Friday, March 6, 2015

نظام ملت

سم الله الرحمن الرحيم . نظام ملت......... عموما يه تصور كيا جاتا ہے کہ عورت کی پیروی اور اطاعت نہیں کی جا سکتی .اس پر دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر عورت کی اطاعت کی جا سکتی تو عورتیں بھی نبی یا امام ہوتیں .ہمارے نزدیک عورت کے نبی نہ ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے . ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام میں سے صرف چھبیس انبیا کے نام سے لوگ واقف ہیں .اس لیے اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی کہ انبیاء میں کوئی خاتوں بھی تھی یا نہیں. دوسرا یہ کہ نبوت اور امامت ایسا عہدہ ہے الله جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے .اس بنا پر مرد ہونا انبیا اور آئمہ کے ہم پلہ ہونے کی دلیل نہیں ہے . تیسری بات اہم ہے کہ کسی کا عورت ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کی اطاعت نہیں کی جا سکتی یہاں عورت کی اطاعت اور پیروی کی کیے جانے کی چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں ... ١..خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ سیدہ حاجرہ کی سعی کو ہمیشہ کے کے حج کا رکن بنا دیا گیا ہے .ہر حج کرنے والے کو آپ کی پیروی کرنی پڑھتی ہے . ٢ ... قران مجید میں زوجہ فرعون کی مثال بیان کرتے ہوے ارشاد فرمایا ہے (اور الله نے اہل ایمان کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی ہے .جب اس نے دعا کی .پروردگارا جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دلا اور مجہے ظالم قوم سے نجات عطا فرما ..) سورہ تحریم آیت ١١ اس آیہ کریمہ سے درج ذیل اہم نکات ملتے ہیں . ١ ...بی بی آسیہ جنت میں گھر مانگ رہی ہیں لیکن الله کے پاس یعنی اگر قرب الہی حاصل نہ ہو تو جنت بھی گوارا نہیں . ٢ ..صرف فرعون سے نہیں بلکہ اس کے عمل سے نجات کی دعا مانگ رہی ہیں .یعنی ظالم سے ہی نہیں بلکہ ظلم سے نفرت کا درس دے رہی ہیں . ٣ ...ظالم قوم سے نجات عطا فرما .ایسی قوم کا حصہ نہ بنا جو ظالم ہو . کیا کوئی مفسر یا عالم یہ کہ سکتا ہے کہ یہ آیت قابل عمل اور قابل اطاعت نہیں ہے .. دوسری مثال قران مجید میں سیدہ مریم بنت عمران کی بیان کی گئی ہے .ارشاد ہوا ہے .. (اور مریم بنت عمران کو (الله مثال کے طورپر پیش کرتا ہے ) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمان بر داروں میں سے تھی ) سورہ تحریم آیت ١٢ ان دو مثالوں کے علاوہ بھی بہت سی آیات و روایات اس موضوع پر موجود ہیں اور علماء و فقہا نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے .اختصار کے پیش نظر ایک اور استدلالی نکتہ بیان کرتے ہویے بحث کو آگے بڑھاتے ہیں .سورہ مبارکہ فاتحہ کی یہ خوبصورت دعا ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم .. ( اے الله ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت و رہنمائی فرما .ان لوگوں کی راہ کی طرف جن پر تو انعام کیا ہے ) یہ آیات کریمہ بتاتی ہیں کہ ایسے لوگ جن پر الله نے انعام کیا ہے ان کی اطاعت و پیروی لازم ہے .اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے .قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر الله نے انعام فرمایا ہے . ارشاد رب العزت ہے . ( اور جو الله اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان انبیا صدیقین شہدا اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر الله نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں ) النساء آیت ٦٩ اس آیت مبارکہ میں چار گروہوں کا ذکر ہوا ہے جن پر الله نے انعام کیا ہے .انبیا ،صدیقین ،شہداء اور صالحین ،اس بحث سے صرف نظر کرتے ہوے کہ خواتین انبیا تھیں یا نہیں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ صدیقین ،شہداء اور صالحین کے گروہ خواتین سے خالی نہیں ہیں .اگر تاریخ انسانی کی ان نابغہ روزگار خواتین کی فہرست تیار کی جائے جن کا شمار صدیقین ، شہداء اور صالحین میں ہوتا ہے تو اس فہرست میں سب سے اوپر مجسمہ عصمت و طہارت سیدہ فاطمہ الزہرا عسلام الله علیھا کا اسم مبارک آتا ہے .اب تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیدہ زہرا سلام الله علیھا کی اطاعت و پیروی بھی باقی تیرہ معصومین علیھم السلام کی مثل واجب ہے . سیدہ فاطمہ الزہرا سلام الله علیھا کا ارشاد گرامی ہے . ..طاعتنا نظام للملت ..ہماری اطاعت ملت کے لیے نظام ہے .. اطاعت کا مطلب ... طاع یطوع کے لغوی معنی فرمانبرداری اور تابعداری کے ہیں .رضا و رغبت سے کام کرنے کو عمله طوعأ کہتے ہیں .اصطلاحا بھی اطاعت کے یہی معنی لیے جاتے ہیں .اطاعت کی خوبی یہ ہے کہ یہ زبانی اور نظری طورپر نہیں ہو سکتی اس کا تعلق عمل سے ہے .امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں (جس کا دل الله کے لیے متوا ضع ہو گا اس کا جسم الله کی اطاعت میں سستی نہیں کرے گا ) تجلیات حکمت .. چونکہ ہمارا موضوع نظام ملت ہے لہذا اسی تناظر میں بحث کو آگے بڑھاتے ہیں .امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک اور فرمان پیش ہے ..الله نے امامت کو امت کے لیے نظام اور اطاعت کو امامت کی تعظیم کے لیے واجب قرار دیا ہے . تجلیات حکمت ان فرامین کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ اطاعت کیسے کی جائے .اور بالخصوص سیدہ کونین سلام الله علیھا کی سیرت کی تاسی کے تقاضے کیا ہیں . سیدہ فاطمہ الزہرا سلام الله علیھا نے ابتدا حیات سے لے کر شہادت تک انتھائی نا مساعد حالات اور گوناگوں مشکلات کا سامنا کیا .شیر خوارگی کا زمانہ پورا بھی گزرا تھا کہ شعب ابو طالب کے ازیت ناک مصائب برداشت کرنے پڑھے پانچ برس کی عمر میں شعب ابو طالب سے باہر آئیں تو ماں داغ مفارقت دے گیں .یہ وہ زمانہ تھا جب مشرکین مکہ پیغمبر اسلام کو سخت اذیتیں دیتے تھے . ایک پانچ سال کی بچی جو ماں کے سایہ سے محروم ہو ایسے حالات میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے جب کہ اس کا باپ مصائب میں گرفتار ہو .لیکن ان مشکل ترین حالات میں سیدہ زہرا س اپنے بابا پر بوجھ نہ بنیں .بلکہ دشمن کے ہاتھوں ستاہے ہویے باپ کے لیے سہارا بن گئیں.رسالت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے پیغمبر اسلام ہمہ وقت مصروف رہتے تو دوسری طرف دشمنان اسلام آپ کو ایذا رسانیوں میں مصروف رہتے .ان حالات میں سیدہ س آپ کو اس طرح سہارا دیا اور ایسا محبت آمیز سلوک کیا کہ آپ س نے سیدہ س کو ،ام ابیھا ،کا لقب عطا فرمایا . سیدہ زہراءس کے کردار کی روشنی میں یہ طے پاتا ہے کہ پیغمبر اسلام س کی اطاعت میں فقط ظاہری عبادی رسوم کافی نہیں ہیں بلکہ کار رسالت میں رسول کریم س کی مدد و نصرت بھی واجب ہے .اگرچہ مورخین نے سیدہ س کو ایک مثالی گھریلو خاتوں کے طورپر پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیدہ زہرا س کا کردار رسالت و امامت کی معاون و محافظ کا تھا ، بلا شبہ سیدہ زہرا س کی گھریلو زندگی بے مثل و بے نظیر ہے .آپ نے عسرت و تنگدستی میں اعلی صبر کا مظاہرہ کیا انتہائی محنت و مشقت برداشت کی .اور سب سے بڑھ کے ایسی اولاد کی تربیت کی جس کی مثال رہتی دنیا تک نہ لائی جا سکے گی . رسول اکرم ص کی رحلت کے بعد امت نے امامت سے انحراف کیا اور امام وقت کو تنہا چھوڑ دیا .اس وقت سیدہ س کے سوا نہ کوئی امامت کا دفاع کرنے والا تھا اور نہ ہی کوئی حامی و ناصر .سیدہ فاطمہ س نے امیرالمومنین ع کا دفاع زبانی کلامی نہیں کیا بلکہ عملی طورپر ظالمین کے راستے میں دیوار بن گئیں.آپ پر تازیانے برسایے گئے .دروازہ آپ کے اوپر گرا کر شدید زخمی کی گئیں.اسی حالت میں شہادت سے ہمکنار ہوئیں .اس کے با وجود امام وقت پر آنچ نہ آنے دی . یہاں امت مسلمہ سے بالعموم اور ملت امامیہ سے بالخصوص یہ سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تنہا سیدہ زہرا س امام وقت کا دفاع کر سکتی ہیں اور ہم سب مل کر امام عصر کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتے ؟؟؟؟؟/// اگر امت نے امام کا ساتھ دیا ہوتا تو آج صورت حال موجودہ حالات سے مختلف ہوتی اور انسانیت کمال سے ہمکنار ہوتی ...سیدہ زہرا س کی سیرت طیبہ میں دو نکات انتہائی اہم ہیں ١ .....دفاع و نصرت رسالت ٢ ....دفاع و نصرت امامت رسالت کا مقصد روز اول سے ہی دشمنوں کی زد میں تھا .دشمنان اسلام نے تمام حربے استعمال کیے اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح اسلام کی تبلیغ و ترویج کو روکا جائے ،اس تمام تر صورتحال میں نبی کریم ص نے اپنی لخت جگر کو اپنا مددگار پایا .رسالت کے بعد اسلامی ریاست کی مدارت و امارت امام کے سپرد ہوئی تو پھر سے دشمنان اسلام کا گروہ متحرک ہو گیا .ایک بار پھر امام وقت نے سیدہ زہرا س کو اپنا مددگار پایا .سیرت زہرا س میں اتباع و اطاعت الہی کا کامل ترین نمونہ موجود ہے .سیدہ س کا کردار امت سے نصرت و اتباع امامت کا تقاضہ کرتا ہے . اسلام کی تمام تر تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو . امت مسلمہ کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں عدل امام مہدی عج کے ظہور پر نور سے ہی قائم ہو گا .تشیع کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ امامت نکتہ کمال اور تکامل بشریت کے عقیدے میں دوسری اقوام کی نسبت واضح اور کامل ایمان رکھتے ہیں .آخری امام کے ظہور کے مسلسل منتظر ہیں اور اپنی دعاؤں میں تعجیل ظہور امام کو نہیں بھولتے .ایسی قوم جس کی ساری امیدیں امام مہدی عج کے ظہور سے وابستہ ہیں اس کی ذمہ داریاں دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں . سیدہ زہرا س کی ولادت و شہادت پر عظیم اجتماعات منعقد کرنے والوں ،سیدہ س کے نام کی تسبیح پڑھنے والوں ،سیدہ س کے وسیلے سے دعائیں مانگنے والوں اور سیدہ س کے دشمنوں پر تبرا کرنے والوں نے کبھی سوچا ؟کہ آج تک امامت معطل کیوں ہے ..؟؟/تمام تر محبت کے دعووں اور دعاؤں کے با وجود ظہور امام میں تا خیر کیوں ہے ؟ان تمام مسائل سے نجات جو دنیا کو در پیش ہیں اسی صورت میں نجات میں ممکن ہے جب سیدہ کی سیرت کا اتباع کرتے ہویے ملت دفاع و نصرت امامت کے لیے تیار ہو جائے .. یہ تیاری ظاہری امور اور زبانی دعوؤں کی بنا پر نہیں بلکہ خلوص ]پر مبنی ہونی چاہیے .اسی طرح جس طرح سیدہ زہرا س نے اپنی پوری قوت کے ساتھ امامت کا دفاع کیا .اپ نے نصرت امام میں تازیانے کھایے اور جام شہادت نوش کیا .اسلام کی عظیم ناصرہ اور رسالت و امامت کو پروان چڑھانے والی بے مثل خاتون کو چکی اور چولہے تک محدود کر دینا نا قابل معافی جرم ہے .اور خاتوں جنت پر بہت بڑا ظلم ہے .آخر میں سیدہ س کے خطبہ سے اقتباس پیش ہے .. {لوگو .تم الله تعالی کے امر و نہی کے نمایندے اور نبوت کے دین اورعلوم کے حامل ہو .تمھیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیے ،تم ہو جن کو باقی اقوام تک تبلیغ کرنی ہے . تم میں پیغمبر ص کا جانشین موجود ہے .الله تعالیٰ نے تم سے پہلے ہی عہد
  • سیدہ زہرا س کی روح مقدس آج بھی بیقرار ہے اور صدا دے رہی ہے کہاں ہیں امامت کے مدد گار ،کہاں ہیں انصاراں مہدی ؟؟....
و پیمان لے رکھا ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو گے ،وہ خدا کی کتاب ناطق، قران صادق اور درخشاں نور ہے . اس کی چشم بصیرت روشن اور اس کا باطن اور ظاہر واضح ہے . اس کے پیروکار اس کے مقام و رتبے کے آرزو مند ہیں .اس کی پیروی انسان کو بہشت رضوان کی پیروی کرتی ہے .اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہے .اس کے وجود کی برکت سے الله تعالیٰ کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جا سکتا ہے ،اس کے وسیلے سے تفسیر شدہ واجبات ،ممنوعہ محرمات اور روشن دلیلیں ،کافی براہین مستحبات و مباحات اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جا سکتا ہے .}

0 comments:

Post a Comment