اکثر برادران اہل سنت بلکہ بعض شیعہ افراد کی جانب سے بہی یہ سوال کیا جاتا
ہے کہ مولا علی جو شیر خدا و رسول اور فاتح بدر و خیبر و حنین و خندق تہے.
جنکی شجاعت کا پورے عرب میں شہرہ تہا. اخر نبی اکرم کے بعد کیوں خاموش
رہے؟؟ .اور مظالم پر سکوت کیوں فرمایا ؟؟ بیشک یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور
سوال اپنی جگہ درست بہی ہے. پہلی بات تو یہ ہے جہ شجاعت کا تعلق صرف تلوار
چلانے اور دشمن کو گرانے سے نہی ہے . بلکہ اسلام میں شجاع ترین عہ ہے جو
اپنے نفس پر غلبہ پائے اور یقینا علی سے بڑہکر اس امت میں کویی شجاع نہی.
دواری بات یہ ہے کہ امام یا نبی ہمارے خیالات کیمطابق فیصلہ کے پابند نہی
ہیں . انکی شجاعت و بہادری کا مورد اللہ عزوجل کے حکم اور اس کے دین کی
مصلحت کے پابند ہے. لہذا جیاں تلوار چلانا مصلحت ہو وہاں ( اشداء علی
الکفار یعنی کافروں پر شدید ہیں ) اور جہاں صبر و تحمل قرین مصلحت ہو وہاں (
صبر جمیل بہترین و زیباترین صبر)کی مکمل صورت ہیں. مذکورہ سوال کسی نے خود
اپ علیہ السلام سے پوچہا تہا جسے احتجاج طبرسی میں نقل کیا گیا ہے. کہ اے
امیر المومنین ! اپ نے ناکثین ( اصحاب جمل جو بیعت توڑ کے اپ سے علیحدہ
ہوئے اور مارقین ( نافرمان و باغی گروہ مثل معاویہ و اصحاب معاویہ و ابن
العاص) اور خوارج ( اصحاب ذو الثدیہ جو حکمین کیبعد اپ سے علیحدہ ہوئے یہ
گروہ علی اور معاویہ دونوں کو کافر کہتا اور انہیں حکمین کے قضیے کیبعد
کافر سمجہتے تہے. لیکن تاریخ گواہ ہے کہ خوارج سے معاویہ و اصحاب معاویہ کو
کبہی کویی بہی نقصان نہی پہنچا. بلکہ فتنہ خوارج سے ہمیشہ علی اور شیعیان
علی کا نقصان ہوا ہے. لعنت اللہ علیہم) کے خلاف تلوار چلایی لیکن تینوں
خلفاء اور ان کے ساتہیوں کیخلاف ذولفقار کو کیوں بے نیام نہی کیا ؟؟؟ آپ نے
سایل کے جواب میں ارشاد فرمایا. " اس وقت مجہ پر چہ انبیاء کی اتباع لازم
تہی (1) سب سے پہلے جناب نوح کی مثال میرے سامنے تہی جب انہیں انکی قوم نے
مغلوب کیا تو فرمانے لگے ( رب انی مغلوب فانتصر- سورہ القمر -10) یعنی" اے
اللہ میں مغلوب کردیا گیا ہوں. میری مدد کر" ( شرح کلام )پس جب نبی مغلوب
کیا جاسکتا ہے اور نبوت برقرار بہی رہتی ہے تو پہر وصی کو اگر امت مغلوب
کردے تو کیا اسکی وصایت پر کویی فرق پڑ سکتا ہے؟ پس مولا نے جناب نوح کی
سیرت پر عمل کیا اور اللہ سے مدد کی دعا کی. جسطرح اللہ نے نوح کی مدد کی
اسیطرح ال محمد کی بہی مدد فرماییگا. (2) دوسری مثال جناب لوط علیہ السلام
کی تہی جو میرے سامنے تہی جس پر مجہے عمل کرنا تہا جب لوط نے کہا ( لو ان
لی بکم قوة او آوی الی رکن شدید. ہود -80) یعنی " اے کاش. میرے پاس اتنی
قوت ہوتی کہ میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا مجہے مضبوط طاقت کی پناہ مل سکتی "
(شرح کلام ) یعنی جناب لوط علیہ السلام کے گہر پر جب فرشتے لڑکوں کی شکل
میں ایے تاکہ ان پر عذاب ڈالا جاسکے. جب انکی بدکار قوم کو پتہ چلا کہ لوط
کے گہر خوبصورت لڑکے ائے ہیں وہ اس حقیقت سے بےخبر تہے کہ یہ فرشتے ہیں .یہ
لوگ مجمع کی صورت می اپکے گہر کیطرف نکل ایے. اور غلغلہ کرنے لگے تو جناب
لوط نے ان کو بہت سمجہایا کہ یہ میرے مہمان ہیں( اسوقت تک لوط علیہ السلام
طیج ان فرشتوں کی اصلیت سے واقف نہ تہے) لیکن اپکی بات کسی نے نہ مانی بلکہ
ان مہمانوں کو انکے حوالے کرنے کیلیے بضد رہے تو جناب لوط نے فرمایا.اج
میرے پاس تم سے مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی یعنی اصحاب و انصار ہوتے تو میں
تمہارا مقابلہ کرتا . لیکن ہایے تنہایی! میں تنہا ہوں اور کویی طاقتور
مددگار بہی نہی پات جس کی مدد سے میں تم سے مقابلہ کروں. لوط علیہ السلام
کی یہ بات سنی تو فرشتوں نے کہا اے لوط. ! ڈر یا خوف کی بات نہی یہ ہم پر
قدرت نہی رکہتے ہم فرشتے ہیں. پس اج کی رات اس جگہ سے نکل جاو.ہم بحکم خدا
اس بستی کو برباد کرنے ایے ہیں.اور اپنی زوجہ کو نہ لے جانا کیونکہ وہ انکی
جاسوسہ ہے وہ انکیساتہ ہلاک ہوگی. قارئین! کتنی مشابہت ہے قوم لوط اور امت
محمدیہ میں اور کسقدر مشابہ ہیں علی ابن ابیطالب جناب لوط علیہ السلام سے.
(3) جناب ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کی مثال بہی میرے سامنے تہی جب
اپ نے اپنی قوم سے فرمایا ( واعتزلکم مما تعبدون من دون اللہ. مریم -48)
یعنی " میں تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں
جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو " ( شرح کلام) یعنی جناب ابراہیم قوم کی
نافرمانی کیوجہ سے کنارہ کشی کرسکتے ہیں جبکہ وہ نبی اور خلیل اللہ تہے تو
پہر نبی کا وصی قوم سے کنارہ کشی کرے تو کیا مضایقہ ہے اور خصوصا جب یہ
خانہ نشینی بموجب رضایے خدا و مصلحت دین کیلیے ہو. (4) جناب موسی علیہ
السلام کی مثال بہی سامنے تہی جس پر عمل کرنا لازم تہا . جب موسی نے کہا (
ففررت لما خفتکم .الشعراء-21) اور میں نے تم ( فرعون) سے دوری اختیار کی جب
مجہے اپنی جان کا خدشہ لاحق ہوا. ( شرح کلام ) یعنی جناب موسی کلیم اللہ
علیہ السلام نے اپنی جان کے دفاع میں مصر کو ترک کیا اور مداین چلے گئے اور
جب حالات سازگار ہویے تو واپس تشریف لایے. اسیطرح وصی رسول خدا امیر
المومنین کو بہی اس امت سے خدشہ تہا لہذا اپ نے بہی انہیں ترک کردیا اور
امر خدا و حالات کی سازگاری کا انتظار فرمایا. پس جو شے نبی کیلیے عیب نہ
ہو وہ وصی کیلیے کیسے عیب بن سکتا ہے. (5) جناب ہارون کی مثال بہی میرے
سامنے تہی جب فرمایا ( یابن ام ان القوم استضعفونی وکادوا
یقتلوننی.اعراف-50) یعنی " اے میرے بہایی! اس امت نے مجہے کمزور کردیا اور
میرے قتل پر امادہ ہوگئے " شرح کلام ) جب موسی چالیس دن کیبعد تورات کی
الواح لیکر کوہ طور سے واپس ائے اور قوم کو بچہڑے کی پرستش کرتے پایا تو
ہارون پر غضبناک ہویے کہ انہیں اس کام سے کیوں نہ روکا ؟ تو جناب ہارون نے
جواب دیا اے میرے بہایی ! انہوں نے میری نافرمانی کی اور مجہے اکیلا کردیا
اور کمزور کردیا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے. پس وصی موسی کیلیے جیسے
حالات موسی کیبعد پیدا ہویے ایسے ہی حالات علی کیلیے نبی اکرم کیبعد پیدا
ہویے اور علی نے وہی کیا جو جناب ہارون نے کیا. تبہی تو نبی نے فرمایا تہا (
اے علی تمہیں مجہ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تہی. حدیث متفق
بین الفریقین ہے) (6) سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہی میرے
پیش نظر تہی جس کی اتباع مجہ پر لازم تہی جب مجہے اپنے بستر پر سلا کر ہجرت
فرمایی اور غار میں جا چہپے. یہ اپکا چہپنا دشمنوں کے شر سے بچنے کیلیے
تہا. ( شرح کلام ) دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کیلیے خود کو مخفی کرنا اور
چہپانا اللہ کا حکم تہا .جس پر نبی نے عمل کیا. پہر جب جنگوں کا حکم ایا تو
اپ نے انہی کفار کیخلاف جنگ فرمایی . اسیطرح علی ابن ابیطالب کا رسول
کیبعد ایک مخصوص مدت تک خاموشی اختیار کرنا بہی امر الہی تہا جس پر علی نے
عمل کیا. اور جب جنگوں کا زمانہ ایا تو علی ابن ابیطالب سے بڑہ کر راہ خدا
میں جہاد کرنیوالا کویی نہ تہا. ہم اسی پر اکتفا کرتے ہویے موضوع کو مکمل
کرتے ہیں اور اللہ سے سب کی توفیقات میں اضافے کیلیے دعاگو ہیں
Sunday, March 1, 2015
Home »
Khilafat
,
Religious Articles
» امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے حق کے غاصبوں کیخلاف تلوار کیوں نہ اٹہایی
0 comments:
Post a Comment