Wednesday, February 18, 2015

نواں زاویہ : روايات اهل تسنن کی تحقیق

اس شادی کے متعلق بہت سی روایات اہل سنت آئی ہیں جو سندی مشکلات رکھتی ہیں اور دوسری جانب ان میں ایسا تعارض اور تناقض موجود ہے کہ جس میں جمع ممکن نہیں ہے ۔
حضرت آيت الله ميلانى نے كتاب" تزويج امّ*كلثوم من عمر"، ان تمام روایات کی تحقیق پیش کی ہے اور کیونکہ ہمارا ھدف اختصار سے کام لینا ہےفقط اھم ترین روایات اہل سنت کو نقل اور انکی تحقیق پیش کرینگے ۔
بخارى لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَاب [ زهري ]، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِك إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاء مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي عِنْدَكَ. يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُوم بِنْتَ عَلِيّ. فَقَالَ عُمَرُ أُمُّ سَلِيط أَحَقُّ. وَأُمُّ سَلِيط مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ عُمَرُ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُد. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ تَزْفِرُ تَخِيطُ.
ثعلبة بن مالك کہتے ہیں : عمر، مدينه کی عورتوں میں چادریں تقسيم کی، اور ایک اچھی چادر باقی بچ گئی تو عمر کے پاس موجود بعض افراد نے کہا یہ بنت رسول [ص] کو دودو جو تمہارے پاس ہے ان لوگوں کی مراد ام کلثوم بنت علی [ع] تھی تب عمر نے کہا ام سلیط اس کی زیادہ حقدار ہے اور ام سلیط انصار میں سے تھی کیونکہ وہ احد کےدن پھٹی ہوئی مشک کو سیا کرتی تھی ۔۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1056، ح2725، كتاب الجهاد والسير، ب 66، باب حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

اولا: اس سند میں یونس بن یزید ایلی موجود ہے جو اہل سنت بزرگ علماء کے نظریہ کے مطابق جس میں خود بخاری بھی شامل ہے ، شھاب زھری کی روایات میں کثیر خطا کا مرتکب ہوا ہے اور زھری سے منکر روایات نقل کرتا ہے ۔
مزى نے تهذيب الكمال اسکے احوال میں لکھا ہے :
وقال محمد بن عوف، عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الايلي وكان سيئ الحفظ.
قال أبو عَبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزُّهْرِيّ، وعقيل أقل خطأ منه.
وقال أبو زُرْعَة الدمشقي: سمعت أبا عَبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزُّهْرِيّ.
وَقَال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزُّهْرِيّ؟ قال: معمر. قيل له: فيونس؟ قال: روى أحاديث منكرة.
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث، كثيره، وليس بحجة، ربما جاء بالشئ المنكر.
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا !
ابوعبد الله (ظاهرا احمد بن حنبل) نے کہا یونس زھر سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
ابوزرعه دمشقى کہتے ہیں ابوعبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا ہے : یونس کی زھری سے روایات منکرات رکھتی ہیں
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات [ نا قابل قبول ] روایات نقل کرتا ہے !
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے !
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 32، ص 554، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م
اور ابن حجر عسقلانى نےاس کے ترجمہ میں لکھا ہے :
يونس بن يزيد بن أبي النجاد الأيلي بفتح الهمزة وسكون التحتانية بعدها لام أبو يزيد مولى آل أبي سفيان ثقة إلا أن في روايته عن الزهري وهما قليلا وفي غير الزهري خطأ.
يونس بن يزيد، ؛ ۔۔ آل ابو سفیان کا غلام ثقه ہے زھری سے اسکی روایات میں وھم قلیل پایا جاتا ہے اور غیر زھری کی روایات میں خطا پائی جاتی ہے ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1، ص 7912، رقم: 7919، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.علي بن عابس.

ثانياً: اس روايت کی سند میں محمد بن مسلم زهرى ہے جو دشمنان اہل بیت علیہم السلام ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو بنی امیہ کے بارے میں جھوٹی روایات گھڑتی ہیں اسی طرح زھری كثير الإندراج تھا یعنی روایات میں اپنی باتیں شامل کرنے والا ۔

زهري، بني اميه کے مفاد میں روایات گھڑتا ہے :
زهرى ان افراد پلید میں سے تھا جو دربار بنی امیہ میں جعلی روایات و احادیث بناتے تھے جیسا کہ ابن عساکر عالم اہل سنت نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے :
نا جعفر بن إبراهيم الجعفري قال كنت عند الزهري أسمع منه فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت يا جعفري لا تكتب عنه فإنه مال إلى بني أمية وأخذ جوائزهم فقلت من هذه قال أختي رقية خرفت قالت خرفت أنت كتمت فضائل آل محمد.
جعفر بن ابراهيم جعفر ی کہتے ہیں میں زھری سے حدیث سننے میں مشغول تھا اتنے میں ایک بوڑھی عورت آکر کہتی ہے اس سے کوئی روایت نقل مت کرو کیوں کہ یہ بنی امیہ کی طرف مائل ہے اور ان سے تحائف اور انعام لیتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کون ہے ؟ زھری نے کہا یہ میری بہن رقیہ ہے اس کا دماغ چل گیا ہے ۔
زھری کی بہن نے جواب دیا: بلکہ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورتو آل محمد] صلی اللہ علیہ و آلہ [کے فضائل کو چھپاتا ہے !۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 228، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

ابن حجر نے ترجمه اعمش میں لکھا ہے :
وحكى الحاكم عن ابن معين أنه قال أجود الأسانيد الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له انسان الأعمش مثل الزهري فقال برئت من الأعمش أن يكون مثل الزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن.
حاكم ( نيشابوري) نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو اور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 4، ص 196، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.
اور اسی طرح ذهبى نےسير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان رحمه الله محتشما جليلا بزي الأجناد له صورة كبيرة في دولة بني أمية.
زهرى، بہت مال و ثروت کا مالک تھا اور اسکا بنی امیہ کی حکومت میں بڑا کردار اور نام تھا۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 337، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور ابن عساكر لکھتے ہیں :
عن عمر بن رديح قال كنت مع ابن شهاب الزهري نمشي فرآني عمرو بن عبيد فلقيني بعد فقال ما لك ولمنديل الأمراء يعني ابن شهاب
عمر بن رديح سے روایت ہوئی ہے ایک دن زھری کے ساتھ چل رہے تھے تو مجھے عمرو بن عیبد نے دیکھ لیا بعد میں مجھ سے ملاقات کر کے کہا تمہارا کیا واسطہ حکمرانوں کے رومال سے ؟ یعنی زھری حکمرانوں کے چمچہ سے تمہارا تعلق کیوں ہے ۔؟
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 55، ص 370، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

دوسری جانب اهل سنت کے علماء ؛ جس میں مزى و ذهبى شامل ہیں وہ امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
هشام بن عباد، قال: سمعت جعفر بن محمد، يقول: الفقهاء أمناء الرسل، فإذا رأيتم الفقهاء قد ركنوا إلى السلاطين فاتهموهم.
هشام بن عباد کہتے ہیں : جعفر بن محمد (عليه السلام) سے سنا ہے کہ فقہاء رسولوں کے امانت دار ہیں پس جب تم فقہیا کو دیکھے کہ انھوں نے حکمرانوں پر تکیہ کیا ہوا ہے تو ایسے فقہاء سے بد ظن ہوجاو۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص 262، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

پس جو شخص اہل بیت علیہم السلام کا خصوصا امام علی علیہ السلام کا دشمن ہو اسکی امام علیہ السلام کے خلاف روایات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے ؟
زهري، كثير الإدراج ہے:
ثالثاً: چونکہ زھری کثیر الندراج ہے اس کے اندرجات اور اضافات خود اہل سنت کا ہان بھی معتبر نہیں ہے یعنی ان افراد میں سے ہے جو اپنی طرف سے احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں اضافہ کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام میں اپنے کلام کی ملاوٹ کرتا ہے ۔اور ظاہر ہوتا ہے کہ يُرِيدُونَ امّ*كلثوم بِنْتَ علي کا جملہ خود زھری کا اضافہ ہے کہ جو اصل روایت میں نہیں ہے ۔
حسن بن سقاف عالم اهل سنت "كتاب تناقضات البانى" میں لکھتے ہیں :
ثم إن الزهري كان يدرج ألفاظا في الأحاديث النبوية هي من فهمه أو تفسيره نبه على ذلك بعض الأئمة كالبخاري وربيعة شيخ الامام مالك... وكم في الفتح وغيره من جمل وكلمات وعبارات نبه عليها الحفاظ أنها من مدرجات وزيادات الزهري والله الهادي.
زهرى، الفاظ کو احادیث نبوی میں اضافہ کرتا تھا جبکہ وہ خود اسکی سوچ اور تفسیر ہوتی تھی جیسا کہ بعض ائمہ، بخاری ، ربیعہ شیخ امام مالک ۔۔۔ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور کتنے کی جملات اور الفاظ ایسے ہیں جس کی طرف حفاظ نے توجہ دلائی ہے کتاب فتح الباری اور دوسری کتب میں بیان کیا ہے کہ وہ سب زھری کا اضافہ ہے ۔

السقاف، حسن بن علي بن هاشم بن أحمد بن علوي (معاصر)، تناقضات الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات، ج 3، ص 336، ناشر: دار الامام النووي، عمان – الأردن، الطبعة: الرابعة، 1412هـ ـ 1992 م. ابن حجر نے فتح البارى میں متعدد مقامات پر صحیح بخاری کی اندر" مدرجات زهرى" ، قرار دیا ہے جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :
1. تنبيه ) قوله وبعض العوالي الخ مدرج من كلام الزهري في حديث أنس بينه عبد الرزاق عن معمر عن الزهري... فقال هو إما كلام البخاري أو أنس أو الزهري كما هو عادته.
اور عبارت وبعض العوالي.. ادراجات زهرى ہے ... یہ مطلب کلام بخاری ہے یا انس یا پھر زھری ہے کہ جس کی عادت ہی یہی ہے۔ !
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 2، ص 29، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
2. قال الخطابي هذه الزيادة يشبه أن تكون من كلام الزهري وكانت عادته أن يصل بالحديث من كلامه ما يظهر له من معنى الشرح والبيان.
ظاهرا یہ ہے یہ کلام کا حصہ، زھری کا اضافہ ہے اور اسکی عادت ہی یہی تھی کہ حدیث سے ایسے معنی کا اضافہ کر دیتا ہے جو معنی شرح اور بیان سےاسے سمجھ آرہا ہو ۔

ج 5، ص 38
3. قوله وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها هو كلام الزهري.
عبارت وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها یہ اضافہ زھری کی طرف سے ہے !
ج 5، ص 352.
4. ( قوله فهما على ذلك إلى اليوم ) هو كلام الزهري أي حين حدث بذلك.
عبارت فهما علي ذلك الى اليوم یہ زھری کا کلام ہے ، يعنى جب روایت بیان کر رہا تھا!
ج 6، ص 204.
5. ( قوله وهي العوامر ) هو كلام الزهري أدرج في الخبر
عبارت وهى العوامر یہ مدرجات كلام زهرى یے جس کو اس نے روایت کے اندر داخل کردیا ہے !
ج6، ص204.
اور اسی طرح بہت سے موارد جس میں : ج 6، ص 174 و ج 6، ص 249 و ج 7، ص 186 و ج 8، ص 87 و ج 9، ص 404 و ج 10، ص 78 و ج 10، ص 141 و ج 11، ص 507 و ج 12، ص 362 و... شامل ہیں
اسی طرح ایک اور عالم اہل سنت نووی نے جہر و اخفات سے متعلق دو روایت نبوی میں لکھا ہے :



( الشرح ) * هذان الحديثان رواهما أبو داود والترمذي وغيرهما وقال الترمذي هما حديثان حسنان وصحح البيهقي الحديث الأول وضعف الثاني حديث أبي هريرة وقال تفرد به عن أبي هريرة ابن أكيمة، بضم الهمزة وفتح الكاف، وهو مجهول قال وقوله فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه هو من كلام الزهري وهو الراوي عن ابن أكيمة قاله محمد بن يحيى الذهلي والبخاري وأبو داود واستدلوا برواية الأوزاعي حين ميزه من الحديث وجعله من قول الزهري.
ان دو حديث کو ابوداوود، ترمذى اور ديگران نے نقل کیا ہے . ترمذى نے کہا ہے یہ دونوں روایت حسن ہے جبکہ بیہقی نےروایت اول کو صحیح اور روایت دوم [ابوہریرہ ] کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ چونکہ ابن اکیمہ مجہول ہے اور بیہقی نے مزید کہا فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه یہ زہری کا کلام ہے اور زھری ابن اکیمیہ سے روایت کرنے والا ہے اس بات کو ذھلی ، بخاری ، ابوداود نے کہا اور ان لوگوں نے اوزاعی کی روایت سے استدلال کیا ہے جبکہ اس کلام کو حدیث سے جدا کیا اوراور اسے قول زھری قرار دیا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 3، ص 311، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
یہ واضح کرتا ہے کہ مدرجات زھری کی اہل سنت ہاں کوئی اھمیت نہیں ہے ورنہ بیہقی اس طرح نہ کہتے ۔
زهري مدلسین میں سے تھے :
رابعاً: زهرى مدلسين میں شمار ہوتے ہیں ؛ چنانچه ابن حجر عسقلانى نے كتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ، میں زهرى کو مدلسین مرتبہ سوم میں سے قرار دیا ہے:
الثالثة من أكثر من التدليس فلم يحتج الأئمة من أحاديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع ومنهم من رد حديثهم مطلقا
سوم : وہ افراد جن کی تدلیس زیادہ ہے پس ائمہ نےانکی احادیث سے استدلال نہیں کیا مگر جب وہ سماع کی تصریح کریں اور بعض ائمہ نے تو ایسے افراد کو ہر حال میں رد کیا ہے [ چاہے سماع کی تصریح کریں یا نہ کریں]!

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ج 1، ص 13، تحقيق وتعليق د. عاصم بن عبد الله القريوني، ناشر: مكتبة المنار ـ اردن، عمان، الطبعة الأولي.
عسقلانی ترجمه زهرى میں لکھتے ہیں :
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري الفقيه المدني نزيل الشام مشهور بالامامة والجلالة من التابعين وصفه الشافعي والدارقطني وغير واحد بالتدليس.
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب زهرى فقیه مدنى، شام میں زندگی بسر کی امامت اور جلالت میں مشہور تابعی ہیں شافعی اور دارقطنی اور بہت سے افراد نے اسے مدلس قرار دیا ہے ۔!
ج 1، ص 45.
دوسری طرف اهل سنت کے علماء نے تدليس و مدلسين کو قبیح قرار دیا ہے اور تدلیس کو جھوٹ اور کذب کا بھائی قرار دیا ہے
؛ چنانچه خطيب بغدادى نے الكفاية فى علم الرواية میں قول شعبة بن حجاج نقل کیا ہے :
عن الشافعي، قال: قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب... وقال غندر: سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا، ولأن أسقط من السماء أحب إلي من أن أدلس... المعافى يقول: سمعت شعبة يقول: لأن أزني أحب إلي من أن أدلس.
تدليس، برادر کذب ہے غندر کہتے ہیں : میں نے شعبہ سے سنا ہے : حدیث میں تدلیس کرنا زنا کرنے سے بدتر ہے کیونکہ مجھے منظور ہے آسمان سے زمین پر گرجاون لیکن تدلیس نہ کروں ۔۔ المعافی نے کہتے ہیں میرے لئے زنا کرنا بہتر اس سے کہ میں تدلیس کروں۔

نیز مزید آگے کہتے ہیں :
خرّب الله بيوت المدلّسين، ما هم عندي إلا كذابون و التدليس كذب
خداوند، مدلسین کا خانہ خراب کرے میرے نزدیک یہ لوگ کذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور تدلیس خود جھوٹ ہے ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص 356، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.

آیا ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے اب بھی کیا زھری پر اعتماد کیا جائے گا؟

زهري، دشمن امام علي عليه السلام ہے:
ثانياً: زهرى اميرالمؤمنین عليه السلام کی بدگوئی کرتا تھا ۔ابن ابی الحدید شافعی نے شرح میں لکھا ہے :
وَ كَانَ الزهْرِيُّ مِنَ الْمُنْحَرِفِينَ عَنْهُ عليه السلام
وَ رَوَى جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ شَهِدْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ فَإِذَا الزُّهْرِيُّ وَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ جَالِسَانِ يَذْكُرَانِ عَلِيّاً فَنَالا مِنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عليه السلام) فَجَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمَا فَقَالَ أَمَّا أَنْتَ يَا عُرْوَةُ فَإِنَّ أَبِي حَاكَمَ أَبَاكَ إِلَى اللَّهِ فَحَكَمَ لِأَبِي عَلَى أَبِيكَ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زُهْرِيُّ فَلَوْ كُنْتُ بِمَكَّةَ لَأَرَيْتُكَ كَرَامَتَكَ‏.
زهرى علي عليه السلام کے مخالفین میں سے تھا . محمد بن شيبه سے روایت ہوئی ہے : میں مسجد مدینہ میں داخل ہوا ہے تو اس میں زھری اور عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ وہ دونوں علی [علیہ السلام ] کی بد گوئی کر رہے ہیں یہ بات علی بن حسین[ علیہما السلام ] تک پہنچی تو فرمایا: اے عروہ تمہارے والد کو میرے والد نے اللہ کے فیصلہ پر کہا تو اللہ نے میرے والد کے حق میں فیصلہ کیا اور تو اے زھری اگر تم مکہ میں ہوتے تو تیری اوقات یاد دلادیتا ۔
إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 4، ص 61، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

اور امام علي بن الحسين عليه السلام زھری کے نام خط میں لکھتے ہیں :
... وَ اعْلَمْ أَنَّ أَدْنَى مَا كَتَمْتَ وَ أَخَفَّ مَا احْتَمَلْتَ أَنْ آنَسْتَ وَحْشَةَ الظَّالِمِ وَ سَهَّلْتَ لَهُ طَرِيقَ الْغَيِّ بِدُنُوِّكَ مِنْهُ حِينَ دَنَوْتَ وَ إِجَابَتِكَ لَهُ حِينَ دُعِيتَ فَمَا أَخْوَفَنِي أَنْ تَكُونَ تَبُوءُ بِإِثْمِكَ غَداً مَعَ الْخَوَنَةِ وَ أَنْ تُسْأَلَ عَمَّا أَخَذْتَ بِإِعَانَتِكَ عَلَى ظُلْمِ الظَّلَمَةِ إِنَّكَ أَخَذْتَ مَا لَيْسَ لَكَ مِمَّنْ أَعْطَاكَ وَ دَنَوْتَ مِمَّنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَى أَحَدٍ حَقّاً وَ لَمْ تَرُدَّ بَاطِلًا حِينَ أَدْنَاكَ وَ أَحْبَبْتَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ أَ وَ لَيْسَ بِدُعَائِهِ إِيَّاكَ حِينَ دَعَاكَ جَعَلُوكَ قُطْباً أَدَارُوا بِكَ رَحَى مَظَالِمِهِمْ وَ جِسْراً يَعْبُرُونَ عَلَيْكَ إِلَى بَلَايَاهُمْ وَ سُلَّماً إِلَى ضَلَالَتِهِمْ دَاعِياً إِلَى غَيِّهِمْ سَالِكاً سَبِيلَهُمْ يُدْخِلُونَ بِكَ الشَّكَّ عَلَى‏ الْعُلَمَاءِ وَ يَقْتَادُونَ بِكَ قُلُوبَ الْجُهَّالِ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَبْلُغْ أَخَصُّ وُزَرَائِهِمْ وَ لَا أَقْوَى أَعْوَانِهِمْ إِلَّا دُونَ مَا بَلَغْتَ مِنْ إِصْلَاحِ فَسَادِهِمْ وَ اخْتِلَافِ الْخَاصَّةِ وَ الْعَامَّةِ إِلَيْهِمْ.

جان لو کم اور خفیف ترین کتمان یہ ہے کہ جو تم نے اپنایا وہ یہ ہے کہ تم وحشت ظالم سے مانوس ہوئے اوراپنے قرب اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے ظالم کے لئے سرکشی کرنے کا راستہ آسان کیا مجھے کس بات کا خوف کہ کل تم اپنے گناہوں کی وجہ سے ظالموں [محشور] ہوں اور تم سے ظالموں کی مدد کرنے کے معاوضہ کے بارے میں سوال کیا جائے تم نے ایسا مال لیا ہے جو عطا کرنے والے کا مال نہیں ہے اور ایسے شخص کی ہمنشینی اپنائی جو کسی حقدار کا حق نہیں دیتا ہے اور اسکی ہمنشینی کی تم باطل کو باطل نہیں جانتے ہوں اور جس کو اللہ دشمن رکھتا ہے تم نے اسے اپنا دوست بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔
الحراني، أبو محمد الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة (ق4هـ)، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليهم، ص276، تصحيح و تعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1404هـ.
ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو زھری ان افراد میں سے ہے جس نے عمر بن سعد سے روایت لی اور اسکی شاگردی کی ہے جس کا اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کسی پر مخفی نہیں ہے عمر بن سعد نے دردناک ترین طریقہ سے فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو قتل کیا اور ناموس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسیر کیا ۔ذھبی لکھتا ہے :
عمر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، وعنه ابنه إبراهيم، وقتادة، والزهري.
عمر بن سعد، نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور عمر بن سعد سے اسکے بیٹے ابراہیم ، قتادہ ،اور زھری نے روایت نقل کی ہیں :
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 2، ص 61، رقم: 4058، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.


کیا ایسا شخص قابل اعتماد ہوسکتا ہے ؟ کیا ایسے شخص کی روایت عقائد مسلمین کا منبع بن سکتا ہے ؟
نتيجه:
اولا: حضرت زهرا سلام الله عليها سے ام کلثوم کا اصل وجود قابل اثبات نہیں ہے اور ایک محقیق کی ایک جماعت شیعہ اور سنی میں سے ام کلثوم کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔
ثانياً: وہ امّ*كلثوم کہ جس کی شادی عمر سے ہوئی وہ ابوبکر کی بیٹی تھی نہ کہ امام علی علیہ السلام کی ۔
ثالثاً: اس فرض کے ساتھ کہ یہ شادی ہوئی ہے تو شیعہ روایت کے مطابق وہ زور گوئی اور جبر کے ساتھ ہوئی ہے اس بناء پر خلیفہ دوم اور خاندان اہل بیت علیہ السلام کے اچھے مراسم ثابت نہیں ہوتے ہیں ۔

اس موضوع پر لکھی جانے والی تحقيقات :
ازدواج امّ*كلثوم پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں محقق افراد ان کتب کیطرف رجوع کر سکتے ہیں بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے :

المسائل العُكبرية و المسائل السروية، شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه (متوفى 413هـ)
تزويج امّ*كلثوم لعمر، سيد مرتضى علم الهدى (متوفى 436هـ)؛
رسالة فى تزويج عمر لامّ*كلثوم بنت علي ( ع )، الشيخ سليمان بن عبد الله الماحوزى (متوفى1121 هـ)؛
قول محتوم فى عقد امّ*كلثوم*، سيد كرامة علي الهندى، چاپ هند، 1311هـ؛
العجالة المفحمة فى ابطال رواية نكاح امّ*كلثوم (فارسي)، سيد مصطفى ابن السيد محمد هادى بن مهدى بن دلدار علي نقوى (متوفى 1323هـ)؛
كنز مكتوم فى حل عقد امّ*كلثوم، سيد علي اظهر الهندى (متوفى 1352هـ)؛
تزويج امّ*كلثوم بنت اميرمؤمنان عليه السلام وانكار وقوعه، الشيخ محمد الجواد البلاغى (متوفى1352هـ؛
زواج امّ*كلثوم، سيد علي الشهرستانى (معاصر)؛
إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين
فى خبر تزويج امّ*كلثوم من عمر* و تزويج امّ*كلثوم من عمر، سيد علي الميلانى (معاصر).

0 comments:

Post a Comment