Wednesday, February 18, 2015

پانچواں زاویہ : تجزیہ اور تحقیق عمر کے شادی کے بہانے کی

اهل سنت،کے ادعا کے مطابق خلیفہ دوم نےام کلثوم کی خوستگاری کی تو امام علی علیہ السلام نے اس کے چھوٹے ہونے کا عذر بتاتے ہوئے منع کیا لیکن عمر کے اصرار اور عمر کی بیان کردہ دلیل کی بناء پر قبول کر لیا !!!.

عبد الرزاق صنعانى لکھتے ہیں:
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري فجاء إلى أصحابه فدعوا له بالبركة فقال إني لم أتزوج من نشاط بي ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة إلا سببي ونسبي فأحببت أن يكون بيني وبين نبي الله صلي الله عليه وسلم سبب ونسب
عمر بن خطاب نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] سے شادی کی . امّ*كلثوم بہت چھوٹی بچی تھی اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی پس عمر اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور انھوں نے عمر کے لئے برکت کی دعا کی ۔ پھر عمر نے کہا میں نے شادی جوانی کےشوق کی وجہ سے نہیں کی ہے ! بلکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے تو میں نے چاہا کہ میرے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے درمیان نسب اور سبب قائم ہو ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جبکہ شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ ، رسول خدا صلى الله عليه و آلہ نے عمر کی بیٹی حفصہ سے سبب قائم کیا ہوا تھا پس کیا احتیاج ہےکہ ام کلثوم سے شادی کرے۔
فرق نہیں پڑتا ہے انسان کسی کا داماد ہو یا وہ کسی کا سسر ہو سبب تو قائم ہوحاتا ہے اور رشتہ داری بن جاتی ہے اگر قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری قیامت میں کسی کو کام آئے سکے تو عمر کو حفصہ کی شادی کی وجہ سے کام آئے گی اس بناء پر ام کلثوم کے ذریعہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری بنانے کا ڈھونگ جھوٹ ہے اور یہ سبب بنتا ہے شادی بذات خود جھوٹ نظر آئے ۔

سيد ناصر حسين لكھنوى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وأما ما وقع في هذا الخبر المكذوب أن عمر قال للأصحاب: إن رسول الله ( ص ) قال: كل نسب وسبب منقطع يوم القيامة إلا نسبي وسببي، وكنت قد صحبته فأحببت أن يكون هذا أيضا.
فمردود لأن اتصال السبب من رسول الله ( ص ) لعمر بعد الصحبة كان حاصلا بلا شبهة عند أهل السنة من جهة أبنته حفصة: فإنها كانت من أزواج رسول الله ( ص )، وهذا الاتصال يكفي له أن كان عمر بن الخطاب مؤمنا مصدقا لقوله، وإن لم يكن مؤمنا مصدقا للرسول ( ص ) فما يزيده هذا الاتصال الذي طلبه من علي ( ع ) وهو محرم عليه بوجوه عديدة غير تقصير وتخسير كما لا يخفى على من له حظ من الإيمان، ونصيب.
وہ بات جو اس جھوٹی روایت میں آئی ہے کہ عمر نے اپنے یاروں سے کہا : رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے میں ایک صحابی تھا دل چاہتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے میری بھی یہی نسبت ہو! ۔
یقینا یہ بات بالکل باطل اور غلط ہے اسلئے کہ اہل سنت کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ عمر ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابی بننے کے بعد رشتہ دار بھی بن گئے تھے اور یہ رشتہ داری عمر کی بیٹی حفصہ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اور حفصہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ و آلہ میں شمار ہوتی تھیں اور یہی رشتہ اور اتصال ، عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بات پر ایمان رکھنے کی صورت میں کافی تھا اور اس سے، رشتہ بن گیا تھا ۔
اور اگر عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے قول ہر ایمان نہیں تھا تو دوسری بار رشتہ اور اتصال ام کلثوم کے ذریعہ سے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ یہ رشتہ متعدد وجوہ کی وجہ سے عمر پر حرام تھا اور یہ بات صاحبان ایمان پر آشکار ہے [اسکی تفصیل بعد میں آئے گی ]
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 140، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.

0 comments:

Post a Comment