس میں غلطی کا کویی امکان نہی رہتا . پس لا محالہ امام و رسول کا معصوم ہونا لازم اتا ہے. ( د) مولا علی علیہ السلام کا قول ہے ( اللہ نے ہمیں پاکیزہ بنایا اور ہمیں محفوظ رکہا. اور ہمیں اپنی خلق پر گواہ قرار دیا. قران کو ہمارے ساتہ اور ہمیں قران کیساتہ قرار دیا ) پس جسطرح قران محفوظ و معصوم ہے اسیطرح نبی وال نبی بہی معصوم ہیں . اسی لیے امام زمان كو شريك القران كهتے ہیں اور وہی ناطق قران بہی ہیں. 4- عصمت پر دلیل استقرائی- یعنی مصداق خارجی میں بہی ہمیں رسول اللہ اور انکی پاک ال کی پوری حیات میں قول و فعل کی کویی غلطی یا تسامح نظر نہی اتا. یہ بہی ان کے معصوم ہونے کی دلیل ہے . ان کے دشمن تک انکی پاکیزگی. سچایی اور امانت کی تعریف کرتے تہے. کویی شخص ایسا نہی ملتا جو انکے کردار اقوال یا افعال میں ٍ غلطیاں ثابت کرسکے . ہم انہی معروضات پر اس پوسٹ کو مکمل کرتے ہیں اللہ یم سب کا حامی و ناصر ہو. اپ سب کو ان دو عظیم معصوموں کی ولادت مبارک ہو. *اللہم صل علی محمد وال محمد وعجل فرجہم* ( (1) تفسیر الصافی -450 و البحار 12/348 ( 2) اصول کافی 1/268 (3) جامع احادیث الشیعہ بحوالہ وسایل الشیعہ3/389 واحتجاج الطبرسی1/ 58

0 comments:

Post a Comment