Monday, June 22, 2015

تقلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

قلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟تت



ہرمسلمان ، بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کاقرآن و سنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ” فاسئلوا ا ھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “(اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو(۱)۔

جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تو معلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے باخبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(صلی اللہ علیہ و الہ)سے آج تک اعلمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔

شیعوں کی تقلید کا سلسلہ ائمہ اثنا عشرتک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی نہج پر جاری رہا۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی، کیونکہ ان کے نزدیک نصوص قرآن وسنت ہی لائق اتباع تھیں۔لہذا انہوں نے کبھی بھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے توان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر مجتہد فقہاء کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انہوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت و ارتقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں۔ جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یا جسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو رکھنا یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔

اور مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایاںمقام پر فائز ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہاجاتا ہے۔

شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہ کی تقلید کرتے رہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انہیں جواب دیتا ہے۔

اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعت اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب وسنت کی حفاظت کی ہے اور آئمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علماء کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب(علیہ السلام)ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے(۲)۔

۱۔ سورہ نحل ، آیت ۴۳۔

۲۔ شیعہ ہی اہل سنت ہیں، ص ۱۸۷۔

اجتھاد اور تقلید



  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم 
  1. وما کان المومنون لینفردا کافة فلو لانفر من کل فرقة منھم طائفة لیفقھوا فے الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا الیھم لعلھم یحذرون 
  1. "تمام مومنوں کے لئے کوچ کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کا علم حاصل کرے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرے‘ شاید وہ اس طرح ڈرنے لگیں۔"(توبہ‘ ۱۲۲) 


  1. اجتہاد کی تعریفآج کل اجتہاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ہوا ہے‘ آج بہت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ہیں یا اپنے ذہن میں سوچتے ہیں کہ اسلام میں اجتہاد کی کیا حیثیت ہے؟ اسلام میں اس کا مآخذ کیا ہے؟ تقلید کیوں کی جاء؟ اجتہاد کے شرائط کیا ہیں؟ مجتہد کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ مقلد کے فرائض کیا ہیں؟ 
  1. اجمالی طور پر اجتہاد کا مطلب دینی مسائل میں مہارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ہونا ہے‘ لیکن ہم شیعوں کے نقطہ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ہونے کی دو صورتیں ہیں‘ جائز اور ناجائز۔ اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ 


  1. ناجائز اجتہادہمارے نقطہ نظر سے ناجائز اجتہاد کا مطلب قانون سازی ہے یعنی مجتہد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے‘ اسے اصطلاح میں "اجتہاد بالرائے" کہتے ہیں۔ شیعی نقطہ نظر سے اس قسم کا اجتہاد منع ہے‘ لیکن اہل سنت اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اہل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجتہاد‘ اجتہاد کو… جس سے مراد اجتہاد بالرائے ہے… قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ 
  1. اس اختلاف نظر کا سبب اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ کتاب و سنت کے ذریعے بننے والے قوانین محدود ہیں‘ حالانکہ واقعات و حادثات لامحدود ہیں‘ لہٰذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ہے جس کے سہارے الٰہی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وہی ہے جسے ہم "اجتہاد بالرائے" کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ انہوں نے اس سلسلے میں رسول اکرم سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ہیں‘ من جملہ یہ کہ رسول خدا جس وقت معاذ بن جبل کویمن بھیج رہے تھے‘ ان سے دریافت فرمایا کہ تم وہاں کیسے فیصلے کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت نے فرمایا‘ اگر کتاب خدا میں تمہیں اس کا حکم نہ مل سکا؟ معاذ نے عرض کیا‘ رسول خدا کی سنت سے استفادہ کروں گا۔ حضرت نے فرمایا‘ اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ اجتہد رائی یعنی اپنی فکر‘ اپنی رائے‘ اپنے ذوق اور اپنے سلیقے سے کام لوں گا۔ کچھ اور حدیثیں بھی اس سلسلے میں ان لوگوں نے نقل کی ہیں۔ 
  1. "اجتہاد بالرائے" کیا ہے؟ اور کس طرح انجام پانا چاہئے؟ اس سلسلے میں اہل سنت کے یہاں خاصا اختلاف ہے۔ شافعی کو اپنی مشہور و معروف کتاب "الرسالہ" میں… جو علوم اصول فقہ میں لکھی گئی‘ پہلی کتاب ہے اور میں نے اسے پارلیمنٹ کی لائبریری میں دیکھا ہے‘ اس میں ایک باب "باب اجتہاد" کے نام سے بھی ہے‘ شافعی کو اس میں… اس بات پر اصرار ہے کہ احادیث میں "اجتہاد" کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے صرف "قیاس" مراد ہے۔ قیاس کا مطلب… اجمالی طور پر… یہ ہے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سامنے درپیش قضیہ میں ان ہی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں۔ 
  1. لیکن بعض دوسرے سنی فقیہوں نے اجتہاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نہیں جانا ہے بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ہے۔ استحسان کا مطلب یہ ہے کہ مشابہ موارد کو مدنظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائزہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ہو‘ نیز ہمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں۔ اسی طرح "استصلاح" بھی ہے‘ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ایسے ہی "تاوّل" بھی ہے یعنی اگرچہ کسی دینی نص‘ کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ہے لیکن بعض وجوہات کے پیش نظر ہمیں نص کے مفہوم و مدلول کو نظرانداز کر کے اپنی "اجتہادی رائے" مقدم کرنے کا حق ہے۔ ان اصطلاحوں کے متعلق تفصیلی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے اور اس طرح شیعہ سنی کی بحث بھی چھڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں یعنی نص کے مقابلے میں اجتہاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور شاید سب سے اچھی کتاب "النص و الاجتہاد" ہے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے۔ 
  1. شیعہ نقطہ نظر سے اس طرح کا اجتہاد ناجائز ہے‘ شیعوں اور ان کے آئمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیاد ہی… یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی فکر و رائے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے… درست نہیں ہے‘ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ ہر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ہے کتاب "وافی" میں باب البدع والمقائیس" کے بعد ایک باب ہے جس کا عنوان یہ ہے: 
  1. باب الرد الی الکتاب والسنة وانہ لیس شئی من الحلال و الحرام وجمیع ماتحتاج الیہ الناس الا وقد جاء فیہ کتاب او سنة(کافی‘ جلد ۱‘ کتاب العلم‘ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ہر حلال و حرام اور عوام کی ضروریات قرآن و سنت میں موجود ہیں) 
  1. قیاس و اجتہاد کو قبول یا اسے رد کرنے کے متعلق دو جہتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہی جہت جسے میں نے بیان کیا کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سرچشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ہوئے کہیں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا حکم وحی کے ذریعے بیان نہیں ہوا ہے‘ اب یہ مجتہدوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم بیان کریں‘ دوسری جہت یہ ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل‘ مثلاً خبر واحد سے استفادہ کرتے ہیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ہے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ہے اسے طریقیت کی حیثیت دیں۔ 
  1. شیعہ فقہ میں قیاس و اجتہاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نہیں ہے‘ پہلی جہت اس لئے معتبر نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کا حکم (چاہے کلی طور پر سہی) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ہو‘ دوسری جہت اس لئے باطل ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ہے اور یہ شرعی احکام میں بہت زیادہ خطا و لغزش سے دوچار ہوتے ہیں۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وہی پہلی جہت ہے اگرچہ اصولیوں کے یہاں دوسری جہت زیادہ مشہور ہوئی ہے۔ 
  1. "اجتہاد" کا حق اہل سنت کے یہاں زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ سکا‘ شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں‘ کیونکہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رہے‘ خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف جائز سمجھتے ہیں اور ہر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رہے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا‘ شاید یہی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتہاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشہور مجتہدوں اور اماموں ابوحنیفہ‘ شافعی‘ مالک بن انس‘ احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لے جائیں اور انہیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پہلے (ساتویں صدی میں) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی۔ 


  1. جائز اجتہادلفظ "اجتہاد" پانچویں صدی ہجری تک اسی طرح مخصوص معنی میں… یعنی قیاس و اجتہاد بالرائے جو شیعہ نقطہ نظر سے ناجائز ہے… استعمال ہوتا تھا۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں "باب الاجتہاد" اسے رد کرنے اور باطل و ناجائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے‘ جیسے شیخ طوسی کتاب "عدہ" میں لیکن آہستہ آہستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنی سے باہر آ گیا اور خود سنی علماء نے بھی… جیسے ابن حاجب "مختصرالاصول" میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ہے اور مدتوں جامعة الازہر کے درسی نصاب میں شامل رہی ہے اور شاید آج بھی شامل ہو۔ ان سے پہلے غزالی نے اپنی مشہور کتاب "المستصفٰی" میں… لفظ اجتہاد کو اجتہاد بالرائے کے اس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے جو کتاب و سنت کے مقابلے میں ہے‘ بلکہ انہوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عالم معنی میں استعمال کیا ہے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ استفراع الوسع فی طلب الحکم الشرعی اس تعریف کے مطابق اجتہاد کا مطلب‘ "معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعے شرعی احکام کے استنباط کی انتہائی کوشش کرنا ہے۔" اب رہی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ہیں؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ہیں یا نہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ 
  1. اس وقت (پانچویں صدی) سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتہاد کے پہلے سے قائل تھے۔ یہ اجتہاد‘ جائز اجتہاد ہے‘ اگرچہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنی و مفہوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نہیں لینا چاہا اور اس کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ علماء بہت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجہتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے‘ مثلاً اہل سنت‘ اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے‘ جبکہ شیعہ اسے نہیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ہیں‘ لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکھ دیا۔ اہل سنت کہتے تھے شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ اجتہاد (قیاس)۔ شیعہ علماء نے کہا‘ شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ عقل۔ انہوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکھ دی۔ 
  1. بہرکیف اجتہاد رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ہونے لگا یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مہارت ضروری ہے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ہیں۔ علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ہوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استخراج و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ہے‘ جیسے عربی ادب‘ منطق‘ تفسیر قرآن‘ حدیث‘ رجال حدیث‘ علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم۔ اب مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو ان تمام علوم میں مہارت رکھتا ہو۔ 
  1. یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ شیعوں میں اجتہاد و مجتہد کا لفظ اس معنی میں سب سے پہلے علامہ حلی نے استعمال کیا ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب "تہذیب الاصول" میں "باب القیاس" کے بعد "باب الاجتہاد" تحریر فرمایا ہے‘ وہاں انہوں نے اجتہاد اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ہے اور رائج ہے۔ 
  1. پس شیعی نقطہ نظر سے وہ اجتہاد ناجائز ہے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اب چاہے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سرچشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ‘ لیکن جائز اجتہاد سے مراد فنی مہارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ہے۔ 
  1. پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اجتہاد کیا چیز ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد جس معنی میں آج استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے مراد صلاحیت اور فنی مہارت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کی تفسیر‘ آیتوں کے معانی‘ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت‘ نیز معتبر و غیر معتبر حدیثوں میں تمیز دینے کی صلاحیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صحیح عقلی اصولوں کی بنیاد پر حدیثوں کے آپسی ٹکراؤ کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ہو‘ مذہب کے اجمالی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ہو‘ خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر کرتے ہوئے ہیں‘ دنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق‘ تمرین‘ تجربہ اور ممارست ضروری ہے۔ ایک ماہر صنعت کار کی طرح اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ہے‘ اس میں مہارت و استعداد ہونی چاہئے۔ خاص طور سے حدیثوں میں بہت زیادہ السٹ پھیر اور جعل سازی ہوئی ہے‘ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط ملط ہیں‘ اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراہم ہونی چاہئیں کہ واقعاً اس میں اہلیت‘ قابلیت‘ صلاحیت اور فنی مہارت پیدا ہو جائے 


  1. شیعوں میں اخباریت کا رواجمیں یہاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں اجتہاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ہے اور وہ "اخباریت" کی تحریک ہے۔ اگر کچھ جید و دلیر علماء نہ ہوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سرکوب نہ کرتے تو نہیں معلوم آج ہماری کیا حالت ہوتی۔ دباستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نہیں ہے‘ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ہیں‘ جو بذات خود بہت ذہین تھے اور بہت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ہے۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں… جو عقل کی حجیت کی منکر ہو‘ قرآن کی حجیت و سندیت کی‘ یہ بہانہ بنا کر منکر ہو کہ قرآن صرف پیغمبر کے اہل بیت۱ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری فقط اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ہے اور اجماع سنیوں کی بدعت ہے‘ لہٰذا ادلہ اربعہ یعنی قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ عقل میں سے صرف سنت حجت ہے اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی "کافی"، "من لایحضرہ الفقیہ"، "تہذیب" اور "استبصار" میں بیان ہوئی ہیں‘ صحیح و معتبر بلکہ قطعی الصدور ہیں یعنی رسول خدا اور آئمہ طاہرین۱سے ان کا صادر ہونا یقینی ہے ان اصولوں کا پیرو اسکول… چار سو سال پہلے موجود نہ تھا۔ 
  1. شیخ طوسی نے اپنی کتاب "عدة الاصول" میں بعض قدیم علماء کو "مقلدہ" کے نام سے یاد کیا ہے اور ان پر نکتہ چینی کی ہے‘ تاہم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں مقلدہ اس لئے کہا ہے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے۔ 
  1. بہرحال اخباریت کا اسکول‘ اجتہاد و تقلید کے دبستان کے خلاف ہے‘ جس صلاحیت‘ قابلیت اور فنی مہارت کے مجتہدین قائل ہیں اخباری اس کے منکر ہیں۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ہیں‘ اس اسکول کا حکم ہے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ہے اور اس میں بھی کسی کو اجتہاد و اظہار نظر کا حق نہیں ہے‘ لہٰذا عوام پر فرض ہے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں‘ بیچ میں کسی عالم کو مجتہد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں۔ 
  1. ملا امین استر آبادی نے… جو اس دبستان کے بانی ہیں اور بذات خود ذہین‘ صاحِ مطالعہ اور جہان دیدہ تھے‘ انہوں نے… "الفوائد المدینتہ" نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ہے‘ موصوف نے اس کتاب میں مجتہدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ہے‘ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوڑی کا زور صرف فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل (جیسے ریاضیات) میں حجت ہے‘ اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ 
  1. بدقسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسی فلسفہ نے جنم لیا تھا‘ وہ لوگ علوم (سائنس) میں عقل کی حجیت کے منکر ہوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے‘ اب یہ نہیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کہاں سے حاصل کی‘ ان کی اپنی ایجاد ہے یا کسی سے سیکھا ہے؟ 
  1. مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۳ء کے موسم گرما میں بروجرد گیا ہوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ بروجرد ہی میں مقیم تھے‘ ابھی قسم تشریف نہیں لائے تھے۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی‘ آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ 
  1. "اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسی فلسفہ کی لہر کے زیراثر عمل میں آئی ہے۔" 
  1. یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی‘ جب آپ قم تشریف لائے اور آپ کے درس اصول میں "حجیت قطع" کا موضوع زیر بحث آیا‘ تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وہی بات فرمائیں گے‘ لیکن افسوس! انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انہوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نہیں آئی ہے اور بعید نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ حسی فکر مغرب سے مشرق تک پہنچی ہو‘ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میں نے اس سلسلے میں ان سے سوال کیوں نہیں کیا۔ 


  1. اخباریت کا مقابلہبہرصورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی‘ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرما تھا۔ خوش قسمتی سے وحید بہبہانی… معرف بہ آقا "آل آقا" حضرات آپ ہی کی نسل سے ہیں… آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 
  1. وحید بہبہانی کربلا میں تھے اس زمانے میں‘ ایک ماہر اخباری‘ صاحب "حدائق" بھی کربلا میں ساکن تھے‘ دونوں کا اپنا اپنا حلقہ درس تھا۔ وحید بہبہانی اجتہادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی۔ آخرکار وحید بہبہانی نے صاحب حدائق کو شکست دے دی۔ کہتے ہیں کاشف الغطا بحرالعلوم اور سید مہدی شہرستانی جیسے وحید بہبہانی کے جید شاگرد‘ پہلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے‘ بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔ 
  1. البتہ صاحب حدائق‘ نرم مزاج اخباری تھے‘ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وہی ہے جو علامہ مجلسی کا مسلک تھا‘ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ہے۔ علاوہ برایں وہ بڑے مومن‘ خدا ترس اور متقی و پرہیزگار انسان تھے‘ باجودیکہ وحید بہبہانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے‘ لیکن وہ اس کے برعکس‘ کہتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے کہتے ہیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بہبہانی پڑھائیں۔ 
  1. اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جدوجہد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم اصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا۔ کہتے ہیں‘ خود شیخ انصاری فرمایا کرتے تھے کہ اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو میرا اصول مان لیتا۔ 
  1. اخباری اسکول اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار… جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ہیں‘ لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو سال تک چھائے رہے… ذہنوں سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ حدیث کے بغیر‘ قرآن کی تفسیر جائز نہیں سمجھتے۔ بہت سے اخلاقی و سماجی مسائل بکہ بعض فقہی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ہے‘ فی الحال ان کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ 
  1. ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ہوئی وہ اس کا عوام پسند پہلو ہے‘ کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہتے‘ ہم کلام معصوم۱کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے سروکار ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے معصوم۱کا کلام بیان کرتے ہیں۔ 
  1. شیخ انصاری "فرائدالاصول" میں "برائت" و "احتیاط" کی بحث میں سید نعمت اللہ جزائری سے…جو اخباری مسلک کے پیرو تھے… نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: 
  1. "کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ (یعنی کسی اخباری) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین۱کے حکم کے مطابق عمل کیا‘ جہاں کہیں معصوم۱کا فرمان مجھے نہیں ملا میں نے احتیاط کی‘ کیا ایسے شخص کو جہنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بہشت میں جگہ دی جائے گی‘ جو کلام معصوم۱کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور ہر حدیث کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھکرا دیتا تھا (یعنی اجتہادی دبستان کا پرو شخص)!! ہرگز نہیں۔" 
  1. مجتہدین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم‘ قول معصوم۱کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں ہے بلکہ جہالت کے آگے سر جھکانا ہے‘ اگر واقعاً یہ معلوم ہو جائے کہ معصوم۱نے فلاں بات کہی ہے تو ہم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں‘ لیکن آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم سنیں (اس کی سند اور معنی و مفہوم میں تحقیق کئے بغیر) جاہلوں کی طرح اسے قبول کر لیں۔ 
  1. اب ہم یہاں چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں جس سے اخباریت کے جامہ طرز فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا۔ 


  1. دو طرز فکر کا ایک نمونہبہت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث یہ ہے: 
  1. الفرق بین المومنین و المشرکین التلحی 
  1. "مومن و مشرک کا فرق‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ہے۔" 
  1. کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کہا ہے کہ تحت الحنک ہمیشہ گلے میں پڑا رہنا چاہئے‘ لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے… باوجودیکہ اجتہاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اپنی کتاب "وافی" کے باب "الزی و التجمل" میں اس سلسلے میں ایک قسم کا اجتہاد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں‘ قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رہتے تھے اور اس عمل کو "اقتعاط" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ہوں‘ چنانچہ یہ حدیث اس عملی و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل (Symbol) کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ہے‘ لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ہو چکا ہے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نہیں رہا ہے‘ آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ہے‘ کیونکہ اس صورت میں وہ "لباس شہرت" کی شکل اختیار کر لے گا اور لباس شہرت حرام ہے۔ 
  1. یہاں اخباریت کا جمود کہتا ہے کہ حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ہوا ہے‘ لہٰذا اس کے بارے میں بحث و اجتہاد کرنا فضول ہے‘ لیکن اجتہادی فکر کہتی ہے ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شہرت سے پرہیز۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹے رہنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع متنفی ہو چکا ہے۔ اب یہ مشرکوں کا سمبل نہیں رہا ہے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب کوئی شخص یہ عمل بجا لاتا ہے تو وہ لباس شہرت کا مصداق ہے اور حرام ہے۔ ایک نمونہ تھا‘ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔ 
  1. وحید بہبہانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تواتر کی حد تک ثابت ہو گیا‘ اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آ کر چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ مجھے یقین آ گیا۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا‘ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود تم نے چاند دیکھا نہیں جن کی عدالت مسلم ہے انہوں نے گواہی بھی نہیں دی‘ پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا؟ میں نے کہا خبر متواتر ہے اور تواتر سے مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے۔ کہنے لگے کہ کس حدیث میں ہے کہ تواتر حجت ہے؟ 
  1. وحید بہبہانی کا بیان ہے کہ 
  1. "اc
  2. اسماعیل یشھد ان لا الہ الا اللہ 
  1. "اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔" 
  1. وحدانیت کی گواہی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے؟ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق۱نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی۔ 
  1. اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ اسماعیل کے کفن میں یہ عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ہوا ہے تو خود ان ہی کا نام کیوں نہ لکھا جائے؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں؟!! اخباری کہتے تھے یہ ساری باتیں اجتہاد اور عقل کا استعمال ہیں‘ ہم اہل تعبد و تسلیم ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے مطلب ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 


  1. ناجائز تقلیدتقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے: 
  1. انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون 
  1. "ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔"(زخرف‘ ۲۳) 
  1. ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔ 
  1. آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔ 
  1. اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں: 
  1. و اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللقوام ان یقلدوہ 
  1. یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔ 
  1. یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے: 
  1. و منھم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یطنون(بقرہ‘ ۷۸) 
  1. یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے: 
  1. "ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔" 


  1. ناجائز تقلید اور امام صادق۱مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے: 
  1. "ایک شخص نے امام صادق۱سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔" 
  1. حضرت۱نے فرمایا: 
  1. بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیہود و علمائھم فرق من جھة وتسویة من جھة: اما من حیث استووا فان اللہ قد ذم عوامنا بتقلیدھم علمائھم کما قد دم عوامھم و امامن حیث افترقوا فلا 
  1. "ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔" 
  1. اس شخص نے عرض کیا: 
  1. "فرزند رسول توضیح دیجئے۔" 
  1. حضرت۱نے فرمایا: 
  1. "یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔" 
  1. اس کے بعد حضرت۱نے فرمایا: 
  1. و اضطروا بمعارف قلوبھم الی ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق وبین اللہ 
  1. "وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول۱کا قول نہیں ماننا چاہئے۔" 
  1. یہاں امام۱یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔ 
  1. منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے: 
  1. قضایا قیاسھا معھا 
  1. جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت۱فرماتے ہیں: 
  1. و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقہائھم الفسق الظاہر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامھا‘ و اھلاک من یتعصبون علنہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ وان کان للاذلال و الا ھانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل ھولا فھم(احتجاجی طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں "بالترفق" کے بجائے "بالترفرف" آیا ہے) 
  1. "ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری… چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں… اپنے مخالفوں کی سرکوبی… چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں… اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔" پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں  بلکآنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔ 



Thursday, April 9, 2015

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

جنابِ صدر!سہارے زندگی ہیں کیونکہ دیوار کیلئے در سہارا۔۔۔۔۔در کیلئے گھر سہارا گھر کیلئے سر سہارا۔۔۔۔ سر کیلئے دھڑ سہارا بلکہ میں تو کہتی ہو ں کہ ۔۔۔زندگی سہاروں سے جنم لیتی ہے۔۔۔تخلیقِ آدم کی کہانی نغمہءِ الست کے سہارے کی محتاج ہوئی۔ پیدائش نوع انسانی ماں اور مامتا کے توسط سے جنم لیتی ہے۔پھول اور پھل ثمر ہیں اس درخت کے وجود کا جس کے سہارے یہ تتلیوں اور خوشبوں کو مسحور کرتے ہیں۔پرندے پروں کے سہارے۔۔۔۔سنگ و خشت دروں کے سہارے۔۔۔۔گھر گھروں کے سہارے۔۔۔دل دلبروں کے سہارے۔۔۔رنگ رنگت کے سہارے۔۔خوشبو پھول کے سہارے۔۔۔اور زندگی خدا کے سہارے
جنابِ والا!
سہارا استعارہ ہے پیار اور محبت کا، کہ جب باپ بوڑھا ہو جائے تو جوان اولاد سہارا کہلایا کرتی ہے۔سہارا نام ہے بھائی چارے اور اخوت کا، کہ تمام مسلمان ملک اسلامی سربراہی کانفرنس کی لڑی میں پرو ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بنا کر تے ہیں۔سہارا نام ہے اس حوصلے کا ، اندلس کے ساحلوں پر کھڑے طارق کی فوجوں کو وہ تقویت سونپ دیتی ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دیتے ہیں۔سہارا نام ہے اس سعی کا جو سندھ کے ڈاکوؤں کے مقابلے میں بن قاسم کو حجاز سے بر صغیر کھینچ لاتی ہے۔سہارا نام ہے اس تسلسل کا کہ جس کے سہارے محمود غزنوی ہند وستان پر 17حملے کرتا ہے۔سہارا نام ہے اس فضائے بدر کا کہ جب 313ہزاروں کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں۔سہارا نام ہے اس صبر کا ۔۔۔کہ جب پر وانے کیلئے، چراغ اور بلبل کیلئے پھول بس اور صدیق کیلئے اللہ کا رسولؐ بس ہو،۔۔۔ حضورؐ پوچھیں کہ صدیق گھر میں کیا چھوڑ آ ئے ہو تو صدیق کہیں اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نام۔سہارا نام ہے اس اعتماد کا جب حضرت موسیٰ کی والدہ ان کو نیل میں بہا دیں اور موسیٰ فر عون کے محل میں پرورش پائیں۔سہارا نام ہے اس غیبی مدد کا جو شداد کو بحری بیڑے کی تباہی کے بعد بچ کر جزیروں میں پرورش پا ئے اور با لآ خر ایک ملک کا بادشاہ بن جا ئے۔
ارے سہارا تو وہ سہارا جو ابراہیم کے آگ میں گر نے سے پہلے اس کو گلزار کر دے۔ارے سہارا تو وہ سہارا جو یوسف کے چاہ میں گر نے سے پہلے جبرائیل کے پروں کی صورت نمودار ہو ا کر تا۔ارے سہارا تو وہ سہارا ،جو صلیب پر سے عیسیٰ کو زندہ سلامت اٹھا لیا کرتا۔ارے سہارا تووہ سہاراہے، کہ میرا رسولؐ صدیقؓ سے کہے، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے ،جوحضرت علی کو ہجرت کی رات آنحضورؐ کے بستر پر سلا تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہاراہے جو ابر ہہ کے ہاتھیوں کو پرندے کے ہاتھوں موت بھیجتا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے،جو ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ لشکر پر بابر کے 10ہزار کو فتح دیا کرتا ہے۔ارے سہاراتو وہ سہارا ہے جو در یا ئے نیل میں راستے بنا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا
جو عصا ے موسیٰ بن کر سا نپوں کو نگل جا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے، کہ شہادت کی آرزولیکر میرے جوانوں کو ٹینکوں کی باڑوں کے آگے لٹا دیتا ہے۔ارے حسبی اللہ کی قسم سہارا تو وہ سہارا ہے کہ نبی مکرم کہیں،اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دو تو بھی اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔
ارے تم کہتے ہو سہارے۔۔۔ استقامت چھینتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ زندگی تو چلتی ہی سہاروں کے ذریعے ہے۔
جنابِ صدر! آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز دوسری چیز کے دم سے ہے۔ ہم اگر سفر کر رہے ہیں تو اس جگہ کے مقابلے میں جو ساکن کھڑی ہے۔اور مسلمانوں کو جب عضوِ واحد کہا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جاتا کہ ہر عضو دوسرے عضو کو سہارا دیتا ہے۔ جب دل کی بات ہو تی ہے تو لہو ’’دماغ‘‘ کے حکم سے جگہ جگہ پہنچتا ہے۔جب زندگی کی بات چلتی ہے تو غدائی چکرسے لیکر فضائی چکر تک ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔جی ہاں یہی سہارے ہیں جو زندگی دیتے ہیں۔ جو زندگی دیتے ہیں، خوشیاں با نٹتے ہیں، اور حوصلہ سوپنتے ہیں ۔۔۔کہ طے کر لیا سمندر اللہ کے سہارے۔

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل ث)
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے۔ ہو گا تو وہی جو میری چاہت ہے۔ اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دو ں گا تجھ کو جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں وہ جو تیری چاہت ہے۔ اور پھر وہی ہوگا جو میری چاہت ہے۔ 
جنابِ صدر! میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں ۔ تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے ۔۔۔کہ ہر تدبیر، تدبر کے زعم میں حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔ قسمت کی بساط پر تقدیر کے پیادے تدبر و تدبیر کے شاہوں کو شہ مات کرتے آئے ہیں۔ تدبیر تو تقدیر کے منہ میں پانی کا آخری گھونٹ ہے۔ جب شہر کا ہر شہری آگ کے انگارے دینے سے منکر ہو، اور سورج سوا نیزے پر آکر شا ہ شمس کے لئے گو شت کا ٹکڑاپکا جائے، تو تدبیریں ہار جا یا کر تی ہیں۔ جب شداد اپنی رعنائیوں کے ساتھ حور و بہشت کے تصور کو لے کر ایک ارضی جنت تخلیق کرے اور اس کے دروازے میں ہی ڈھیر ہو جائے تو تدبیریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔جب نو ح ؑ کی بستی والے کشتی کو گندہ کر نے کی تدبیر کرتے ہیں، تو ان کی تدبیروں کو اپنے منہ اسی غلا ظت سے دھونے پڑتے ہیں۔ اور جب برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو چاہ میں پھینکا کرتے ہیں، تو جبرائیلؑ کے پر کی ضرب سے سبھی تدبیریں دو نیم ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی ہٹلر ،دنیا فتح کرنے کا گھمنڈ لے کر میدان میں اتر تا ہے ،تو اس کی ساری تدبیریں نا ر منڈی کی بندر گاہ پر منجمند ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی خر ناٹ سپیرا اپنی رسیوں کو تدبیرِ جادو گری سے سانپوں میں ڈھال دے، تو حکم خدا وندی سے عصائے موسیٰؑ ان سبھی تدبیروں کو نگل جاتا ہے۔ ارے تدبیر کے پجاریو، آنکھیں کھولو! فر عون کی لاش پکار پکار کے کہتی ہے۔۔۔ تدبیرکے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے۔
ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب 313نے 1000کو مار بھگا یا تھا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب سپر پاور امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر لمحوں میں خاک کر دئے گئے۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،کہ تورہ بورہ کی پہاڑیا ں توزمین بوس ہو گئیں ،مگر بن لادن کا پتہ نہ چلا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں، جب سکیورٹی کے باوجود مجاہدوں نے بھارتی پار لیمنٹ پر حملہ کیا تھا۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج تو:
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھر تے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج بھی روز مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ:
ماں کو تلاش رزق نے رستہ بھلا دیا
بچی ٹھٹھر کے رات کے سائے میں مر گئی
ارے کہاں ہیں تدبیریں، کہ آج بھی جتوئی سے صدا آتی ہے کہ اس دیس میں تدبیریں مر چکی ہیں۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ روز دس بچے بسوں تلے کچلے جاتے ہیں۔ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

آدم نے بہشت کے میوے کھا کر غلطی کی ، اس غلطی کے نتیجے میں اسے جنت بدر کر دیا گیا۔زمین پر آکر مسائل نے جنم لیا یہ مسائل الجھتے گئے تو تنازعات بن گئے۔ قابیل نے ہا بیل کو قتل کیا تو دنیا میں جنگ کی آہ وفغاں شروع ہو گئی۔ کہیں گھوڑا آگے بڑ ھانے پر 40نسلیں تباہ ہو ئیں تو کہیں پانی پلانے پر تنازعہءِ لا حاصل نے جنم لیا۔ فر عون خدائی دعوے کے ساتھ اپنے جنگی جرائم کو جنم دیتا رہا اور تنازعات در تنازعات بنتے گئے ۔مسائل کے ریشم زلف یار کی طرح الجھتے گئے۔ جنگ نسل در نسل وراثت کا حصہ بنتی گئی۔ غریب کی کٹیا کا تیل لٹتا رہا۔ کئی جوانوں کی جوانیوں کے گلا ب مر جھا گئے۔ سہاگ لٹتے رہے۔ عصمت گری کا بازار گرم رہا۔ اور پھر فاران کی چوٹیوں سے اک نور ہویدا ہوا۔ جس نے خاندانی دشمنیوں کو، نفرتوں کے جلتے الاؤ کو، مذاکرات کی سیج پر بیٹھ کر صلح حدیبیہ کی گتھی میں اس طرح سلجھا یا کہ تاریخ کو خود پر رشک آنے لگا۔
جنابِ صدر ! اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں ، قتل کا بدلہ قتل، چوری کا بدلہ ہاتھ کاٹنا۔ کسی نے آنکھ پھوڑی تو آنکھ پھوڑ دو۔ پتھر کا جواب پتھر سے دینا ممنو عات تو نہیں ہیں مگر میرے نبی ؐ کا اسوہ بھی نہیں ہیں۔ آخری خطبہ کے موتع پر فر ماتے ہیں۔کہ تمہارے لئے دوسرے مومن کے مال و جان کو حرام قرار دیتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل جو زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔ آج اس کو ختم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے چچا زاد ابنِ ربیعہ کا خون معاف کر تا ہوں۔
جناب والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مذہب تو امن لیکر آیا ہے۔ یہ تو صلح کا پیغام لا یا ہے۔ اجڑے دلوں کو ملانے آیا ہے ۔یہ کائنات کیلئے وجہِ رحمت ہے اگر کوئی قتل کرے تو صلہ قتل ہی ہے مگر عظیم وہی کہلاتا ہے جو مذاکرات کی میزپر دشمن کیلئے معافی کا اعلان کرے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے کہ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ حلف الفضول کے نام سے عہدِ نبویؐ میں ہی لکھا گیا ۔ 
آج اقوام عالم کے مسائل کا جائزہ لیجئے ۔ سرحدوں کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، آزادیءِ نسواں کا مسئلہ، وسائل کا مسئلہ، قبائل کا مسئلہ، دین و لادینیت کا مسئلہ، نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اسلحے کے سوداگر، رات کے اندھیروں میں ہینڈ گر نیڈ اور بم بیچنے والے ہر مسئلے کو جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے آج
؂کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دھول کی چادر
اڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہومیں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
کیا یہ پھر ہلاکو خاں کی طرح کھو پڑیوں کے مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ کیا پھر بغداد کی وادیاں لہو رنگ ہو نے کو ہیں۔ کیا یہ پھر ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تاریخ رقم کر نا چاہتے ہیں ۔کیا پھر ورلڈ وار آرڈر کی آڑ میں 35لاکھ معصوموں کا خون ہونے کو ہے۔ کیا کسووو میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے ان عقل کے اندھوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کیا یہ جنگ سے مسائل حل کرنے والے عراق کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی روس کی طرح ٹو ٹ کر بکھر نا چاہتے ہیں۔
ان نا سمجھی کی تفسیروں سے میں یہی کہوں گا کہ یہ آخر کیوں بستیوں کو اجاڑ نے پر تلے ہو ئے ہیں۔ معصوموں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کب تک یہ لوگ بہنوں کی ردا ؤں کو نو چتے رہیں گے، کب تک عزتوں کو نیلام کر تے رہیں گے۔کب تک راقمِ تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے۔ الجنت تحت ظلال السیوف کے نعرے لگانے والے فتح مبین کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ فتح خیبر کے موقع پر آنحضور ؐ علیؓ سے فر ماتے ہیں اگر کوئی ایک شخص بھی بات چیت سے اسلام لے آئے تو سو سرخ او نٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر ہے۔ 
؂یہ کون لوگ ہیں نوکیلے ناخنوں والے
جو بے گنا ہ لہو کا خراج لیتے ہیں
سنوارتے ہیں جو بارود کے دھویں سے نقوش
درند گی کی ہوس میں اجاڑ دیتے ہیں
ضعیف ماؤں کے آنسو ، ہر ایک موڑ پہ آج
امیر شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں۔
جناب والا! جب 40برسوں کی لڑائیاں سمٹتی ہیں تو با ت چیت سے۔ جب کبھی جنوبی کوریا اور شمالی کوریا ملے ہیں تو بات چیت سے۔ جب کبھی یونان متحد ہوا تو مذاکرات کی میز پر۔ جب کبھی دلوں میں کینے مٹے تو بات چیت سے ، جب کبھی محبتیں بڑھیں تو بات چیت سے، جب کبھی پھول مسکرائے تو بات چیت سے، جب کبھی پاکستان بنا تو جنگ سے نہیں بات چیت سے اور جب کبھی تنازعات کی دیوار برلن گری تو بات چیت سے۔جزائر آسڑیلیا کے مسائل حل ہوتے ہیں تو بات چیت سے،کفار اور مسلمانوں میں کوئی معاہدہ ہوا تو بات چیت کے ذریعے۔
؂اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد 
جنابِ والا! سر درد کے دو حل، دو گولی ڈسپرین یا دو گولی 12بور۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں آرام دونوں گولیوں سے آ جاتا ہے۔ آپ کیسا علاج چاہتے ہیں۔ دو گو لی ڈسپرین کا یا دو گولی بارہ بور۔

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)




آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
جی ہاں صاحبِ صدر! آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔۔۔۔، کیونکہ میرا اور اقبال کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مانا کہ مصائب کڑے ہیں ،مانا کہ اسباب تھوڑے ہیں۔ مانا کہ آج دھرتی ماں مقروض ٹھہری۔ ارے مانا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہاں چھا گئے۔ ارے ما نا کہ ترقی کی رفتار کم ہے ۔ ارے ما نا کہ یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی۔ ارے مانا کہ یہاں بم بھی پھٹتے ہیں ۔ ارے مانا کہ شمشیر و سناں آخر ہو گئی اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے ۔ ارے سب مانا۔ لیکن میرے غازی علم دین نے ایسے ہی حالات میں جنم لیا تھا۔ میرا جناح پونجا پھولوں کی سیج سے نہیں اگا تھا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے آسائشوں کے پالے ہوئے نہیں تھے۔ 
صاحبِ صدر!
گوہر اور جوہر حالات کی بھٹی میں جل کر کند ن ہوئے ۔ارے نسل تو اس وقت بھی عیاش تھی، قوم تو اس وقت بھی کمزور تھی، بھوک اور افلاس تو تب بھی تھی، لوگ تو تب بھی مرتے تھے۔ لیکن اقبال کے شاہین نے ،اس مشکل کی گھڑی میں گھروں میں روٹیاں نہیں بانٹیں ،بلکہ ایک فکری انقلاب بر پا کیا ،کہ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس ذوقِ یقیں کا، جو پیدا ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں کٹ جا یا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس سوچ کا جوآدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس تصور کا، جو نوجواں کو اتنا عظیم کرتی ہے کہ منزل خود انہیں پکار ا کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس جذبے کا ،کہ جہاں صلہءِ شہید ، تب و تابِ جا ودانہ ہوا کرتا ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس اڑان کا، جہاں عشق کی ایک جست سبھی قصے تمام کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین۔۔۔جو خاکی تو ہے ’’خاک سے پیوند نہیں رکھتا‘‘۔ جو ’’زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا‘‘ اور جو رہے ۔۔۔۔آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش ‘‘ اور۔۔۔’’ جہاں ہے جس کے لئے وہ نہیں جہاں کے لئے‘‘ اور اقبال کا شاہین تو نام ہے اس قوت کا کہ:
دونیم جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی
ارے
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الٰہی
اور
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جنابِ صدر!
مرد حالات کے تھپیڑوں سے ڈر کر چوڑیاں نہیں پہن لیتے ۔ بھوک کے ڈر سے مردار نہیں کھاتے کہ’’شاہین کاجہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔۔۔۔سر چھپانے کے ڈر سے اپنا منہ مٹی میں نہیں ٹھو نستے ۔کہ ’’شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی‘‘دوسروں کے سر سے کلاہ نہیں اتارتے کہ’’شاہین حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہو تا‘‘۔ارے اقبال کا شاہین تو وہ ہے جو جھپٹنے اور پلٹنے کا گُر جانتا ہو، جو جینے کیلئے مرنے کا ہنر جانتا ہو۔
اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اتنا بلند حوصلہ ہے کہ دشمن کی ہر گولی کا جواب ایک غوری سے دے سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اور نگزیب حفی کی صورت اہلیانِ یورپ کی 210ملین روپے کی انعامی رقم واپس کر سکتا ہے ۔ برطانیہ کی سکونت کو ٹھوکر مار سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نو جوان ’’ڈھولا کے ڈھول‘‘ سے پلٹ کر سہارا فاؤنڈیشن کی بنیاد یں رکھ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اتنا ’’مال و مال‘‘ ہو گیا ہے ،کہ صغریٰ شفیع ہسپتا ل کی بنیادیں اپنے لہو سے سینچ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان گیند بلے کو چھوڑ کر سسکتی ،بلکتی انسانیت کیلئے کوئی شوکت خانم بنا نے کی سعی رکھتا ہے اور آج میرے دیس کا نوجوان دنیا کی سب سے زیادہ ایمبو لینسوں پر مشتمل ٹرسٹ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی سے چلا سکتا ہے۔ ارے مانا! کہ ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر شہید ہونے والے پرانے ہو گئے۔ ارے مانا کہ غداروں کو مارنے کے لئے اپنے ہی طیارے زمین میں گھسا نے والے پرانے ہو گئے۔ارے سب مانا ۔۔۔۔۔۔مگر ربّ احد کی قسم:آج بھی میرے دیس کا ہرنوجوان اپنے وطن کی ناموس کے لئے اپنے لہوکی آخری بوند تک بہا سکتا ہے۔ ارے ہم سب کچھ سہی۔ ۔۔لوٹے بھی سہی، لٹیرے بھی سہی ، لیکن’’کتابِ مقدس‘‘ کی قسم جب آج بھی کوئی ہماری غیرت کو للکارتا ہے تو ایک ہی رات میں 9چوکیاں فتح ہو جایا کرتی ہیں۔ آج بھی کوئی ایک پر تھوی بنا تا ہے تو دو غوری میدان میں آتے ہیں۔ کوئی ایک دھماکہ کر تا ہے تو جواب پانچ سے ملتا ہے۔ارے ہم آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ ہماری سوچ زندہ ہے اور جس کی سوچ زندہ ہو، وہی اقبال کاشاہین ہے ،اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اقبال کا شاہین ہے۔اور میرا ایمان کہتا ہے، کہ
ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)
گلستانِ سوچ میں ایک پھول کھِلا۔ اک نئی روح نے جنم لیا ،جس نے اقبال کے شاہین کا نام پا یا۔ خودی جس کا زیور اور خوداری، جس کا پیر ہن ہو نا تھا۔ ۔۔لیکن اب وہ پیر ہن بالِ جبریل اور ضرب کلیم کے لفظوں میں ہی کہیں کھو گیا ہے۔ اک موہوم سی امید کے سہارے میں اقبال کے شاہین کے دل پہ دستک دیتا ہوں، اُس کے ضمیر کو آواز دیتا ہوں لیکن۔۔۔
جناب صدر! لاشیں کہاں بو لتی ہیں۔۔۔ مجھے ضمیر کے مقبرے سے اپنی صدا کی باز گشت سنائی دیتی ہے، کہ آج کا نوجوان، کھو یا گیا ہے جس سے جذبِ قلندرانہ ، نہ حیرتِ فارابی، نہ تب و تابِ رومی، نہ جستجو ئےِ غزالی، عقل کا ہے اندھا ،لباس کتنا عالی، کہ جس کے صوفے ہیں افرنگی، قالین ایرانی۔۔۔۔۔ ہا ئے تن آسانی ، ہائے تن آسانی، جو ساز کا ہے دیوانہ، سوز سے ہے بیگانہ، ٹو ٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ، کہاں گیا وہ اس کا اندازِ دلبرا نہ ۔ ارے
یوں ہاتھ نہیں آتا ،وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے انداز ملوکانہ
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرہءِ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ
کہ میرا نوجوان تھا کبھی افسرِ شاہانہ۔ آج گلی گلی میں دیوانہ۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔جی ہاں جناب صدر!
اقبال کا شاہین آج ناپید ہے۔کِشتِ ویراں کی نمی میں کمی نہیں آئی لیکن ابھی وہ گلِ مراد نہیں کھِلا، کہ جسے آزادی کے جوُڑے میں سجایا جاتا۔ وہ خوشحالی نہیں آئی کہ جس کا جھومر بنا کر ماتھے پہ ٹکایا جاتا، گو کہ کبھی کبھار غیرت کے تلاطم سے ابھر کر اُس نے حیدری نشان کو سینے کا ہار بھی کیا۔ آب و گِلِ ایراں تو وہی رہی، لیکن عجم کے لالہ زاروں سے کوئی رومی نہ اٹھا۔ کہ 
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے 
کہ جسے ستاروں پہ کمندیں ڈالنا تھیں ،آج آسماں نے اُسے ثر یا سے زمین پر دے مارا ہے۔تقدیر سے پہلے خودی کو بلند کرنے والا، آج فلم ، سٹیج، ڈراموں اور کلبوں میں اپنا مقام تلاش کرتا ہے۔ آسمانوں پر اپنی منزل رکھنے والا، آج بازارِ حسن کے سب سے اونچے چو بارے پہ ملتا ہے۔ جہاں اقبال کا یہ شاہیں ،تماش بینی کا لبادہ اوڑھے رقص و سرود کے مزے لینے میں مصروف نظر آتا ہے تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں 
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم ِ شاہبازی
جنابِ صدر! طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کی تفسیر لیکر آج وہ مشرقی روایات پر شر مندہ اور مغربی تہذیب پر شاداں و فرحاں ہے۔ آدابِ فر زندی کی شقوں پر کچھ یوں پورا اترا ہے کہ آدھی نسل ’’ممی ڈیڈی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ مغربی تہذیب کے آلودہ معاشرے نے اسے وہ ذوقِ یقین بخشا ہے کہ مشرقیت کی ساری زنجیریں توڑ کر آج وہ دفعہ 44کی پرواہ کئے بغیر کسی ’’بلو اور چھنو‘‘ کی آنکھوں میں ڈوب گیا ہے۔ آج نگاہِ مسلماں کُند ہو چکی ہے۔ آج بت ہیں جماعت کی آستینوں میں۔ آج رہ گئی رسمِ اذاں ،روحِ بلالی نہ رہی۔ آج تلواروں کی چھاؤں میں سجدہ کرنے والوں کی آنکھیں جلوہءِ دانشِ فرنگ سے خیرہ ہو چکی ہیں۔آج کوئی بن قاسم، کوئی طارق نہیں۔آج اقبال کا شاہین اپنے آباء کی بہادری کی داستانیں سینے سے لگائے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فر دا ہے۔ کہ
شاہیں کا جہاں ممو لے کا جہاں ہے 
ملتی جلتی ملاسے مجاہد کی اذاں ہے
ہر طرف پھیلی اس کی ہی فغاں ہے۔ لیکن میرانو جواں کہاں ہے۔۔۔ میرا نوجواں کہاں ہے۔۔۔ کہ وہ تو سگریٹ اور چرس کے دھو ئیں میں کہیں کھو گیا ہے۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے اس کا یوں گھیراؤ کیا ہے کہ صدائے
لا ا لہ دب کے رہ گئی ہے۔اورایسے حالات میں
؂ مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خوں بھی روئے تو کس خاک پہ سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہو گی

Sunday, March 22, 2015

انبیا اور معصومیں کی عزاداری کے بارے میں فرامین


معصومینؑ کے حضور سیدالشہداء کی عزاداری
خلاصہ

بلاشبہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایسی عبادت ہے جسے انجام دینے میں بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس سے رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ وہ عبادت ہے جسے حضرات معصومین علیہم السلام بڑے اہتمام سے بجا لاتے تھے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دشمنان اسلام نے اسے مٹانے،روکنے اور اس کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے میں اپنی پوری طاقت اور توانائی سے استفادہ کیا ہے اور اسی سبب سے عزاداری سید الشہداء کچھ حد تک تحولات کا شکار بھی رہی ہے۔تحریفات سے پاک و منزہ خالص عزاداری تک دسترسی کے لیے خود حضرات معصومین علیہم السلام کی اقتدا ہی بہترین راستہ ہوسکتا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حدالمقدور حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق منعقد ہونے والی مجالس اور ان مجالس کے انعقاد کے وہ ممکنہ اہداف بیان کیے جائیں جنہیں خود حضرات معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے۔
مقدمہ

رونا اور ہسنان انسان کے وجودی عوارض میں سے ہیں یعنی انسان اپنے بہت سے روحی واندرونی حالات کا اظہار رونے اور ہنسنے سے ہی کرتا ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جوانسان میں فطرتاً موجود ہے انسان اپنے غم کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کر ہی کرتا ہے ۔خداوندمتعال نے بھی دین مبین اسلام کو بشری فطری تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب بھی اس قانون سے مستثنی نہیں تھے وہ بھی اپنے غموں کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کرہی کیا کرتے تھے جس کے متعدد شواہد تاریخی کتب میں ملتے ہیں ۔ہم بھی اسی بشری فطری عمل کے مطابق حضرات معصومین علیہم السلام کی محبت میں ان کی مظلومیت پر عزاداری کرتے ہیں جو ایک فطری عمل کا تقاضے کے عین مطابق ہے ۔لہٰذااس فطری عمل کے لیے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن اس کےباوجود ہماری یہ عزاداری رسالتمآب کی ادائگی ِرسالت کاوہ حق ہے جسے ہم قرآن مجید کی آیت’’قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‘‘(۱) کے مطابق ادا کرتے ہیں چونکہ حقیقی محب اسے ہی کہا جاتا ہے جو اپنے محبوب کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بشر کی سرنوشت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی جب سے اولین بشر حضرت آدم علیہ السلام نے اس دنیا میں قدم رکھاہے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور عزاداری کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے اور یہ تذکرہ اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورتک جاری رہا۔انبیاء علیہم السلام کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی ہی خبر نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بھی کی۔
ہم تین شعبان کے اعمال میں پڑھتے ہیں :’’اللهم إني أسألك بحق هذا المولود في هذا اليوم الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته بكته ملائكة السماء و من فيها و الأرض و من عليها و لما يطأ لابتيها‘‘(۲)اے میرے پروردگار آپ کو آج کے اس مولود کا واسطہ دے کر پکارتے ہیں جس کی شہادت کی خبر ان کی ولادت سے پہلے دی گئی تھی اور آسمان و زمین نے اپنے تمام مکینوں کے ساتھ ان پر عزاداری کی جبکہ ابھی اس نے اس زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔
جی ہاں تمام انبیاء حضرت امام حسین علیہم السلام پر روئے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کی؛اوربلاشبہ ۶۱ ہجری کو اپنے اصحاب و اقارب کے ساتھ دلخراش حالت میں شہادت پانے والےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے جانشین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شیعیان حیدر کرار کے ہاں اہم سنت ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام نے اپنے پیروکاروں میں ایسی دائمی حرکت ایجاد کی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے:اِنّ الاسلامَ عَلوی، والتّشیّع حسینی(۳) اسلام علوی جبکہ شیعت حسینی ہے۔
جی ہاں!جب حضرت سیدالشہداء علیہ ‏السلام خون میں لت پت ذوالجناح سے نیچے تشریف لائےتو اس حالت میں اپنے ربّ سے اس طرح مناجات فرماتے ہیں:’’صبرا علی قضائک یا رب، لا إله سواک یا غیاث المستغیثین، ما لی رب سواک و لا معبود غیرک، صبرا علی حُلمک، یا غیاث من لا غیاث له، یا دائما لا نفاد له، یا محیی الموتی، یا قائما علی کل نفس بما کسبت، احکم بینی و بینهم و انت خیرالحاکمین‘‘(۴)پروردگارا! تیری قضا کے سامنے صبر کرتا ہوں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اے بے پناہوں کی پناہگاہ!تیرے علاوہ میرا کوئی مالک نہیں اور تیرے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔میں تیرے حکم اور فیصلہ پر صابر ہوں ؛اے بے کسوں کی فریاد سننے والے،اے خداجو دائمی و ابدی ہے اور مردوں کو زندہ کرتا ہے،اے سب جاننے والے شاہد اورمخلوقات کے تمام اعمال پر نظارت کرنے والے! تو خود میرے اور اس قوم کے درمیان قضاوت فرما بیشک توہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
یہ فیصلہ الہٰی ہی ہے کہ جس حسین مظلوم نے اپنا سب کچھ حق متعال کی توحید کے احیاء کے لیے قربان کر دیا تھا اب’’هَلْ جَزاءُ الْإِحْسانِ إِلاَّ الْإِحْسان‘‘(۵)کا تقاضا اسی میں ہے کہ جب تک توحید باقی ہے نام حسینؑ ابن علیؑ بھی باقی رہے۔ہماری اس تحقیق میں یہی کوشش رہے گی کہ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ خداوندمتعال نے اس احسان کی جزاء کس طرح دی۔لہٰذا ہم اس تحقیق کو درج ذیل پانچ فصلوں میں پیش کریں گے ۔
۔۱۔ پہلی فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف
۔۲۔ دوسری فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری
۔۳۔ تیسری فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام ولادت کے بعد آپ پر عزاداری
۔۴۔ چوتھی فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد آپ کی عزاداری
۔۵۔ پانچویں فصل :حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات


پہلی فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف


حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف

حضرت امام حسین علیہ السلام۳شعبان المعظم۴ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے،آپ کے والد بزرگوار سید الاوصیاء امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہما السلام اور والدہ گرامی خاتون جنت،صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے نانا تھے۔
آپ کی ولادت کے بعد جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تشریف لائے اور حق متعال کا درودو سلام پہنچانے کے بعد عرض کی:اس مولود مبارک کا نام ہارون کے چھوٹے بیٹے’’شبیر‘‘کے نام گرامی پر رکھیں جو عربی میں ’’حسین‘‘کا معنی دیتا ہے اور اس اسم گزاری کی وجہ اس طرح سے بیان فرمائی کہ :علی ابن ابیطالب آپ کے لیے ہارون کی طرح سے ہیں یعنی جس طرح ہارون موسیٰ علیہ السلام کے جانشین تھے اسی طرح علی ابن ابیطالب آپ کے جانشین ہیں لہٰذا ہارون کے بیٹوں کے جو نام تھے آپ انہی ناموں کو اپنے فرزندوں کے لیے انتخاب فرمائیں۔
آپ چھ سال اور چند مہینے اپنے نانا کے ساتھ رہے اور تیس سال اپنے والد بزرگوار کے ہمرار رہے۔آپ کی شان و منزلت کے لیے آیت مباہلہ ہی کافی ہے جس میں آپ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزندجانا گیا ہے اور آیت تطہیر آپ کی عصمت کی گواہ ہے اس کے علاوہ بہت سی آیات آپ کی شان و منزلت کو بیان کرتی ہیں۔
آپ کی ولادت کی مبارک باد عرض کرنے کے لیے ملائکہ الہٰی عرش معلیٰ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں تشریف لائے اور آپ کی خدمت میں کربلا کی مٹی پیش کرنے کے ساتھ تعزیت پیش کی۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا مفہوم

حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر رونا،رولانایا پھرعزاداری کا روپ دھار لینا سب عزاداری کے مفہوم میں شامل ہیں۔ان مفاہیم میں رونا اور رولانا دونوں واضح مفاہیم ہیں لیکن’’تباکی‘‘ کا مفہوم سے متعلق کچھ بحث جسے متعدد روایات میں بھی ذکر کیا گیا ہے اس کلمہ کے مصادیق میں سے؛ رونے والی شکل بنالینا،اپنے قیافہ کو سوگوار اور غمزدہ لوگوں کی طرح ڈھال لینا،رونے والا انداز اختیار کرلینا،غمزدہ افراد کی دلجوئی کے لیے غمزدہ شکل بنا لینا،ہر وہ فعل جس سے غمزدہ افراد اپنے غم کا اظہار کرتے ہوں اُن کے ساتھ اظہار ہمدری کے لیے وہ افعال انجام دیناخواہ سیاہ لباس کی شکل میں ہو،سبیل لگانے کی صورت میں ہو،نیاز تقسیم کرنے کی صورت میں ہویا پھر انتظامی اموروغیرہ سب اس مفہوم میں شامل ہیں۔ہم فقط دو احادیث کو تبرکا ذکر کرتے ہیں:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ اَنْشَدَ فِی الحُسَینِ شِعرا فَتَباکی فَلَهُ الجَنة‘‘(۶) جو بھی حسین علیہ السلام کے بارے میں شعر کہے اور غمزدہ روپ دھار لے وہ جنت کا مستحق ہے۔
حدیث قدسی کو نقل کرتے ہیں:’’ يَا مُوسَى!مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِي فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بَكَى أَوْ تَبَاكَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ كَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِيهَا‘‘(۷)اے موسیٰ!میرے بندوں میں سے جو بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کی شہادت کے زمانے میں اُن کی مظلومیت پر روئے یا رونے والی حالت اپناتے ہوئے محمد مصطفیٰ کو ان کے نواسے کا پرسہ دے وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔ تباکی سے متعلق متعدد روایات دعاؤں،استغفار سے متعلق بھی ہیں جنہیں ہم اختصار کی مطلوبیت کی خاطر ذکر نہیں کرتے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت

روایات میں ہر خوشی و غمی کی مناسبت پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ،مجالس ،محافل اور ان کی عزاداری کی رغبت دلائی گئی ہے چونکہ اگر ذکر حسینؑ زندہ ہے تو اسلام اور توحید زندہ ہے اس طرح قیامت تک کے لیے امام حسین علیہ السلام کے طفیل اسلام کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ كَرْبَلَاءَ حَرَماً آمِناً مُبَارَكاً قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَ مَكَّةَ حَرَماً‘‘(۸) خداوندمتعال نے کربلا کو امن و برکت کا حرم مکہ معظمہ سے پہلے قرار دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ حَجَّ أَلْفَ حَجَّةٍ ثُمَّ لَمْ يَأْتِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ(ع) لَكَانَ قَدْ تَرَكَ حَقّاً مِنْ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ حَقُّ الْحُسَيْنِ ع مَفْرُوضٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ‘‘(۹)اگر تم میں سے کوئی ہزار مرتبہ حج انجام دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر حقوق الہٰی میں سے حق کو ترک کردیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اسے مؤاخذہ کیا جائے گا۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:امام حسین علیہ السلام کا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ لَمْ يَأْتِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ(ع) وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَنَا شِيعَةٌ حَتَّى يَمُوتَ فَلَيْسَ هُوَ لَنَا بِشِيعَةٍ وَ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضِيفَانِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘(۱۰)جو بھی امام حسین علیہ السلام کے نورانی مرقد کی زیارت کے لیے نہ جائے اور یہ تصور کرتا ہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو وہ ہمارا شیعہ ہی نہیں اور اگر جنت میں بھی چلا جائے تو بہشتیوں کا مہمان ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَيْنَ(ع)مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِي ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدَّ أَيَّامُ زَائِرِيهِ جَائِياً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ‘‘(۱۱)خداوندمتعال نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض امامت کو اُن کی نسل میں سے قرار دیا،اُن کے مقتل کی مٹی میں شفاء قرار دی ،اُن کے مرقد منور کو مستجاب الدعا قرار دیا اور اُن کے زائرکے آمد و رفت کے ایام کو اس کی زندگی میں سے شمار نہیں کیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) بِشَطِّ الْفُرَاتِ كَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ‘‘(۱۲) جو بھی شط فرات کے نزدیک امام حسین کی زیارت کرے وہ اس طرح ہے جس طرح اس نے عرش پر خداوندمتعال کی زیارت کی ہو۔
حضرت امام جعفرصادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیمت‏السلام سے ایک ہی مضمون پر مبنی روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دو بزرگوار امام ارشاد فرماتے ہیں:’’من زار الحسين(ع)عارفا بحقه غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تأخر‘‘(۱۳)جو بھی امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ ان کی قبر مطہر کی زیارت کرے خداوندمتعال اس کے تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف کردے گا۔


دوسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری


حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت آدم اور جبرائیل علیہم السلام کی عزاداری

کتاب ’’دُرّالثمین‘‘کے مصنف ’’فَتَلَقّی آدَمَ مِنْ رَبِّهِ کَلَماتٍ فَتابَ عَلَيْهِ إنَّهُ هُوَ التَّوابُ الرَّحيمُ‘‘(۱۴) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:سب پہلے پیغمبر جن کے سامنے جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ پھر جب حضرت آدم نے پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کوعرش پروردگار پر مشاہدہ کیا تو جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا انھیں پڑھو:’’يٰا حَميدُ بِحَقِّ مُحَمَّد يٰا عٰالي بِحَقِّ عَلي يٰا فٰاطِرُ بِحَقِّ فاطِمة يٰا مُحْسِنُ بِحَقِّ الْحَسَنْ وَ الْحُسَيْن وَ مِنْکَ الْإحْسان‘‘جب امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی حضرت آدم کی زبان مبارک پر جاری ہوا تو اُن کی آنکھوں سےبے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ان کا دل غمگین ہو گیا جبرائیل سے کہنے لگے:کیوں اس نام کو زبان پر جاری کرنے سے میرا دل غمگین ہو گیا ہے اور میرے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے اس فرزند پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے؛ جو سب کے سب اس کے آگے حقیر ہوں گے۔حضرت آدم نے سوال کیا:وہ میبتں کیا ہوگی؟جبرائیل نے کہا:آپ کا یہ فرزند پیاسا،غربت کے عالم میں حامی و ناصر کے بغیر شہید کردیا جائے گا۔ اے آدم!کاش آپ اسےاس وقت دیکھیں کہ وہ کیسے’’وا عَطشاه واقلة ناصِراه‘‘کی فریاد کرے گا اور پیاس اس کے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح حائل ہو جائے گی ۔کوئی بھی تلوار کےسوا اس کا جواب دینے والا نہ ہوگااور پھر دنبے کی طرح ان کا سر پشت گردن سے جدا کردیا جائے گا ان کے دشمن ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کےسروں کو ان کے غمزدہ اہل وعیال کے ساتھ شہر شہر پھرائیں گے یہ سب کچھ حق متعال کے علم میں ہے۔ان مصائب کے ذکر سے حضرت آدم اور جبرائیل علیہماالسلام اسی طرح روئے جس طرح باپ جوان بیٹے کے مرنے پر روتا ہےاور جب حضرت آدم علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے توحضرت امام حسین علیہ السلام کے مقتل میں آپ کا پاؤں پھسلا اور گرنے سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہو گیاتو بارگاہ رب العزت میں عرض کی: بارالہٰا! کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے جو اس طرح مجھ ے سزا دے جارہی ہے؟ جواب ملا نہیں کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ اس سرزمین پر آپ کا مظلوم بیٹا حسین شہید ہوگا ۔ ان کا خون اس سرزمین میں جاری ہوگا ان کے درد میں شریک ہونے کے لیے یہاں پر آپ کا خون جاری ہوا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا! ان کا قاتل کون ہوگا؟جواب ملا یزید ملعون۔اس پر لعت بھیجو۔اس طرح حضرت آدم نے یزید لعین پر لعنت بھیجی۔(۱۵)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری

انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااور پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اورپھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااورپھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا۔(۱۶)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا توحضرت گھوڑے پر سوار تھے اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرےان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:’’الھی،أیُّ شیءٍ حدث منّی؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء‘‘پروردگارا! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کردیا جائے گا۔اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔(۱۷)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا :کہ چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوندمتعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے؟ ’’فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین(ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه‘‘حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں اس مقام پر پیاسے شہید کردیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا اُن کےقاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔’’فقال اسماعیل:اللّهم العن قاتل الحسین‘‘حضرت اسماعیل کہا:خداوندا! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔(۱۸)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزاداری

مرحوم علامہ مجلسی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ کو گر جاتے۔جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو؟’’فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار‘‘ہوا نے کہا:اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔حضرت سلیمان نے پوچھا:حسین کون ہیں؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اورعلی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا؟ کون اُن سے جنگ کرے گا؟جواب ملا آسمان و زمین کا موعلن ترین شخص یزید۔حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔(۱۹)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزاداری

حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہوگیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :بارالہٰا !مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے؟خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی:اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بارالہٰا !حسین کون ہیں؟ ارشاد ہوا:وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی:’’يَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْكَ الْخِصَالُ الَّتِي يَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّكَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)يَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُكَاءُ وَ التَّبَاكِي عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِيَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِيبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى يَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِيدِي فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بَكَى أَوْ تَبَاكَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ كَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِيهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِي مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِيِّهِ طَعَاماً وَ غَيْرَ ذَلِكَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَكْتُ لَهُ فِي الدَّارِ الدُّنْيَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِينَ دِرْهَماً وَ كَانَ مُعَافاً فِي الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَيْنَيْهِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَيْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ كُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ‘‘(۲۰)اے میرے پروردگار! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی؟جواب ملا:ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:’’نماز،زکات، روزہ،حج،جامد،جمعہ،جماعت،قرآن،علم اور عاشوراء‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے؟ارشاد ہوا:محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اورمرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہےاور اے موسیٰ !جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیازمیں یاپھر کسی بھی چیز میں)میں اس میں برکت ڈال دوں گا یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہوجائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گااور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کردوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اس کا قاتل کون ہے؟خداوندمتعال نے فرمایا:اس کا قاتل وہ ہے جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں،پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔اس کے جدحضرت محمدمصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کردیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا۔’’اَلظَّليْمَةُ اَلظَّليْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبيِّهٰا‘‘پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کردیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے ۔اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مرجائیں گے ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے،مدد طلب کریں گے،امان مانگیں گے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں بڑے گا اورانھیں امان نہیں دی جائے گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے یزید پر لعنت کی اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع بن نون نے آمین کہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے پروردگار!حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہوگا؟ خداوندمتعال نے وحی کی:ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ،میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہوگی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کوزندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے ان سب سے بیزار ہوں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔’’وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَيْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ‘‘اور جان لو! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔(۲۱)۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی عزاداری

سعد بن عبداللہ قمی ؒکہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواحضرت نے ارشاد فرمایا:اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا؟میں نے عرض کیا:مجھے احمد بن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کرلوں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو یہ اہل تشیع کا بارھواں امام ہے ۔سعد کہتاہے میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!مجھے سورہ مریم کے اول میں’’کھیعص‘‘کی تأویل سے آگاہ فرمائیں؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوندمتعال ان حروف کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرمارہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا: کہ حضرت زکریا نے خداوندمتعال سے تقاضا کیا کے مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں،جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کی:پروردگارا! میں جب بھی محمد،علی، فاطمہ اورحسن صلوات الله علیمی اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تواپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہوجاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہوجاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟خداوندمتعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔پھرحضرت نےفرمایا:’’کاف‘‘کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور’’ھا‘‘عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور’’یا‘‘یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور’’عین‘‘عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے’’صاد‘‘صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کردیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے: ’’إلهي اتفجع خير جميع خلقک بولده ؟ إلهي اتنزل بلوی هذه الرزية بفنائة ؟ إلهي اتلبس علی و فاطمه ثياب هذه المصيبة ؟ إلهي اتحل کربة هذه المصيبة بساحتهما ؟‘‘اور ان جملوں کے بعد خداوندمتعال سے التجا کرتے تھے کہ بارالہٰا !مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کردے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔ خداوندمتعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت کیے اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہوگئے۔حضرت یحیی ٰاور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔(۲۲) اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام‘‘یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔(۲۳)۔


حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزاداری



منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گذر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی؟شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:میں اس راستے سے گذرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ’’تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ‘‘۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں؟کہا:محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزندہیں۔پوچھا ان کا قاتل کون ہے؟جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔(۲۴)۔


تیسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعدآپ کی عزاداری

ہم اس فصل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حضرت سید الشہداء علیہ السلام پر عزاداری سے متعلق مختصر سی وضاحت کریں گے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مناسبتوں سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شایدت کی کیفیت کو بیان کیا اور عزاداری فرمائی ہے۔جن میں سے چند موارد کو بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری

بیقیض حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اسماء بنت عمیس کے نقل کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ فرماتی ہیں :میں حضرات امام حسن اور حسین علیہم السلام کی ولادت با سعادت کے مواقع پر آپ کی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس موجود تھی۔جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو حضرت خاتم الانبیاء میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے اسماء ! میرے فرزند کو میرے پاس لے آؤ۔میں نے مولود کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول خدا کے سپرد کردیا۔حضرت نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور پھر بچے کو اپنی گود میں رکھ کر رونے لگے۔میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ارشاد فرمایا: اپنے اس فرزند پر رو رہا ہوں۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا:یہ تو ابھی متولد ہوا ہے! فرمایا:اے اسماء ! میرے اس فرزند کو ستمگروں کا ایک گروہ شہید کردے گا خداوندمتعال انھیں میری شفاعت سے محروم رکھے۔پھر فرمایا:اے اسماء!یہ بات ابھی فاطمہ سے ذکر نہ کرنا کیونکہ یہ فرزند ابھی تازہ متولد ہوا ہے۔(۲۵)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام فضل کے خواب کی تعبیر

ام فضل کہتی ہیں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی میں نے کل رات بہت پریشان کن خواب دیکھا ہے۔حضرت نے فرمایا :اپنا خواب میرے لیے نقل کرو! عرض کی،میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میرے دامن میں رکھ دیا گیا ہے۔حضرت نے فرمایا:بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔عنقریب فاطمہ سے ایک فرزند متولد ہوگا جو تمہارے دامن میں پروان چڑہے گا۔کچھ ہی مدت بعد امام حسینؑ متولد ہوئے اور میری آغوش میں دے دیے گئے۔ایک دن میں حسین کو لے کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی تو حضرت نے حسین کو اپنی گود میں لیا ’’فاذاً عینا رسول اللّه تهرقان من الدّموع فقلت یا نبیّ اللّه بابی انت و امّی مالک؟ قال:اتانی جبرئیل علیه السّلام فاخبرنی انّ امّتی ستقتل ابنی۔ فقلت:هذا؟ فقال:نعم و أتانی تربةً من تربةٍ حمراء‘‘اچانک حضرت کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہونے لگے۔میں نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ کیا ہوا ہے؟ارشاد فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو قتل کر دے گی۔میں نے عرض کی اسی فرزند حسین کو؟فرمایا:ہاں!اور پھر جبرائیل نے مجھے سرخ مٹی عنایت فرمائی اور فرمایا :یہ وہی مٹی ہے جس پر حسین کو شہید کیا جائے گا۔(۲۶)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام سلمہ کے گھر میں عزاداری

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حسنین شریفین علیہم السلام میرے گھر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل میں مشغول تھے کہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:’’یا محمّد انّ امّتک تقتل ابنک هذا من بعدک فأومأ بیده الی الحسین فبکی رسول اللّه و وضعه الی صدره‘‘اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی امت آپ کے فرزند حسین کو آپ کے بعد شہید کردے گی۔تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کو اپنی آغوش میں لے کر اپنے سینے سے لگا لیا اور رونے لگے۔اور مجھ سے فرمایا:یہ مٹی تمہارے پاس امانت ہے یہ کہہ کر آپ نے مٹی کو سونگھا اور فرمایا:اے ام سلمہ! جب بھی یہ مٹی خون آلود ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید ہو گیا ہے۔(۲۷)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زینب کے گھر میں عزاداری

زینب بنت جحش نقل کرتی ہیں:ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تھے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے تازہ چلنا شروع کیا تھا۔جب وہ رسول خدا کے کمرے میں داخل ہونے لگے تومیں نے انھیں پکڑ لیا۔رسول خدا نے فرمایا:چھوڑ دو!میں نے چھوڑ دیا۔آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے جبکہ امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔ جب بھی آپ رکوع میں جاتے تو امام حسین علیہ السلام کو زمین پر بٹھا دیتے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا۔میں نے عرض کی :یا رسول اللہ ! میں نے آج یہ جو منظر دیکھا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔فرمایا:جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اس فرزند کو شہید کر دے گی۔پھر حضرت نے حسین علیہ السلام کی تربت مجھے دیکھائی جو جبرائیل حضرت کے لیے لائے تھے۔(۲۸)۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عائشہ کے گھر میں عزاداری

عائشہ کہتی ہیں:ایک دن جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے( جبکہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانوں پر سوار ہو رہے تھے اور آپ سے کھیل رہے تھے)اور آپ سے کہا:’’یا محمّد انّ امّتک ستقتل بعدک و یقتل ابنک هذا من بعدک و مدّ یده فأتاه بتربةٍ بیضاء و قال فی هذه الارض یقتل ابنک اسمها الطّف‘‘اے محمد! جلد ہی آپ کی امت اس فرزند کو آپ کے بعد شہید کر ڈالے گی۔پھر جبرائیل نے ہاتھ بڑھا کر آپ کی خدمت میں ایک سفید رنگ کی مٹی دی اور کہا : آپ کا فرزند اس زمین پر قتل کر دیا جائے گاجسے طف کہتے ہیں۔جب جبرائیل حضرت کے پاس سے رخصت ہوئے تو حضرت مٹی کو ہاتھ میں لئے رو رہے تھے کہ اسی دوران اصحاب کی ایک جماعت جن میں علیؑ،حذیفہ،عمار،ابوذروغیرہ شامل تھے آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا ؛کہ: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا یہ فرزند طف نامی سرزمین میں شہید کردیا جائے گااور پھر یہ مٹی مجھے دی ہے جس میں میرا یہ فرزند شہید ہو گا اور اس کی اسی میں قبر بنے گی۔(۲۹)۔

حضرت امام حسین علہی السلام پر حضرت سید الاوصیاء علیہ السلام کی عزاداری

ابن عباس کہتے ہیں:جنگ صفین کے دوران ہم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ سرزمین نینوا سے گذرے،حضرت نے مجھ سے فرمایا:’’یا ابن عبّاس اتعرف هذا الموضع قلت له: ما اعرفه یا امیرالمؤمنین فقال علیہ السلام: لو عرفته کمعرفتی لم تکن تجوزه حتّی تبکی کبکائی قال فبکی طویلاً حتی اخضلّت لحیته و سالت الدّموع علی صدره و بکینا معاً‘‘اے ابن عباس!کیا اس سرزمین کو پہچانتے ہو؟میں نے عرض کیا:نہیں۔حضرت نے فرمایا:اگر میری طرح اس سرزمین کو پہچانتے تو یہاں سے اتنی آسانی سے نہ گذرتے اور میری طرح ہی روتے۔ یہ کہتے ہوئےحضرت نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک سے سینہ مبارک پر جاری ہو گئے۔ہم نے بھی حضرت کے ساتھ گریہ کیا۔’’و هو یقول اوّه اوّه مالی و لآل ابی سفیان مابی و لآل حربٍ حزب الشّیطان و اولیاء الکفر صبراً یا ابا عبداللّه…ثمّ بکی بکاءً طویلاً و بکینا معه حتّی سقط لوجهه و غشی علیه طویلا ثمّ افاق‘‘پھر علی علیہ السلام نے فرمایا:وای وای وای میں نے آل سفیان،آل حرب،اور شیطانی ٹولے کا کیا بگاڑا تھا!!یا ابا عبداللہ ! صبر اور استقامت کا دامن تھامے رکھو!اس کے بعد پھر حضرت نے اس قدر شدید گریہ فرمایا کہ منہ کے بل زمین پر گر کر بیہوش ہو گئے۔(۳۰)۔


چوتھی فصل
عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد 

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری حضرت کی شہادت کے لحظہ ہی سے اس دلخراش واقعہ کے عینی شاہد ین حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام اور ان کی پھوپھی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور باقی ماندگان کی جانب سے برپا ہوئی۔
بنی امیہ نے بلا جواز شرعی خود کو مسلمانوں کا حاکم مطلق قرار دیا اور اسی حاکمیت مطلق ہونے کے ناطے قصاوت و بے رحمی جو کربلا میں دکھائی اسے مدنظر رکھتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے سیاسی اعتبار سے خاموشی اختیار کی اور سیاسی جھگڑوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر اور امویان کے درمیان سیاسی نزاع میں دخالت نہیں فرمائی حتی کہ جب مدینہ والوں نے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا جس کے نتیجے میں’’واقعہ حرہ‘‘رونما ہوا حضرت نے سکوت اختیار فرمایا۔
البتہ مروان بن حکم جو اس وقت مدینہ کا حاکم تھا اسکی خواہش پر حضرت اس کے بیوی بچوں کو اپنی پناہ میں لیتے ہوئے انہیں اپنے اہل وعیال کے ہمراہ مدینہ سے باہر’’کوہ رضوی‘‘کی دائیں جانب مقام’’ینبع‘‘(یعنی چشمہ کی جگہ) لے گئے۔مروان نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے پہلے عبداللہ بن عمر سے یہ تقاضا کیا تھا جسے اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔(۳۱)۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے قیام کی شرائط مہیا نہ ہونے کے علاوہ دوسری اہم دلیل کربلا کے واقعے کی عظمت اور عاشورا کا پیغام تھا جیسے محو ہونے سے بچانا اور لوگوں تک پہنچانااور بنی امیہ کے ظلم کو آشکار کرنا حضرت ہی کی ذمہ داری تھی۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر فرصت کو غنیمت قرار دیا ۔نقل ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام پانی پیتے وقت شدید گریہ فرماتے تھےاور جب آپ کے اصحاب اور محبان اسکی علت دریافت کرتے توحضرت فرماتے:کیسے گریہ نہ کروں! پرندےاور وحشی جانور پانی پینے کے لیے آزاد تھے جبکہ میرے بابا کو اس سے روک دیا گیا۔(۳۲)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے والد کی مظلومیت پر گریہ کرتے رہے جب بھی کھانے کی طرف یا پانی پینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو گریہ فرماتے یہاں تک کہ آپ کے ایک غلام نے آپ سے عرض کی:اے فرزند رسول صلی اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم اب کتنا گریہ کریں گے؟مجھے خوف ہے کہ اس طرح گریہ کرنےسے اپنے آپ کو نقصان(جانی نقصان) پہنچا لیں گے!!آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’قال اِنّما اَشکو بَثّی و حَزنی الی اللّه و اَعلمُ مِنَ اللّه مَا لاتَعلمون‘‘میں اپنے غم واندوہ سے حق متعال کی بارگاہ میں شکوہ کرتا ہوں اور وہ جانتا ہوں جسے تم لوگ نہیں جانتے۔(۳۳)۔
ایک اور شخص کے جواب میں جس نے آپ کے رونے پر اعتراض کیا فرمایا:وائےہو تم پر!یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے خدا نے اُن میں سے ایک کو باپ کی نظروں سے دور کیا تویعقوب اس کے فراق میں اس قدر روئے کہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گئے اور انکی کمر یوسف کے فراق میں جھک گئی (وہ جانتے تھے)کہ اُن کا بیٹا زندہ و سلامت ہے جبکہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے اپنے والد،چچا اور اپنے اہلبیت کے سترہ عزیز ترین عزیزوں کو شہید ہوتے دیکھا ہےمیں کیسے رونا چھوڑ سکتا ہوں۔(۳۴)۔
عزاداری سے متعلق قرآن مجید میں عملی مثال حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف کی جدائی میں رونا ہے۔ زمخشری کے نقل کے مطابق ستر سال حضرت یعقوب روتے رہے البتہ یہ فقط ایک باپ کا اپنے فرزند کے فراق میں رونا نہیں تھا بلکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ ایک نبی کے فراق میں رونا تھا۔
بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب یزیدلعین کی بیوی نے عبرت ناک خواب دیکھا اور یزید کے لیے نقل کیا تو یزید نے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں کی دلجوئی کے لیے انھیں بلایا اور اُن کی خواہشات پورا کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تو اہلبیت علیہم السلام نے فرمایا:ہمیں امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر عزاداری کی اجازت دی جائے۔تب یزید نے ان کے لیے عزاداری کے مقدمات فراہم کیے اس طرح اہلبیت علیہم السلام سات دن تک سید الشہداء پر عزاداری کرتے رہے۔(۳۵)۔
کتاب’’سیاہ پوشی در سوگ ائمہ نور علیہم السلام‘‘کے مصنف اس بارے میں یوں لکھتے ہیں:یزید کی بیوی ہند ہ کہتی ہے میں نے عالم خواب میں دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور فرشتے جوق در جوق امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جانب نازل ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:’’السلام علیک یابن رسول اللہ‘‘اسی خواب میں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو چومتےاور گریہ کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ہند ہ کہتی ہے میں پریشان حال نیند سے بیدار ہوئی تو اچانک میری آنکھیں ایسے نور پر پڑیں جو امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک سے بلند ہو رہا تھا اس ماجرا کو دیکھتے ہی میں یزید کو تلاش کرنے لگی تو اسے ایک تاریک کمرے میں غمزدہ حالت میں دیکھا جو خود سے کہہ رہا تھا’’مجھے حسین سے کیا لینا تھا؟‘‘میں نے اپنا خواب اسے سنایاتو اس نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا دیا۔
اس کتاب کا مصنف اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد یزید کو کربلا میں اپنے کیے پر پشیمان و نادم گردانتا ہے اور اسی کو یزید کی اہلبیت علیہم السلام سے ملائمت سے پیش آنے کی وجہ بیان کرتا ہے۔(۳۶)جبکہ یزید اپنے کیے پر نادم نہیں تھا وہ لوگوں میں اپنی حکومت کے خلاف احتمالی قیام سے خائف تھا اور اسی خوف کی وجہ سے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں سے اس طرح پیش آرہا تھا اور ان کی رضایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔کربلا کے واقعہ کے دو سال بعد حرہ کا واقعہ اور مدینہ منورہ میں یزیدی لشکر کی بے حرمتیاں اس حقیقت کی منہ بولتی دلیل ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر شہیدی لکھتے ہیں:
یزید نے مدینہ منورہ کی طرف جو لشکر بھیجاتھااس کے سردار مسلم بن عقبہ نے تین دن کے لیے مدینہ شہر کو اپنی فوج کے لیے مباح قرار دے دیا اور ان سے کہا جو چاہیں کریں جس کے نتیجہ میں کتنے ہی تہجد گزار مارے گئے،حرمتیں پائمال ہوئیں کتنی عورتوں کی عصمت دری ہوئی!خدا جانتا ہے کہ اس فاجعہ سے فقط ایک ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس لشکر کشی میں سپاہی سے لے کر امیر لشکر تک کسی کو بھی فقہ اسلامی کا علم نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اسےاسکی پرواہ نہ تھی۔(۳۷)۔
حضرات معصومین علیہم السلام نے عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور ہمیشہ اسکی یاد تازہ رکھنے کے لیے جن طریقوں کو اپنایا اُن میں سے ایک اچھے خطباء،شعرا اور اچھی آواز رکھنے والے افراد کی تونائیوں سے استفادہ کرنا تھا۔اَن افراد کو ‘‘منشید’’ کہتے تھے جسے ہم اپنی زبان میں ’’ذاکر‘‘کہتے ہیں۔البتہ مسلم ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام کے حضور قصیدہ خوانی،مرثیہ سرائی کرنے والے یہ ذاکرین ہر قسم کے غلو،توہین آمیز اورنادرست مطالب سے مبرا ہوا کرتے تھے۔واقعہ کربلا اس قدر دلخراش ہے کہ اس میں غلط بیانی سےاحساسات کو ابھارنے کی ضرورت نہیں جو متأسفانہ بعض ذاکر و خطیب حضرات انجام دیتے ہیں۔
اہلبیت علیہم السلام کا کاروان شام سے مدینہ کی طرف واپسی کے وقت کچھ مدت کے لیے مدینہ سے باہر رکا تو بعض اہل مدینہ نے کاروان والوں سے ملاقات کی جن میں سے ایک شخص’’بشیر بن جذلم‘‘تھا۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا:اے بشیر تمہارا باپ شاعر تھا کیا تم بھی شاعری کاذوق رکھتے ہو؟بشیر نے کہا:جی ہاں میں بھی شاعر ہوں۔حضرت نے فرمایا:کچھ اشعار کہتے ہوئے ہم سے پہلے مدینہ میں جاکرہماری مظلومانہ آمد اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کی خبر مدینہ والوں تک پہنچاؤ۔بشیر نے ان اشعار کو انشاء کیااور غمزدہ آواز میں انہیں اہل مدینہ کے درمیان پڑھ کر کاروان اہلبیت علیہم السلا م کی واپسی کی اطلاع دی:

یا اهلَ یثرب لا مُقامَ لکم بِها قُتِلَ الحسینُ و ادمعی مِدرارٌ
الجسمُ منه بکربلاءِ مفّرجٌ والرأسُ منه علیَ القناةِ یُدارُ

اے اہل مدینہ!اب مدینہ رہنے کی جگہ نہیں ،حسین علیہ السلام شہید ہو گئے اسی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہے ان کا مطہر بدن میدان کربلا میں خون میں لت پت پڑا ہے اور ان کا مقدس سر نیزہ پر سوار شہروں میں پھرایا گیا۔
ابی مخنف کے قول کے مطابق کوئی عورت بھی مدینہ میں باقی نہ بچی سب کی سب گھروں سے باہر نکل گئیں اور مردوں نےسیاہ لباس پہن لیا اور فریاد و فغاں کرنے لگے۔(۳۸)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کی عزاداری

شیعیان حیدر کرار کے روائی منابع میں موجود اکثر احادیث و روایات فقہی مسائل سے متعلق ہوں یا اسلامی آداب و سنن سے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب آپ علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہو کر’’جعفری‘‘کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی امیہ کی حکومت کا سلسلہ اپنے زوال کے قریب تھا اور بنی عباس ابھی اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ۱۱۴ھ۔ق سے ۱۴۸ ھ۔ق میں مجموعاً ۳۴ سال میں سے ۱۸ سال بنی امیہ کی آخری سانس لیتی ظالم حکومت اور ۱۶ سال بنی عباس کی حکومت کے ابتدائی مراحل میں گذارے ۔حضرت صادق علیہ السلام نے موجودہ شرائط سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اسلامی شیعی تمدن کو پھیلانے میں ہرممکنہ کوشش فرمائی اور فقہ شیعہ کی بنیادکو مضبوط اور عمیق مبانی سے آراستہ کرتے ہوئے بہت سے شاگردان کی تربیت فرمائی۔
کربلا کے واقعات اور امام حسین علیہ السلام اور اُن کے باوفا اصحاب کی مظلومانہ شہادت سے متعلق بہت سی روایات حضرت ہی سے نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
شيخ جليل كامل جعفر بن قولويہ اپنی کتاب ’’كامل‘‘میں ابن خارجہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ حضرت امام حسین کا ذکر ہوا حضرت بہت روئے اور ہم نےبھی حضرت کے ساتھ رونا شروع کر دیا ۔کچھ دیر کے بعد حضرت نے اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’انا قتیل العبرۃ لا یذکرنی مؤمن الا بکی‘‘(۳۹)میں ایسا شہید ہوں کہ جو مؤمن بھی میرے شہادت سے متعلق سنے گا تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گےاور اسی طرح ایک اورروایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی دن ایسا نہ تھا جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں حضرت سید الشہدا کا نام لیا جاتا اور حضرت اس دن تبسم فرماتے اور اس دن محزون حالت میں رہتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ امام حسین ہر مؤمن کےلئے رونے کا سبب ہیں۔
عبداللہ بن سنان سے روایت نقل ہوئی ہے کہ روز عاشور میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر مبارک میں شرفیاب ہوا اس وقت حضرت کے اطراف میں اصحاب بھی موجود تھے ۔حضرت کا چہرہ مبارک غمگین تھا اور گریہ بھی فرما رہے تھے۔میں نے عرض کیا:اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں گریاں ہیں؟حضرت نے فرمایا:کن سوچوں میں ہو کیا نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تھے؟(ابن سنان کہتا ہے حضرت کی اُس حالت نے حضرت کو مزید کچھ کہتے کی مجال نہ دی)حضرت کے یہ جملات سنتے ہی سب اصحاب بھی رونے لگے۔(۴۰)۔
زید الشحّام نقل کرتا ہے ایک دن حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیٹھا تھا کہ جعفر بن عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور امام علیہ السلام کے قریب بیٹھ گئے۔حضرت نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم امام حسین علیہ السلام سے متعلق شعر کہتے ہو۔جعفر نے کہا جی ہاں۔پھر جعفر نے امام کے حکم پر امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں اشعار پڑھے جنہیں حاضرین نے سنا اور گریہ کیا۔امام علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر بھی آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا:اے جعفر خداوند متعال کے مقرب فرشتوں نے بھی تمہارے اشعار سن کر اسی طرح گریہ کیاہے جس طرح ہم نے گریہ کیا۔پھر فرمایا:‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے لیے شعر کہے،خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رولائے خداوندمتعال جنت کو اس پر واجب کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔(۴۱)۔
محمد بن سہل کہتا ہےہم ایام تشریق(۴۲)میں شاعر‘‘کمیت’’کے ہمراہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور شرفیاب ہوئے۔’’کمیت‘‘نے حضرت سے عرض کیا اجازت ہے میں کچھ شعر پڑھوں؟حضرت نے اجازت مرحمت فرماتے ہوئےفرمایا:یہ ایام بہت بزرگ ہیں کہواور حضرت نے اپنے اہلبیت سے بھی فرمایا کہ آپ سب بھی نزدیک آجائیں اور کمیت کے اشعار سنیں۔کمیت نے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت و مصیبت میں کچھ اشعار کہے۔امام علیہ السلام نے اشعار سننے کے بعدکمیت کی بخشش اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔(۴۳)۔
شیخ فخر الدین طریحی نے اپنی کتاب‘‘منتخب’’میں روایت نقل کی ہے کہ جب بھی عاشورا کا چاند نمودار ہوتا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام غمگین ہوجایا کرتے تھے اور اپنے جد بزگوار سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ فرمایا کرتے تھے لوگ بھی اطراف و اکناف سے حضرت کے محضر میں شرفیاب ہوتے اور حضرت کے ساتھ مل کر عزاداری کرتے اور حضرت کو اس غم میں تسلیت پیش کیا کرتے اور جب عزاداری سے فارغ ہوجاتے تو حضرت فرمایا کرتے تھے:اے لوگو!جان لو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس زندہ اور مرزوق ہیں اور ہمیشہ اپنے عزاداروں کی طرف خاص توجہ فرماتے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے ناموں اور اُن کے لیے جنت میں جو مقامات آمادہ کیے گئے ہیں سب کو جانتے ہیں۔(۴۴)۔
اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت امام حسین علیہالسلام کی زبانی نقل فرماتے ہیں:اگرمیرے زائر اور عزادار جان لیں کہ خداوند متعال انہیں کیا اجر دے گا تو اُن کی خوشحالی ان کی عزاداری سے کہیں زیادہ ہوگی اور امام حسین علیہ السلام کا زائر اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہمیشہ مسرور حالت میں لوٹتا ہے ۔ حضرت کا عزادار اپنے مقام سے ابھی اٹھتا ہی نہیں کہ حق متعال اس کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے اوروہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے ابھی ماں سے متولد ہوا تھا۔(۴۵)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کے زندہ شاہد و ناظر ہونے پر تاکید کرنا در واقع قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں شہید کی خصوصیات بیان ہوئیں ہیں ۔بطور مثال آیت مبارکہ’’ولا تحسبنَّ الذین قُتلوا فی سبیلِ اللّهِ امواتا بَل احیاء عندَ ربِّهم یُرزقون‘‘(۴۶)یہ بات اس امر کی طرف متوجہ کرا رہی ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی یہ کوشش تھی کہ بنی امیہ کی اس سازش کو ناکام بنایا جائے جو انھوں نے آئمہ شیعہ کے بارے میں مشہور کررکھی تھی۔ بنی امیہ اِن بزرگوار ہستیوں کو اسلامی حکومت کے خلاف باغی متعارف کرواتے تھے جنہوں نے نام نہاد امیرالمؤمنین پر خروج کیا ہوجبکہ امام صادق علیہ السلام اِن محافل و مجالس کے ذریعہ امام حسین کی شخصیت کے ابعاد اور اُن حقائق مخفی کو آشکار فرماتے تھے اور اس بارے میں قرآن مجید جو تمام مسلمین کا متفق علیہ مأخذ ہے اس سے متوسل ہوتے تھے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اہتمام فرمانے سے متعلق بھی روایات میں موجود ہے لیکن ہم انہی جملات پر اکتفا کرتے ہیں۔جیسے امام علیہ السلام نے فرزند ارجمند نے ذکر کیا ہے۔’’کان أبي إذا دخل شهر المحرم لا يري ضاحكا و كانت الكآبة تغلب عليه حتي يمضي منه عشرة أيام فإذا كان يوم العاشر كان ذلك اليوم يوم مصيبته وحزنه وبكائه ويقول: هو اليوم الذي قتل فيه الحسين صلي الله عليه‘‘(۴۷)جونہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے لب مبارک سے مسکراہٹ ختم ہو جاتی کبھی بھی کسی نے آپ کہ اس ماہ ہنستے نہیں دیکھا آپ اسی طرح روز عاشور تک غمگین رہتے اور روز عاشور جو نہایت غم و اندوہ کا دن ہے حضرت فرماتے یہ وہی دن ہے جس دن میرے جد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا(۴۸)۔
حضرت امام علی ابن موسی رضا علیہ السلام سے ایک طویل روایت میں نقل ہوا ہے کہ ریّان بن شبیب نقل کرتا ہے میں پہلی محرم کے دن امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوا، آپ ارشاد فرماتے ہیں :حضرت نے مجھ سے فرمایا:شبیب کے فرزند امام حسین علیہ السلام پر اگر گریہ کرو تو جونہی تمہارے آنسو تہارے رخسار پر جاری ہوں حق متعال تمہارے وہ تمام گناہ جنہیں انجام دیتے آئے ہو معاف فرمادے گا۔پھر فرمایا اگر چاہتے ہو کہ جنت میں ہمارے درجات کی طرح ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غموں میں غمگین اور ہماری خوشحالی میں خوشحال رہا کرو۔
اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی بات پر رونا چاہتے ہو تو حسین بن علی علیہ السلام پر رویا کرو کیونکہ انھیں گوسفند کی طرح ذبح کردیا گیا اور انھیں ان کے اٹھارہ اہلبیت کے ساتھ شہید کردیا گیا جن میں سے کسی کی بھی روی زمین پر مثل و شبیہ نہیں تھی۔ان کی شہادت پر ساتوں آسمانوں اور زمینوں نے گریہ کیا،چار ہزار ملائکہ آپ کی نصرت کے لیے آسمان سے نازل ہوئے لیکن اس وقت آپ کی شھادت ہوچکی تھی پھر وہ اپنے بالوں کو پریشان کر کے اس میں مٹی ڈال کر ہمیشہ حضرت کی قبر مطہر کے پاس رہیں گے جب حضرت قائم آل محمد(عج)ظہور فرمائیں گے تو ان کے اصحاب میں سے ہوں گے اور حضرت سے لشکر میں جنگ کرتے ہوئے ان کا نعرہ یہ جملہ ہوگا:’’يا لَثاراتِ الْحُسِيْن عَلَيْهِ السَّلام‘‘اے شبیب مجھے میرے والد بزرگوار نے اپنے اجداد سے خبر دی کہ جب میرے جد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے آسمان نے خون برسایا اور زمین سرخ ہوگئی اے شبیب کے بیٹے اگر تم حسین علیہ السلام پر گریہ کرو تو اس سے پہلے کہ آنسوؤں کا پانی تمہارے چہرے پر جاری ہو حق متعال تمہارے تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرمادے گا خواہ وہ کم یا زیادہ ۔اے شبیب کے بیٹے اگر خداوندمتعال سے اس حالت میں ملاقات کرنا چاہو کہ تمہاری گردن پر کسی بھی گناہ کو بوجھ نہ ہو تو حسین علیہ السلام کی زیارت کرو۔
اے شیب کے بیٹے اگر تم جنت کے عالی مکانات اور غرفوں میں رسول خدا اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرو۔اے شبیب کے بیٹے اگر شہداء کربلا کی طرح کا ثواب لینا چچاہتے ہو تو جب بھی حضرت کی مظلومیت کو یاد کرو تو اس طرح سے کہو: ’’يا لَيْتَني كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوزَ فَوْزاً عَظيماَ‘‘اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اور اس عظیم فلاحی مقام پر فائز ہوجاتا۔
اے شبیب کے بیٹے اگر جنت کے عالی درجات میں ہمارے ساتھ ہونا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غمگین اور ہماری خوش میں خوشحال رہا کرو اور ہماری ولایت کے موالی رہو کیونکہ اگر کوئی شخص کسی پتھر کو پسند کرتا ہو اور اس سے محبت کرتاھوتوخداوندمتعال قیامت کے دن اسے اسی پتھر کے ساتھ محشور فرمائے گا۔ (۴۹)۔
اہلبیت علیہم السلام کا معروف مداح خوان دِعبل خُزاعی روایت کرتا ہے:عاشورا کے دن حضرت علی ابن موسیٰ رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے دیکھا حضرت اپنے اصحاب کے ہمراہ غمگین بیھٹے ہیں مجھے دیکھتے ہی حضرت نے فرمایا:مرحبا ہو تم پر اے دِعبل جو اپنے ہاتھ و زبان سے ہماری نصرت کرتے ہو۔حضرت نے مجھے نزدیک بلا کر اپنے پاس بھٹایا اور فرمایا:اے دِعبل اس دن ’’جو ہمارے لیے غم و اندوہ کا دن اور ہمارے دشمنان یعنی بنی امیہ کے لیے جشن و سرور کا دن ہے‘‘کی مناسبت سے میرے لیے کوئی شعر پڑھو۔
اے دِعبل جو بھی ہماری مصیبت اور مظالم پر
’’جسے ہمارے دشمنوں نے ہم پر ڈاھایا’’روئے اور دوسروں کو بھی رولائے تو حق متعال اسے ہمارے ساتھ ہمارے زمرہ میں محشور فرمائے گا۔پھر فرمایا : اے دعبل جو میرے جد امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر روئے خداوند متعال اس کے گناہ معاف فرمادے گا۔پھر امام اٹھے اور اپنے اہلبیت کے لیے ایک پردہ نصب کیا اور انہیں پردے کے اس طرف بھٹایا تاکہ وہ بھی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں پھر مجھ سے کہا :اے دعبل امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ پڑھو تم جب تک زندہ ہو ہمارے مداح و ناصر ہو اور اسی طرح ہماری نصرت کرتے رہو اور اس میں کوتاہی نہ کرو‘‘دِعبل کہتا ہے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔(۵۰)
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:محرم ایسا مہینہ ہے کہ زمان جاہلیت میں لوگ اس مہینہ جنگ کو حرام جانتے تھے لیکن اس جفاکار امت نے اس ماہ کی حرمت کا پاس نہ رکھا اور ہمارے خون کو حلال ،ہمارے احترام کو ضایع اور ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا۔ اہلبیت کے خیام کو آگ لگادی اور اُن کے اموال کو غارت کیا۔ہماری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہ رکھا۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز ہماری آنکھوں کو مجروح آنسوں کو جاری اور ہمارے عزیزوں کی بے احترامی کی گئی۔پس امام حسین علیہ السلام پر رونے والے روئیں چونکہ ان پر رونا بڑے بڑے گناہوں کو محو کردیتا ہے۔(۵۱)
حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

حضرت ولی عصرامام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزداری ان کے مصائب پر رونے کی نہایت اہمیت کے قائل ہیں اور اس بات کا اندازہ حضرت کی جانب سے نقل ہونے والی دو زیارتیں یعنی حضرت امام حسین علیہ کی زیارت اور شہداء کربلا کی زیارت ہیں جن میں حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے درد ناک مصائب ذکر فرماتے ہیں۔
حضرت امام زمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف سے نقل ہونے والی حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں: ’’ فَلاَندُبَنَّک صَباحاًوَمسآءًوَلَأَبکِیَنَّ بَدَلَ الدُّموعِ دَماً‘‘(۵۲)اے میرے آقا !خدا کی قسم؛میں دن رات آپ کی مظلومیت و مصیبت پر عزاداری کرتا اور آنسوؤں کے بدلے خون روتا ہوں۔حضرت پہلے فقرے میں اپنی عزاداری اور دوسرے فقرے میں آنسوؤں کی جگہ خون رونے کا ذکر فرماتے ہیں۔
حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا خون کے آنسورونا

محققین معتقد ہیں کہ انسان کی آنکھوں کے پیچھے خون کے تھیلے ہوتے ہیں جب انسان کے غم و حزن سے متأثر ہوتا ہے تو ان تھیلیوں کا خون پانی میں تبدیل ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں جاری ہوجاتا ہے اور اگر رونے کا یہ عمل غم کی شدت کی وجہ سےطویل اور شدید ہو جائے تو خون کو پانی میں تبدیل کرنے کا عمل مختل ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگتا ہے۔(۵۳)حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی مظلومیت اور مصیبت میں اس قدر عزاداری کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے بلکہ خون جاری ہوتا ہے اور کسی خاص وقت یہ عزاداری نہیں کرتا بلکہ پورا سال دن رات اپنے جد کی مظلومیت پر خون کے آنسو بہاتا ہوں۔
روایات میں ہے کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے دنیا والوں کو مخاطب قرار دے کر جو فریاد بلند کریں گے ان میں سے تین جملے حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق ہیں:’’أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْنطَرَحوهُ عُریاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً ‘‘(۵۴)اے دنیا والوں! میں آپ کا وہ امام ہوں جس کے قیام کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے، میں ظالموں کے خلاف انتقام لینے والی تیز دھاری والی تلوار ہوں،اے دنیا والو!میرے جد امجد حسین کو پیاسا شہید کردیا گیا ، اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کو مطہر جسم کو عریاں خاک کربلا پر چھوڑ دیا گیا! اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پائمال کردیا گیا۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے مجلس منعقد کریں گے اور اپنے مظلوم جد امجد کی عزداری کریں گے اور اپنے قیام کی ابتداء کو کربلا کے قیام سے متصل کرتے ہوئے دنیا والوں کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

پانچویں فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات




کیا وجہ ہے کہ ہر مناسبت پر حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے اور حضرت کی عزاداری کی اس قدر تاکید کی جاتی ہے؟ اس کی حقیقت یہی ہے کہ شیعتہ ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکتب فکر،مکتب تعلیم،مکتب تربیت کا نام ہے اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام اس مکتب کے مربی ہیں۔ ہر مناسبت سے حضرت سید الشہدا کی یاد کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مکتب زندہ رہے، شہادت طلبی کی روح زندہ رہے اور اگر یہ زندہ ہیں تو اسلام زندہ ہے یعنی اسلام کی حیات تا روز قیامت،تا روز حشر ذکر حسین کے مرہون منت ہے ۔اگر ذکر حسین زندہ ہے تو اسلام زندہ ہے۔ حضرات معصومین علیہم السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نجات کی کشتیاں ہیں لیکن ہم سب میں حسین کی کشتی سریع اور تیز تر ہے۔
عزاداری امام حسین علیہ السلام پر تاکید کی وجہ

ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال ابھرے کہ کیا وجہ ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام نے ہر خوشی اور غم کی مناسبت پر امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی ہی کیوں اس قدر تاکید فرمائی ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا الہٰی اقدار کی طرف رغبت دلانے والا انسان ساز مکتب جب تک زندہ ہے خون کی تلوار پر فتح و کامیابی کا یہ عملی نمونہ لوگوں کے درمیان زندہ رہے گا جس سے درس لیتے ہوئے اور مشعل راہ قرار دیتے ہوئے وہ ہر یزید زمان کے مقابلے میں آسانی سے قیام کرسکیں گے اور اس طرح قیامت تک الہٰی اقدار حسینیت کی ان مجالس کی مرہون منت رہیں گی۔ اسی وجہ سے حضرات معصومین علیہم السلام نے ہزاروں شاعروں،مصنفوں،خطیبوں کی توانائیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس مکتب کو قیامت تک زندہ رکھنے اور اس مکتب کے چاہنے والوں کو ‘‘یا حسین’’ کے پرچم تلےوحدت و اتحاد سے جمع رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اسی لیے اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ اس عزاداری کے مقابلے میں آنے اور اس کا راستہ روکنے اور اس کی وحدت کو سبکتاژ کرنے کی کوشش کی ہے
حضرات معصومین علیہم السلام کی روش سے لوگوں کا متعارف ہونا

یہ مجالس حضرات معصومین علیہم السلام کی سیرت اور ان کے اہداف کو بیان کرنے کے لیے بہترین پٹیک فارم ہیں اور جو لوگ ان مجالس و محافل میں شرکت کرتے ہیں ان کے دل معارف اہلبیت علیہم السلام دریافت کرنے کے لیے مکمل آمادہ ہوتے ہیں۔لہٰذا کہ مجالس اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے اسلام کے حقیقی اور نایاب معارف حاصل کرنے کی درس گاہ ہیں اور انہی سے اسلام کا دفاع ممکن ہے۔
حجج الہٰی سے دلی وابستگی ایجاد ہونا

حضرت معصومین علیہم السلام نے ان مجالس کو منعقد کرنے کی بہت تاکید کی ہے اور ان مجالس کا مطلب در حقیقت معصومین علیہم السلام کے دستورات کی مکمل اطاعت کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام اپنے تابعین کی اس مخلصانہ اطاعت کا ضرور جواب دیں گے یعنی ان مجالس کے شرکاء پر حضرات کی خاص عنایات ہوں گی۔
معاشرے میں رائج انحرافات سے آشنائی

جب عاشورا کے واقعہ میں خاندان اہلبیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم اور ان کے مد مقابل نام نہاد مسلمانوں کے عقیدتی وفکری انحرافات کو بیان کیا جائے گا تو اس طرح خلافت کے کاذب اور جھوٹے مدعیوں کے حقیقی چہروں سے نقاب ہٹ جائے گا اور اس طرح فطری طور پر لوگ اس زمانے کے حالات کا اپنے فعلی اور جاری حالات سے موازنہ کریں گے ۔اسی طرح اپنے معاشرے کی بھی انہی اقدار کے مطابق اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے اور یزید وقت سے اظہار بیزاری کرتے رہیں گے ۔انہیں یہ یقین ہوجائے گا کہ یزیدیت کا ظلم اور اس کے انحرفات کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانے میں اور ہر معاشرے میں مؤمنین کو یزیدیت کا سامنار ہےگاباالفاظ دیگر یہ مجالس عزا لوگوں کی بصیرت اور آگاہی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور انسان کے اس کی وظیفہ سے آشنا کرواتی ہیں۔
سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا ثواب

علی بن حمزہ کے والد حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:’’انّ البکاء و الجزع مکروه للعبد فی کلّ ما جوع، ما خلا البکاء علی الحسین بن علی (ع) فانّه فیه مأجور‘‘(۵۵) حضرت امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کے علاوہ ہر مصیبت میں رونا مکروہ ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام رونے کا ثواب ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ارشاد فرماتے ہیں:’’یا فاطمهْ!کلّ عین باکیهْ یوم القیامهْ، الاّ عین بکت علی مصاب الحسین(ع) فإنّها ضاحکهْ مستبشرهْ بنعیم الجنهْ‘‘(۵۶)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے گی مگر وہ آنکھ جو حسین (علیہ السلام) پر روتی رہی ہو وہ قیامت کے دن وہ خوشحالی سے مسکرائے جبکہ اسے جنت کی نعمتوں کی بشارت دی جائے گی۔
۔1 – پیغمبر اکرام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اپنی بیٹی حضرت زهرا علیانالسلام سے فرماتے ہیں:’’کل عین باکیة یوم القیامة الا عین بکت علی مصاب الحسین فانها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة‘‘(۵۷)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے کی مگر وہ آنکھ جو حسین کے مصائب میں روئی ہو وہ قیامت کے دن خوشحال ہوگا اور جنتی نعمات سے بہرہ مند ہو گا۔
۔۲۔ یہ روایت بھی اختلاف الفاظ کے ساتھ مشہور ہے کہ حضرات معصومین علیہم ‏السلام سید الشہداء علیہ السلام پر رونے کے اجر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’۔۔۔ من بکی او أبکی مأة ضمنا له علی الله الجنة ۔۔۔‘‘۔’’۔۔۔ و من بکی او ابکی خمسین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ثلاثین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی عشرة فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی واحدا فله الجنة، و من تباکی فله الجنة‘‘(۵۸)۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ سو افراد کو بھی رولائے ہم اس کی جنت کے ضامن ہیں۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ پچاس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ تیس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ دس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے؛
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ ایک شخص افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پررونے والی حالت اختیار کر لے وہ جنتی ہے۔
۔۳۔ داود ترقی کہتا ہے:میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں تھاجب حضرت نے پانی مانگا اور جب پانی پی لیا تو حضرت کی آنکھوں سےآنسو جاری ہو گئے اور فرمایا: قاتلیں حسین علیہ السلام پر لعنت
پھر فرمایا جو کوئی بھی پانی پیتے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجے ۔خداوندمتعال اس کے نامۂ عمل میں ایک لاکھ نیکیوں کا اضافہ فرمائے گا اس کے گناہ معاف فرمادے گا اس کے درجات میں ایک لاکھ درجات کا اضافہ فرمائے گا وہ اس کی مانند ہو گا جس نے راہِ خدا میں ایک لاکھ غلام آزاد کیے ہوں اور قیامت کے دن خداوندمتعال اسے اطمینان قلب کے ساتھ محشور فرمائے گا۔(۵۹)۔
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے گناہوں کا مٹ جانا

ایک دن مرحوم سید بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ تنہا پیدل سامراء کی زیارت کے لیے نکل پڑے اور راستے میں یہ سوچ رہے تھے کہ کیسےحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟اسی وقت متوجہ ہوئے کہ ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے ان کے پاس پہنچتا ہے۔ انھیں سلام کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ اے سید کیاسوچ رہے ہو؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتاؤ ہم بھی سنیں؟
مرحوم سید بحر العلوم فرماتے ہیں:میں یہ سوچ رہا ہوں کہ خداوندمتعال کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اتنا بڑا ثواب ان کے زائرین اور عزادری کرنے والوں کو عنایت فرماتا ہے ؟مثلاً وہ زیارت کے سفر میں جو قدم بھی اٹھائیں ہر قدم کے بدلے میں انھیں ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں اضافہ فرمادیتا ہے۔۔۔ اور عزادری میں آنسو کا ایک قطرہ بہانے سے عزادار کے گناہ محو ہوجاتے ہیں۔؟
اس سوار نے فرمایا:تعجب نہیں کرو! میں اس مسئلہ کے حل کے لیے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
ایک بادشاہ اپنے درباریوں کے ہمراہ شکار کے لیے نکلتا ہے شکارگاہ میں وہ اپنے ساتھیوں سے گم ہو جاتا ہے اور نہایت مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے بھوک اور پیاس سے بےحال ہوجانے کے بعد ایک خیمہ کو دیکھتا ہے اور اس خیمے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس خیمہ میں ایک بوڑھی عورت کو اس کے بچے کے ساتھ دیکھتا ہے ان کے پاس خیمہ میں ایک دودھ دینے والی بھیڑ ہوتی ہے وہ لوگ اسی جانور کے دودھ سے اپنا گذر بسر کرتے تھے۔ جب سلطان ان کے خیمہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسے نہیں پہچانتے لیکن اپنے مہمان کی خدمت کے لیے وہ اپنی تنہا جمع پونجی یعنی بھیڑکو ذبح کردیتے ہیں اور گوشت سے کباب بنا کرسلطان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔سلطان رات ان کے پاس قیام کرتا ہے اوردوسرے دن ان سے خداحافظی کرنے کے بعد جس طرح بھی ہوا اپنے ساتھیوں سے جاملتا ہے اور انھیں تمام ماجرا سے آگاہ کرتا ہے ۔ پھر ان سے دریافت کرتا ہے کہ ان سب کی نظر میں اگر میں اس بوڑھی عورت اور اس کے بیٹے کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ایک نے کہا:انھیں سو بھیڑیں عنایت فرمائیں۔
دوسرے نے کہا:سو بھیڑوں کے ساتھ سو اشرفی بھی عنایت فرمائیں۔
تیسرے نے کہا:انھیں ایک زرعی زمین بھی ان کے ساتھ عنایت فرمائیں۔
سلطان نے کہا :میں جو کچھ بھی دوں وہ کم ہے ۔ اگر میں انھیں اپنا تاج و تخت دے دوں تو اسی وقت ان کے ساتھ مقابلہ بالمثل ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ میرے اوپر قربان کردیا تھالہذا مجھے بھی اپنا سب کچھ انھیں دے دینا چاہئے تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
پھر سوار نے سید بحر العلوم سے کہا:حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنا سب کچھ یعنی مال و منال، اہل و عیال،بیٹے،بھائی،بیٹی،بہن،سر،بدن سب کچھ خداوندمتعال کی راہ میں قربان کردیا۔تو پھر اگر خداوندمتعال اس مظلوم امام کے زائرین اور عزاداروں کے اس طرح کے ثواب و اجر دےتوتعجب نہیں کرنا چاہیے۔چونکہ خدا اپنی خدائی تو سید الشہداء کو نہیں دے سکتا تو پھر اپنے عالی مقام کے علاوہ جو کچھ بھی حضرت کے زائرین کو عنایت فرمائے اس کے باوجود بھی اس فداکاری کی مکمل جزا کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔
سوار ان مطالب کو کہنے کے بعد سید بحر العلوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔(۶۰)۔


نتیجۂ فکر

اس مقالہ کے اختتام پر حضرات معصومین علیہم السلام کا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری برگزار کرنے کے ہدف سے متعلق کچھ نکات ذکر کرتے ہیں:
۱۔حضرات معصومین علیہم السلام کا عزاداری کی محافل منعقد کرنے کا ہدف امام حسین علیہ السلام کی حقانیت اور یزیدی واموی دعوؤں کو جھٹلانا تھا۔یعنی اسلامی معاشرے کے عمومی اوضاع کچھ اس طرح تھے کہ حتی حضرات کے بعض اصحاب بھی اس موضوع سے غافل تھے۔(۶۱)اسی لیے حضرات معصومین علیہم السلام سے نقل ہونے والی دعاؤں،روایات میں معصومین نے اس نکتہ کی طرف مرتب اشارہ فرمایا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اسلامی احکام کی احیاء نماز اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا۔(۶۲)۔
۲۔حضرات معصومین علیہم السلام امام حسین علیہ اسلام کی عزاداری کے ذریعہ اپنے آپ کو امام حسین علیہ السلام سے منسوب فرما کر اپنی حقانیت اور اپنے زمانے کے حکمرانوں کے بطلان کو اثبات کرتے تھے۔عزاداری سید الشہداء کو مؤثر جانتے تھے ظالم حکمرانوں کے خلاف مبارزہ و جدوجہد میں امام رضا علیہ السلام جب امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو بیان فرماتے تو‘‘آپ’’کی جگہ’’ہم‘‘کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔یعنی فرماتے اِس ظالم و جفاکار امت نے ہمارے خون کو حلال اور ہمارے احترام کو پائمال کیا۔ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا، ہمارے خیام کو آگ لگائی،ہمارے اموال کو غارت کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے حق میں احترام کا لحاظ و پاس نہ رکھا۔(۶۳)۔
مشہور ومعروف حدیث جسے حدیث ’’سلسلۃ الذہب‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،اس حدیث میں بھی حضرت امام رضا علیہ السلام نے توحید کے قلعہ میں داخل ہونے اور عذاب الہٰی سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی ولایت کی قبولی کو شرط بیان فرمایا ہے۔’’کلمة لااله الااللّه حصنی فَمن دَخلَ حصنی اَمِن مِن عذابی بشرطها و شروطها و اَنا مِن شروطها‘‘(۴۰)اس سلسلہ میں حضرات معصومین علیہم السلام قرآن مجید کی آیات سے استدلال لاتے تھے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے مورد اعتماد ہے جیسے وہ آیات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے امت پر حقوق کو بیان کرتی ہیں۔’’ قُل لا اسألکم علیه اجرا الاّ المودةَ فِی القُربی‘‘
(۶۴)جیسے آخری روایت میں بیان ہوا ہے یا پھر ایک دوسری روایت میں قرآن مجید کی ان آیات سے تمسک کیا گیا ہے جس میں شہید راہِ حق کی خصوصیات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔(۶۵)۔
حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی کیفیت سے متعلق بھی روایات اور تاریخی شواھد میں کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ یہ مراسم اس ادعیٰ کے برعکس’’جس میں کہا ہے کہ یہ مجالس مخفیانہ منعقد ہوا کرتی تھیں‘‘حضرات معصومین علیہم السلام کی سعی و کوشش یہی ہوا کرتی تھی کہ اِن مراسم کو اپنے اصحاب کے اجتماع میں حتی اپنے اہلبیت کے حضور میں علنی طور پر منعقد کریں۔
ابن قولویہ ابن ہارون مکفوف(۶۶)سے روایت کرتے ہیں میں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا حضرت نے مجھ سے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر کوئی شعر پڑھو ابو ہارون نے اپنے انداز میں کتاب سے دیکھ کر کچھ اشعار پڑہے تو حضرت نے فرمایا:اسی طرح پڑھو جس طرح تم حضرت کی قبر اطہر پر جا کر مرثیہ خوانی کرتے ہو!یعنی سوز و حزن کے لہجے میں پڑھو۔اس نے کہا میں نے یہ اشعار پڑھے:

امر علی حدثِ الحسینِ فقُل لاِعظُمهِ الزکیّه

یعنی امام حسین کے مزار اقدس سے گذروتو حضرت کی پاک و مطہر ہڈیوں سے کہو۔
حضرت نے رونا شروع کیا تو میں خاموش ہوگیا۔حضرت نے فرمایا:پڑہو میں نے مزید کچھ اشعار پڑھے۔پھر حضرت نے فرمایا:مزید پڑھو میں نے اِس شعر کو پڑھا۔

یا مریم قومی فانّه بی مولاکِ و علی الحسینِ فاسعدیِ ببکاکِ

پس حضرت نے بکاء فرمایا اور حضرت کے اہلبیت کی فریادیں بھی بلند ہوئیں پھر جب خاموش ہوئے تو فرمایا:اے ہارون جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور دس افراد کو رولائے اس پر جنت واجب ہے۔پھر حضرت نے رونے والےافراد کی تعداد میں کمی کرنا شروع کردی یہاں تک کہ ایک شخص تک پہنچ گئے اور فرمایا:’’جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور ایک شخص کو رولائے اس پر جنت واجب ہے‘‘۔(۶۷)۔
اس روایت سے واضح معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام محزون و سوزناک آواز سے عزاداری کی تشویق و ترویج فرمایا کرتے تھے اور اس حالت میں عزاداری کے لیے زیادہ فضیلت و ثواب کے قائل تھے۔اور سعی وکوشش فرمایا کرتے تھے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اِن محافل میں شرکت کروائیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے شوق اور رغبت دلانے کے انداز میں فضیل بن یسار سے فرمایا:کیا ایسی مجلس کا انعقاد کرتے ہو جس میں ہمارے متعلق گفتگو ہو؟فضیل نے عرض کیا۔

جی ہاں!امام علیہ السلام نے فرمایا:میں اِن محافل و مجالس کو پسند کرتا ہوں لہٰذا ہمارے ہدف کو زندہ رکھو۔خداوند متعال رحمت فرمائے اس شخص پر جو ہمارے امر(مقصد) کو زندہ کرے۔اے فضیل جو بھی ہمیں یاد کرے یا اسکے پاس ہمرا ذکر ہو اور اس کی آنکھوں میں مکھی کے پُر کے برابر آنسو آجائیں خداوند متعال اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔(۶۸)
اس آخری روایت سے متعلق ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق اس قسم کی احادیث و روایات جن میں گناہوں کی بخشش کا ذکر ہوا ہے گناہوں کے ارتکاب و محرمات الہیٰ کے انجام دینے اور واجبات الہٰی کو ترک کرنے کا مجوزہ سرٹفکیٹ تصور کرلیتے ہیں جبکہ خود حضرت امام حسین علیہ السلام نے حرام الہٰی یعنی ظالم و فاسق حکمران کی بیعت کو ترک کرنے اور شرعی واجبات یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا تھا اور اسی ہدف میں شہید ہوئے تھے۔
خود روزِ عاشور نماز ظہر کو ان سخت اور دشوارحالات میں ادا کرنا،دشمن سے آخری رات قرآن مجید کی تلاوت و حق متعال سے راز و نیاز کے لیے مہلت طلب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو قرآن مجید اور نماز سے دلی وابستگی تھی لہٰذا شاید حضرات معصومین علیہم السلام کی عملی سیرت کو شاہد بنا کر اس قسم کی روایات کی اس طرح سے تفسیر کی جاسکتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اسلامی معاشرے میں امید کی ایک کرن ایجاد کرتی ہے مخصوصاً گناہگاروں کے دلوں میں کے انھوں نے جتنے بھی گناہ کیے ہوں انھیں رحمت الہٰی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے آئیں اور امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کرکے اپنے گناہوں کی اس وسیلہ کے ذریعہ بخشش طلب کریں اور یہ عزاداری ان کی گذشتہ ناپاک زندگی سے نجات اور آئندہ کی شفاف زندگی کا باعث بنے گی لہٰذا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اُن کے گذشتہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ضرور ہے لیکن آیندہ گناہ کرنے کا سرٹفکیٹ ہرگز نہیں بلکہ عزاداری حضرت سید الشہداء علیہ السلام تو گناہوں سے روکتی ہے اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتی ہے اور بالفاظ دیگر عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام خود سازی کا آسان ذریعہ ہے۔

۔(۱)۔قرآن مجید،سورۂ شوری، آیت نمبر۲۳۔

۔۲۔سيد على بن موسى بن طاوس، إقبال الأعمال،دار الكتب الإسلامیہ تہران،۱۳۶۷ھ۔ش۔

۔۳۔ محمدحسین مظفّر، تاریخ شیعہ، ترجمہ محمدباقر حجتی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۸، ص ۶۹۔
۔۴- مقرم،مقتل الحسین علیہ السلام،ص ۲۸۳۔
۔۵۔قرآن مجید، سورۂ بقره، آیت نمبر ۳۷۔
۔۶۔ ملا محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق(۱۹۸۳م) ج۴۴ص۲۸۳
۔۷۔ ایضاً ،ص۲۸۸۔
۔۸۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۱۱۰۔
۔۹۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۵،ح۱۸۔
۔۱۰۔جعفربن محمد بن قولویہ، کامل الزیارات، نجف، مطبعہ المرتضویہ، ۱۳۵۶ق، ص۳۵۶، باب۷۸، ح۳۔
۔۱۱۔ محمد بن علی بن بابویہ(شیخ صدوق)،امالی،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای،تہران،کتابخانہ اسلامی،۱۳۶۲ش،ص۳۱۷
۔۱۲۔شیخ صدوق،ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،ص۸۵
۔۱۳۔کامل الزیارات،ص۲۶۲،باب۵۴،ح۱
۔۱۴۔سورۂ بقرہ آیت نمبر۳۷
۔۱۵۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۵،ح۴۴۔
۔۱۶۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
۔۱۷۔سید موسیٰ جوادی،سوگنامہ آل محمد،ص۳۴،مکتبہ امام رضاؑ
۔۱۸۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،۲۴۴،ح۳۹
۔۱۹۔ایضا،ص۲۴۴،ح۴۲
۔۲۰۔مستدرک الوسائل،ج۱۰،ص۳۱۸
۔۲۱۔ایضاً،ص۲۴۴،ح۴۱
۔۲۲۔ایضاً،ص۳۰۸و۲۴۴و۲۷۹
۔۲۳۔ایضاً،ص۲۲۳
۔۲۴۔ایضاً،ح۴۳
۔۲۵۔مقتل،حافظ ابوالمؤید خوارزمی،ج۱فصل۶ص۸۸
۔۲۶۔مستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،ج۳ص۱۷۶
۔۲۷۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۶۵
۔۲۸۔کنزالعمال،ج۶،ص۲۲۳
۔۲۹۔مقتل خوازمی،ج۱ص۱۵۹
۔۳۰۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۲۵۲و۲۵۴
۔۳۱۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)، ترجمہ ابوالقاسم پابندہ، ۱۳۶۲،ج ۷ص۳۱۰۳۔
واقعہ حرہ جو ۶۲ھ۔ق میں ہوا(البتہ بعض مؤرخین نے اسے ۶۳ھاور بعض نے ۶۴ھلکھا ہے)عبداللہ بن حنظلہ نے اہل مدینہ کی مدد سے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اموریوں کی حکومت کے مدینہ میں نمائندے مروان بن حکم پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد حکومت اپنے ہاتھ لے لی۔
۔۳۲۔ابوالفداء(اسماعیل)ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، بیروت، مکتبہ المعارف، ۱۹۷۷م، ج۹، ص۱۰۷۔
۔۳۳۔سورۂ یوسف آیت نمبر ۸۶ رجوع فرمائیں، امالی، مجلس۲۹، ص۱۴۱۔
۔۳۴۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۵
۔۳۵۔بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۹۶
۔۳۶۔علی ابوالحسنی(منذر)سیاھپوشی در سوگ آئمہ نور علیہم السلام،قم،الاقدی،۱۳۵۷،ص۱۲۶۔
۔۳۷۔جعفر شیدلی،تاریخ تحیلیل اسلام تا پایان امویان،تہران،مرکز نشردانشگاہی،۱۳۸۰،ص۱۹۰۔
۔۳۸۔ازدی کوفی،نصوص من تاریخ ابی مخنف،ج۱ص۵۰۳کے بعد
۔۳۹۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۳۹
۔۴۰۔شیخ صدوق،امالی،مجلس۲۷
۔۴۱۔سید شرف الدین، فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی ؑ، ترجمہ علی صحت، تہران، مرتضوی، ۳۵۱ص۶۸۔
۔۴۲۔دسویں،گیارہویں،بارہویں ذی الحجہ کو حاجی حضرات اعتکاف کی حالت میں منی میں بیتوتہ کرتے ہیں ان ایام کو ‘‘ایام تشریق’’ کہتے ہیں۔
۔۴۳۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲
۔۴۴۔فخر الدین طریحی،المنتخب الطریحی،قم،منشورات الرضی،۱۳۶۲ش،ج۲،ص۴۸۲۔
۔۴۵۔سورۂ بقرہ،آیت نمبر۱۵۵
۔۴۶۔بحار الانوارج۴۴ص۲۸۴
۔۴۷۔منتہی الاعمال،شیخ عباس قمی
۔۴۸۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲
۔۴۹۔امالی،مجلس ۲۷،ص۱۲۹و۱۳۰
۔۵۰۔زیارت ناحیہ
۔۵۱۔شیرازی،سید محمد صادق،قطرہ ای از اقیانوس بلا،ص۱۸،انتشارات یاس زہرا،قم،۱۳۸۴ش
۔۵۲۔بحار الانوار،ج۱۰۱،ص۳۲۰
۔۵۳۔ایضاً،ج۴۴،ص۲۹۳
۔۵۴۔سید ابن طاووس،لہوف،ص۱۱
۔۵۵۔بحار الانوار،ج۴۴ص۳۰۲
۔۵۶۔عباس موسوی مطلق،توجہات امام زمان
۵۷۔حضرت امام صادق علیہ السلام نے عبداللہ بن سنان(جو آپ کے اصحاب میں سے تھے)کے جواب میں جب اس نے آپ اور آپ کے اصحاب کے غمگین ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:کیا تم نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔رجوع فرمائیں،علی ربانی خلخلالی،عزاداری از دیدگاہ مرجعیت شیعہ،قم،مکتب الحسینی،۱۴۰۰ق،ص۳۰۔
۵۸۔مثال کے طور پر زیارت امین اللہ کی دعا جو حضرت امام سجاد علیہ السلام سے منسوب ہے اور زیارت عاشورہ جو حضرت امام باقر علیہ السلام سے منسوب ہے۔
۔۵۹۔امالی،مجلس۲۷،ص۱۲۸
۔۶۰۔شیخ صدوق،عیون اخبار رضا،ترجمہ محمد تقی اصفہانی،علمیہ اسلامی،ج۱ص۳۷۴
۔۶۱۔سورۂ شوری،آیت نمبر ۲۳
۔۶۲۔مکفوف نابینا کے معنی میں ہے اور ابو ہارون کے نابینا ہونے کی وجہ سے اسے مکفوف کہتے تھے۔
۔۶۳۔شیخ عباس قمی،منتہی الآمال،ص۷۰۷
۔۶۴۔سید شرف الدین،فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی،ص