Wednesday, February 18, 2015

دوسرا زاویہ : ام كلثوم بنت ابوبكر، يا ام كلثوم بنت امير المؤمنین علی عليه السلام

اہل سنت کا نظریہ ہےکہ ام کلثوم علی[ع] اور فاطمہ[س] کی بیٹی تھیں اس کےبرخلاف شیعہ کی کوئی بھی روایت اس مطلب کو بیان نہیں کرتی ہے کہ وہ لڑکی امام علی[ع] اور فاطمہ [س]کی بیٹی تھی بلکہ صرف اتنا ہے وہ ام کلثوم جو علی [ع]کے گھر میں تھی اور عمر بن خطاب کی اس سے [وہ بھی زبردستی] شادی ہوئی ہے اور اسکے بعد علی[ع] نے اسے دوبارہ اپنے گھر لے کر آئے ہیں ۔
اس بناء پر ممکن ہے کوئی کہے کہ وہ لڑکی امام علی [ع]سے ہی تھی لیکن جناب سیدہ فاطمہ [س] کےعلاوہ کسی اور بیوی سے تھی ۔لیکن اس توجیہ سےبھی جناب سیدہ[س] کی بھی بیٹی ہو نا ثابت نہیں ہوتا ہے ۔
احتمال قوی اور علماء اہل سنت کے اعتراف کے اعتبار سے وہ لڑکی امام علی علیہ السلام کی ربیبہ تھی اور ابوبکر کی بیٹی تھی۔
1. شارح صحيح مسلم کا اھم اعتراف کہ : عمر ابوبکر کے داماد تھے
بعض علماء اہل سنت نے تصریح کی ہے کہ جس ام کلثوم کا نکاح عمر سے ہوا تھا وہ ابوبکر کی بیٹی تھی

محى الدين نووى، شارح صحيح مسلم نے کتاب تهذيب الاسماء میں کہا ہے کہ عمر نے ابوبکرکی بیٹی سے شادی کی تھی !!!

أختا عائشة: اللتان أرادهما أبو بكر الصديق، رضى الله عنه، بقوله لعائشة: إنما هما أخواك وأختاك، قالت: هذان أخواى، فمن أختاى؟ فقال: ذو بطن بنت خارجة، فإنى أظنها جارية. ذكر هذه القصة فى باب الهبة من المهذب، وقد تقدم بيانهما فى أسماء الرجال فى النوع الرابع فى الأخوة، وهاتان الأختان هما أسماء بنت أبى بكر، وأم كلثوم، وهى التى كانت حملاً، وقد تقدم هناك إيضاح القصة، وأم كلثوم هذه تزوجها عمر بن الخطاب، رضى الله عنه.

عائشہ کی دو بہنیں وہی جو ابوبکر کی حضرت عائشہ سے گفتگو میں مراد تھیں " یہ دو بھائی اور دو بہن [جو مجھ سے میراث پائیں گے] عائشہ سوال کیا میرے تو دو بھائی ہیں لیکن دو بہن کیسی [میری تو ایک بہن ہے] ابوبکر نے جواب دیا وہ بہن جو خارجہ کے شکم میں ہے میرے گمان میں وہ ایک لڑکی ہے ۔ اس قصہ کو کتاب الھبہ من المھذب میں بیان کیا گیا ہے اور ابوبکر کی دو بیٹوں کا بیان "ذکر اسماء رجال " میں گزر گیا ہے یہ دونوں ابوبکر کی بیٹیاں وہ ہی اسماء بنت ابو بکر اور ام کلثوم ہے جو اببکر کی موت کے وقت شکم مادر میں تھی اور اسی بحث میں کامل قصہ گزر گیا ہے اور یہ وہی ام کلثوم ہےجس سے عمر بن خطاب کی شادی ہوئی
النووي، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف بن مري (متوفاي676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 2، ص630، رقم: 1224، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

اس اعتراف کے بعد امیر المومنین کی بیٹی کے ساتھ عمر کی شادی ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے
اور یہ شادی تاریخی حقائق کے ساتھ سازگار بھی ہے اس لئے خلیفہ اول اور دوم ایک دوسرے کے دہرینہ دوست تھے اور ابو بکر کی موت کے بعد یہ فطری بات تھی کہ عمر اس پر سوچتے کہ ابوبکر کی اولاد کی کفالت کا بند و بست کیا جائے اور ابوبکر کی بیٹی سے شادی کرنا اس کا بہترین طریقہ ہے ۔

روایت کہ "عائشہ نےعمر کی ابوبکر کی خواستگاری کو رد کردیا تھا " کی تحقیق :

البته بعض افراد نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ عمر نے فقط خواستگاری کی تھی لیکن شادی نہیں ہوئی تھی اور خواستگاری کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جس کو نہ اہل سنت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی شیعہ قبول کر سکتے ہیں۔
اهل سنت کے علماء نے نقل کیا ہے کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے خواستگاری کی تو عائشہ اور ام کلثوم نے عمر کی بد اخلاقی اور سخت مزاجی کی وجہ سے مخالفت کی اور عائشہ نے عمرو عاص کو جو اہل بیت خصوصا امام علی علیہ السلام کی دشمنی میں پیش پیش تھا اسے واسطہ قرار دیا اور اس نے عمر کو ام کلثوم بنت علی سےشادی کا کہا ۔
وخطب أم كلثوم بنت أبي بكر وهي صغيرة وأرسل فيها إلى عائشة فقالت الأمر إليك فقالت أم كلثوم لا حاجة لي فيه فقالت لها عائشة ترغبين عن أمير المؤمنين قالت نعم إنه خشن العيش شديد على النساء.
فأرسلت عائشة إلى عمرو بن العاص فأخبرته فقال أكفيك فأتى عمر فقال يا أمير المؤمنين بلغني خبر أعيذك بالله منه قال وما هو قال خطبت أم كلثوم بنت أبي بكر قال نعم أفرغبت بي عنها أم رغبت بها عني قال لا واحدة ولكنها حدثة نشأت تحت كنف أم المؤمنين في لين ورفق وفيك غلظة ونحن نهابك وما نقدر أن نردك عن خلق من أخلاقك فكيف بها إن خالفتك في شيء فسطوت بها كنت قد خلفت أبا بكر في ولده بغير ما يحق عليك قال فكيف بعائشة وقد كلمتها قال أنا لك بهاوأدلك على خير منها أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب.

عمر بن خطاب نے پہلے امّ*كلثوم بنت ابوبكر سے خواستگارى کی تو عائشہ نے اپنی بہن کو اس رشتہ کی بارے میں بتایا تو اس نے کہا مجھے عمر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،عائشہ نے کہا کیا امیر المومنین نہیں چاہئے ؟ام کلثوم نے کہا :نہیں وہ شدت پسند اور سخت مزاج ہے اور عورتوں پر تند مزاجی رکھتا ہے ۔عائشہ نے کسی کو عمرو عاص کے پاس بھیجا اور تمام ماجری بیان کر دیا۔ عمرو عاص نے کہا میں مسئلہ کو حل کردونگا ۔عمرو عاص عمر کے پاس جاکر کہتا اے امیر المومنین ایک خبر سنی ہے کہ اللہ کرے صحیح نہ ہو ۔ عمر نے کہا کیا سنا ہے تم نے؟ عمرو عاص نے کہا سنا ہے آپ نے ابوبکر کی بیٹی کا رشتہ مانگا ہے ؟ عمر نے کہا ایسا ہی ہے کیا مجھ اس کی لائق نہیں جانتے ہو یا اسے میرے لائق نہیں سمجھتے ؟ عمرو عاص نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے لیکن وہ چھوٹی ہے اور ام المومنین کے ناز و نعم میں پلی ہے جبکہ تم تلخ مزاج اور ہم بھی تم سے ڈرتے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی قادر نہیں ہے تمہارے اخلاق کو صحیح کر سکے ۔۔۔۔۔لہذا میں تم کو ابوبکر کی بیٹی سے بہتر ام کلثوم بنت علی کا مشورہ دیتا ہوں ۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 99، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرتے ہیں عمر کی ابوبکر کی خواستگاری اتنی خوفناک تھی کہ عمرو عاص اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہے اور یہی شخص مشورہ دیتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرلیجئے یعنی ابوبکر کا احترام واجب اور اس کی بیٹی کو نہ ستایا جائے لیکن حضرت زہرا [س]کا کوئی احترام نہیں ہے اور انکی بیٹی کو ستانے میں مسئلہ نہیں ہے !!!
کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرے ہیں کہ روح ابوبکر کو اذیت دینا روح حضرت زهرا سلام الله عليها کو اذیت دینے سے زیادہ اھمیت رکھتا ہے ؟ جبکہ اہل سنت کی صحیح السند روایت میں ہے جناب سیدہ فاطمہ[س] کو ستانا رسو ل اللہ[ص] کو ستانے کے برابر ہے جبکہ ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کیا۔
کیا اہل سنت عمر سے نقل نہیں کرتے ہیں کہ رسول [ص]کے رشتہ دار میرے لئے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اھمیت رکھتے ہیں ؟
کیا اہل سنت اس بات کو قبول کرینگے کہ عمر ابوبکر کے گھر والوں کی تو رعایت کرے لیکن رسول [ص]کے گھر والوں کی رعایت نہیں کرتے ہیں ؟ اپنی ذاتی بد اخلاقی کی وجہ سے ابوبکر کی بیٹی سے تو امتناع لیکن نا موس رسول[ص] سے شادی پر اصرار !!!
اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو بیان شدہ اعتراضات اہل سنت پر لگائے جائیں گے اور اگر اس روایت کو جعلی قبول کر لیا جائے [کہ ایسا ہی ہے ]
اور اس کو گھڑ نے کی وجہ بھِی معلوم ہے کہ اس کو گھڑ نے کے زمانہ میں مشہور تھا کہ عمر نے ابوبکر کی بیٹی سے شادی کی ہے نہ کہ امام علی [ع]کی بیٹی سے ان لوگوں نے چاہا کہ کہیں وہ صرف ایک خواستگاری کی گئِ تھی اس کے بعد حضرت علی [ع]کی بیٹی کے لئے اقدام کیا گیا ، ۔۔۔
شیعہ نسب شناس علماء بھی نووی کے کلام کو قبول کرتے ہیں اور ام کلثوم زوجہ عمر کو نسلِ امام علی علیہ السلام سے نہیں جانتے ہیں

آية الله مرعشى کہ جن کے پاس تمام اہل بیت کے شجرہ نامہ موجود ہیں وہ حاشيه شرح احقاق الحق پر اسی نظریہ کو لکھتے ہیں اور اسے محققین کا قول جانتے ہیں

هاجرت مع زوجها إلى الحبشة، ثم إلى المدينة المنورة، تزوجها بعد جعفر أبو بكر، فتولدت له منها عدة أولاد منهم أم كلثوم وهي التي رباها أمير المؤمنين عليه السلام وتزوجها الثاني، فكانت ربيته عليه السلام وبمنزلة إحدى بناته، وكان عليه السلام يخاطب محمد بابني وأم كلثوم هذه بنتي، فمن ثم سرى الوهم إلى عدة من المحدثين والمؤرخين فكم لهذه الشبهة من نظير، ومنشأ الأكثر الاشتراك في الاسم أو الوصف، ثم بعد موت أبي بكر تزوجها مولانا علي عليه السلام.

وہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرکے مدینہ لوٹیں اور جعفر کے بعد ان سے ابوبکر نے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی جن میں سے ام کلثوم بھی تھی اور حضرت علی[ع] نے اسے بڑا کیا اور خلیفہ دوم نے اس سے شادی کی وہ امام علی [ع]کی منہ بولی بیٹی اور امام کی بیٹیوں کی طرح تھی امام علی[ع] ، محمد بن ابوبکر کو اپنا بیٹا اور اسی ام کلثوم کو اپنی بیٹی کہہ کر مخاطب کرتے تھے اسی سبب سے بعض محدثین اور مروخین اس وھم میں مبتلاء ہو گئے اور ایسی غلطیاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں جس کا سبب کسی نام میں یا کسی صفت میں مشترک ہونا بنتا ہے ابوبکر کی موت کے بعد امام علی علیہ السلام نے انکی بیوی سے شادی کی ۔
المرعشي النجفي، آية الله السيد شهاب الدين (متوفاي 1369ش)، شرح إحقاق الحق وإزهاق الباطل، ج 30 ص 315 اشر: منشورات مكتبة آية الله العظمى المرعشي النجفي ـ قم.

سوال یہ ہوتا ہے یہ لڑکی کیسے امام علی [ع]کے گھر میں آئی ؟ ظاہر ہے جب ابوبکر اس دنیا سے چلے گئے اور ابوبکر کی بعض بیویوں نے امام علی[ع] سے شادی کی تو اسی سبب سے ابوبکر کے بعض بچوں نے امام علی علیہ السلام کے گھر میں نشاء و نما پائی۔اور محمد بن ابى بکر؛ اور امّ*كلثوم بھی انھیں بچوں میں سے ہیں ۔
البتہ کوئی اعتراض کرے کہ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ لڑکی امیر المومنین کی ربیبہ نہیں ہو سکتی ہے اس لئے کہ اہل سنت کے نقل کے اعتبار سے وہ حبیبہ بنت خارجہ کی بیٹی تھی اور بنت خارجہ نے ابوبکر کے مرنے کے بعد خبیب بن اسیاف سے شادی کی تھی ناکہ امیر المومنین سے ؟
اسکے جواب میں ہم کہیں گے کہ ام کلثوم کی والدہ کی شادی خبیب بن اسیاف سے اسی جھوٹے قصہ کی ایک لڑی ہے تاکہ حقیقت تک رسائی کے تمام راستہ بند کر دیئے جائیں جب اس جھوٹ سے پردہ ہٹایا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا ہے اس لئے کہ اہل سنت کے قدیمی تاریخ کے منابع کہتے ہیں کہ خبیب بن اسیاف جنگ یمامہ میں اور ابوبکر کی زندگی میں قتل ہوگیا تھا ۔

محمد بن حبيب بغدادى نے المحبّر میں لکھا ہے :
خبيب بن اساف قتل يوم اليمامة.
خبيب بن اساف روز يمامه (جنگ با مسيلمه كذاب) میں قتل ہوگیا تھا.
البغدادي، أبو جعفر محمد بن حبيب بن أمية (متوفاي245هـ)، المحبر، ج 1، ص 403، طبق برنامه الجامع الكبير.

2. يك روايت دو ام كلثوم سے :
اہل سنت کے ماخذ کی طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں ایک ہی روایت دو طریقہ سے نقل ہے یعنی کبھی ام کلثوم بنت ابوبکر اور کبھی وہی روایت ام کلثوم بنت امام علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے یہ وہی ام کلثوم بنت علی ہے جو در حقیقت ابوبکر کی بیٹی ہے ۔

ابن أبى شيبه، ذیل کی روایت کو امّ*كلثوم بنت ابوبكر سے نقل کرتے ہیں :
حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أخبرنا جبر بن حبيب عن أم كلثوم بنت أبي بكر عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمها هذا الدعاء اللهم إني أسألك من الخير كله عاجله وآجله ما علمت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله ما علمت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألك من خير ما سألك عبدك ونبيك وأعوذ بك من شر ما عاذ به عبدك ونبيك اللهم إني أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل وأسألك أن تجعل كل قضاء تقضيه لي خيرا.
عفان نے ہمارے لئے روایت کی ہے کہ حماد بن سلمہ / جبر بن حبیب نے روایت کی ہے کہ ام کلثوم بنت ابوبکر نے عائشہ سے روایت کی ہے ۔ ۔ ۔
إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص 44، ح29345، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ؛
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 6، ص 133، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، الأدب المفرد، ج 1، ص 222، تحقيق: محمد فؤاد عبدالباقي، ناشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1409 – 1989م.

جبکہ اسحق بن راھویہ نے اسی روایت کو ام کلثوم بنت علی [ع]کے نام سے ذکر کیا ہے عائشہ سے نقل کرتے ہوئے ۔

أخبرنا النضر نا شعبة نا جبر بن حبيب قال سمعت أم كلثوم بنت علي تحدث عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ليكلمه في حاجة وعائشة تصلي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا عائشة عليك بالجوامع والكوامل قولي اللهم إني أسألك من الخير كله عاجله وآجله ما عملت منه وما لم أعلم وأعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله ما عملت منه وما لم أعلم اللهم إني أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل اللهم إني أسألك مما سألك منه محمد وأعوذ بك مما استعاذ منه محمد صلى الله عليه وسلم اللهم ما قضيت لي من قضاء فاجعل عاقبته لي رشدا

الحنظلي، إسحاق بن إبراهيم بن مخلد بن راهويه (متوفاي238هـ)، مسند إسحاق بن راهويه، ج 2، ص 590، ح1165، تحقيق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي، ناشر: مكتبة الإيمان - المدينة المنورة، الطبعة: الأولى، 1412هـ – 1991م

0 comments:

Post a Comment