Wednesday, February 18, 2015

نواں زاویہ : روايات اهل تسنن کی تحقیق

اس شادی کے متعلق بہت سی روایات اہل سنت آئی ہیں جو سندی مشکلات رکھتی ہیں اور دوسری جانب ان میں ایسا تعارض اور تناقض موجود ہے کہ جس میں جمع ممکن نہیں ہے ۔
حضرت آيت الله ميلانى نے كتاب" تزويج امّ*كلثوم من عمر"، ان تمام روایات کی تحقیق پیش کی ہے اور کیونکہ ہمارا ھدف اختصار سے کام لینا ہےفقط اھم ترین روایات اہل سنت کو نقل اور انکی تحقیق پیش کرینگے ۔
بخارى لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَاب [ زهري ]، قَالَ ثَعْلَبَةُ بْنُ أَبِي مَالِك إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قَسَمَ مُرُوطًا بَيْنَ نِسَاء مِنْ نِسَاءِ الْمَدِينَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَيِّدٌ فَقَالَ لَهُ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَعْطِ هَذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الَّتِي عِنْدَكَ. يُرِيدُونَ أُمَّ كُلْثُوم بِنْتَ عَلِيّ. فَقَالَ عُمَرُ أُمُّ سَلِيط أَحَقُّ. وَأُمُّ سَلِيط مِنْ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالَ عُمَرُ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ يَوْمَ أُحُد. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ تَزْفِرُ تَخِيطُ.
ثعلبة بن مالك کہتے ہیں : عمر، مدينه کی عورتوں میں چادریں تقسيم کی، اور ایک اچھی چادر باقی بچ گئی تو عمر کے پاس موجود بعض افراد نے کہا یہ بنت رسول [ص] کو دودو جو تمہارے پاس ہے ان لوگوں کی مراد ام کلثوم بنت علی [ع] تھی تب عمر نے کہا ام سلیط اس کی زیادہ حقدار ہے اور ام سلیط انصار میں سے تھی کیونکہ وہ احد کےدن پھٹی ہوئی مشک کو سیا کرتی تھی ۔۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1056، ح2725، كتاب الجهاد والسير، ب 66، باب حَمْلِ النِّسَاءِ الْقِرَبَ إِلَى النَّاسِ فِي الْغَزْوِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

اولا: اس سند میں یونس بن یزید ایلی موجود ہے جو اہل سنت بزرگ علماء کے نظریہ کے مطابق جس میں خود بخاری بھی شامل ہے ، شھاب زھری کی روایات میں کثیر خطا کا مرتکب ہوا ہے اور زھری سے منکر روایات نقل کرتا ہے ۔
مزى نے تهذيب الكمال اسکے احوال میں لکھا ہے :
وقال محمد بن عوف، عن أحمد بن حنبل: قال وكيع: رأيت يونس بن يزيد الايلي وكان سيئ الحفظ.
قال أبو عَبد الله: يونس كثير الخطأ عن الزُّهْرِيّ، وعقيل أقل خطأ منه.
وقال أبو زُرْعَة الدمشقي: سمعت أبا عَبد الله أحمد بن حنبل يقول: في حديث يونس بن يزيد منكرات عن الزُّهْرِيّ.
وَقَال أبو الحسن الميموني: سئل أحمد بن حنبل: من أثبت في الزُّهْرِيّ؟ قال: معمر. قيل له: فيونس؟ قال: روى أحاديث منكرة.
وقال محمد بن سعد: كان حلو الحديث، كثيره، وليس بحجة، ربما جاء بالشئ المنكر.
وكيع کہتے ہیں: يونس بن يزيد ايلى کو دیکھا ہے وہ حفظ میں برا تھا !
ابوعبد الله (ظاهرا احمد بن حنبل) نے کہا یونس زھر سے اسکی خطا بہت ہیں اور عقیل نے اس سے کم خطائیں کی ہیں ۔
ابوزرعه دمشقى کہتے ہیں ابوعبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا ہے : یونس کی زھری سے روایات منکرات رکھتی ہیں
ابوالحسن ميمونى نے بھی کہا: احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ زھری سے روایات کرنے والا بہترین راوی کون ہے کہا : معمر ۔ پھر سوال کیا یونس کیسا ہے ؟ امام احمد نے کہا وہ منکرات [ نا قابل قبول ] روایات نقل کرتا ہے !
محمد بن سعد نے کہا یونس کی روايات مزیدار ہوتی ہیں ؛ لیکن حجیت نہیں رکھتی ہیں ؛ اس لئے کہ وہ منکرات کو نقل کرتا ہے !
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 32، ص 554، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م
اور ابن حجر عسقلانى نےاس کے ترجمہ میں لکھا ہے :
يونس بن يزيد بن أبي النجاد الأيلي بفتح الهمزة وسكون التحتانية بعدها لام أبو يزيد مولى آل أبي سفيان ثقة إلا أن في روايته عن الزهري وهما قليلا وفي غير الزهري خطأ.
يونس بن يزيد، ؛ ۔۔ آل ابو سفیان کا غلام ثقه ہے زھری سے اسکی روایات میں وھم قلیل پایا جاتا ہے اور غیر زھری کی روایات میں خطا پائی جاتی ہے ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج 1، ص 7912، رقم: 7919، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولى، 1406 - 1986.علي بن عابس.

ثانياً: اس روايت کی سند میں محمد بن مسلم زهرى ہے جو دشمنان اہل بیت علیہم السلام ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو بنی امیہ کے بارے میں جھوٹی روایات گھڑتی ہیں اسی طرح زھری كثير الإندراج تھا یعنی روایات میں اپنی باتیں شامل کرنے والا ۔

زهري، بني اميه کے مفاد میں روایات گھڑتا ہے :
زهرى ان افراد پلید میں سے تھا جو دربار بنی امیہ میں جعلی روایات و احادیث بناتے تھے جیسا کہ ابن عساکر عالم اہل سنت نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے :
نا جعفر بن إبراهيم الجعفري قال كنت عند الزهري أسمع منه فإذا عجوز قد وقفت عليه فقالت يا جعفري لا تكتب عنه فإنه مال إلى بني أمية وأخذ جوائزهم فقلت من هذه قال أختي رقية خرفت قالت خرفت أنت كتمت فضائل آل محمد.
جعفر بن ابراهيم جعفر ی کہتے ہیں میں زھری سے حدیث سننے میں مشغول تھا اتنے میں ایک بوڑھی عورت آکر کہتی ہے اس سے کوئی روایت نقل مت کرو کیوں کہ یہ بنی امیہ کی طرف مائل ہے اور ان سے تحائف اور انعام لیتا ہے ۔ میں نے کہا یہ کون ہے ؟ زھری نے کہا یہ میری بہن رقیہ ہے اس کا دماغ چل گیا ہے ۔
زھری کی بہن نے جواب دیا: بلکہ تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورتو آل محمد] صلی اللہ علیہ و آلہ [کے فضائل کو چھپاتا ہے !۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 42، ص 228، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

ابن حجر نے ترجمه اعمش میں لکھا ہے :
وحكى الحاكم عن ابن معين أنه قال أجود الأسانيد الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله فقال له انسان الأعمش مثل الزهري فقال برئت من الأعمش أن يكون مثل الزهري الزهري يرى العرض والإجازة ويعمل لبني أمية والأعمش فقير صبور مجانب للسلطان ورع عالم بالقرآن.
حاكم ( نيشابوري) نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: بہترین سند یہ ہے" الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله " کسی نے کہا اعمش زھری کی طرح ہے؟ ابن معین نے کہا میں بیزار ہو اور برائت کرتا ہوں کہ اعمش ، زھری کی طرح ہو ۔ زھری مال دنیا اور انعام کے پیچھےہے اور بنی امیہ کے لئے کام کرتا تھا اور اعمش ایک فقیر درویش انسان اور حکمرانوں سے دوری اختیار کرتا تھا اور صاحب تقوی اور قرآن پر عمل کرنے والا تھا ۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 4، ص 196، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 - 1984 م.
اور اسی طرح ذهبى نےسير اعلام النبلاء میں لکھا ہے :
كان رحمه الله محتشما جليلا بزي الأجناد له صورة كبيرة في دولة بني أمية.
زهرى، بہت مال و ثروت کا مالک تھا اور اسکا بنی امیہ کی حکومت میں بڑا کردار اور نام تھا۔
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 5، ص 337، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

اور ابن عساكر لکھتے ہیں :
عن عمر بن رديح قال كنت مع ابن شهاب الزهري نمشي فرآني عمرو بن عبيد فلقيني بعد فقال ما لك ولمنديل الأمراء يعني ابن شهاب
عمر بن رديح سے روایت ہوئی ہے ایک دن زھری کے ساتھ چل رہے تھے تو مجھے عمرو بن عیبد نے دیکھ لیا بعد میں مجھ سے ملاقات کر کے کہا تمہارا کیا واسطہ حکمرانوں کے رومال سے ؟ یعنی زھری حکمرانوں کے چمچہ سے تمہارا تعلق کیوں ہے ۔؟
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 55، ص 370، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

دوسری جانب اهل سنت کے علماء ؛ جس میں مزى و ذهبى شامل ہیں وہ امام صادق عليه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
هشام بن عباد، قال: سمعت جعفر بن محمد، يقول: الفقهاء أمناء الرسل، فإذا رأيتم الفقهاء قد ركنوا إلى السلاطين فاتهموهم.
هشام بن عباد کہتے ہیں : جعفر بن محمد (عليه السلام) سے سنا ہے کہ فقہاء رسولوں کے امانت دار ہیں پس جب تم فقہیا کو دیکھے کہ انھوں نے حکمرانوں پر تکیہ کیا ہوا ہے تو ایسے فقہاء سے بد ظن ہوجاو۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 6، ص 262، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

پس جو شخص اہل بیت علیہم السلام کا خصوصا امام علی علیہ السلام کا دشمن ہو اسکی امام علیہ السلام کے خلاف روایات کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے ؟
زهري، كثير الإدراج ہے:
ثالثاً: چونکہ زھری کثیر الندراج ہے اس کے اندرجات اور اضافات خود اہل سنت کا ہان بھی معتبر نہیں ہے یعنی ان افراد میں سے ہے جو اپنی طرف سے احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں اضافہ کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے کلام میں اپنے کلام کی ملاوٹ کرتا ہے ۔اور ظاہر ہوتا ہے کہ يُرِيدُونَ امّ*كلثوم بِنْتَ علي کا جملہ خود زھری کا اضافہ ہے کہ جو اصل روایت میں نہیں ہے ۔
حسن بن سقاف عالم اهل سنت "كتاب تناقضات البانى" میں لکھتے ہیں :
ثم إن الزهري كان يدرج ألفاظا في الأحاديث النبوية هي من فهمه أو تفسيره نبه على ذلك بعض الأئمة كالبخاري وربيعة شيخ الامام مالك... وكم في الفتح وغيره من جمل وكلمات وعبارات نبه عليها الحفاظ أنها من مدرجات وزيادات الزهري والله الهادي.
زهرى، الفاظ کو احادیث نبوی میں اضافہ کرتا تھا جبکہ وہ خود اسکی سوچ اور تفسیر ہوتی تھی جیسا کہ بعض ائمہ، بخاری ، ربیعہ شیخ امام مالک ۔۔۔ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اور کتنے کی جملات اور الفاظ ایسے ہیں جس کی طرف حفاظ نے توجہ دلائی ہے کتاب فتح الباری اور دوسری کتب میں بیان کیا ہے کہ وہ سب زھری کا اضافہ ہے ۔

السقاف، حسن بن علي بن هاشم بن أحمد بن علوي (معاصر)، تناقضات الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات، ج 3، ص 336، ناشر: دار الامام النووي، عمان – الأردن، الطبعة: الرابعة، 1412هـ ـ 1992 م. ابن حجر نے فتح البارى میں متعدد مقامات پر صحیح بخاری کی اندر" مدرجات زهرى" ، قرار دیا ہے جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :
1. تنبيه ) قوله وبعض العوالي الخ مدرج من كلام الزهري في حديث أنس بينه عبد الرزاق عن معمر عن الزهري... فقال هو إما كلام البخاري أو أنس أو الزهري كما هو عادته.
اور عبارت وبعض العوالي.. ادراجات زهرى ہے ... یہ مطلب کلام بخاری ہے یا انس یا پھر زھری ہے کہ جس کی عادت ہی یہی ہے۔ !
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 2، ص 29، تحقيق: محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت.
2. قال الخطابي هذه الزيادة يشبه أن تكون من كلام الزهري وكانت عادته أن يصل بالحديث من كلامه ما يظهر له من معنى الشرح والبيان.
ظاهرا یہ ہے یہ کلام کا حصہ، زھری کا اضافہ ہے اور اسکی عادت ہی یہی تھی کہ حدیث سے ایسے معنی کا اضافہ کر دیتا ہے جو معنی شرح اور بیان سےاسے سمجھ آرہا ہو ۔

ج 5، ص 38
3. قوله وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها هو كلام الزهري.
عبارت وما نعلم أحدا من المهاجرات ارتدت بعد ايمانها یہ اضافہ زھری کی طرف سے ہے !
ج 5، ص 352.
4. ( قوله فهما على ذلك إلى اليوم ) هو كلام الزهري أي حين حدث بذلك.
عبارت فهما علي ذلك الى اليوم یہ زھری کا کلام ہے ، يعنى جب روایت بیان کر رہا تھا!
ج 6، ص 204.
5. ( قوله وهي العوامر ) هو كلام الزهري أدرج في الخبر
عبارت وهى العوامر یہ مدرجات كلام زهرى یے جس کو اس نے روایت کے اندر داخل کردیا ہے !
ج6، ص204.
اور اسی طرح بہت سے موارد جس میں : ج 6، ص 174 و ج 6، ص 249 و ج 7، ص 186 و ج 8، ص 87 و ج 9، ص 404 و ج 10، ص 78 و ج 10، ص 141 و ج 11، ص 507 و ج 12، ص 362 و... شامل ہیں
اسی طرح ایک اور عالم اہل سنت نووی نے جہر و اخفات سے متعلق دو روایت نبوی میں لکھا ہے :



( الشرح ) * هذان الحديثان رواهما أبو داود والترمذي وغيرهما وقال الترمذي هما حديثان حسنان وصحح البيهقي الحديث الأول وضعف الثاني حديث أبي هريرة وقال تفرد به عن أبي هريرة ابن أكيمة، بضم الهمزة وفتح الكاف، وهو مجهول قال وقوله فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه هو من كلام الزهري وهو الراوي عن ابن أكيمة قاله محمد بن يحيى الذهلي والبخاري وأبو داود واستدلوا برواية الأوزاعي حين ميزه من الحديث وجعله من قول الزهري.
ان دو حديث کو ابوداوود، ترمذى اور ديگران نے نقل کیا ہے . ترمذى نے کہا ہے یہ دونوں روایت حسن ہے جبکہ بیہقی نےروایت اول کو صحیح اور روایت دوم [ابوہریرہ ] کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ چونکہ ابن اکیمہ مجہول ہے اور بیہقی نے مزید کہا فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه یہ زہری کا کلام ہے اور زھری ابن اکیمیہ سے روایت کرنے والا ہے اس بات کو ذھلی ، بخاری ، ابوداود نے کہا اور ان لوگوں نے اوزاعی کی روایت سے استدلال کیا ہے جبکہ اس کلام کو حدیث سے جدا کیا اوراور اسے قول زھری قرار دیا ۔
النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 3، ص 311، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
یہ واضح کرتا ہے کہ مدرجات زھری کی اہل سنت ہاں کوئی اھمیت نہیں ہے ورنہ بیہقی اس طرح نہ کہتے ۔
زهري مدلسین میں سے تھے :
رابعاً: زهرى مدلسين میں شمار ہوتے ہیں ؛ چنانچه ابن حجر عسقلانى نے كتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ، میں زهرى کو مدلسین مرتبہ سوم میں سے قرار دیا ہے:
الثالثة من أكثر من التدليس فلم يحتج الأئمة من أحاديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع ومنهم من رد حديثهم مطلقا
سوم : وہ افراد جن کی تدلیس زیادہ ہے پس ائمہ نےانکی احادیث سے استدلال نہیں کیا مگر جب وہ سماع کی تصریح کریں اور بعض ائمہ نے تو ایسے افراد کو ہر حال میں رد کیا ہے [ چاہے سماع کی تصریح کریں یا نہ کریں]!

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852 هـ)، تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، ج 1، ص 13، تحقيق وتعليق د. عاصم بن عبد الله القريوني، ناشر: مكتبة المنار ـ اردن، عمان، الطبعة الأولي.
عسقلانی ترجمه زهرى میں لکھتے ہیں :
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب الزهري الفقيه المدني نزيل الشام مشهور بالامامة والجلالة من التابعين وصفه الشافعي والدارقطني وغير واحد بالتدليس.
محمد بن مسلم بن عبيد الله بن شهاب زهرى فقیه مدنى، شام میں زندگی بسر کی امامت اور جلالت میں مشہور تابعی ہیں شافعی اور دارقطنی اور بہت سے افراد نے اسے مدلس قرار دیا ہے ۔!
ج 1، ص 45.
دوسری طرف اهل سنت کے علماء نے تدليس و مدلسين کو قبیح قرار دیا ہے اور تدلیس کو جھوٹ اور کذب کا بھائی قرار دیا ہے
؛ چنانچه خطيب بغدادى نے الكفاية فى علم الرواية میں قول شعبة بن حجاج نقل کیا ہے :
عن الشافعي، قال: قال شعبة بن الحجاج: التدليس أخو الكذب... وقال غندر: سمعت شعبة يقول: التدليس في الحديث أشد من الزنا، ولأن أسقط من السماء أحب إلي من أن أدلس... المعافى يقول: سمعت شعبة يقول: لأن أزني أحب إلي من أن أدلس.
تدليس، برادر کذب ہے غندر کہتے ہیں : میں نے شعبہ سے سنا ہے : حدیث میں تدلیس کرنا زنا کرنے سے بدتر ہے کیونکہ مجھے منظور ہے آسمان سے زمین پر گرجاون لیکن تدلیس نہ کروں ۔۔ المعافی نے کہتے ہیں میرے لئے زنا کرنا بہتر اس سے کہ میں تدلیس کروں۔

نیز مزید آگے کہتے ہیں :
خرّب الله بيوت المدلّسين، ما هم عندي إلا كذابون و التدليس كذب
خداوند، مدلسین کا خانہ خراب کرے میرے نزدیک یہ لوگ کذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور تدلیس خود جھوٹ ہے ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، الكفاية في علم الرواية، ج 1، ص 356، تحقيق: أبو عبدالله السورقي، إبراهيم حمدي المدني، ناشر: المكتبة العلمية - المدينة المنورة.

آیا ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے اب بھی کیا زھری پر اعتماد کیا جائے گا؟

زهري، دشمن امام علي عليه السلام ہے:
ثانياً: زهرى اميرالمؤمنین عليه السلام کی بدگوئی کرتا تھا ۔ابن ابی الحدید شافعی نے شرح میں لکھا ہے :
وَ كَانَ الزهْرِيُّ مِنَ الْمُنْحَرِفِينَ عَنْهُ عليه السلام
وَ رَوَى جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ شَهِدْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ فَإِذَا الزُّهْرِيُّ وَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ جَالِسَانِ يَذْكُرَانِ عَلِيّاً فَنَالا مِنْهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ (عليه السلام) فَجَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِمَا فَقَالَ أَمَّا أَنْتَ يَا عُرْوَةُ فَإِنَّ أَبِي حَاكَمَ أَبَاكَ إِلَى اللَّهِ فَحَكَمَ لِأَبِي عَلَى أَبِيكَ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زُهْرِيُّ فَلَوْ كُنْتُ بِمَكَّةَ لَأَرَيْتُكَ كَرَامَتَكَ‏.
زهرى علي عليه السلام کے مخالفین میں سے تھا . محمد بن شيبه سے روایت ہوئی ہے : میں مسجد مدینہ میں داخل ہوا ہے تو اس میں زھری اور عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ وہ دونوں علی [علیہ السلام ] کی بد گوئی کر رہے ہیں یہ بات علی بن حسین[ علیہما السلام ] تک پہنچی تو فرمایا: اے عروہ تمہارے والد کو میرے والد نے اللہ کے فیصلہ پر کہا تو اللہ نے میرے والد کے حق میں فیصلہ کیا اور تو اے زھری اگر تم مکہ میں ہوتے تو تیری اوقات یاد دلادیتا ۔
إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 4، ص 61، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.

اور امام علي بن الحسين عليه السلام زھری کے نام خط میں لکھتے ہیں :
... وَ اعْلَمْ أَنَّ أَدْنَى مَا كَتَمْتَ وَ أَخَفَّ مَا احْتَمَلْتَ أَنْ آنَسْتَ وَحْشَةَ الظَّالِمِ وَ سَهَّلْتَ لَهُ طَرِيقَ الْغَيِّ بِدُنُوِّكَ مِنْهُ حِينَ دَنَوْتَ وَ إِجَابَتِكَ لَهُ حِينَ دُعِيتَ فَمَا أَخْوَفَنِي أَنْ تَكُونَ تَبُوءُ بِإِثْمِكَ غَداً مَعَ الْخَوَنَةِ وَ أَنْ تُسْأَلَ عَمَّا أَخَذْتَ بِإِعَانَتِكَ عَلَى ظُلْمِ الظَّلَمَةِ إِنَّكَ أَخَذْتَ مَا لَيْسَ لَكَ مِمَّنْ أَعْطَاكَ وَ دَنَوْتَ مِمَّنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَى أَحَدٍ حَقّاً وَ لَمْ تَرُدَّ بَاطِلًا حِينَ أَدْنَاكَ وَ أَحْبَبْتَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ أَ وَ لَيْسَ بِدُعَائِهِ إِيَّاكَ حِينَ دَعَاكَ جَعَلُوكَ قُطْباً أَدَارُوا بِكَ رَحَى مَظَالِمِهِمْ وَ جِسْراً يَعْبُرُونَ عَلَيْكَ إِلَى بَلَايَاهُمْ وَ سُلَّماً إِلَى ضَلَالَتِهِمْ دَاعِياً إِلَى غَيِّهِمْ سَالِكاً سَبِيلَهُمْ يُدْخِلُونَ بِكَ الشَّكَّ عَلَى‏ الْعُلَمَاءِ وَ يَقْتَادُونَ بِكَ قُلُوبَ الْجُهَّالِ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَبْلُغْ أَخَصُّ وُزَرَائِهِمْ وَ لَا أَقْوَى أَعْوَانِهِمْ إِلَّا دُونَ مَا بَلَغْتَ مِنْ إِصْلَاحِ فَسَادِهِمْ وَ اخْتِلَافِ الْخَاصَّةِ وَ الْعَامَّةِ إِلَيْهِمْ.

جان لو کم اور خفیف ترین کتمان یہ ہے کہ جو تم نے اپنایا وہ یہ ہے کہ تم وحشت ظالم سے مانوس ہوئے اوراپنے قرب اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے ظالم کے لئے سرکشی کرنے کا راستہ آسان کیا مجھے کس بات کا خوف کہ کل تم اپنے گناہوں کی وجہ سے ظالموں [محشور] ہوں اور تم سے ظالموں کی مدد کرنے کے معاوضہ کے بارے میں سوال کیا جائے تم نے ایسا مال لیا ہے جو عطا کرنے والے کا مال نہیں ہے اور ایسے شخص کی ہمنشینی اپنائی جو کسی حقدار کا حق نہیں دیتا ہے اور اسکی ہمنشینی کی تم باطل کو باطل نہیں جانتے ہوں اور جس کو اللہ دشمن رکھتا ہے تم نے اسے اپنا دوست بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔
الحراني، أبو محمد الحسن بن علي بن الحسين بن شعبة (ق4هـ)، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليهم، ص276، تصحيح و تعليق: علي أكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الثانية، 1404هـ.
ان باتوں کو نظر انداز بھی کر دیں تو زھری ان افراد میں سے ہے جس نے عمر بن سعد سے روایت لی اور اسکی شاگردی کی ہے جس کا اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کسی پر مخفی نہیں ہے عمر بن سعد نے دردناک ترین طریقہ سے فرزند رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو قتل کیا اور ناموس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسیر کیا ۔ذھبی لکھتا ہے :
عمر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، وعنه ابنه إبراهيم، وقتادة، والزهري.
عمر بن سعد، نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور عمر بن سعد سے اسکے بیٹے ابراہیم ، قتادہ ،اور زھری نے روایت نقل کی ہیں :
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 2، ص 61، رقم: 4058، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولى، 1413هـ - 1992م.


کیا ایسا شخص قابل اعتماد ہوسکتا ہے ؟ کیا ایسے شخص کی روایت عقائد مسلمین کا منبع بن سکتا ہے ؟
نتيجه:
اولا: حضرت زهرا سلام الله عليها سے ام کلثوم کا اصل وجود قابل اثبات نہیں ہے اور ایک محقیق کی ایک جماعت شیعہ اور سنی میں سے ام کلثوم کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔
ثانياً: وہ امّ*كلثوم کہ جس کی شادی عمر سے ہوئی وہ ابوبکر کی بیٹی تھی نہ کہ امام علی علیہ السلام کی ۔
ثالثاً: اس فرض کے ساتھ کہ یہ شادی ہوئی ہے تو شیعہ روایت کے مطابق وہ زور گوئی اور جبر کے ساتھ ہوئی ہے اس بناء پر خلیفہ دوم اور خاندان اہل بیت علیہ السلام کے اچھے مراسم ثابت نہیں ہوتے ہیں ۔

اس موضوع پر لکھی جانے والی تحقيقات :
ازدواج امّ*كلثوم پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں محقق افراد ان کتب کیطرف رجوع کر سکتے ہیں بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے :

المسائل العُكبرية و المسائل السروية، شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه (متوفى 413هـ)
تزويج امّ*كلثوم لعمر، سيد مرتضى علم الهدى (متوفى 436هـ)؛
رسالة فى تزويج عمر لامّ*كلثوم بنت علي ( ع )، الشيخ سليمان بن عبد الله الماحوزى (متوفى1121 هـ)؛
قول محتوم فى عقد امّ*كلثوم*، سيد كرامة علي الهندى، چاپ هند، 1311هـ؛
العجالة المفحمة فى ابطال رواية نكاح امّ*كلثوم (فارسي)، سيد مصطفى ابن السيد محمد هادى بن مهدى بن دلدار علي نقوى (متوفى 1323هـ)؛
كنز مكتوم فى حل عقد امّ*كلثوم، سيد علي اظهر الهندى (متوفى 1352هـ)؛
تزويج امّ*كلثوم بنت اميرمؤمنان عليه السلام وانكار وقوعه، الشيخ محمد الجواد البلاغى (متوفى1352هـ؛
زواج امّ*كلثوم، سيد علي الشهرستانى (معاصر)؛
إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين
فى خبر تزويج امّ*كلثوم من عمر* و تزويج امّ*كلثوم من عمر، سيد علي الميلانى (معاصر).

آٹھواں زاویہ : شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر

شيعه کتب میں بھی اس باب میں روایات موجود ہیں لیکن جب ایک ایک روایت کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت نہ تنہا امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب کے اچھے تعلقات کو بیان نہیں کرتی ہیں بلکہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ شادی جبر اور زور گوئی پر ہوئی۔[یاد رہے اس زاویہ کو مطالعہ کرتے ہوئے پہلے زاویہ کو مد نظر ضرور رکھیں ]
مرحوم كلينى رضوان الله تعالى عليه نے كتاب كافى میں ان روایات کو نقل کیا ہے :
1. مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ لَمَّا خَطَبَ إِلَيْهِ قَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إنها صَبِيَّةٌ قَالَ فَلَقِيَ الْعَبَّاسَ فَقَالَ لَهُ مَا لِي أَ بِي بَأْسٌ قَالَ وَمَا ذَاكَ قَالَ خَطَبْتُ إِلَى ابْنِ أَخِيكَ فَرَدَّنِي أَمَا وَاللَّهِ لَأُعَوِّرَنَّ زَمْزَمَ وَلَا أَدَعُ لَكُمْ مَكْرُمَةً إِلَّا هَدَمْتُهَا وَلَأُقِيمَنَّ عَلَيْهِ شَاهِدَيْنِ بِأَنَّهُ سَرَقَ وَلَأَقْطَعَنَّ يَمِينَهُ فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ فَأَخْبَرَهُ وَسَأَلَهُ أَنْ يَجْعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهِ فَجَعَلَهُ إِلَيْهِ.
هشام بن سالم نے امام صادق عليه السلام سےنقل کیا ہے کہ : جب عمر نے ام کلثوم کی خواستگاری کی تو امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا وہ بہت چھوٹی ہیں امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا :عمر عباس سے ملے اور ان سے عمر نے کہا: مجھ میں کیا برائی ہے ؟. عباس نے کہا :کیوں کیا بات ہوگئی ہے ؟. عمر نے کہا :میں نے تمہارے بھتیجے سے خواستگاری کی لیکن انھوں نے مجھے رد کردیا ۔ خبردار میں آب زمزم کے چشمہ کو بھر کر بند کردونگا اور تم بنی ہاشم کے لئے کوئی بھی فضیلت باقی نہیں چھوڑونگا اور اسے ختم کرکے رہوں گا اور علی [ع] کے خلاف دو گواہوں کو تیار کرونگا جو انکے چور ہونے پر گواہی دینگے اور انکے ہاتھ کو کاٹ دونگا تب عباس، علی علیہ السلام کے پاس آئے اور انھیں عمر کی زور گوئی کی خبر دی اور عباس نے علی [ع] سے چاہا کہ معاملہ انکے حوالے کردیں پس علی علیہ السلام نے معاملہ انکے حوالے کردیا ۔

الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

2.. حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ ابْنِ سَمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الْمَرْأَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلْ حَيْثُ شَاءَتْ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا تُوُفِّيَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِه.

عبد الله بن سنان اور معاويہ بن عمار کہتے ہیں :* امام صادق عليه السلام سے ایسی عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو سوال کیا کہ وہ وہ اپنے گھر میں عدّت گزارے گی یا جہاں بھی اس کی مرضی ہو فرمایا : اس کی مرضی ہے اس لئے کہ علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو عمر کے قتل کے بعد اپنے گھر لے آئے تھے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
3. مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) عَنِ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا أَيْنَ تَعْتَدُّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا تَعْتَدُّ أَوْ حَيْثُ شَاءَتْ قَالَ بَلَى حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ عَلِيّاً (عليه السلام) لَمَّا مَاتَ عُمَرُ أَتَى أُمَّ كُلْثُومٍ فَأَخَذَ بِيَدِهَا فَانْطَلَقَ بِهَا إِلَى بَيْتِهِ.
سليمان بن خالد کہتے ہیں : امام صادق عليه السلام سے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو ، سوال کیا وہ عدت اپنے شوہر کے گھر میں گزارے گی یا جہاں بھی چاہے ؟امام علیہ السلام نے فرمایا : جہاں چاہے ۔پھر فرمایا ہے :جب عمر مر گئے تو علی علیہ السلام نے ام کلثوم کو اپنے گھر کے کر آگئے ۔
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 6 ص 115، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
4. عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَ حَمَّادٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) فِي تَزْوِيجِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَقَالَ إِنَّ ذَلِكَ فَرْجٌ غُصِبْنَاه.
امام صادق عليه السلام سے ازدواج امّ*كلثوم کے بارے میں سوال کیا گیا امام علیہ السلام نے فرمایا وہ ایک ناموس ہے جو ہم سے غصب کی گئی [ یہ ایک معنی کی بناء پر لیکن دوسرا معنی کی بناء پر خود شادی مشکوک ہوحاتی ہے یعنی وہ ایک عورت ہے جس کے بہانہ سے ہم پر دباو ڈالا گیا۔
قابل غور بات یہ ہے امام علیہ السلام بلیغ اور فصیح ہوتے ہوئے یہ "ذلك فرج غصب منا" نہیں فرما رہے ہیں کہ بلکہ خود کو مغصوب قرار دے رہے ہیں اور فرماتے ہیں " غصبناه، يا غصبنا عليه" جو دیگر منابع شیعہ و سنی ]بنقل ازشیعہ] میں آیا ہے اور معنی غصبنا یہ ہے کہ ہم مغصوب ہوئے ناکہ وہ ناموس ۔

الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 5 ص 346، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
اولاً: جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ان روایات سے یہ اخذ نہیں ہوتا ہے کہ جس ام کلثوم کی طرف ان روایات اور دیگر روایات شیعہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ وہی ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ہے جو امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقی بیٹی ہیں بلکہ تین احتمال پائے جاتے ہیں۔

ثانياً: اهل سنت ان روایات سے استدلال نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے شادی ہوئی تھی تو تب بھی امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب میں اچھے تعلقات کو ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ زیادہ زیادہ ان روایات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی جبر اور دھمکانے کے زور پر ہوئی ہے اور ام کلثوم صغیر ہونے کے ساتھ نہ خود راضی تھیں نہ انکے والد ۔
کیا ایسی شادی عمر بن خطاب کے لئے مایہ فضیلت بن سکتی ہے ؟ اور کیا یہ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور خلیفہ دوم میں اچھے مراسم تھے ؟
سيد مرتضى علم الهدى اس کے بارے میں کہتے ہیں :
فأما انكاحه عليه السلام إياها، فقد ذكرنا في كتابنا الشافي، الجواب عن هذا الباب مشروحا، وبينا انه عليه السلام ما أجاب عمر إلى انكاح بنته إلا بعد توعد وتهدد ومراجعة ومنازعة بعد كلام طويل مأثور....
والذي يجب أن يعتمد في نكاح أم كلثوم، أن هذا النكاح لم يكن عن اختيار ولا إيثار، ولكن بعد مراجعة ومدافعة كادت تفضي إلى المخارجة والمجاهرة....
وقد تبيح الضرورة أكل الميتة وشرب الخمر، فما العجب مما هو دونها؟

ام کلثوم کی عمر بن خطاب سے شادی کا جواب ہم نے کتاب الشافی میں تفصیل سے دیا ہے اور وہاں بیان کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے عمر سے شادی قبول نہیں کی مگر جب جبر سےکام لیا گیا اور دھمکایا گیا اور مسلسل اصرار اور تنازع کے بعد جو کہ روایات میں مذکور ہے ۔۔۔ وہ چیز جو اس شادی میں مد نظر رکھنا چاِہئے وہ یہ ہے کہ یہ شادی اختیار اور میل باطنی سے نہیں ہوئی لیکن جب مسلسل اصرار اور زور گوئی کی گئی کہ نزدیک تھا ایک آشکار لڑائی شروع ہوجاتی ۔۔۔ اور ضرورت مردار اور شراب کو بھی حلال کردیتی ہے چہ جائے جب اس سے چھوٹی بات ہو ۔
[نوٹ پہلے زاویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے ساتھ ان روایات کی نفی کرتے ہوئے جو فحش اور اہل بیت کی تذلیل پر دلالت کرتی ہیں [روایات ساق اہل سنت۔ مترجم ]
المرتضي علم الهدي، أبو القاسم علي بن الحسين بن موسى بن محمد بن موسى بن إبراهيم بن الإمام موسى الكاظم عليه السلام (متوفاي436هـ)، رسائل المرتضى، ج 3 ص 149،تحقيق: تقديم: السيد أحمد الحسيني / إعداد: السيد مهدي الرجائي، ناشر: دار القرآن الكريم قم، 1405هـ.

ضرورت کے وقت کافر سے بھی شادی جائز ہوجاتی ہے :
شيخ مفيد رضوان الله تعالى عليه" سید مرتضی "کے استاد اس بحث میں کہتے ہیں :
ثم إنه لو صح لكان له وجهان لا ينافيان مذهب الشيعة في ضلال المتقدمين على أمير المؤمنين عليه السلام: أحدهما: أن النكاح إنما هو على ظاهر الإسلام الذي هو: الشهادتان، والصلاة إلى الكعبة، والاقرار بجملة الشريعة. وإن كان الأفضل مناكحة من يعتقد الإيمان، وترك مناكحة من ضم إلى ظاهر الإسلام ضلالا لا يخرجه عن الإسلام، إلا أن الضرورة متى قادت إلى مناكحة الضال مع إظهاره كلمة الإسلام زالت الكراهة من ذلك، وساغ ما لم يكن بمستحب مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان محتاجا إلى التأليف وحقن الدماء، ورأي أنه إن بلغ مبلغ عمر عما رغب فيه من مناكحته ابنته أثر ذلك الفساد في الدين والدنيا، وأنه إن أجاب إليه أعقب صلاحا في الأمرين، فأجابه إلى ملتمسه لما ذكرناه.
والوجه الآخر: أن مناكحة الضال - كجحد الإمامة، وادعائها لمن لا يستحقها - حرام، إلا أن يخاف الإنسان على دينه ودمه، فيجوز له ذلك، كما يجوز له إظهار كلمة الكفر المضاد لكلمة الإيمان، وكما يحل له أكل الميتة والدم ولحم الخنزير عند الضرورات، وإن كان ذلك محرما مع الاختيار.
وأمير المؤمنين عليه السلام كان مضطرا إلى مناكحة الرجل لأنه يهدده ويواعده، فلم يأمنه أمير المؤمنين عليه السلام على نفسه وشيعته، فأجابه إلى ذلك ضرورة كما قلنا إن الضرورة تشرع إظهار كلمة الكفر، قال تعالى: (إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ).
اگر اس شادی کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی دو توجیہ ہو سکتی ہے اور یہ دو توجیہ امام علی علیہ السلام پر سبقت لینے والوں کی گمراہی کے شیعہ نظریہ کےمخالف نہیں ہے ۔
1. پہلی توجیہ :شرط ازدواج کہ نکاح ظاہر اسلام پر ہوتا ہے۔ جو شہادتین ، کعبہ کی طرف نماز پڑھنا ، اجمالی طور پر شریعت کو قبول کرنے ، سے تعبیر ہے اگرچہ افضل ہے کہ شادی صاحب ایمان سے ہو ۔اسی طرح افضل ہے کہ ایسے افراد سے رشتہ داری نہ کی جائے جو اپنی ضلالت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوتے ہوں مگر جب ضرورت ہو کہ ایسے گمراہ شخص سے شادی کی جائے تو اس کے اظہار اسلام کی بناء پر وہ کراہیت بھی بر طرف ہوجائے گی اور جو کام اختیاری حالت میں مستحب نہ تھا وہ زمانہ اضطرار میں جائز ہوجاتا ہے ۔ اور امیر المومنین علیہ السلام کو ضروت تھی بہت سی جانوں کو قتل اور بگاڑ سے بچائیں اور امام علی علیہ السلام نے دیکھا کہ عمر کی زور گوئی کے بعد بھی انکار دین اور دنیا میں فساد پرپا ہونے کا باعث بنے گا اور امام علیہ السلام نے دین و دنیا کے فساد سے بچتے ہوئے عمر کی بات کو قبول کیا ۔
2. دوسری توجیہ : اگر ہم قائل ہوں کہ گمراہ شخص سے شادی مثلا امامت منکر شخص یا وہ شخص جوایسے کی امامت کا قائل جو امامت کا حقدار نہیں ہے ، حرام ہے مگر جب انسان کو اپنے دین اور جان پر خوف ہو تو ایسی شادی جائز ہوجائے گی جس طرح ایسے مجبور شخص کے لئے ایسا کفریہ بات کہنا بھی جائز ہوجائے گی جو کلمہ ایمان کے منافی ہو ، اور یہ اسی طرح جب مردار ، خون ، خنزیر کھانا ضرورت کے وقت جائز ہوجاتا ہے ۔اگرچہ اختیاری حالت میں یہ سب حرام ہے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اس وقت ام کلثوم کی شادی پر مضطر تھے اس لئے عمر نے امام علی علیہ السلام کو تہدید کی تھی پس امام علی علیہ السلام اپنے اور اپنے چاہنے والوں کی جان پر خوف محسوس کر رہے تھے اور ضرورت کے تحت اس امر پر ناچار ہوئے جیسا ہم نے پہلے کہا شریعت ضرورت اور اضطرار میں کلمہ کفر کو بھی زبان پر جاری کرنے کی اجازت دیتی ہے جیسا فرمان خداوندی ہے :،(إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإيمانِ ۔{ مگر جسے مجبور کیا جائے جبکہ اسکا دل ایمان سے مطمئن اور سرشار ہو ، }۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413 هـ)، المسائل السروية، ص 92 ـ 93، تحقيق: صائب عبد الحميد، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993م.

عمر ، عاتكه کے ساتھ زبردستی شادی کرتے ہیں :
ام کلثوم کے ساتھ عمر کی پہلی جبری شادی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ اتفاق ہو چکا ہے, اس سے پہلے عاتکہ بنت زید سے زبردستی شادی کر چکے ہیں ۔
محمد بن سعد الطبقات الكبرى میں لکھتے ہیں:
أَنَّ عَاتِكَةَ بِنْتَ زَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ اللَّهِ بنِ أَبي بَكْرٍ، فَمَاتَ عَنْهَا وَاشْتَرَطَ عَلَيْهَا أَلاَّ تَزَوَّجَ بَعْدَهُ، فَتَبَتَّلَتْ وَجَعَلَتْ لاَ تَزَوَّجُ، وَجَعَلَ الرجَالُ يَخْطِبُونَهَا وَجَعَلَتْ تَأْبَى، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِوَلِيهَا: اذْكُرْنِي لَهَا، فَذَكَرَهُ لَهَا فَأَبَتْ عَلى عُمَرَ أَيْضَاً، فَقَالَ عُمَرُ: زَوجْنِيهَا: فَزَوَّجَهُ إِيَّاهَا، فَأَتَاهَا عُمَرُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَعَارَكَهَا حَتَّى غَلَبَهَا عَلى نَفْسِهَا فَنَكَحَهَا، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: أُفَ أُفَ أُفَ، أَفَّفَ بها ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَتَرَكَهَا لاَ يَأْتِيهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَوْلاَةً لَهَا أَنْ تَعَالَ فَإِني سَأَتَهِيَّأُ لَكَ.
علي بن زيد کہتے ہیں: عاتكه بنت زيد، عبد الله بن ابوبكر کی بیوی تھیں اور عبد الله انکے ساتھ یہ شرط رکھی تھی میرے مرنے کے بعد کسی سے بھی شادی نہ کرنا " عاتکہ عبد اللہ کے بعد اس کی شرط پر باقی تھی شادی نہ کرنے کا ا راداہ رکھتی تھیں لوگ اس سے خواستگاری کرتے لیکن وہ ان کو رد کردیتی پس عمر نے انکے ولی سے کہا میرے لئے بھی خواستگاری کا ذکر کرو لیکن عمر کو بھی رد کر دیا لیکن عمر نے کہا : اس کی مجھ سے شادی کر دو پس اس نے شادی کر دی عمر اسکے پاس آئے اور دونوں میں اصرار اور انکار کی لڑائی ہوئی لیکن عمر نے اس پر غالب ہوکر اس سے وطی کرلی جب مجامعت سے فارغ ہوئے تو کہا اف اف اف اور اسے ملامت کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور اسے چھوڑنے کے بعد دوبارہ رجوع نہیں کیا پس عاتکہ نے اپنی کنیز کے ذریعہ سے پیغام بھجوایا کہ : میرے پاس آئیں میں تیار ہوں۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 265، ناشر: دار صادر - بيروت.


خاندان اهل بيت عليهم السلام کے ساتھ جبری شادیاں :
حجاج بن يوسف کی عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی سے زبردستی شادی:
نظریہ اهل سنت کے مطابق ، حضرت زينب سلام الله عليها کی عبد الله بن جعفر سے ایک بیٹی تھی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے جبری شادی کی تھی ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں :
وتزوجت زينب بنت علي من فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عبد الله بن جعفر بن أبي طالب؛ فولدت له ابنة تزوجها الحجاج بن يوسف.
زينب بنت علي و بنت فاطمه بنت رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) نے عبد الله بن جعفر بن ابى طالب سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی کہ جس سے حجاج بن یوسف نے شادی کی !
إبن حزم الظاهري، علي بن أحمد بن سعيد أبو محمد (متوفاي456هـ)، جمهرة أنساب العرب، ج 1، ص 38، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ - 2003م.

ابن أبى طيفور نے بلاغات النساء میں، الآبى نے نثر الدرر میں، زمخشرى نے ربيع الأبرار میں، اور دیگر علماء اہل سنت نے لکھا ہے :
لما زفت ابنة عبد الله بن جعفر " وكانت هاشمية جليلة " إلى الحجاج بن يوسف ونظر إليها في تلك الليلة وعبرتها تجول في خديها فقال لها بأبي أنت وأمي مما تبكين قالت من شرف اتضع ومن ضعة شرفت.
عبد الله بن جعفر کی بیٹی کو زفاف کے لئے حجاج بن یوسف کے پاس لےجایا گیا تو وہ لڑکی بہت اشکبار تھی حجاج نے سوال کیا میرے ماں پاپ قربان کیوں رو رہی ہو؟ کہا اس شرافت و فضیلت پر جو میرے ہاتھ سے جاری ہے اور اس پستی پر جو فضیلت میں بدل رہی ہے ۔
ابن طيفور، أبو الفضل أحمد بن أبي طاهر (متوفاي280هـ)، بلاغات النساء، ج 1، ص 51؛
الآبي، أبو سعد منصور بن الحسين (متوفاي421هـ)، نثر الدر في المحاضرات، ج 4، ص 39، تحقيق: خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م؛
الزمخشري الخوارزمي، أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفاى538هـ) ربيع الأبرار، ج 1، ص 92؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 2، ص 48، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م.

کیا حجاج بن یوسف نے جو ظلم و ستم خاندان اہل بیت علیہم السلام اور بنی ہاشم کے ساتھ کئے ہیں اس شادی کی وجہ سے ان سب کا انکار کیا جائے گا؟ اور یہ ثابت کیا جائے گا کہ حجاج کے بنی ہاشم اور خاندان نبوت سے بہت اچھے مراسم تھے ؟!

مصعب بن زبيرکی سكينه بنت الحسين عليهما السلام کے ساتھ زبردستی شادی ۔
اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق سکینہ بنت حسین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد زندہ رہیں اور کئی شادیاں کی ۔
اہل سنت کے عالم سبط ابن جوزى حنفی نے تذكرة الخواص میں امام حسين عليه السلام کی اولاد کے بارے میں لکھا ہے :
وأما سكينة: فتزوجها مصعب بن الزبير فهلك عنها... وأول من تزوجها مصعب بن الزبير قهراً....
معصب بن زبير نے سکینہ کے ساتھ شادی کی ۔۔۔۔۔ اور مصعب نے ان سے جبری اور زبردستی شادی کی تھی ۔
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص249 ـ 250، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

روايت "جن " کتب اہل سنت میں :
ہم نے گذشتہ بحث میں روایات صحیح السند اہل سنت سے ثابت کیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام خلیفہ دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب ، خيانتكار، گناهكار و پيمان شكن جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت کیا کہ انکا تلخ مزاج اور بد اخلاقی ذاتی جھگڑالو پن ۔ شراب خوری ، بدعت گزاری اور دیگر امور اہل سنت کی کتب میں ذکر ہوئے ہیں
اسی طرح خليفه دوم کا فاطمه زهرا سلام الله عليها سے رویہ اور انکی شہادت میں انکار کردار کتب اہل سنت میں مستند اور معتبر طریق سے ثابت ہے
اس بناء پر اگر شادی عمر کی زور گوئی اور جبر سے بھی ہوئی ہو تو امکان نہیں رکھتا ہے کہ علی علیہ السلام عمر کو ناموس رسالت تک رسائی دیں ۔
اهل سنت زليخا اور عزيز مصر اسی طرح آسيه اور فرعون کے بارے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ چونکہ آسیہ کا مقام جنت میں اور رسول خدا [صلی اللہ علیہ و الہ] کی جنت میں بیوی بننے والی ہیں اس بناء پر فرعون آسیہ سے نزدیکی نہ کر پائے تو جب بھی فرعون آسیہ سے نزدیکی کرنا چاہتا تھا ،اللہ آسیہ کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا ۔
اسی طرح زلیخا کہ جو بعد میں یوسف علیہ السلام کی بیوی بننے والی تھی جب بھی عزیز مصر اس سے خلوت کرنا چاہتا تھا خداوند اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا تھا :
عبد الرحمن صفورى نے نزهة المجالس میں لکھا ہے :
قيل كانت زليخا من بنات الملوك وكان بينها وبين مصر نصف شهر فرأت في منامها يوسف فتعلق حبه بقلبها فتغير لونها فسألها أبوها عن ذلك فقالت رأيت صورة في منامي لم أرى أحسن منها فقال أبوها لو عرفت مكانه لطلبته لك ثم رأته في العام الثاني فقالت له بحق الذي صورك من أنت قال أنا لك فلا تختاري غيري فاستيقظت وقد تغير عقلها فقيدها أبوها بالحديد ثم رأته في العام الثالث فقالت بحق الذي صورك أين أنت قال بمصر فاستيقظت وقد صح عقلها فأخبرت أباها بذلك ففك القيد منها وأرسل إلى ملك مصر أن لي بنتا قد خطها الملوك وهي راغبة إليك فكتب إليه قد أردناها فجهزها أبوها بألف جارية وألف عبد وألف بعير وألف بغلة فلما دخلت مصر وتزوجها الملك بكت بكاء شديدا وسترت وجهها وقالت للخادم ليس هو الذي رأيته في المنام فقالت الجارية اصبري فلما رآها الملك افتتن بها وكان إذا أراد النوم معها مثل الله له جنية في صورتها وحفظها ليوسف فلما اجتمع بها وجدها بكرا كما حفظ آسية بنت مزاحم رضي الله عنها من فرعون لأنها من زوجات النبي صلى الله عليه وسلم في الجنة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پادشاه نے زليخا کو دیکھا ، تو اسکا عاشق ہوگیا اور جب بھی بادشاہ اسکے ساتھ سونے کا ارادہ کرتا، اللہ اسکی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجتا اور اسے یوسف علیہ السلام کے لئے بچاکر رکھتا جب یوسف علیہ السلام نے اس سے شادی کی تو وہ باکرہ نکلیں اسی طرح آسیہ بن مزاحم کو فرعون سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ جنت میں زوجات رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں سے ہونگی ۔
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي 894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 262، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر:دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.

اور اہل سنت کے مطابق ہر وہ واقعات جو گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں وہ اس امت میں بھی ہونگے اس بناء پر اس احتمال کی بناء پر اللہ نے خلیفہ دوم کے پاس ام کلثوم کی صورت میں ایک جنیہ کو بھیجا ہو جس طرح آسیہ اور زلیخا کی جگہ جنیہ بھیجتا رہا ہے

ساتواں زاویہ : عمر ، ام كلثوم کےكفو نہیں تھے

جب خليفه دوم کے اخلاق اور نسب کو دیکھتے ہوئے ام کلثوم سے مقائسہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ دو ایک دوسرے کے لئے بالکل مناسب نہیں تھے
امّ*كلثوم رسول خدا [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی بیٹی تھیں اور صدیقہ طاہرہ[سلام اللہ علیہا] کی گود میں پروان پائی اور جبکہ اہل سنت کے اعتراف کے مطابق عمر کی دو تہائی زندگی کا حصہ بت پرستی میں گزرا اور انھوں نے حنتمہ جیسی ماں کے دامن میں پرورش پائی۔

علماء اہل سنت نےعمر کے تلخ مزاج ، اخلاق سو ، اور ذاتی جھگڑالو پن کو صراحت سے نقل کیا ہے جبکہ ام کلثوم ایک چھوٹی معصوم بچی اور اس خاندان سے تھیں جس کے اخلاق اور آداب اسلامی تمام بشریت کے لئے اسوہ ِعمل ہیں :
انکے نزدیک شادی کے وقت امّ*كلثوم محتاط اندازے کے مطابق ۷ یا ۸ سال سے زیادہ کی نہیں تھیں جبکہ خلیفہ دوم کی عمر کم سے کم ۵۷ سال تھی ، ان دو میں کیا ملاپ ہے؟
ہم دونوں میں ملاپ اور سنخیت نہ ہونے اور عمر کا ام کلثوم کے کفو نہ ہونے کی اہل سنت کی جہت سے تحقیق کرینگے ۔

غير هاشمي، هاشمي کا کفو نہیں ہے :
[اگرچہ اس بات میں شیعہ حضرات کے اندر متعدد رائے ہوں لیکن اس بات میں کہ عمر ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اور اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے موزوں نہیں تھی ،بلاشبہ شیعہ کے اندر دو رائے نہیں ہے ، جبکہ ہم اس بات کو اہل سنت کے جہت سے بیان کر رہے اور وہ شادی بھی کروانے والے ہیں پس شادی کروانے والے پر لازم ہے کہ اپنے مذھب کے مطابق شادی کی شرائط کا خیال رکھے]
بعض علماء اہل سنت نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ شادی میں تناسب دینی اور نسبی کا ہونا ضروری ہے اور غیر قریشی، قریشی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا اسی طرح غیر ہاشمی ، ہاشمی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ بنی ہاشم کو رسول خدا صلى الله عليه وآله کی وجہ سے برتری حاصل ہے اور کوئی بھی قوم اس قوم کی برابری نہیں کر سکتی ہے۔

یہی وجہ تھی اميرمؤمنین عليه السلام نے فرمایا :میں نے اپنی بیٹیوں کو جعفر کے بیٹوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔
أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فَقَالَ عَلِيٌّ إِنَّمَا حَبَسْتُ بَنَاتِي عَلَى بَنِي جَعْفَرٍ.
عمر بن خطاب،نے علي بن ابى طالب [علیہ السلام ]سے انکی بیٹی ام کلثوم کی خواستگاری کی تو فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو صرف جعفر کے بیٹوں سے شادی کے لئے رکھا ہوا ہے ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي 227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، ح520، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر:الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.

بجيرمى شافعى، (متوفى 1221هـ) نے واضح طور پر کہا ہے کہ رسول خدا صلى الله عليه وآله نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے عمر اور ابوبکر سے رشتہ سے انکار ان دونوں کا اہل بیت کی عورت کے کفو نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا ۔
وفي شرح الخصائص: وخُصّ أن آله لا يكافئهم في النكاح أحد من الخلق وأما تزويج فاطمة لعليّ، فقيل: إنه لم يكن إذ ذاك كفؤاً لها سواه... وزوّجت له بأمر الله لما رواه الطبراني عن ابن مسعود: أنه لما خطبها منه أبو بكر وعمر ردهما وقال: ( إن الله أمرني أن أُزَوّج فاطِمَةَ مِنْ عَليّ ) وزوجها له في غيبته على المختار ويمكن أنه وكل واحداً في قبول نكاحه فلما جاء أخبره بأن الله تعالى أخبره بذلك فقال رضيت.
شرح خصائص میں موجود ہے کہ پيامبر (صلى الله عليه وآله کی خصوصیات میں سے )* انکے گھر والوں سے کوئی بھی شادی کرنے میں کفو نہیں ہے اور فاطمہ [سلام اللہ علیہا] اور علی [علیہ السلام ] کی شادی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ علی [علیہ السلام ] کے علاوہ کوئی دوسرا انکا کفو نہیں تھا ۔۔۔ ان دونوں کی شادی اللہ کے حکم سے ہوئی اس لئے طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ : جب ابوبکر اور عمر نے رسول خدا صلى الله عليه وآله سے حضرت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]کا رشتہ مانگا تو آپ [ص] نے رد کردیا اور فرمایا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی شادی علی [علیہ السلام] سے کردوں۔۔۔۔۔
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، تحفة الحبيب على شرح الخطيب ج 4، ص 89، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1417هـ ـ 1996م، الطبعة: الأولى.

اور حاشيه منهج الطلاب میں لکھا ہوا ہے کہ:
فَالنَّسَبُ مُعْتَبَرٌ بِالْآبَاءِ إلَّا أَوْلَادُ بَنَاتِهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُمْ يُنْسَبُونَ إلَيْهِ فَلَا يُكَافِئُهُمْ غَيْرُهُمْ ح ل ( قَوْلُهُ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ) فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى بَعْضِ الْمُدَّعَى وَهُوَ قَوْلُهُ وَلَا غَيْرُ هَاشِمِيٍّ وَمُطَّلِبِيٍّ كُفُؤًا لَهُمَا.
نسب صرف باپ کا معیار ہے ؛ لیکن صرف پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی بیٹیوں کی اولاد کا نسب آپ کا نسب کہلتاہے اس لئے کہ انکی بیٹیوں کی اولاد آپ سے منسوب ہیں اور آپ کے نسب سے کہلاتے ہیں پس انکا کوئی بھی کفو نہیں ہےاور قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ۔۔ [مجھے بنی ہاشم میں سے منتخب کیا ] اس قول میں بعض مدعی پر دلالت موجود ہے یعنی غیر ہاشمی ، ہاشمی کا اور غیر مطلّبی، مطلّبی کفو نہیں ہے !
البجيرمي الشافعي، سليمان بن محمد بن عمر (متوفاي1221هـ)، حاشية البجيرمي على منهج الطلاب، ج 3، ص 417، ناشر: المكتبة الإسلامية - ديار بكر – تركيا.
بجيرمى کے کلام کے مطابق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہل بیت کی بیٹی غیر کے لئے کفو نہیں اسی لئے آپ ص نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو عمر اور ابوبکر کو نہیں دی ۔ تو کیا علی علیہ السلام اس سنت کے برخلاف عمل کرتے ؟
مقدسى حنبلى نے احمد بن حنبل کا قول لکھا ہے :
وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
احمد بن حنبل سے نقل ہوا ہے قریشی کا غیر قریشی اور ہاشمی کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے اس قول رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی وجہ سے کہ فرمایا : اللہ نے نسل اسماعیل میں کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب کیا۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.

شهاب الدين قليوبى نے صراحت سے کہا بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے :
قوله: ( وبنو هاشم إلخ ) نعم الأشراف الأحرار منهم لا يكافئهم غيرهم، وخرج بالأحرار ما لو تزوج هاشمي برقيقة بشرطه، وولدت بنتا فهي مملوكة لسيد الأمة وله تزويجها برقيق ودنيء النسب وإن كانت هاشمية لأن تزويجها بالملكية، ولذلك لو زوجها السلطان بذلك لم يصح.
آزاد بنی ہاشم کا غیر ہاشمی کفو نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
القليوبي، شهاب الدين أحمد بن أحمد بن سلامة (متوفاي1069هـ)، حاشيتان. قليوبي: على شرح جلال الدين، المحلي على منهاج الطالبين، ج 3، ص 236 تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - لبنان، الطبعة: الأولى، 1419هـ - 1998م.

کیا نسب ِعمر اور ام کلثوم میں مقائسہ ہوسکتا ہے کیا صھاک کا جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اور حنتمہ کا حضرت زہرا [سلام اللہ علیہا ]سےجو اہل جنت کی سردار ہیں ، مقائسہ ہو سکتا ہے ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ؟ کیا خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے برابر ہوسکتا ہے ؟
امّ*كلثوم کو اميرمؤمنین علی علیہ السلام کی بیٹی مان لیں تو کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عمر انکے کفو تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب بھی نسبی کفو کو شادی کے لئے شرط مانتے ہیں اور پست نسب کو اصیل نسب لڑکی سے شادی سے منع کرتے تھے ۔
سرخسى حنفى بزرگ عالم اهل سنت نے كتاب المبسوط میں لکھا ہے :
وبلغنا عن عمر رضي الله عنه أنه قال لأمنعن النساء فروجهن الا من الأكفاء... وفيه دليل أن الكفاءة في النكاح معتبرة.
عمر کی ہم تک روایت پہنچی ہے کہ : میں کسی بھی عورت کی شادی نہیں ہونے دونگا مگر اسکے کفو سے ۔۔۔ پس اس قول میں دلیل موجود ہے کہ نکاح میں کفو ہونا لازم ہے ۔
السرخسي، شمس الدين أبو بكر محمد بن أبى سهل (متوفي483هـ)، المبسوط، ج 4، ص 196، ناشر: دار المعرفة – بيروت.
اور عبد الرزاق صنعانى نے بھی یہی بات لکھی ہے :
عن إبراهيم بن محمد بن طلحة قال قال عمر بن الخطاب لأمنعن فروج ذوات الأحساب إلا من الأكفاء.
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 152، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ)، أنساب الأشراف، ج 3، ص 96؛
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني، ج 7، ص 26، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1405هـ.
السيواسي، كمال الدين محمد بن عبد الواحد (متوفاي681هـ)، شرح فتح القدير، ج 3، ص 292، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الثانية.
ابن تيميه الحراني، أحمد عبد الحليم أبو العباس (متوفاي 728 هـ)، كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، ج 19، ص 28، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ناشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية.

کیا خليفه دوم بھی اس قانون کے پاسدار تھے ؟ کیا خليفه دوم اور امّ*كلثوم میں تناسب سن اور تناسب اور کفائت نسبی کا لحاظ رکھا گیا تھا ؟
عمر ، ام كلثوم کے سن میں ہم کفو نہیں تھے :
خود خليفه دوم ، جوان عورتوں کی بوڑھے مردوں سے شادی کے خلاف تھے
سعيد بن منصور نےسنن میں لکھتے ہیں:
أُتِيَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِامْرَأَةٍ شَابَّةٍ زَوَّجُوهَا شَيْخَاً كَبِيرَاً فَقَتَلَتْهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ، وَلْيَنْكَحِ الرَّجُلُ لُمَّتَهُ مِنَ النسَاءِ، وَلْتَنْكَحِ المَرْأَةُ لُمَّتَهَا مِنَ الرجَالِ يَعْنِي شِبْهَهَا
عمر بن خطاب کے پاس ایک ایسی جوان عورت کو لایا گیا تھا جس کی شادی ایک بوڑھے سے کر دی گئی تھی جو اسی جوان عورت کے ہاتھ قتل ہوا ۔ عمر نے کہا اللہ سے ڈرو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہم کفو سے شادی کرے اسی طرح عورت بھی ۔
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 243، ح809، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 263
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الإفصاح عن أحاديث النكاح، ج 1، ص 32، تحقيق: محمد شكور أمرير المياديني، ناشر: دار عمار - عمان - الأردن، الطبعة: الأولى، 1406هـ.


کیا عمر اور ام کلثوم میں سن کا لحاظ رکھا گیا ہے ؟
اهل سنت کے نقل کے مطابق یہ شادی ۱۷ ہجری کو ہوئی ہے جیسا کہ ابن اثیر جزری نے لکھا ہے :

وفيها أعني سنة سبع عشرة... تزوج عمر أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي ابنة فاطمة بنت رسول الله ودخل في ذي القعدة.
۱۷ ہجری میں عمر نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب [علیہ السلام ] و بنت فاطمہ [سلام اللہ علیہا]۔۔۔۔۔۔۔ سے شادی کی اور ذیقعدہ میں زفاف کیا !
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 2، ص 382، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 19، ص215 ـ 220، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2004م.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج 1، ص 111
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص236 ـ 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358.
امّ*كلثوم نبى مكرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے آخری سالوں میں پیدا ہوئیں اور نکاح کے وقت انکی عمر ۷ یا ۸ سال سے زیادہ نہیں تھی جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں بھی اشارہ کیا ہے
تزوجها عمر بن الخطاب وهي جارية لم تبلغ.
عمر نے امّ*كلثوم سے شادی کی جبکہ وہ نابالغ لڑکی تھیں.
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت.

دوسری طرف عمر بن خطاب ۲۳ ہجری میں قتل ہوئے اور قتل کے وقت 63 سال کے تھے پس 17 ہجری میں شادی کے وقت 57 سال کے تھے یعنی عمر اور ام کلثوم میں 50 سال کا فرق تھا ۔
ہمارا اہل سنت کے نام نہاد علماء سے سوال ہے کہ 7 سالہ ام کلثوم اور 57 سالہ عمر بن خطاب میں کیا میل اور ملاپ تھا ؟
جبکہ عمر اور ابوبکر نے ان ہی کی والدہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان دونوں کو عمر[سن] کے فرق کی وجہ سے رد کردیا تھا ۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور نسائى نے سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ
ابوبكر اور عمرنے فاطمہ [سلام اللہ علیہا] کی خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے کہا : فاطمه [سلام اللہ علیہا]چھوٹی ہیں ، [لیکن]اسکے فورا بعد علی [عليه السلام] نے خواستگارى کی تو پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم نے ان سے شادی کروادی۔
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986

کیا یہ عمر[سن] کا فرق اتنے سال گزرنے کے بعد حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کی سب سے چھوٹی بیٹی میں اور شیخین میں ختم ہوگیا ہے ؟
اميرمؤمنین عليه السلام، چونکہ اس شادی کے مخالف تھے اور وہ ہی پيغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم کے کلمات کو دھرایا جو آپ صلی اللہ علیہ ّ آلہ نے حضرت سیدہ[سلام اللہ علیہا] کی خواستگاری کے موقعہ پر ارشاد فرمائے تھے کہ وہ چھوٹی ہیں
ہم تو ان سے یہی سوال کر سکتے ہیں کہ 57 سالہ بوڑھے اور 7 سالہ نا بالغ بچی میں کیا ربط ہے؟ روايات اهل سنت، کے مطابق خليفه دوم دوسرے کے لئے تو عمر[سن] کے تناسب کو لازم قرار دیتے ہیں اور بڈھے کو جوان عورت سے شادی کرنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ہی اس قانون کے پابند نہیں ہیں اور بڑھاپے میں ایک نابالغ سے شادی کرتے ہیں ۔؟ یہ تو اس محاورہ کا مصداق قرار پائے گا ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“؟
کیا یہ عمل اس آیت کا مصداق نہیں ہے ؟:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبرِِّ وَ تَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَ أَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَلا تَعْقِلُون البقرة /44.
تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ۔۔۔ ۔

عمر، اخلاقي صلاحيت نہیں رکھتے ہیں ام کلثوم سے شادی کرنے کے لئے :
یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی لخت جگر کو بد اخلاق اور جسور شخص کو نہیں دے گا دوسری طرف عمر بن خطاب کا شدت پسندی کا اخلاق لوگوں میں خصوصا انکے خاندان میں مشہور تھا اسی بد اخلاقی کی وجہ سے انکی متعدد خواستگاریاں رد کر دی گئیں تھیں چونکہ ہم نے مقاله http://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=128'> آيت محمد رسول اللہ کی تحقیق میں تفصیل سے بحث کی ہے یہاں ان مطالب کو نہیں دھرائیں گے فقط چند مطالب کو بطور مثال مختصر بیان کرتے ہیں :
عتبہ کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار ،انکی تلخ مزاجی کی وجہ سے :
بلاذرى، طبرى، ابن اثير اور ابن كثير کے نقل کے مطابق جب یزید بن ابوسفیان اس دنیا سے چلا گیا توعمر نے اس کی بیوی ام ربان بن عتبہ سے خواستگاری کی اس نے قبول نہیں کیا اور اسکی علت اس طرح بیان کی :
لأنّه يدخل عابساً، ويخرج عابساً، يغلق أبوابه، ويقلّ خيره.
عمر بن خطاب عبوس اور تلخ مزاج ہے جب گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے ہوئے بد مزاج اور تلخ اخلاق رکھتا ہے گھر کے دروازوں کو بند کر دیتا ہے [ اور بیویوں کو گھر سے نکل کی جازت نہیں دیتا ہے ] اور اس کی نیکی بہت کم ہے [اپنے عیال کی ضروریات پوری نہیں کرتا ہے ] ۔
البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفاي279هـ) أنساب الأشراف، ج 3، ص 260؛
الدينوري، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفاي276هـ)، عيون الأخبار، ج 1، ص 379؛
الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 564، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 451، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 139،، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.

ابو بكر کی بیٹی کا عمر سے شادی سے انکار انکی بد اخلاقی کی وجہ سے:

وہ افراد جن کی کوشش ہے کہ عمر بن خطاب کی شادی ام کلثوم بنت علی[علیہ السلام] سے ثابت کریں ناکہ ابوبکر کی بیٹی سے اس کی وجہ عمر کی ذاتی شدت پسندی اور تلخ مزاجی کو علت قرار دیتے ہیں :
ابن عبدالبر، کے مطابق امّ*كلثوم بنت ابوبكر نے اپنی بہن عائشه سے کہا :
تم کیا یہ چاہتی ہو کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں جس کا اخلاق بہت برا اور شدت پسند ہے کیا میں اسکے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں؟

پھر مزید کہتی ہیں :
والله لئن فعلتِ لأخرجنّ إلى قبر رسول الله ولأصيحنّ به
اللہ کی قسم اگر تم نے یہ کام کیا تو میں قبر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم پر جاکر اور[بطور احتجاج] وہاں نال و فریاد کرونگی ۔
إبن عبد البر، يوسف بن عبد الله بن محمد (متوفاي463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1807، تحقيق علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
ملاحظہ کیجئے ام کلثوم بنت ابوبکر جیسی ایک کم سن بچی بھی عمر جو خلیفہ مسلمین ہیں اور انکے والد کے قریب ترین دوست ہیں پھر بھی عمر سے شادی پر آمادہ نہیں ہے :
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام عمر کی یہ صفات ناپسندیدہ اور اخلاق سوء کو نظر انداز کر دیں ؟ اور اپنی پارہ جگر کو جو کم سن بھی ہے عمر کے حوالے کردیں ؟
عمر اپنی بیوی کی پٹائی کرتے ہیں :
عمر کی ایک بری صفت یہ بھی تھی کہ ہمیشہ اپنی بیوی کی پٹائی کیا کرتے تھے ۔ ابن ماجہ نے سنن میں جو کہ صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے لکھا ہے :
اشعث بن قيس سے نقل ہے وہ کہتا ہے :
ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً فلما كان في جَوْفِ اللَّيْلِ قام إلى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا.
ایک رات میں عمر کا مہمان تھا جب آدھی رات ہوگئی تو عمر نے اپنی بیوی کی پٹائی شروع کردی تب میں نے جاکر بچ بچاو کروایا اور دونوں کو الگ کردیا
جب عمر میرے پاس آئے تو کہا
فلما أَوَى إلى فِرَاشِهِ قال لي يا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي شيئا سَمِعْتُهُ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ.
اے اشعث! ایک قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہےاسے یاد رکھو وہ یہ ہے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں کوئی سوال و جواب نہیں کیا جائے گا [ یعنی کیا شیر مادر کی طرح حلال ہے؟] ! ! ! ! !
القزويني، محمد بن يزيد أبو عبدالله (متوفاي275هـ)، سنن ابن ماجه، ج 1، ص 639 ح1986، بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ، تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار الفكر - بيروت؛
المقدسي الحنبلي، أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفاي643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 1، ص 189، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة - مكة المكرمة، الطبعة: الأولى، 1410هـ؛
المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 18، ص 31، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م؛
القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 493، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1401هـ.
اسی روايت سے مشابہ مسند احمد بن حنبل میں روایت ہے :
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج 1، ص 20 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا کوئی عاقل اپنی بیٹی کو ایسے شخص کو دے گا جو بیویوں کی پٹائی میں نام و شہرت رکھتا ہو ؟
عمر کی اخلاقی صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اميرمؤمنین عليه السلام اپنی بیٹی ایسے شخص کو دے جو اس قدر بد اخلاق ہو اور جس کا نتیجہ روح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے کا باعث بنے ؟

عمر دینداری کے لحاظ سے ام کلثوم کے ہم کفو نہیں تھے :
اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،کفائت دینی بھی شادی کی شروط میں سے ہے.
أبو طالب مکی نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے کہ :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ] ہے تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے گا اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.


ابن قدامه مقدسى، فقيه حنابله نے تصریح کی ہے کہ كفائت ديني شادی کی شروط میں سے ہیں اور فاسق ، عفیفہ عورت سے شادی نہیں کر سکتا ہے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ کوئی قوم بھی بنی ہاشم کے ہم کفو نہیں ہوسکتی ہیں اور ان سے شادی کا حق نہیں رکھتی ہے :
فصل: والكفء ذو الدين والمنصب فلا يكون الفاسق كفءا لعفيفة لأنه مردود الشهادة... وعنه [احمد بن حنبل] أن غير قريش لا يكافئهم وغير بني هاشم لا يكافئهم لقول النبي (ص) إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم.
دیندار اور منصب دار کفائت کا حامل ہے پس فاسق ،عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اس لئے کہ فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔۔ ۔ اور احمد بن حنبل سے نقل ہے کہ غیر قریش، قریش کا کفو نہیں ہے اسی طرح بنی ہاشم کا غیر انکا کفو نہیں ہے ۔۔۔
المقدسي، عبد الله بن أحمد بن قدامة أبو محمد (متوفاي620هـ)، الكافي في فقه الإمام المبجل أحمد بن حنبل، ج 3، ص 31، ناشر: المكتب الاسلامي – بيروت.

استدلال ابن قدامه کی روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مسلم نيشابورى نےصحيح میں وَاثِلَةَ بن الْأَسْقَعِ سے نقل کیا ہے ۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 4، ص 1782، ح2276، كِتَاب الْفَضَائِلِ، بَاب فَضْلِ نَسَبِ النبي صلى الله عليه وسلم، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
امير مؤمنین (ع)، خليفه دوم کو فاجر، ظالم ، کذاب، خائن و... جانتے ہیں :
ابن قدامه کے کلام کے مطابق، خليفه دوم کسی بھی صورت میں امير مؤمنین عليه السلام کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہیں ؛ کیونکہ عمر نہ بنی ہاشم میں سے اور نہ ہی ام کلثوم کےدین میں ہم کفو ہیں

یہ کہ عمر بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن عمر ام کلثوم کے دینی لحاظ سے بھی کفو نہیں تھے اس کی دلیل اہل سنت کی صحیح السند روایات ہیں اگرچہ یہ لوگ ان مطالب کو قبول کرنے میں بہانہ تراشی کرتے ہیں لیکن یہ بات واضح طور پر صحیح السند کے ساتھ موجود ہے جس کا شافی جواب آج تک دینے میں قاصر ہیں :

روايت اول (ظالم فاجر):
عبد الرزاق صنعانى نے سند صحيح سے خود خليفه دوم سے نقل کیا ہے وہ عباس اور علی علیہ السلام کو مخاطب ہوکر کہتے ہیں :
ثم وليتها بعد أبي بكر سنتين من إمارتي فعملت فيها بما عمل رسول الله (ص) وأبو بكر وأنتما تزعمان أني فيها ظالم فاجر....

میں نے ابوبكر کے بعد دو سال حكومت کی اور ان دو سالوں میں وہی کیا جس پر رسول اللہ [ص] اور ابوبکر نے عمل کیا جبکہ تم دونوں مجھے ان دو سالوں میں ظالم اور فاجرو فاسق سمجھتے ہو ۔

إبن أبي شيبة الكوفي، أبو بكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 5، ص 469، ح9772، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ.

روايت دوم (كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا):
مسلم نيشابورى نے بھی عمر بن الخطاب سے صحيح میں نقل کیا ہے عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کو مخاطب کر کے کہا :
ثُمَّ تُوُفِّىَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِىُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَوَلِىُّ أَبِى بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِى كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا.
ابوبكر،* کی موت کے بعد میں جانشين پيامبر[ص] و ابوبكر ہوں ، تم دونوں مجھے کذاب ، گناہگار ۔ مکار اور خائن اور غدار جانتے ہو۔
النيسابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ)، صحيح مسلم، ج 3، ص 1378، ح 1757، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
یہ امام علی علیہ السلام کاحقیقی نظریہ ہے جو خلیفہ اول اور دوم کے بارے میں تھا اس لئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے عمر کے کلام کا انکار نہیں کیااس طرح متعدد صحابہ موجود تھے عثمان بن عفان، عبد الرحمن بن عوف، زبير بن عوام، سعد بن أبى وقاص و... انھوں نے بھی اس کی نفی نہیں کی خصوصا یہ واقعہ عمر کی خلافت کے آخری سالوں کا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ حضرت اس زمانہ تک اپنے نظریہ پر ثابت قدم تھے ۔
اب کیا کوئی بھی عقلمند اپنی بیٹی کو کذاب ، خائن ، مکار ، اور فاسق کو دے گا ؟
صحيح*ترين اهل سنت کی كتاب بخاری میں موجود روایت کے مطابق منافق کی چار خصلتیں ہیں : کذاب ، خیانت کار ، مکار ، فاسق و فاجر ۔ گذشتہ اہل سنت کی دو روایت کے مطابق یہ چاروں صفات اور خصلتیں خلیفہ دوم میں موجود ہیں اور اسکی تائید امام علی علیہ السلام بھی کرتے ہیں :

حدثنا سُلَيْمَانُ أبو الرَّبِيعِ قال حدثنا إِسْمَاعِيلُ بن جَعْفَرٍ قال حدثنا نَافِعُ بن مَالِكِ بن أبي عَامِرٍ أبو سُهَيْلٍ عن أبيه عن أبي هُرَيْرَةَ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا وَعَدَ أَخْلَفَ وإذا أؤتمن خَانَ
حدثنا قَبِيصَةُ بن عُقْبَةَ قال حدثنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن مَسْرُوقٍ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو أَنَّ النبي (ص) قال أَرْبَعٌ من كُنَّ فيه كان مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كانت فيه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كانت فيه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتى يَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ وإذا حَدَّثَ كَذَبَ وإذا عَاهَدَ غَدَرَ وإذا خَاصَمَ فَجَرَ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عن الْأَعْمَشِ.
پيغمبر (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ منافق کی تین علامت ہیں جب بولے گا تو جھوٹ ، اور جب وعدہ کرے گا تو وعدہ خلافی کریگا اور جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا !
رسول خدا (صلى الله عليه وآله وسلم) سے روایت ہے کہ چار علامت ایسی ہیں کہ جس میں بھی یہ ہونگیں وہ خالص منافق ہوگا اور جس میں صرف ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو وہ علامت نفاق شمار ہوئی مگر اس خصلت کو ترک کردے ۔ [وہ چار خصلت یہ ہیں ] جب بھی اس پر بھروسہ کیا جائے گا خیانت کرے گا جب بولے گا جھوٹ بولے گا اور جب وعدہ کرےگا وعدہ خلافی کرے گا اور جب دشمنی کرے گا تو فسق و فجور کرے گا!

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص 21، ح 33 و 34، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
پس کتب اہل سنت کی روایات صحیح السند کے مطابق خلیفہ دوم ان خصلتوں کے مالک تھے ۔اس بناء پر ہم سوال کرینگے کہ کیا منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی کا ہم پلہ ہو سکتا ہے ؟ اور اہل سنت کی نقل کردہ روایات کے مطابق عمر ام کلثوم کے کفو نہیں ہیں اور ان سے شادی نہیں کر سکتے ہیں۔

شراب خواري خليفه، کفو نہ ہونے کی دلیل :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق شرابی کو بیٹی دینا جائز نہیں ہے اور شرابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے اور جس نے بھی ایسا کام کیا ہو اس نے قطع رحمی کی ہے ۔
پہلے گزر گیا ہے کہ ابوطالب نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی ہے اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
عبد الرزاق صنعانى جو بخارى کے استاد شمار ہوتے ہیں ، نے المصنف میں لکھا ہے :
حدثنا أبو بكر قال حدثنا بن مسهر عن الشيباني عن حسان بن مخارق قال بلغني أن عمر بن الخطاب ساير رجلا في سفر وكان صائما فلما أفطر أهوى إلى قربة لعمر معلقة فيها نبيذ قد خضخضها البعير فشرب منها فسكر فضربه عمر الحد فقال له إنما شربت من قربتك فقال له عمر إنما جلدناك لسكرك.
عمر بن خطاب ایک روزہ دار شخص کے ہمراہ سفر پر تھے جب اس نے افطار کیا تو عمر کے مشکیزہ سے جس میں شراب تھی اور اونٹ نے اسے خوب ہلایا تھا ، اس سے پیا اور مست ہو گیا تب عمر نے اسے حد اور سزا دی تو اس روزہ دار نے کہا میں نے تو تمہارے ہی مشکیزہ سے پیا تھا تو عمر نے کہا میں نے تمہیں مست ہونے پر سزا دی ہے !

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 5، ص 502، ح28401، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

ابن عبد ربه نے عقد الفريد میں لکھا ہے :
وقال الشعبي شرب أعرابي من إداوة عمر فانتشى فحده عمر وإنما حده للسكر لا للشراب.
شعبى نے کہا ایک بدو نے عمر کی مشک سے پیا اور مست ہو گیا عمر نے اسے حد لگائی اور یہ مست ہونے کی وجہ سے تھی پینے کی وجہ سے نہیں تھی ۔!
الأندلسي، احمد بن محمد بن عبد ربه (متوفاي 328هـ)، العقد الفريد، ج 6، ص 382، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثالثة، 1420هـ - 1999م.

اب ہمارا سوال یہ ہے کہ عمر اگر شرابی نہیں تھے تو انکی مشک میں شراب کیا کر رہی تھی ؟ شاید اس حد کی وجہ عمر کی مشک کو خالی کرنے کی وجہ سے ہو ؟ [اس میں بہت سے اھم نکات ہیں جو اہل فہم پر مخفی نہیں ہیں ] جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہم نے تمام روایات کو اہل سنت کی کتب سے نا کہ شیعہ کتب سے نقل کیا ہے اب اہل سنت کے نام نہاد علماء پر لازم ہے کہ ان تمام کا شافی اور قانع کنندہ جواب دیں۔
بدعت گزار ، عفيفه لڑکی ، کا كفو نہیں ہے :
علماء اهل سنت کے نظریہ کے مطابق ،دین میں بدعت*گزار ، مسلمان عفیفہ عورت کا کفو نہیں ہے اور اس سے شادی کا حق نہیں رکھتا ہے ۔
أبو طالب مكى نے سفيان ثورى سے نقل کیا ہے :
وكان الثوري يقول: إذا تزوّج الرجل وقال: أي شيء للمرأة فاعلم أنه لصّ، فلا تزوّجوه، ولا ينكح إلى مبتدع، ولا فاسق، ولا ظالم، ولا شارب خمر، ولا أكل الربا، فمن فعل ذلك فقد ثلم دينه، وقطع رحمه، ولم يحسن الولاية لكريمته، لأنه ترك الإحسان، وليس هؤلاء أكفاء للحرة المسلمة العفيفة.
ثورى کہتے ہیں : جب کوئی مرد شادی کرے اور کہے اس عورت کا کتنا مال [یا جہیز ہے ] تو جان لو یہ چور ہے پس اس سے شادی مت کرو : اسی طرح بدعتی ، فاسق ، ظالم ،شرابی ،اور سود خور سے شادی مت کروانا ، اور جو کوئی اس کے برخلاف عمل کرے اس نے اپنے دین میں رخنہ ڈال دیا اور قطع رحمی کی اور اپنی بیٹی کی صحیح سرپرستی نہیں کی اس لئے کہ اس نے نیکی اور احسان کو ترک کردیا [اس لئے کہ] یہ لوگ، آزاد اور پاک دامن مسلم عورت کے ہم کفو نہیں ہیں !
أبو طالب المكي، محمد بن علي بن عطية الحارثي (متوفاي286هـ)، قوت القلوب في معاملة المحبوب ووصف طريق المريد إلى مقام التوحيد، ج 2، ص 414، تحقيق: د.عاصم إبراهيم الكيالي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الثانية، 1426هـ -2005 م.
دوسری طرف خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کا احوال اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے
محمد بن اسماعيل بخارى نے صحيح میں لکھا ہے :
وَعَنْ بن شِهَابٍ عن عُرْوَةَ بن الزُّبَيْرِ عن عبد الرحمن بن عَبْدٍ القارىء أَنَّهُ قال خَرَجْتُ مع عُمَرَ بن الْخَطَّابِ رضي الله عنه لَيْلَةً في رَمَضَانَ إلى الْمَسْجِدِ فإذا الناس أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فقال عُمَرُ إني أَرَى لو جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ على قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ على أُبَيِّ بن كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ معه لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قال عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هذه وَالَّتِي يَنَامُونَ عنها أَفْضَلُ من التي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكان الناس يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
عبد الرحمن بن عبد*القارى سے روايت عمر رمضان کی ایک رات مسجد میں وارد ہوئے، وہاں لوگوں کو الگ الگ سنت نماز پڑھتے ہوئے دیکھا
عمر نےکہا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا پھر اس کا عزم کر کے ان کو ابی بن کعب پر جمع کر دیا۔ پھر دوسری رات عمر نے دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کیساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ، تو عمر نے کہاکہ یہ اچھی بدعت ہے!
یہ اس بات سے افضل ہے کہ لوگ رات کے آخری حصہ میں اٹھ کر عبادت کریں رات پہلے ہی پہر میں وہ عبادت کر لیں !
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 2، ص 707، ح1906، كِتَاب صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ، بَاب فَضْلِ من قام رَمَضَانَ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.

خلیفہ دوم کی بدعت گزاری کی فہرست بہت طولانی ہے مزید اطلاع کے لئے کتابhttp://www.valiasr-aj.com/fa/page.php?frame=1&bank=maghalat&id=132'> النص والإجتهاد کی طرف رجوع کیا جائے مرحوم شرف الدین نے بہت خوبصورت اندازمیں ان مطالب کو بیان کیا ہے ۔
نتيجه:
بیان شدہ مطالب کے مطابق ، خلیفہ دوم کسی بھی صورت میں ام کلثوم کے کفو نہیں تھے اس بناء پر ممکن نہیں ہے کہ علی علیہ السلام ان شرائط کو نظر انداز کر دیں اور اپنی بیٹی ایسے شخص سے بیاہ دیں جو کسی بھی صورت میں انکے ہم پلہ نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ اگر فرض محال کر لیا جائے یہ شادی امام علی علیہ السلام نے[ام کلثوم بنت ابوبکر کی یا خود ام کلثوم بنت علی علیہ السلام ] کروائی تھی تب بھی مخالفین کا مدعی ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی داستان کی طرح ہے جب انھوں نے لوطی گناہگاروں کو پیش کش کی میری [قوم ] کی بیٹیوں سے شادی کر لو اور یہ پیش کش کرنا، ثابت نہیں کرتا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور لوطی جماعت کے تعلقات بہت اچھے تھے ؟

چھٹا زاویہ : سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت

خداوند نے قرآن كريم میں تمام مومنین کو مخاطب کر کے کہا :
لَّقَدْ كاَنَ لَكُمْ فىِ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كاَنَ يَرْجُواْ اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الاَْخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا. الأحزاب / 21.
اس آیت میں اللہ نے مومنین سے کہا ہے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ تمہارے لئے ہر جگہ اسوہ ہیں اور اسوہ سے مراد یہاں آپ کی پیروی کرنا ہے لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ کی عبارت بیان کر رہی ہے کہ استمرار پر دلالت کر رہی ہے یعنی حکم ہمیشہ کے لئے ثابت ہے اور آپ ہر زمانہ میں آئیڈیل ہونے چاہئے اور رسالت رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مومنین ہر زمانہ میں انکے قول اور فعل میں پیروی کریں ۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) عمر اور ابوبکر کی خواستگاری کو رد کر دیتے ہیں:
یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ابو بکر اور عمر، حضرت زهرا سلام الله عليها کی خوستگاری کے لئے آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جوابِِ انکار دیا اور ان سے منہ موڑ لیا یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ کا مقصود یہ تھا تم دونوں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لائق نہیں ہو نہ عمر میں نا ایمان میں اور نہ اخلاق اور دیگر صفات میں ۔۔۔
ابن حجر هيثمى نے شیعہ کے خلاف کتاب باب 11 صواعق محرقه میں لکھا ہے :
وأخرج أبو داود السجستاني أن أبا بكر خطبها فأعرض عنه صلى الله عليه وسلم ثم عمر فأعرض عنه فأتيا عليا فنبهاه إلى خطبتها فجاء فخطبها.
ابو داوود سجستانى نےنقل کیا ہے کہ ابو بکر نے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے خواستگاری کی تو آپصلی اللہ علیہ و آلہ نے منہ موڑ لیا پھر عمر نے خواستگاری کی ان سے بھی منہ موڑ لیا ۔۔۔

الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 471، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
ابن حبان نے صحيح میں اور نسائى نے اپنی سنن میں لکھا ہے :
أخبرنا الْحُسَيْنُ بن حُرَيْثٍ قال حدثنا الْفَضْلُ بن مُوسَى عن الْحُسَيْنِ بن وَاقِدٍ عن عبد اللَّهِ بن بُرَيْدَةَ عن أبيه قال خَطَبَ أبو بَكْرٍ وَعُمَرُ رضي الله عنهما فَاطِمَةَفقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أنها صَغِيرَةٌ فَخَطَبَهَا عَلِيٌّ فَزَوَّجَهَا منه.
عبد الله بن بريده نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ :ابوبکر اور عمر نے رسولصلی اللہ علیہ و آلہ سے حضرت زہرا[سلام الله عليها] کیخواستگاری کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا وہ ابھی چھوٹی ہیں پھر علی [ع] نے خواستگاری کی تو ان سے شادی کروادی ۔
.
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن (متوفاي303 هـ)، خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب، ج 1، ص 136، تحقيق: أحمد ميرين البلوشي، ناشر: مكتبة المعلا - الكويت الطبعة: الأولى، 1406 هـ؛
النسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبدالفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1406 - 1986؛
التميمي البستي، محمد بن حبان بن أحمد أبو حاتم (متوفاي354 هـ)، صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، ج 15، ص 399، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م؛
الهيثمي، أبو الحسن علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان، ج 1، ص 549، تحقيق: محمد عبد الرزاق حمزة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، النكت الظراف على الأطراف (تحفة الأشراف)، ج 2، ص 83، تحقيق: عبد الصمد شرف الدين، زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت / لبنان، الطبعة: الثانية، 1403 هـ - 1983 م؛
ملا علي القاري، علي بن سلطان محمد، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 11، ص 259، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2001م .
حاكم نيشابورى نے اس حدیث کو نقل کے بعد کہا :
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه.
یہ حديث، بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے لیکن انھوں نے نقل نہیں کیا۔

النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 181، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى، 1411هـ - 1990م.
اس بناء پر، مذکورہ بات سے واضح ہوا کہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یہ ہے کہ اہل بیت کی بیٹی ابوبکر اور عمر کو نہ دی جائے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مخالفت کرتے ۔
عمر زمانہ جاہلیت کی رسومات کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں :
عمر اور ام کلثوم کی شادی کا ایک نتیجہ یہ ہے عمر بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے30 سال اورخلافت کے متعدد سال؛ گزر جانے کے بعد وہ ابھی تک رسوم جاہلیت کےمبلغ اور پرچار کرنے والے ہیں اور عمر زمانہ جاہلیت کی رسم کو بھلا نہ سکے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے واضح طور پر مسلمانوں کو اس رسم سے منع کیا تھا ۔
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے : عمر نے امّ*كلثوم کی امام علي (عليه السلام) سےخواستگارى کی تو ،مزار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ میں موجود مهاجرين اور انصار سے کہا:
رفئوني فرفؤوه وقالوا بمن يا أمير المؤمنين قال بابنة علي بن أبي طالب.
مجھے مبارکباد دو [رفئوني فرفؤوه ]انھوں نے سوال کس بات کی مبارکباد ؟ کہا علی [ع] کی بیٹی سے شادی کی۔
الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 8، ص 463، ناشر: دار صادر - بيروت؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 172، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م؛
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 259؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 15، ص 23، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 294، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
رفئوني یا بالرفاء والبنين کی عبارت کے ساتھ مبارکباد دینا زمانہ جاهليت میں مرسوم تھی لیکن جب رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم مبعوث ہوئے تو اس عمل سے نہی فرمائی جیسا کہ نووی نے اس کی وضاحت کی ہے :

وكانت ترفئة الجاهلية أن يقال ( بالرفاء والبنين ) ثم نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها.

جاهليت میں رفئوني اور بالرفاء والبنين کے کلمات سے تبریک کہنا مرسوم تھی پھر نبی کریم [صلى الله عليه وآله وسلم] نے اس سے نہی و منع فرمایا ۔

النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ)، المجموع، ج 16، ص 205، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.
اور عينى، شارح صحيح بخارى نے كتاب عمدة القارى میں لکھا ہے :
قوله: ( بارك الله لك ) وهذه اللفظة ترد القول: بالرفاء والبنين، لأنه من أقوال الجاهلية، والنبي صلى الله عليه وسلم كان يكره ذلك لموافقتهم فيه، وهذا هو الحكمة في النهي.
بارك الله لك کہنا بالرفاء والبنين کہنے کو رد کرتا ہے کیونکہ یہ کلمات جاہلیت میں سے ہیں اور رسول اسلام صلى الله عليه وآله وسلم، اس کے کہنے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وآله وسلم کے منع کرنے کی وجہ رسم جاہلیت کی مخالفت تھی۔
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 20، ص 146، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.

قابل غور بات یہ ہے کہ اہل سنت کی روایات کے مطابق جناب عقیل بن ابیطالب نے 8 ہجری میں ہجرت کی اور اس کے بعد مریضی اور بیماری کی وجہ سے بہت سے اھم واقعات میں شریک نہ ہوئے اور اسی طرح حضرت رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے خطبات میں شرکت سے قاصر رہے لیکن اس کے با وجود اس رسم جاہلیت کی حرمت سے آگاہ تھے ! جبکہ اہل سنت کے اعتقاد کے اعتبار سے عمر اور انکے حواری جو اولین مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں اس حرمت سے نا آگاہ تھے ! ؟
خرج إلى رسول الله مهاجرا في أول سنة ثمان فشهد غزوة مؤتة ثم رجع فعرض له مرض فلم يسمع له بذكر في فتح مكة ولا الطائف ولا خيبر ولا في حنين
انھوں نے سال 8 ہجری کی ابتدا میں ہجرت کی پھر جنگ موتہ میں شریک ہوئے اور لوٹ آئے اور مریض ہو گئے پھر انکے فتح مکہ ، طائف ۔ خیبر ، حنین
میں شریک ہونے کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دیا گیا !

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، ناشر: دار صادر - بيروت.
احمد بن حنبل نے مسند میں لکھا ہے :
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الْحَكَمُ بن نَافِعٍ حدثنا إسماعيل ابن عَيَّاشٍ عن سَالِمِ بن عبد بن عبد اللَّهِ عن عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن عَقِيلٍ قال تَزَوَّجَ عَقِيلُ بن أبي طَالِبٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقُلْنَا بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِينِ فقال مَهْ لاَ تَقُولُوا ذلك فان النبي صلى الله عليه وسلم قدنهانا عن ذلك وقال قُولُوا بَارَكَ الله فِيكَ وَبَارَكَ الله فيها
عقيل بن ابى طالب [علیہ السلام ] نے شادی کی تو ہم نے انھیں ان کلمات بالرفاء والبنين؛ سے مبارکباد دی تو انھوں نے کہا : خبردار اس طرح نہ کہو رسول اکرم[صلى الله عليه وآله ] نے اس کے کہنے سے منع کیا ہے بلکہ کہو اللہ تمہارے اور تمہاری بیوی میں برکت عنایت فرمائے۔
الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1، ص 201، ح1738، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.
کیا اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر سنت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلاف عمل کرنے میں مصر ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسوم جاہلیت کو دوبارہ زندہ کیا جائے ؟کیا رسول اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے اس فعل سے منع نہیں کیا تھا؟

تعجب کی بات ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے جب دیکھا کہ یہ سراسر برا فعل اور مخالفت حکم رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم ہے تو خلیفہ دوم کے دفاع میں مضحکہ خیز توجیہ کی ہے جو عذر بدتر از گناہ کا مصداق نظر آتا ہے ۔
حلبى نے سيرت میں لکھا ہے :
أن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه جاء إلى مجلس المهاجرين الأولين في الروضة فقال رفئوني فقالوا ماذا يا أمير المؤمنين قال تزوجت أم كلثوم بنت على هذا كلامه ولعل النهى لم يبلغ هؤلاء الصحابة حيث لم ينكروا قوله كما لم يبلغ سيدنا عمر رضي الله تعالى عنهم.
ہمارے سردار عمر بن خطاب نے ، اولین مهاجرين جو مزار رسول اکرم [صلی اللہ علیہ و آلہ] میں موجود تھے ،سے کہا مجھے بالرفاء والبنين. کہو ان لوگوں نے کس بات پر ؟ عمر نےجواب دیا میں نے ام کلثوم بنت علی [ع] سے شادی کر لی ہے ! شاید رسول [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی نہی اور حرمت ان تک نہیں پہنچی ہے ! تاکہ عمر پر اعتراض کرتے اسی طرح ہمارے سردار عمر تک بھی اس کی حرمت اور نہی نہیں پہنچی ہے ! !

الحلبي، علي بن برهان الدين (متوفاي1044هـ)، السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 2، ص 42، ناشر: دار المعرفة - بيروت – 1400هـ.
حلبی کی یہ توجیہ خود واقعہ سے زیادہ بدتر ہے اس لئے کہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عمر متعدد سال مسلمانوں پر حکومت کرنے کے باوجود ابھی تک بنیادی احکام اور مسائل دین سے نابلد ہیں کیا ایسا شخص مسند خلافت رسول خدا صلى الله عليه وآله پر بیٹھنے کا اہل ہےاور مسلمانوں کو صراط مستقیم پر لے کر چل سکتا ہے ؟اس سے بدتر مهاجرين الأولين کے بھی بے خبر اور نابلد ہونے کا دعوی کیا گیا ہے ۔!!!.
کیا قبول کیا جاسکتا ہے کہ 20 سال رسول خدا صلى الله عليه وآله کی صحبت میں رہنے والے اس حکم خدا سے نابلد ہوں ؟
کیا ایسا شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله کے بعد مسلمانوں کا دینی رہبر بن سکتا ؟
کیا پتہ دیگر احکامات الہی بھی اسی کی طرح پایمال نہ کئے گئے ہوں ؟
رسول خدا صلى الله عليه وآله کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا:
اهل سنت کے بعض نام نہاد علماء نے امام علی علیہ السلام سے بغض کا حساب پورا کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے جناب خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی سے خواستگاری کی !اور جب یہ بات بی بی [سلام اللہ علیہا]کو معلوم ہوئی تو ناراض ہوئیں! اور رسول خدا صلى الله عليه وآله سے شکایت کی جب رسول خدا صلى الله عليه وآله کو خبر ہوئی تو بہت غصہ ہوئے !اور مسجد میں خطبہ فرمانے آئے اور ارشاد فرمایا! :
وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا، وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُل وَاحِد ". فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ.

فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں ، مجھے گوارا نہیں ہے کہ کوئی میری بیٹی کو ناراضی کرے اللہ کی قسم بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اور بنت دشمن خدا ایک مرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتی ہیں تب علی [ع] نے ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری چھوڑ دی !۔

البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 3، ص 1364 ح 3523، كتاب فضائل الصحابة، ب 16، باب ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا!:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بن الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا في أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بن أبي طَالِبٍ فلا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إلا أَنْ يُرِيدَ بن أبي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا هِيَ بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي ما أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي ما آذَاهَا.
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے یہ اجازت مانگی ہے کہ ہم اپنی بیٹی کی علی ابی طالب[ع] سے شادی کردیں، میں اجازت نہیں دیتا، پھر کہا میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، لیکن علی [ع] میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور انکی بیٹی سے بیاہ کرلے ، کیونکہ فاطمه [سلام اللہ علیہا]میرا حصہ ہیں انکی ناراضگی میری ناراضگی ہے اور انکی اذیت میری اذیت ہے ۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 5، ص 2004، ح4932، كِتَاب النِّكَاحِ، بَاب ذَبِّ الرَّجُلِ عن ابْنَتِهِ في الْغَيْرَةِ وَالْإِنْصَافِ، تحقيق د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 - 1987.
چونکہ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کا مسئلہ ہے اس لئے ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس قضیہ کو خوب چڑا کر نقل کیا اور اس کو دلیل بنایا ہے کہ فاطمه سلام الله عليها علی علیہ السلام سے غضبناک ہوئیں ۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقتا رسول[ص] کی بیٹی اور شمن خدا کی بیٹی کو جمع کرنا حرام ہے اور اسی وجہ امام علی علیہ السلام ابو جہل کی بیٹی کی خواستگاری سے رک گئے تو خلیفہ دوم کیوں اس حرام عمل کے مرتکب ہوئے ۔؟
فاطمه بنت وليد بن مغيره، وہ عورت ہے جس سے عمر نے 18 ہجری میں یعنی اسی سال جس میں ام کلثوم سے شادی کی اس سے بھی شادی کی ہوئی تھی۔
اور وليد بن مغيره، كفار قريش کے سرداروں میں سے ہیں ، اور ان افراد میں سے جو جنگ بدر میں واصل جہنم ہوا تھا اور اسی کی مذمت میں آیت ذرنى ومن خلقت وحيدا نازل ہوئی!
ابن سعد نے الطبقات الكبرى میں لکھا ہے :
عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم بن يقظة بن مرة وأمه فاطمة بنت الوليد بن المغيرة بن عبد الله بن عمر بن مخزوم ويكنى عبد الرحمن أبا محمد وكان بن عشر سنين حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم ومات أبوه الحارث بن هشام في طاعون عمواس بالشام سنة ثماني عشرة فخلف عمر بن الخطاب على امرأته فاطمة بنت الوليد بن المغيرة وهي أم عبد الرحمن بن الحارث
عبد الرحمن بن حارث بن هشام بن مغيرة... اسکی ماں فاطمه بنت وليد بن مغيره ہے ؛ جب رسول اکرم[ص] اس دنیا سے گئے تو اسکی عمر 10 سال تھِی اسکا باپ حارث بن ہشام 18 ہجری میں طاعون عمواس سے مر گیا پھر عمر نے اسکی بیوی سے شادی کی اور یہ عبد الرحمان بن حارث کی ماں ہے !

الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبدالله البصري (متوفاي230هـ)، الطبقات الكبرى، ج 5، ص 5، ناشر: دار صادر - بيروت.
ابن حجر عسقلانى نے ترجمه عبد الرحمن بن الحارث بن هشام اسی کو دھرایا ہے :
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 5، ص 29، رقم: 6204، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.
اگر بنت رسول [ص]اور بنت دشمن خدا کو جمع کرنا حرام ہے تو خلیفہ دوم نے کیوں یہ حرام کام کیا ؟ [شاید حلبی قبر میں کہہ رہا ہو شاید ان تک اس کی حرمت نہیں پہنچی ہو ]
وليد بن مغيره اور ابوجهل،* دونوں ہی رسول اکرم[ ص ]کے بدترین دشمن تھے پس اگر ابوجہل کی بیٹی سے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شادی حرام ہے تو عمر کے لئے بھی ولید بن مغیرہ کی بیٹی حرام ہے ۔
آيا اهل سنت قبول کرتے ہیں کہ عمر اس حرام کے مرتکب ہوئے ؟
نتيجه:
[پس یا قبول کریں کہ ام کلثوم بنت علی [ع] سے عمر کی شادی نہیں ہوئی ہے یا قبول کریں کہ عمر نے یہ حرام فعل انجام دیا ہے اور انکی نسل بھی اسی حرام فعل سے چلی ہے - مترجم ]
[اگرچہ یہ مقام امام علی علیہ السلام پر تنقیص کے جواب دینے کا نہیں ہے لیکن امام علی علیہ السلام کے کردار اور اقوال کو سامنے رکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام اسی شجرہ ملعونہ کا ہے جس نے اپنے 100 سالہ حکومت میں ان پر سب و شتم کو رائج کیا تھا ]
امام علی علیہ السلام پورے وجود سے نہج البلاغہ میں اعلان فرما رہے ہیں :
وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ.
میں آپ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ہر روز میرے لئے اخلاق عالیہ کا علم بلند کرتے اور مجھےاسکی پیروی کا حکم دیتے ۔
نهج البلاغه، صبحي صالح، خطبه 198.

پانچواں زاویہ : تجزیہ اور تحقیق عمر کے شادی کے بہانے کی

اهل سنت،کے ادعا کے مطابق خلیفہ دوم نےام کلثوم کی خوستگاری کی تو امام علی علیہ السلام نے اس کے چھوٹے ہونے کا عذر بتاتے ہوئے منع کیا لیکن عمر کے اصرار اور عمر کی بیان کردہ دلیل کی بناء پر قبول کر لیا !!!.

عبد الرزاق صنعانى لکھتے ہیں:
تزوج عمر بن الخطاب أم كلثوم بنت علي بن أبي طالب وهي جارية تلعب مع الجواري فجاء إلى أصحابه فدعوا له بالبركة فقال إني لم أتزوج من نشاط بي ولكن سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة إلا سببي ونسبي فأحببت أن يكون بيني وبين نبي الله صلي الله عليه وسلم سبب ونسب
عمر بن خطاب نے امّ*كلثوم بنت علي بن ابى طالب[ع] سے شادی کی . امّ*كلثوم بہت چھوٹی بچی تھی اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی پس عمر اپنے ساتھیوں کے پاس گئے اور انھوں نے عمر کے لئے برکت کی دعا کی ۔ پھر عمر نے کہا میں نے شادی جوانی کےشوق کی وجہ سے نہیں کی ہے ! بلکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے تو میں نے چاہا کہ میرے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے درمیان نسب اور سبب قائم ہو ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 164، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.
جبکہ شیعہ سنی کا اتفاق ہے کہ ، رسول خدا صلى الله عليه و آلہ نے عمر کی بیٹی حفصہ سے سبب قائم کیا ہوا تھا پس کیا احتیاج ہےکہ ام کلثوم سے شادی کرے۔
فرق نہیں پڑتا ہے انسان کسی کا داماد ہو یا وہ کسی کا سسر ہو سبب تو قائم ہوحاتا ہے اور رشتہ داری بن جاتی ہے اگر قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری قیامت میں کسی کو کام آئے سکے تو عمر کو حفصہ کی شادی کی وجہ سے کام آئے گی اس بناء پر ام کلثوم کے ذریعہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی رشتہ داری بنانے کا ڈھونگ جھوٹ ہے اور یہ سبب بنتا ہے شادی بذات خود جھوٹ نظر آئے ۔

سيد ناصر حسين لكھنوى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وأما ما وقع في هذا الخبر المكذوب أن عمر قال للأصحاب: إن رسول الله ( ص ) قال: كل نسب وسبب منقطع يوم القيامة إلا نسبي وسببي، وكنت قد صحبته فأحببت أن يكون هذا أيضا.
فمردود لأن اتصال السبب من رسول الله ( ص ) لعمر بعد الصحبة كان حاصلا بلا شبهة عند أهل السنة من جهة أبنته حفصة: فإنها كانت من أزواج رسول الله ( ص )، وهذا الاتصال يكفي له أن كان عمر بن الخطاب مؤمنا مصدقا لقوله، وإن لم يكن مؤمنا مصدقا للرسول ( ص ) فما يزيده هذا الاتصال الذي طلبه من علي ( ع ) وهو محرم عليه بوجوه عديدة غير تقصير وتخسير كما لا يخفى على من له حظ من الإيمان، ونصيب.
وہ بات جو اس جھوٹی روایت میں آئی ہے کہ عمر نے اپنے یاروں سے کہا : رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر نسب اور سبب ختم ہوجائے گا سوائے میرے نسب اور سبب کے میں ایک صحابی تھا دل چاہتا تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے میری بھی یہی نسبت ہو! ۔
یقینا یہ بات بالکل باطل اور غلط ہے اسلئے کہ اہل سنت کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ عمر ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے صحابی بننے کے بعد رشتہ دار بھی بن گئے تھے اور یہ رشتہ داری عمر کی بیٹی حفصہ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اور حفصہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ و آلہ میں شمار ہوتی تھیں اور یہی رشتہ اور اتصال ، عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بات پر ایمان رکھنے کی صورت میں کافی تھا اور اس سے، رشتہ بن گیا تھا ۔
اور اگر عمر کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے قول ہر ایمان نہیں تھا تو دوسری بار رشتہ اور اتصال ام کلثوم کے ذریعہ سے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ یہ رشتہ متعدد وجوہ کی وجہ سے عمر پر حرام تھا اور یہ بات صاحبان ایمان پر آشکار ہے [اسکی تفصیل بعد میں آئے گی ]
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 140، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.

چوتھا زاویہ: ناموس رسول اللہ [صلی اللہ علیہ و آلہ] کی توہین

اهل سنت نے عمر اور ام کلثوم کی شادی کو ثابت کرنے کے سلسلے میں متعدد ایسی جعلی روایات کو گھڑا ہے کہ جس کےپڑھنے اور سننے سے ہر مسلمان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے.
ہم اہل سنت سے سوال کرینگے کہ اچھے تعلق کو ثابت کرنا کس قیمت پر ؟ کیا اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح کی جعلی اور گندی اور فحش روایات کو ذکر کیا جائے ؟
ان نام نہاد علماء اہل سنت نے اس طرح کی روایات کو ذکر کرکے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ، علی مرتضی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور خلیفہ کی بھی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔
ام کلثوم اور عمر کی شادی کے کچھ نتائج نکلتے ہیں جس میں سے چھوٹا ترین ایک نتیجہ، ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے عمر کی خیانت ہے ۔
کیا یہ لوگ اس نتیجہ کو قبول کرتے ہیں ؟


عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر نگاہ کی:
ابن حجر عسقلانى کہ جو اہل سنت کے علمی شخصیت میں سے ہیں اور حافظ علی الاطلاق مانے جاتے ہیں وہ كتاب تلخيص الحبير و الاصابة میں اور دیگر بزرگ علماء اہل سنت نے اس توہین آمیز جملات کو نقل کیا ہے :
عن مُحَمَّدِ بن عَلِيِّ بن الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ إلَى عَلِيٍّ ابْنَتَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ فذكر له صِغَرَهَا فقال أَبْعَثُ بها إلَيْك فَإِنْ رَضِيت فَهِيَ امْرَأَتُك فَأَرْسَلَ بها إلَيْهِ فَكَشَفَ عن سَاقِهَا فقالت لَوْلَا أَنَّك أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَصَكَكْت عَيْنَك وَهَذَا يُشْكَلُ على من قال إنَّهُ لَا يَنْظُرُ غير الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ.
محمد بن علي سے روايت ہے کہ عمر نے ام *كلثوم کی علي (عليه السلام) سے خواستگارى کی ۔، علی [ع] نے عمر کو یاد دلایا کہ وہ بہت چھوٹی ہےپھر علی [ع] نے کہا میں ام کلثوم کو تمہارے پاس بھیجوں گا اگر پسند آئے تو وہ تمہاری بیوی ہے پس انھوں نے بھیجا تو عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی برہنہ کی تو ام کلثوم نے کہا اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو تیری آنکھوں کو اندھا کردیتی ! ۔۔۔ ۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 6، ص 163، ح10352، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ؛
الخراساني، سعيد بن منصور (متوفاي227هـ)، سنن سعيد بن منصور، ج 1، ص 173، ح1011، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: الدار السلفية - الهند، الطبعة: الأولى، 1403هـ ـ 1982م .
القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 4، ص 1955، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 260؛
ابن قدامة المقدسي، بد الرحمن بن محمد (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير، ج 7، ص 343؛
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تلخيص الحبير في أحاديث الرافعي الكبير، ج 3، ص 147، تحقيق السيد عبدالله هاشم اليماني المدني، ناشر: - المدينة المنورة – 1384هـ – 1964م؛
الإصابة في تمييز الصحابة، ج 8، ص 293، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992؛
السيوطي، جلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر (متوفاي911هـ)، جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير)، ج 14، ص 265؛
الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقى الأخبار، ج 6، ص 240، ناشر: دار الجيل، بيروت – 1973.

عمر نے ام كلثوم کی پنڈلی برہنہ کی اور اس پر ہاتھ پھیرا!
اور اهل سنت کی علمى شخصیت ذھبی نے سير أعلام النبلاء میں اور دیگر بزرگان اهل سنت، نے اس توہین کو دوسری طرح نقل کیا ہے :
قال عمر لعلي: زوجنيها أبا حسن، فإني أرصُدُ من كرامتها مالا يرصد أحد، قال: فأنا أبعثها إليك، فإن رضيتها، فقد زَوَّجْتُكها، يعتل بصغرها، قال: فبعثها إليه ببُرْدٍ، وقال لها: قولي له: هذا البرد الذي قلت لك، فقالت له ذلك. فقال: قولي له: قد رضيت رضي الله عنك، ووضع يده على ساقها، فكشفها، فقالت: أتفعل هذا؟ لولا أنك أمير المؤمنين، لكسرت أنفك، ثم مضت إلى أبيها، فأخبرته وقالت: بعثتني إلى شيخ سوء!.
عمر نے علي ( عليه السلام ) سے کہا: ام كلثوم کی مجھ سے شادی کردو اور اس کے ذریعے سے ایسی فضیلت تک پہنچ جاوں جس تک کوئی نہیں پہنچا علی [ع] نے جواب دیا میں اسے تمہارے پاس بھیجوں گا اگر تمہیں پسند آئے[یا اسے راضی کردیا] تو اسکی تم سے شادی کر دونگا اگر چہ علی[ع] انکی صغر سنی کو راضی نہ ہونے کا سبب بیان کر رہے تھے پھر اسے ایک چادر کے ہمراہ بھیجا اس سے کہا کہ عمر کو میری طرف سے کہنا یہ وہ کپڑا ہے جس کا میں نے تم سے کہا تھا ۔ ام کلثوم نے بھی علی[ع] کے کلام کو دھرایا ۔ عمر ے کہا : اپنے والد کو میری طرف سے کہنا : مجھ پسند آیا اللہ تم سے راضی ہو پھر عمر نے ام کلثوم کی ساق پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا ام کلثوم نے کہا یہ کیا کر رہا ہے ؟ اگر تم خلیفہ نہ ہوتے تو تمہاری ناک توڑ دیتی پھر اپنے والد کے پاس لوٹ گئی اور انھیں سب بتا دیا اور ام کلثوم نے کہا آپ نے مجھے ایک بد[کردار] بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔
الزبيري، أبو عبد الله المصعب بن عبد الله بن المصعب (متوفاي236هـ)، نسب قريش، ج 10، ص 349، ناشر: دار المعارف تحقيق: ليفي بروفسال، القاهرة؛
ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 19، ص 483، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت – 1995؛
ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفاي 597 هـ)، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، ج 4، ص 237، ناشر: دار صادر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1358؛
ابن حمدون، محمد بن الحسن بن محمد بن علي (متوفاي608هـ)، التذكرة الحمدونية، ج 9، ص 309، تحقيق: إحسان عباس، بكر عباس، ناشر: دار صادر - بيروت،، الطبعة: الأولى، 1996م؛
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 7، ص 425، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م؛
الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 4، ص 138، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م؛
سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 501، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛
الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفاي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج 24، ص 272، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفى، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م؛
العيني، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص 168، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت؛
الصفوري، عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان (متوفاي894 هـ)، نزهة المجالس ومنتخب النفائس، ج 2، ص 438، تحقيق: عبد الرحيم مارديني، ناشر: دار المحبة - دار آية - بيروت - دمشق - 2001 / 2002م.

ام کلثوم کو سجا ,سنوار کر عمر کےپاس بھیجا گیا، اور عمر نے ساق کو پکڑا اور چوما !
اسی طرح خطيب بغدادى نے كتاب تاريخ بغداد میں مزید قبیح الفاظ میں نقل کیا ہے :
فقام على فأمر بابنته من فاطمة فزينت ثم بعث بها إلى أمير المؤمنين عمر فلما رآها قام إليها فأخذ بساقها وقال قولي لأبيك قد رضيت قد رضيت قد رضيت فلما جاءت الجارية إلى أبيها قال لها ما قال لك أمير المؤمنين قالت دعاني وقبلني فلما قمت اخذ بساقي وقال قولي لأبيك قد رضيت فأنكحها إياه.
علي (عليه السلام) نے اپنی بیٹی کو زینت اور سجنے کا کہا اور عمر کے پاس بھیجا ، جب عمر نے اسے دیکھا تو اس کی طرف آئے اور اس کی ساق کو پکڑا اور کہا اہنے والد سے کہنا میں راضی ہو گیا ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئی انکے والد نے سوال کیا :عمر نے کیا کہا ؟ ام کلثوم نے کہا اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میرے بوسہ لئے! اور جب میں وہاں سے آنے لگی تو میری ساق پکڑ لی ! اور پھر کہا میری طرف سے اپنے والد کو کہو میں راضی ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔
البغدادي، أحمد بن علي أبو بكر الخطيب (متوفاي463هـ)، تاريخ بغداد، ج 6، ص 182، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.


عمر کا ساق کو برہنہ کرنا ، انکی پیروی کرنے والوں کے لئے منبع تشریع بن گیا:
چونکہ خلفاء ثلاثہ خود کو جانشین مطلق رسول خدا صلى الله عليه وآله جانتے تھے اسی لئے اپنے لئے رسول اکرم صلى الله عليه وآله کے تمام اختیارات اور مرتبہ کے بھی قائل تھے جس میں سے ایک اپنے آپ کو منبع شرعیت اور تشریع ماننا ہے ،اسی سبب سے متعدد بدعتیں اور کج روی ان سے سرزد ہوئیں ہیں کہ جو کتب اہل سنت میں نقل ہوئی یہ خود بہترین دلیل اس مطلب کے اثبات میں ہے ۔
خلفاء نےدیکھا تھا رسول خدا صلى الله عليه وآله نے نماز و رکعت کی تعداد اور کیفیت ، زکات کی مقدار ۔۔۔۔معین فرمایا تھا اسی لئے خیال کرنے لئے کہ وہ بھی مجاز ہیں کہ شریعت کے احکامات میں رد وبدل کر سکتے ہیں ۔حذف حى علي خير العمل اذان سے اور الصلاة خير من النوم کا اذان میں اضافہ اور نماز ، حج ، زکات اور ۔۔۔ میں متعدد تبدیلیاں انکی 25 سالہ حکومت کے کارنامہ ہیں ۔
جس چیز کا انھوں نے کا پرچار انکے پیروان بھی خلفا کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سنت شیخین کو کتاب خدا اور سنت رسول اکرمصلى الله عليه وآله کی طرح معتبر جانتے ہیں اور اس کی پاسداری کو تمام لوگوں کے لئے لازم اور ضروری قرار دیتے ہیں ۔
وہ افعال جس کی نسبت ان لوگوں نے عمر کی طرف دی ہے اور انکے پیروکار افراد نے اسی اعمال کو منبع شرعیت قرار دیا ہے اور خود اسی عمل قبیح یا اس سے بدتر کے مرتکب ہوئے ہیں انھی افعال میں سے ایک کشف ساق ہے ۔
روايات اهل سنت، کے مطابق عبد الله، خليفه دوم کے بیٹے ان افراد میں سے جو اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم لڑکیوں اور کنیزوں کی ساق کو برہنہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں

عبد الرزاق صنعانى، نے كتاب معتبر المصنف میں لکھا ہے :
13200 عبد الرزاق عن عبد الله بن عمر عن نافع عن بن عمر ومعمر عن أيوب عن نافع عن بن عمر كان إذا اراد أن يشتري جارية فراضاهم على ثمن وضع يده على عجزها وينظر إلى ساقيها وقبلها يعني بطنها.
ابن عمر سے روايت ہوئی ہے کہ جب بھی کسی کنیز کو خریدنے کا ارادہ کرو اور قیمت کنیز معلوم ہوجائے تو اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھو اور اسکی ساق اور پنڈلیوں کو دیکھے اور اسی طرح اس کی فرج[ شرمگاہ]پر نگاہ کرو اور یہاں فرج[شرمگاہ] سے مراد اس کا پیٹ ہے !!!

قُبُل زبان عربى میں مشخص اور معین ہے لیکن کیوں یہاں اس کا معنی پیٹ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ابن عمر کی بلا تامل تعصب اور جانبداری کے ساتھ پیروی کرنےوالوں کی سرش میں تلاش کیا جائے ۔
اور دوسری روايت میں ہے :
13202 عبد الرزاق عن معمر عن عمرو بن دينار عن مجاهد قال مر بن عمر على قوم يبتاعون جارية فلما رأوه وهم يقلبونها أمسكوا عن ذلك فجاءهم بن عمر فكشف عن ساقها ثم دفع في صدرها وقال اشتروا قال معمر وأخبرني بن أبي نجيح عن مجاهد قال وضع بن عمر يده بين ثدييها ثم هزها.
ابن عمر، کا ایسے افراد کے قریب سے گزر ہوا جو کنیز کی خرید اور فروخت میں مشغول تھے جب لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو کنیز کی جان پڑتال سے روک گئے تب ابن عمر انکے پاس آئے اور اس کنیز کی پنڈلیاں برہنہ کی پھر اسکے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا اسے خرید لو اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ابن عمر نے کنیز کے دو پستان کے درمیان ہاتھ رکھ کر ہلایا !!

اور اس کے آگے لکھتے ہیں :
13205 عبد الرزاق عن بن جريج عن نافع أن بن عمر كان يكشف عن ظهرها وبطنها وساقها ويضع يده على عجزها.
ابن عمر کنیز کی کمر اور شکم کو اسی طرح اس کی ساق کو برہنہ کرتے اور اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھتے تھے !!

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 7، ص 286، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمي، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

جب ان علماء نے اس فعل کی نسبت خلیفہ کی طرف دیدی تو یہ فعل انکے پیروان کے نزدیک ایک سنت اور قابل احترام فعل بن گیا کہ جس پر عمل کرنا لازمی ہو بسر بن ارطاہ جو تاریخ کا سفاک انسان شمار ہوتا ہے اس نے معاویہ کے حکم سے یہی قبیح فعل مسلمان عورتوں کے ساتھ دھرایا ۔
ابن عبد البر نے كتاب الإستيعاب میں لکھا ہے :
عن أبي ارباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضى الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضا.
وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانمت أعظم ساقا اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم ارسل معاوية بسر بن ارطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق.

ابو ارباب اور انکے ساتھی نے روایت کی ہے کہ ہم نے ابوذر سے سنا ہے کہ وہ اپنی طولانی نماز میں قیام ، رکوع اور سجدہ کو طول دیتے ہوئے دعا کر رہے تھے اور اللہ سے پناہ مانگ رہے تھے ۔ہم نے ابوذر سے سوال کیا کہ آپ کس بات کی اللہ سے پناہ مانگ رہے ، اور دعا کر رہے تھے ؟ ابوذر نے جواب دیا : میں نے اللہ سے رزو بلاء اور روز عورت [ستر ، شرمگاہ ] سے پناہ مانگی ہے ہم نے سوال کیا وہ کونسے دن ہیں ؟ کہا روز بلاء وہ دن ہے جس مسلمین کے دو گروہ ایک دوسرے کو قتل کرینگے اور روز عورت وہ دن ہے جب مسلم عورتوں کو اسیر بنایا جائے گا اور انکی پنڈلیوں کو برہنہ کیا جائے اور جس کی پنڈلی موٹی ہوگی اسے خریدا جائے گا اسی لئے خدا سے دعا کی کہ اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے لیکن شاید تم لوگ اس وقت موجود ہوں کچھ زمانہ ہی گزرا تھا عثمان قتل ہو گئے اور معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن بھیجا اور اس نے مسلمانوں عورتوں کو کنیز بنا کر بازار میں فروخت کے لئے لیکر آگیا ۔!


القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفاي463 هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 1، ص 161، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، الطبعة: الأولى، 1412هـ.
جب اہل سنت اس طرح کی روایت خلیفہ رسول صلى الله عليه وآله سے نقل کرینگے کہ جس میں حرمت ناموس رسالت صلى الله عليه وآله کی رعایت نہیں کی گئی اور اسی ساق کو برہنہ کرینگے تو عبد اللہ بن عمر اور بسر بن ابی ارطاہ سے کیا توقع !!!.
سعدى کے بقول :
اگر ز باغ رعيت ملك خورد سيبي
برآورند غلامان او درخت از بيخ
[یعنی جب بادشاہ رعیت کے باغ سے سیب کھائے گا تو اس کے غلام اس درخت کو جڑوں سمیت لے کر آجائیں گے ۔

محمد بن اسماعيل صنعانى نے سبل السلام میں لکھا ہے:
دلت الأحاديث على أنه يندب تقديم النظر إلى من يريد نكاحها وهو قول جماهير العلماء والنظر إلى الوجه والكفين لأنه يستدل بالوجه على الجمال أو ضده والكفين على خصوبة البدن أو عدمها.
وقال الأوزاعي ينظر إلى مواضع اللحم. وقال داود ينظر إلى جميع بدنها. والحديث مطلق فينظر إلى ما يحصل له المقصود بالنظر إليه ويدل عليه فهم الصحابة لذلك ما رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور أن عمر كشف عن ساق أم كلثوم بنت علي.

۔۔۔ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہو ۔۔۔۔۔۔اوزاعى نے کہا ہے کہ عورت کے جہاں بھی گوشت ہوتا ہے اسے دیکھا جا سکتا ہے ! اور داود نے کہا عورت کے پورے بدن کو دیکھا جا سکتا ہے ! اور روایت مطلق ہونی کی وجہ سے تمام اس مقامات کو دیکھ سکتا ہے جس کے لئے شادی کر رہا ہے! اور اسی تمام بدن کے اوپر صحابہ کا فہم دلالت کرتا ہےاور یہ اس روایت کی وجہ سے جسے عبد الرزاق اور سعید بن منصور نے نقل کی یعنی عمر کا ام کلثوم بنت علی[ع] کی پنڈلی کو برہنہ کرنا !۔

الصنعاني الأمير، محمد بن إسماعيل (متوفاي852هـ)، سبل السلام شرح بلوغ المرام من أدلة الأحكام، ج 3، ص 113، تحقيق: محمد عبد العزيز الخولي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1379هـ.

علماء اهل سنت عمر کےاس فعل کی توجیہ کرتے ہیں :
بعض علماء اہل سنت جانتے ہیں کہ خليفه کا ناموس رسول خدا صلى الله عليه وآله، پر دست درازی کرنا قبیح اور گندا عمل ہے لھذا خلیفہ دوم عزت بچانے کے لئے مضحکہ خیز توجیہ کرتے ہیں
ابن حجر ھیثمی نے لکھا ہے :

وتقبيله وضمه لها على جهة الإكرام لأنها لصغرها لم تبلغ حدا تشتهى حتى يحرم ذلك....
ام کلثوم کو بوسہ دینا اور گلے لگانا یہ احترام کی وجہ سے تھا اس لئے کہ ام کلثوم اس سن کی نہیں تھی کہ جو شہوت انگیزی پیدا کرے اور جس کے نتیجہ میں یہ کام [ عمر کے لئے ] حرام ہوجائے!
الهيثمي، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2، ص 457، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ - 1997م.
عجیب ہے کہ ام کلثوم تو اس قبیح حرکت کو محسوس کرے اور خلیفہ کی ناک توڑنے یا اسکی آنکھ باہر نکالنا چاہے لیکن اس حد تک ممیز نہیں ہوئی ہو کہ اس سے دست درازی حرام نہ ہو ؟
اور اگر بوسہ لینا احترام کی خاطر تھا تو ساق کو ننگا کرنا کس واسطے تھا ؟کیا آج تک کسی کو دیکھا ہے جو کسی لڑکی کی پنڈلی ننگی کرکے اس کا احترام کرنا چاہتا ہو ؟

البتہ قابل غور و فکر یہ بات ہے کہ ابن حجر ہیثمی کے بقول وہ اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ شہوت کا عمل دخل ہو لیکن وہی بچی بہت ہی کم عرصہ میں تین بچوں کی ماں بن جائے ! ! !
ان روایات کی تحقیق منصف حضرات کی نظر میں :
اس عمل میں اتنی قباحت ہے کہ انکے طرفدار بھی چیخ پڑے ہیں
سبط ابن الجوزى حنفی نے لکھا ہے :
ذكر جدي في كتاب منتظم ان علياً بعثها لينظرها و ان عمر كشف ساقها و لمسها بيده، هذا قبيح والله. لو كانت امة لما فعل بها هذا. ثم باجماع المسلمين لايجوز لمس الاجنبيه.
میرے جد [ یعنی ابن جوزی ] نے کتاب منتظم میں لکھا ہے کہ علي (عليه السلام) نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اسے دیکھے اور عمر نے اس کی ساق کو برہنہ کیا اور ہاتھ لگائے ، اللہ کی قسم یہ بہت قبیح اور گندا فعل ہے اگر وہ کنیز بھی ہوتی تو تب عمر کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس کے علاوہ اجماع مسلمین ہے کہ نا محرم کو ہاتھ لگانا حرام ہے ۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي، تذكرة الخواص، ص288 ـ 289، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

اس فعل سے متعلق علماء شيعه کا نظریہ :
شهيد قاضى نور الله تسترى اس بارے میں لکھتے ہیں :
وإني لأقسم بالله على أن ألف ضربة على جسده عليه السلام وأضعافه على جسد أولاده أهون عليه من أن يرسل ابنته الكريمة إلى رجل أجنبي قبل عقدها إياه ليريها فيأخذها ذلك الرجل ويضمها إليه ويقبلها ويكشف عن ساقها وهل يرضى بذلك من له أدنى غيرة من آحاد المسلمين.
میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کے بدن پر ہزار وار اور اس سے زیادہ آپ کی اولاد اطہار کے بدن پر وار کھانا انکے نزدیک کچھ نہیں اس بات کی نسبت کہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو عقد سے پہلے کسی نا محرم کے پاس بھیجے تاکہ وہ دیکھے ، گلے لگائے ، چومے ، اور اسکی ساق برہنہ کرے کیا کوئی مسلمان جس کے پاس تھوڑی سی بھی غیرت ہو اس فعل سے راضی ہوسکتا ہے ؟
الصوارم المهرقة - الشهيد نور الله التستري - ص 200

اور سيد ناصر حسين الهندى اس بارے میں لکھتے ہیں:
ومن العجائب أن واضع هذ الخبر لقلة حيائه قد افترى أن سياقه المنكر أن عمر بن الخطاب معاذ الله قد كشف ساق سيدتنا أم كلثوم (ع) وهذا كذب عظيم، وبهتان جسيم، تقشعر منه الجلود، وتنفر عنه كل قلب ولو كان الجلمود، ولعمري إن هذا المفتري الكذاب قد فاق في الفرية والفضيحة وبالجرأة والجسارة على مختلق السياق السابق الذي أورده ابن عبد البر، أولا بغير سند، فإن ذلك المختلق المدحور قد ذكر في سياق المذكور وضع اليد على الساق....
ومن البين أن وضع اليد على الساق وإن كان منكرا قبيحا جدا، ولكن هذا الخبيث الذي يقول: فكشف عن ساقها، يظهر خبثه صراحة... ومما يضحك الثكلى أن وضاع هذا السياق السائق إلى الجحيم قد نسب إلى سيدتنا أم كلثوم سلام الله عليها أنها لما أحست بقبح عمر بن الخطاب، أقسمت بالله وهددته بلطم عين إمامه.
انتہائی عجیب بات ہےکہ اس روایت کے گھڑنے والے نے اپنی بے حیائی کی وجہ سے ایسی جھوٹی روایت کی ہے جس کا متن نا قابل قبول ہے کہ :عمر بن خطاب نے معاذ اللہ ام کلثوم [س] کی ساق کو برہنہ کیا یہ ایک عظیم کذب ہے اور بہت بڑا بہتان ہے کہ جس [کے سننے ] سے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سخت ترین دل بھی نفرت اور غم سے ڈوب جاتا ہے میری جان کی قسم اس کذاب اور بہتان باندھنے والے نے بے حیائی ، تہمت لگانے اور جسارت کرنے میں اس روایت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کو عبد البر نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے اس لئے کہ اس کذاب نے صرف ہاتھ ساق پر رکھنے کو لکھا ہے !! ۔۔۔ اور واضح ہے کہ ساق پر ہاتھ رکھنا انتہائی قبیح ہے لیکن اس خبیث نے جو کہتا ہے کہ ساق کو برہنہ کیا ہے اپنی خباثت کو خوب ظاہر کر دیا ہے ۔۔۔
اور روتے ہوئے شخص کو بھی ہنسادینے والی بات ہے جسے اس روایت کے جاعل اور جہنم کی طرف بلانے والے کہی ہے کہ ام کلثوم [س] نےجب یہ محسوس کیا کہ عمر برا ارادہ رکھتا ہے تو قسم کھا کر دھمکی دی کہ اپنے طمانچہ سے اس کے خلیفہ کی آنکھ باہر نکال دینگی ۔!!!


الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.

کیا ممکن اور مناسب بات ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی طرف ایسی بات کی نسبت دی جائے ؟اور کیا شادی سے پہلے ایسی شرمناک ملاقات کے لئے بھیجے؟
ہم بھی ان روایات کے جعلی اور جھوٹ ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان اہل سنت کے بڑے علماء مثل ذھبی ، ابن حجر سے سوال کرینگے جنھوں نے اسے بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے :
ایک بچی تو اس برے فعل کی برائی کو درک کر لے لیکن مسلمانوں کے خلیفہ اسے درک نہ کر سکے ؟ کیا ممکن ہے ؟
کیا خلیفہ رسول خدا (صلى الله عليه و آله و سلم) خود کو کہلوانے والے کے لئے یہ مناسب ہے کہ اس قبیح فعل کو انجام دے اگر اسے پسند نہیں کرتے تو کیوں ناموس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تجویز کرتے ہو اور نقل کرتے ہو ؟

ام كلثوم، عمر کو امير المؤمنين کہتی ہیں !!!
حیرت کی بات ہے کہ اس افسانہ میں جب خلیفہ دوم پوری وقاحت کے ساتھ ام کلثوم کی ساق کو برہنہ اور چہرے کو بوسہ دیتا ہے ، تو ام کلثوم اس گندے فعل کو سمجھ جاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسے مار کر اسے اندھا کردے لیکن اسی عالم میں اسے امیر المومنین کا لقب بھی دیتی ہیں !!! سوچئے ؟

سيد ناصر حسين الهندى نے كتاب إفحام الأعداء والخصوم میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے :
ومما يدل على قلة حياء هؤلاء الكذابين أنهم ينسبون إلى سيدتنا أم كلثوم ( ع ) أنها وصفت عمر بن الخطاب بأمير المؤمنين ولا يشعرون أن السيدة التي ولدت في بيت النبوة وترعرعت من جرثومة الرسالة كيف تخاطب رجلا وضع يداه على ساقها، أو كشف ساقاها، واستحق عنده أن يكسر أنفه أو يلطم عينيه بهذا الخطاب الجليل.
ولعمري أن الواضع للسياق الأول أحق بالتعسير والتنديد، حيث أورد في سياقه بعد ذكر التشوير والتهديد، أنها لما جاءت أباها أخبرته الخبر، وقال: بعثتني إلى شيخ سوء، أفيكون هذا الشيخ الذي أسوأ المجسم مستحقا للوصف بأمرة المؤمنين؟ حاشا وكلا إن هذا لاختلاق واضح والله لا يهدي كيد الخائنين.

وہ مطالب جو ان کذاب افراد کی بے حیائی پر دلالت کرتے ہیں یہ ہیں کہ وہ ام کلثوم [ع] کی طرف ، نسبت دیتے ہیں کہ انھوں نے عمر کو امیر المومنین کہا!!! لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ یہ بیت نبویصلى الله عليه وآله میں پیدا ہوئی اور تربیت پائی ہوئی ہیں کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کو جس نے پنڈلی پر ہاتھ رکھا ہو اور اسے برہنہ کیا ہو اور اس کے نزدیک اندھے ہونے کا یا ناک توڑے جانے کا مستحق ہو اور وہ اسطرح مودّبانہ طریقہ سے مخاطب کرے!!!
اللہ کی قسم پہلی روایت گھڑنے والا زیادہ عذاب کا مستحق ہے اس لئے کہ اس نے ام کلثوم کی گفتگو اور عمر کو دانٹنے کے بعد لکھا ہے کہ وہ اپنے والد پاس پلٹ آنے کے بعد تمام ماجری کو بیان کرنے کے بعد کہتی ہیں آپ نے مجھے [کس] پلید بڈھے کے پاس بھیجا تھا ۔!

آیا جس بڈھے نے ایسا گندہ فعل انجام دیا ہو وہ امیر المومنین کے لقب کا سزاوار ہے ؟

یقینا ایسا نہیں ہے اور یہ آشکار جھوٹ ہے اور اللہ خائن افراد کے مکر کو کامیاب نہیں ہونے دیتا ہے
الموسوي الهندي، السيد ناصر حسين (معاصر)، إفحام الأعداء والخصوم بتكذيب ما افتروه على سيدتنا امّ*كلثوم عليها سلام الحي القيوم، ج1، ص 169، تقديم وتحقيق وتعليق الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مكتبة نينوى الحديثة ـ طهران.

مغيره ام كلثوم، کی توہین کرے اور عمر بے جان :
اهل سنت ادّعا کرتے ہیں کہ عمر نے ام کلثوم سے شادی کی تھی اگر یہ بات صحیح تھی تو مغیرہ بن شعبہ نے عمر کے سامنے ام کلثوم کی توہین کی لیکن انکی غیرت نہ جاگی اور نہ ہی اپنی بیوی پر تہمت کا جواب نہیں دیا :
ابن خلكان نے وفيات الأعيان میں لکھا ہے :
ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.

ام جميل (یہ وہ عورت ہے کہ جس کے بارے میں تین لوگوں نے گواہی دی کہ مغیرہ نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے لیکن جب چوتھے کی گواہی کی نوبت آئی تو وہ عمر کی کوششوں سے خاموش رہا اور مغیرہ سے حد زنا ٹل گئی ]یہ عمر کے ساتھ ایام حج میں مکہ میں تھی اور مغیرہ بھی موجود تھا عمر نے مغیرہ سے سوال کیا : کیا اسے جانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے!
عمر نے کہا کیوں انجانے بنتے ہو اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے خلاف جھوٹ بولا ہو [اور تمہارے خلاف جھوٹی شہادت زنا دی ہو] میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !

إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.
اور ابوالفرج اصفهانى نے لکھا :
حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بن شعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل علي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء

ام جميل جس کے ساتھ زنا پر مغیرہ کو متھم کیا گیاتھا اور جو کوفہ میں مغیرہ کے پاس اپنے کام کے لئے جاتی تھی یہ عمر اور مغیرہ ساتھ مکہ میں تھی عمر نے سوال کیا اسے جانتے ہو؟ مغیرہ نے کہا ہاں جانتا ہوں یہ ام کلثوم بنت علی [ع]ہے عمر نے اس سے کہا میرے سامنے انجانے بنتے ہو؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا ہے کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا ہو میں جب بھی تمہیں دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں آسمان سے میرے سر پر عذاب کی صورت میں پتھر نازل ہوجائے !
الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر - لبنان.

مغيره کا امّ*جميل، سے زنا مشهور و معروف تھا اسی طرح امّ*جميل زانیہ ہونے میں خاص وعام میں جانی جاتی تھی اور مغیرہ ملعون ایسی زنا کار سے مقائسہ کرتا ہے اور خلیفہ دوم اسے سزا بھی نہیں دیتے ؟ اگر انکی بیوی ہوتی تو انکی غیرت اس توہین کے خلاف جاگ جاتی اب یا انکی بیوی نہیں تھی یا انکی غیرت مر چکی تھی