Friday, March 6, 2015

بھوک تیہذیب کے آداب بھلا دیتی ھے



ملک کو اس وقت بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ، لیکن افسوس کے اور تو اور ملک کے باشعور انسان بھی صرف ان مسائل کو حل کرنے اور ختم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے حالانکہ باشعور انسان کو اس بات کا بخوبی علم ہو نا چاہیے کہ مسائل ہمیشہ جڑ سے ختم ہوتے ہیں مثلا اگر کوئی انسان ایک درخت کو اوپر سے کاٹ کر پھینک دیتا ہے تو کچھ عرصے کے بعد دوبارہ درخت نشو و نما پانا شروع ہو جاتا ہے وہی انسان اگر اس درخت کو جڑ سے کاٹ کر پھینک دے تو اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ درخت وہاں پر نہیں اگے گا ۔

اس ملک کے مقتدر طبقے نے باطل سیاسی نظام قائم کر رکھا ہے جسکی وجہ سے عوام کو آئے دن نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے معزز قارئین مزید تفصیل میں جانے سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ملک میں اس وقت کونسا نظام چل رہا ہے تو قارئین کرام ملک میں اس وقت نظام ظلم چل رہا ہے نظام ظلم کو سرمایہ دارانہ نظام بھی کہا جاتا ہے انگریزی میں اس کیلئے Caplialismکا لفظ استعمال ہوا ہے نظام ظلم نا انصافی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور اس نا انصافی کی وجہ سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے دولت کا 95 فیصد حصہ امیروں کے پاس چلا جاتا ہے اورباقی پانچ فیصد حصہ غریبوں کے پاس رہ جاتا ہے دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ملک میں غربت جنم لے رہی ہے غریب لوگ امیروں پر انحصار کر نے لگتے ہیں کیونکہ ہر انسان کو اپنی مادی اور روحانی ضروریات پور ی کرنے کیلئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے جب انسان کی یہ بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی تو وہ احساس کمتری کا شکارہو جاتا ہے بھوک اس کو ستانے لگتی ہے اس کی سوچ معدوم ہو جاتی ہے اور وہ جہالت کے سیاہ اندھیروں میں بھٹکنا شروع کردیتا ہے ادھر سے ہی بھوک انسان کو تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے پھر انسان اپنا پیٹ پالنے اور اپنے بچوں کی پرورش کیلئے ڈاکے بھی ڈالتا ہے رشوت بھی لیتا ہے ، چوری بھی کرتا ہے ، آج ہم لوگ چور کو اس کی چوری کی سزا دینے پر تو تلے ہوئے ہیں لیکن ہم غفلت میں ڈوبے ہوئے لوگ یہ بات نہیں سوچتے کہ آخر اس انسان کو ایسی کونسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے اس نے چوری کی ہے آج اگر کوئی چوری پکڑا جائے تو اس سے پوچھا جائے کہ تم نے چوری کیوں کی ، تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ ’’ میری مجبوری تھی ‘‘ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے اندر تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کو پوری کرے اور عوام کی اخلاقی تربیت کرے لیکن افسوس کہ آج اس معاشرے میں انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے اور جس معاشرے میں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی وہاں عزت کی بولی سب سے اونچی لگتی ہے ، جس معاشرے میں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی وہاں بنت حواء طبلے کی تھاپ تر ناچتی ہے اور جس معاشرے میں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں وتی وہاں پر بھوک تہذیب کے آداب کو بھلا دیتی ہے۔

اس ملک میں ہوس کے پجاری سیاہ راتوں میں سفیدجسموں کا جیون سیاہ کرتے ہیں یہاں پر ناچتے پیروں کی تھاپ بکتی ہے یہاں پر جگاتی آنکھوں کے خواب دکھتے ہیں یہاں پر حسن نہیں شباب بکتا ہے بھوک دو وقت کی روٹی کے عوض بنت حواء کو ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے پر مجبور کردیتی ہے آج بھوک اور ڈر کی ہی وجہ سے ہوٹلوں میں حواء کی بیٹی اپنی عزت نیلام کررہی ہے لیکن ان چیزوں سے مقتدر طبقے کا کیا تعلق ؟ ان کو کیا پتہ کہ بھوک کس چیز کا نام ہے وہ لوگ تو ائیر کنڈیشنز کمروں ، منرل واٹر پی پی کر صرف منصوبوں پر غور ہی کرتے رہتے ہیں ان کو پابہ تکمیل تک نہیں پہنچاتے 

بھوک کی وجہ سے جب انسان جہالت کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے تو وہ خالق حقیقی کو پہنچان نہیں پاتا ، کیونکہ علم ہی کی وجہ سے انسان اپنے خالق حقیقی کو پہچان پاتا ہے جب غریب انسان کے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں ، وہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے تو وہ کیا تعلیم حاصل کرے گا وہ اپنے بچوں کو کیا تعلیم دلوائے گا اس کے بچے بھی احساس کمتر ی کا شکارہو ں گ اور پیدا ہوتے ہی مصائب کاشکار ہو جائیں گے حدیث شریف میں بھی آیا کہ بھوک انسان کو کفر تک لے جاتی ہے انسان روٹی حاصل کرنے کیلئے اپنا مذہب تک تبدیل کر دیتا ہے ، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے 

قارئین محترم :۔ اس سے پہلے کہ بھوک اس ملک کو کھا جائے اور اس سے پہلے کہ لہجے بے آواز ہو جائیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں نظام ظلم کو ختم کرکے نظام عدل کو قائم کرنا ہے نظامِ عدل کیونکہ انصاف کی بنیاد پر قائم ہو تا ہے جب دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی تو ملک میں خوشحالی آئے گی اور کوئی شخص بھوکا نہیں رہے گا اس لئے ہمیں چاہیے کہ باشعور لوگوں کو ایک ٹیم بنانی ہوگی جو نظام ظلم کا انکار کرے اور نظام عدل کو قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرے کیونکہ نظام ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان انسان پر فرض ہے جب نظامِ عدل قائم ہوگا تو ہر طرف خوشحالی ہوگی اور اس جناح کا پاکستان جس نے ہندوستان کا سینہ چیر کر اس ملک کو نکالا ہے ’’امن کا گہوارہ بن جائے گا ‘‘ ۔

0 comments:

Post a Comment