Thursday, April 9, 2015

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

جنابِ صدر!سہارے زندگی ہیں کیونکہ دیوار کیلئے در سہارا۔۔۔۔۔در کیلئے گھر سہارا گھر کیلئے سر سہارا۔۔۔۔ سر کیلئے دھڑ سہارا بلکہ میں تو کہتی ہو ں کہ ۔۔۔زندگی سہاروں سے جنم لیتی ہے۔۔۔تخلیقِ آدم کی کہانی نغمہءِ الست کے سہارے کی محتاج ہوئی۔ پیدائش نوع انسانی ماں اور مامتا کے توسط سے جنم لیتی ہے۔پھول اور پھل ثمر ہیں اس درخت کے وجود کا جس کے سہارے یہ تتلیوں اور خوشبوں کو مسحور کرتے ہیں۔پرندے پروں کے سہارے۔۔۔۔سنگ و خشت دروں کے سہارے۔۔۔۔گھر گھروں کے سہارے۔۔۔دل دلبروں کے سہارے۔۔۔رنگ رنگت کے سہارے۔۔خوشبو پھول کے سہارے۔۔۔اور زندگی خدا کے سہارے
جنابِ والا!
سہارا استعارہ ہے پیار اور محبت کا، کہ جب باپ بوڑھا ہو جائے تو جوان اولاد سہارا کہلایا کرتی ہے۔سہارا نام ہے بھائی چارے اور اخوت کا، کہ تمام مسلمان ملک اسلامی سربراہی کانفرنس کی لڑی میں پرو ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بنا کر تے ہیں۔سہارا نام ہے اس حوصلے کا ، اندلس کے ساحلوں پر کھڑے طارق کی فوجوں کو وہ تقویت سونپ دیتی ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دیتے ہیں۔سہارا نام ہے اس سعی کا جو سندھ کے ڈاکوؤں کے مقابلے میں بن قاسم کو حجاز سے بر صغیر کھینچ لاتی ہے۔سہارا نام ہے اس تسلسل کا کہ جس کے سہارے محمود غزنوی ہند وستان پر 17حملے کرتا ہے۔سہارا نام ہے اس فضائے بدر کا کہ جب 313ہزاروں کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں۔سہارا نام ہے اس صبر کا ۔۔۔کہ جب پر وانے کیلئے، چراغ اور بلبل کیلئے پھول بس اور صدیق کیلئے اللہ کا رسولؐ بس ہو،۔۔۔ حضورؐ پوچھیں کہ صدیق گھر میں کیا چھوڑ آ ئے ہو تو صدیق کہیں اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نام۔سہارا نام ہے اس اعتماد کا جب حضرت موسیٰ کی والدہ ان کو نیل میں بہا دیں اور موسیٰ فر عون کے محل میں پرورش پائیں۔سہارا نام ہے اس غیبی مدد کا جو شداد کو بحری بیڑے کی تباہی کے بعد بچ کر جزیروں میں پرورش پا ئے اور با لآ خر ایک ملک کا بادشاہ بن جا ئے۔
ارے سہارا تو وہ سہارا جو ابراہیم کے آگ میں گر نے سے پہلے اس کو گلزار کر دے۔ارے سہارا تو وہ سہارا جو یوسف کے چاہ میں گر نے سے پہلے جبرائیل کے پروں کی صورت نمودار ہو ا کر تا۔ارے سہارا تو وہ سہارا ،جو صلیب پر سے عیسیٰ کو زندہ سلامت اٹھا لیا کرتا۔ارے سہارا تووہ سہاراہے، کہ میرا رسولؐ صدیقؓ سے کہے، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے ،جوحضرت علی کو ہجرت کی رات آنحضورؐ کے بستر پر سلا تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہاراہے جو ابر ہہ کے ہاتھیوں کو پرندے کے ہاتھوں موت بھیجتا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے،جو ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ لشکر پر بابر کے 10ہزار کو فتح دیا کرتا ہے۔ارے سہاراتو وہ سہارا ہے جو در یا ئے نیل میں راستے بنا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا
جو عصا ے موسیٰ بن کر سا نپوں کو نگل جا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے، کہ شہادت کی آرزولیکر میرے جوانوں کو ٹینکوں کی باڑوں کے آگے لٹا دیتا ہے۔ارے حسبی اللہ کی قسم سہارا تو وہ سہارا ہے کہ نبی مکرم کہیں،اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دو تو بھی اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔
ارے تم کہتے ہو سہارے۔۔۔ استقامت چھینتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ زندگی تو چلتی ہی سہاروں کے ذریعے ہے۔
جنابِ صدر! آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز دوسری چیز کے دم سے ہے۔ ہم اگر سفر کر رہے ہیں تو اس جگہ کے مقابلے میں جو ساکن کھڑی ہے۔اور مسلمانوں کو جب عضوِ واحد کہا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جاتا کہ ہر عضو دوسرے عضو کو سہارا دیتا ہے۔ جب دل کی بات ہو تی ہے تو لہو ’’دماغ‘‘ کے حکم سے جگہ جگہ پہنچتا ہے۔جب زندگی کی بات چلتی ہے تو غدائی چکرسے لیکر فضائی چکر تک ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔جی ہاں یہی سہارے ہیں جو زندگی دیتے ہیں۔ جو زندگی دیتے ہیں، خوشیاں با نٹتے ہیں، اور حوصلہ سوپنتے ہیں ۔۔۔کہ طے کر لیا سمندر اللہ کے سہارے۔

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل ث)
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے۔ ہو گا تو وہی جو میری چاہت ہے۔ اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دو ں گا تجھ کو جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں وہ جو تیری چاہت ہے۔ اور پھر وہی ہوگا جو میری چاہت ہے۔ 
جنابِ صدر! میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں ۔ تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے ۔۔۔کہ ہر تدبیر، تدبر کے زعم میں حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔ قسمت کی بساط پر تقدیر کے پیادے تدبر و تدبیر کے شاہوں کو شہ مات کرتے آئے ہیں۔ تدبیر تو تقدیر کے منہ میں پانی کا آخری گھونٹ ہے۔ جب شہر کا ہر شہری آگ کے انگارے دینے سے منکر ہو، اور سورج سوا نیزے پر آکر شا ہ شمس کے لئے گو شت کا ٹکڑاپکا جائے، تو تدبیریں ہار جا یا کر تی ہیں۔ جب شداد اپنی رعنائیوں کے ساتھ حور و بہشت کے تصور کو لے کر ایک ارضی جنت تخلیق کرے اور اس کے دروازے میں ہی ڈھیر ہو جائے تو تدبیریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔جب نو ح ؑ کی بستی والے کشتی کو گندہ کر نے کی تدبیر کرتے ہیں، تو ان کی تدبیروں کو اپنے منہ اسی غلا ظت سے دھونے پڑتے ہیں۔ اور جب برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو چاہ میں پھینکا کرتے ہیں، تو جبرائیلؑ کے پر کی ضرب سے سبھی تدبیریں دو نیم ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی ہٹلر ،دنیا فتح کرنے کا گھمنڈ لے کر میدان میں اتر تا ہے ،تو اس کی ساری تدبیریں نا ر منڈی کی بندر گاہ پر منجمند ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی خر ناٹ سپیرا اپنی رسیوں کو تدبیرِ جادو گری سے سانپوں میں ڈھال دے، تو حکم خدا وندی سے عصائے موسیٰؑ ان سبھی تدبیروں کو نگل جاتا ہے۔ ارے تدبیر کے پجاریو، آنکھیں کھولو! فر عون کی لاش پکار پکار کے کہتی ہے۔۔۔ تدبیرکے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے۔
ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب 313نے 1000کو مار بھگا یا تھا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب سپر پاور امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر لمحوں میں خاک کر دئے گئے۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،کہ تورہ بورہ کی پہاڑیا ں توزمین بوس ہو گئیں ،مگر بن لادن کا پتہ نہ چلا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں، جب سکیورٹی کے باوجود مجاہدوں نے بھارتی پار لیمنٹ پر حملہ کیا تھا۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج تو:
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھر تے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج بھی روز مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ:
ماں کو تلاش رزق نے رستہ بھلا دیا
بچی ٹھٹھر کے رات کے سائے میں مر گئی
ارے کہاں ہیں تدبیریں، کہ آج بھی جتوئی سے صدا آتی ہے کہ اس دیس میں تدبیریں مر چکی ہیں۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ روز دس بچے بسوں تلے کچلے جاتے ہیں۔ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

آدم نے بہشت کے میوے کھا کر غلطی کی ، اس غلطی کے نتیجے میں اسے جنت بدر کر دیا گیا۔زمین پر آکر مسائل نے جنم لیا یہ مسائل الجھتے گئے تو تنازعات بن گئے۔ قابیل نے ہا بیل کو قتل کیا تو دنیا میں جنگ کی آہ وفغاں شروع ہو گئی۔ کہیں گھوڑا آگے بڑ ھانے پر 40نسلیں تباہ ہو ئیں تو کہیں پانی پلانے پر تنازعہءِ لا حاصل نے جنم لیا۔ فر عون خدائی دعوے کے ساتھ اپنے جنگی جرائم کو جنم دیتا رہا اور تنازعات در تنازعات بنتے گئے ۔مسائل کے ریشم زلف یار کی طرح الجھتے گئے۔ جنگ نسل در نسل وراثت کا حصہ بنتی گئی۔ غریب کی کٹیا کا تیل لٹتا رہا۔ کئی جوانوں کی جوانیوں کے گلا ب مر جھا گئے۔ سہاگ لٹتے رہے۔ عصمت گری کا بازار گرم رہا۔ اور پھر فاران کی چوٹیوں سے اک نور ہویدا ہوا۔ جس نے خاندانی دشمنیوں کو، نفرتوں کے جلتے الاؤ کو، مذاکرات کی سیج پر بیٹھ کر صلح حدیبیہ کی گتھی میں اس طرح سلجھا یا کہ تاریخ کو خود پر رشک آنے لگا۔
جنابِ صدر ! اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں ، قتل کا بدلہ قتل، چوری کا بدلہ ہاتھ کاٹنا۔ کسی نے آنکھ پھوڑی تو آنکھ پھوڑ دو۔ پتھر کا جواب پتھر سے دینا ممنو عات تو نہیں ہیں مگر میرے نبی ؐ کا اسوہ بھی نہیں ہیں۔ آخری خطبہ کے موتع پر فر ماتے ہیں۔کہ تمہارے لئے دوسرے مومن کے مال و جان کو حرام قرار دیتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل جو زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔ آج اس کو ختم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے چچا زاد ابنِ ربیعہ کا خون معاف کر تا ہوں۔
جناب والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مذہب تو امن لیکر آیا ہے۔ یہ تو صلح کا پیغام لا یا ہے۔ اجڑے دلوں کو ملانے آیا ہے ۔یہ کائنات کیلئے وجہِ رحمت ہے اگر کوئی قتل کرے تو صلہ قتل ہی ہے مگر عظیم وہی کہلاتا ہے جو مذاکرات کی میزپر دشمن کیلئے معافی کا اعلان کرے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے کہ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ حلف الفضول کے نام سے عہدِ نبویؐ میں ہی لکھا گیا ۔ 
آج اقوام عالم کے مسائل کا جائزہ لیجئے ۔ سرحدوں کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، آزادیءِ نسواں کا مسئلہ، وسائل کا مسئلہ، قبائل کا مسئلہ، دین و لادینیت کا مسئلہ، نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اسلحے کے سوداگر، رات کے اندھیروں میں ہینڈ گر نیڈ اور بم بیچنے والے ہر مسئلے کو جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے آج
؂کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دھول کی چادر
اڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہومیں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
کیا یہ پھر ہلاکو خاں کی طرح کھو پڑیوں کے مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ کیا پھر بغداد کی وادیاں لہو رنگ ہو نے کو ہیں۔ کیا یہ پھر ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تاریخ رقم کر نا چاہتے ہیں ۔کیا پھر ورلڈ وار آرڈر کی آڑ میں 35لاکھ معصوموں کا خون ہونے کو ہے۔ کیا کسووو میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے ان عقل کے اندھوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کیا یہ جنگ سے مسائل حل کرنے والے عراق کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی روس کی طرح ٹو ٹ کر بکھر نا چاہتے ہیں۔
ان نا سمجھی کی تفسیروں سے میں یہی کہوں گا کہ یہ آخر کیوں بستیوں کو اجاڑ نے پر تلے ہو ئے ہیں۔ معصوموں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کب تک یہ لوگ بہنوں کی ردا ؤں کو نو چتے رہیں گے، کب تک عزتوں کو نیلام کر تے رہیں گے۔کب تک راقمِ تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے۔ الجنت تحت ظلال السیوف کے نعرے لگانے والے فتح مبین کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ فتح خیبر کے موقع پر آنحضور ؐ علیؓ سے فر ماتے ہیں اگر کوئی ایک شخص بھی بات چیت سے اسلام لے آئے تو سو سرخ او نٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر ہے۔ 
؂یہ کون لوگ ہیں نوکیلے ناخنوں والے
جو بے گنا ہ لہو کا خراج لیتے ہیں
سنوارتے ہیں جو بارود کے دھویں سے نقوش
درند گی کی ہوس میں اجاڑ دیتے ہیں
ضعیف ماؤں کے آنسو ، ہر ایک موڑ پہ آج
امیر شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں۔
جناب والا! جب 40برسوں کی لڑائیاں سمٹتی ہیں تو با ت چیت سے۔ جب کبھی جنوبی کوریا اور شمالی کوریا ملے ہیں تو بات چیت سے۔ جب کبھی یونان متحد ہوا تو مذاکرات کی میز پر۔ جب کبھی دلوں میں کینے مٹے تو بات چیت سے ، جب کبھی محبتیں بڑھیں تو بات چیت سے، جب کبھی پھول مسکرائے تو بات چیت سے، جب کبھی پاکستان بنا تو جنگ سے نہیں بات چیت سے اور جب کبھی تنازعات کی دیوار برلن گری تو بات چیت سے۔جزائر آسڑیلیا کے مسائل حل ہوتے ہیں تو بات چیت سے،کفار اور مسلمانوں میں کوئی معاہدہ ہوا تو بات چیت کے ذریعے۔
؂اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد 
جنابِ والا! سر درد کے دو حل، دو گولی ڈسپرین یا دو گولی 12بور۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں آرام دونوں گولیوں سے آ جاتا ہے۔ آپ کیسا علاج چاہتے ہیں۔ دو گو لی ڈسپرین کا یا دو گولی بارہ بور۔

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)




آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
جی ہاں صاحبِ صدر! آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔۔۔۔، کیونکہ میرا اور اقبال کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مانا کہ مصائب کڑے ہیں ،مانا کہ اسباب تھوڑے ہیں۔ مانا کہ آج دھرتی ماں مقروض ٹھہری۔ ارے مانا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہاں چھا گئے۔ ارے ما نا کہ ترقی کی رفتار کم ہے ۔ ارے ما نا کہ یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی۔ ارے مانا کہ یہاں بم بھی پھٹتے ہیں ۔ ارے مانا کہ شمشیر و سناں آخر ہو گئی اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے ۔ ارے سب مانا۔ لیکن میرے غازی علم دین نے ایسے ہی حالات میں جنم لیا تھا۔ میرا جناح پونجا پھولوں کی سیج سے نہیں اگا تھا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے آسائشوں کے پالے ہوئے نہیں تھے۔ 
صاحبِ صدر!
گوہر اور جوہر حالات کی بھٹی میں جل کر کند ن ہوئے ۔ارے نسل تو اس وقت بھی عیاش تھی، قوم تو اس وقت بھی کمزور تھی، بھوک اور افلاس تو تب بھی تھی، لوگ تو تب بھی مرتے تھے۔ لیکن اقبال کے شاہین نے ،اس مشکل کی گھڑی میں گھروں میں روٹیاں نہیں بانٹیں ،بلکہ ایک فکری انقلاب بر پا کیا ،کہ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس ذوقِ یقیں کا، جو پیدا ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں کٹ جا یا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس سوچ کا جوآدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس تصور کا، جو نوجواں کو اتنا عظیم کرتی ہے کہ منزل خود انہیں پکار ا کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس جذبے کا ،کہ جہاں صلہءِ شہید ، تب و تابِ جا ودانہ ہوا کرتا ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس اڑان کا، جہاں عشق کی ایک جست سبھی قصے تمام کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین۔۔۔جو خاکی تو ہے ’’خاک سے پیوند نہیں رکھتا‘‘۔ جو ’’زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا‘‘ اور جو رہے ۔۔۔۔آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش ‘‘ اور۔۔۔’’ جہاں ہے جس کے لئے وہ نہیں جہاں کے لئے‘‘ اور اقبال کا شاہین تو نام ہے اس قوت کا کہ:
دونیم جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی
ارے
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الٰہی
اور
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جنابِ صدر!
مرد حالات کے تھپیڑوں سے ڈر کر چوڑیاں نہیں پہن لیتے ۔ بھوک کے ڈر سے مردار نہیں کھاتے کہ’’شاہین کاجہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔۔۔۔سر چھپانے کے ڈر سے اپنا منہ مٹی میں نہیں ٹھو نستے ۔کہ ’’شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی‘‘دوسروں کے سر سے کلاہ نہیں اتارتے کہ’’شاہین حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہو تا‘‘۔ارے اقبال کا شاہین تو وہ ہے جو جھپٹنے اور پلٹنے کا گُر جانتا ہو، جو جینے کیلئے مرنے کا ہنر جانتا ہو۔
اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اتنا بلند حوصلہ ہے کہ دشمن کی ہر گولی کا جواب ایک غوری سے دے سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اور نگزیب حفی کی صورت اہلیانِ یورپ کی 210ملین روپے کی انعامی رقم واپس کر سکتا ہے ۔ برطانیہ کی سکونت کو ٹھوکر مار سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نو جوان ’’ڈھولا کے ڈھول‘‘ سے پلٹ کر سہارا فاؤنڈیشن کی بنیاد یں رکھ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اتنا ’’مال و مال‘‘ ہو گیا ہے ،کہ صغریٰ شفیع ہسپتا ل کی بنیادیں اپنے لہو سے سینچ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان گیند بلے کو چھوڑ کر سسکتی ،بلکتی انسانیت کیلئے کوئی شوکت خانم بنا نے کی سعی رکھتا ہے اور آج میرے دیس کا نوجوان دنیا کی سب سے زیادہ ایمبو لینسوں پر مشتمل ٹرسٹ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی سے چلا سکتا ہے۔ ارے مانا! کہ ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر شہید ہونے والے پرانے ہو گئے۔ ارے مانا کہ غداروں کو مارنے کے لئے اپنے ہی طیارے زمین میں گھسا نے والے پرانے ہو گئے۔ارے سب مانا ۔۔۔۔۔۔مگر ربّ احد کی قسم:آج بھی میرے دیس کا ہرنوجوان اپنے وطن کی ناموس کے لئے اپنے لہوکی آخری بوند تک بہا سکتا ہے۔ ارے ہم سب کچھ سہی۔ ۔۔لوٹے بھی سہی، لٹیرے بھی سہی ، لیکن’’کتابِ مقدس‘‘ کی قسم جب آج بھی کوئی ہماری غیرت کو للکارتا ہے تو ایک ہی رات میں 9چوکیاں فتح ہو جایا کرتی ہیں۔ آج بھی کوئی ایک پر تھوی بنا تا ہے تو دو غوری میدان میں آتے ہیں۔ کوئی ایک دھماکہ کر تا ہے تو جواب پانچ سے ملتا ہے۔ارے ہم آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ ہماری سوچ زندہ ہے اور جس کی سوچ زندہ ہو، وہی اقبال کاشاہین ہے ،اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اقبال کا شاہین ہے۔اور میرا ایمان کہتا ہے، کہ
ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)
گلستانِ سوچ میں ایک پھول کھِلا۔ اک نئی روح نے جنم لیا ،جس نے اقبال کے شاہین کا نام پا یا۔ خودی جس کا زیور اور خوداری، جس کا پیر ہن ہو نا تھا۔ ۔۔لیکن اب وہ پیر ہن بالِ جبریل اور ضرب کلیم کے لفظوں میں ہی کہیں کھو گیا ہے۔ اک موہوم سی امید کے سہارے میں اقبال کے شاہین کے دل پہ دستک دیتا ہوں، اُس کے ضمیر کو آواز دیتا ہوں لیکن۔۔۔
جناب صدر! لاشیں کہاں بو لتی ہیں۔۔۔ مجھے ضمیر کے مقبرے سے اپنی صدا کی باز گشت سنائی دیتی ہے، کہ آج کا نوجوان، کھو یا گیا ہے جس سے جذبِ قلندرانہ ، نہ حیرتِ فارابی، نہ تب و تابِ رومی، نہ جستجو ئےِ غزالی، عقل کا ہے اندھا ،لباس کتنا عالی، کہ جس کے صوفے ہیں افرنگی، قالین ایرانی۔۔۔۔۔ ہا ئے تن آسانی ، ہائے تن آسانی، جو ساز کا ہے دیوانہ، سوز سے ہے بیگانہ، ٹو ٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ، کہاں گیا وہ اس کا اندازِ دلبرا نہ ۔ ارے
یوں ہاتھ نہیں آتا ،وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے انداز ملوکانہ
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرہءِ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ
کہ میرا نوجوان تھا کبھی افسرِ شاہانہ۔ آج گلی گلی میں دیوانہ۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔جی ہاں جناب صدر!
اقبال کا شاہین آج ناپید ہے۔کِشتِ ویراں کی نمی میں کمی نہیں آئی لیکن ابھی وہ گلِ مراد نہیں کھِلا، کہ جسے آزادی کے جوُڑے میں سجایا جاتا۔ وہ خوشحالی نہیں آئی کہ جس کا جھومر بنا کر ماتھے پہ ٹکایا جاتا، گو کہ کبھی کبھار غیرت کے تلاطم سے ابھر کر اُس نے حیدری نشان کو سینے کا ہار بھی کیا۔ آب و گِلِ ایراں تو وہی رہی، لیکن عجم کے لالہ زاروں سے کوئی رومی نہ اٹھا۔ کہ 
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے 
کہ جسے ستاروں پہ کمندیں ڈالنا تھیں ،آج آسماں نے اُسے ثر یا سے زمین پر دے مارا ہے۔تقدیر سے پہلے خودی کو بلند کرنے والا، آج فلم ، سٹیج، ڈراموں اور کلبوں میں اپنا مقام تلاش کرتا ہے۔ آسمانوں پر اپنی منزل رکھنے والا، آج بازارِ حسن کے سب سے اونچے چو بارے پہ ملتا ہے۔ جہاں اقبال کا یہ شاہیں ،تماش بینی کا لبادہ اوڑھے رقص و سرود کے مزے لینے میں مصروف نظر آتا ہے تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں 
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم ِ شاہبازی
جنابِ صدر! طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کی تفسیر لیکر آج وہ مشرقی روایات پر شر مندہ اور مغربی تہذیب پر شاداں و فرحاں ہے۔ آدابِ فر زندی کی شقوں پر کچھ یوں پورا اترا ہے کہ آدھی نسل ’’ممی ڈیڈی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ مغربی تہذیب کے آلودہ معاشرے نے اسے وہ ذوقِ یقین بخشا ہے کہ مشرقیت کی ساری زنجیریں توڑ کر آج وہ دفعہ 44کی پرواہ کئے بغیر کسی ’’بلو اور چھنو‘‘ کی آنکھوں میں ڈوب گیا ہے۔ آج نگاہِ مسلماں کُند ہو چکی ہے۔ آج بت ہیں جماعت کی آستینوں میں۔ آج رہ گئی رسمِ اذاں ،روحِ بلالی نہ رہی۔ آج تلواروں کی چھاؤں میں سجدہ کرنے والوں کی آنکھیں جلوہءِ دانشِ فرنگ سے خیرہ ہو چکی ہیں۔آج کوئی بن قاسم، کوئی طارق نہیں۔آج اقبال کا شاہین اپنے آباء کی بہادری کی داستانیں سینے سے لگائے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فر دا ہے۔ کہ
شاہیں کا جہاں ممو لے کا جہاں ہے 
ملتی جلتی ملاسے مجاہد کی اذاں ہے
ہر طرف پھیلی اس کی ہی فغاں ہے۔ لیکن میرانو جواں کہاں ہے۔۔۔ میرا نوجواں کہاں ہے۔۔۔ کہ وہ تو سگریٹ اور چرس کے دھو ئیں میں کہیں کھو گیا ہے۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے اس کا یوں گھیراؤ کیا ہے کہ صدائے
لا ا لہ دب کے رہ گئی ہے۔اورایسے حالات میں
؂ مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خوں بھی روئے تو کس خاک پہ سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہو گی