Monday, June 22, 2015

تقلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟

قلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟تت



ہرمسلمان ، بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کاقرآن و سنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ” فاسئلوا ا ھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “(اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو(۱)۔

جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تو معلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے باخبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(صلی اللہ علیہ و الہ)سے آج تک اعلمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔

شیعوں کی تقلید کا سلسلہ ائمہ اثنا عشرتک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی نہج پر جاری رہا۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی، کیونکہ ان کے نزدیک نصوص قرآن وسنت ہی لائق اتباع تھیں۔لہذا انہوں نے کبھی بھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے توان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر مجتہد فقہاء کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انہوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت و ارتقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں۔ جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یا جسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو رکھنا یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔

اور مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایاںمقام پر فائز ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہاجاتا ہے۔

شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہ کی تقلید کرتے رہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انہیں جواب دیتا ہے۔

اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعت اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب وسنت کی حفاظت کی ہے اور آئمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علماء کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب(علیہ السلام)ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے(۲)۔

۱۔ سورہ نحل ، آیت ۴۳۔

۲۔ شیعہ ہی اہل سنت ہیں، ص ۱۸۷۔

اجتھاد اور تقلید



  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم 
  1. وما کان المومنون لینفردا کافة فلو لانفر من کل فرقة منھم طائفة لیفقھوا فے الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا الیھم لعلھم یحذرون 
  1. "تمام مومنوں کے لئے کوچ کرنا تو ممکن نہیں ہے مگر ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کا علم حاصل کرے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرے‘ شاید وہ اس طرح ڈرنے لگیں۔"(توبہ‘ ۱۲۲) 


  1. اجتہاد کی تعریفآج کل اجتہاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ہوا ہے‘ آج بہت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ہیں یا اپنے ذہن میں سوچتے ہیں کہ اسلام میں اجتہاد کی کیا حیثیت ہے؟ اسلام میں اس کا مآخذ کیا ہے؟ تقلید کیوں کی جاء؟ اجتہاد کے شرائط کیا ہیں؟ مجتہد کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ مقلد کے فرائض کیا ہیں؟ 
  1. اجمالی طور پر اجتہاد کا مطلب دینی مسائل میں مہارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ہونا ہے‘ لیکن ہم شیعوں کے نقطہ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ہونے کی دو صورتیں ہیں‘ جائز اور ناجائز۔ اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ 


  1. ناجائز اجتہادہمارے نقطہ نظر سے ناجائز اجتہاد کا مطلب قانون سازی ہے یعنی مجتہد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے‘ اسے اصطلاح میں "اجتہاد بالرائے" کہتے ہیں۔ شیعی نقطہ نظر سے اس قسم کا اجتہاد منع ہے‘ لیکن اہل سنت اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اہل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجتہاد‘ اجتہاد کو… جس سے مراد اجتہاد بالرائے ہے… قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ 
  1. اس اختلاف نظر کا سبب اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ کتاب و سنت کے ذریعے بننے والے قوانین محدود ہیں‘ حالانکہ واقعات و حادثات لامحدود ہیں‘ لہٰذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ہے جس کے سہارے الٰہی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وہی ہے جسے ہم "اجتہاد بالرائے" کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ انہوں نے اس سلسلے میں رسول اکرم سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ہیں‘ من جملہ یہ کہ رسول خدا جس وقت معاذ بن جبل کویمن بھیج رہے تھے‘ ان سے دریافت فرمایا کہ تم وہاں کیسے فیصلے کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت نے فرمایا‘ اگر کتاب خدا میں تمہیں اس کا حکم نہ مل سکا؟ معاذ نے عرض کیا‘ رسول خدا کی سنت سے استفادہ کروں گا۔ حضرت نے فرمایا‘ اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ اجتہد رائی یعنی اپنی فکر‘ اپنی رائے‘ اپنے ذوق اور اپنے سلیقے سے کام لوں گا۔ کچھ اور حدیثیں بھی اس سلسلے میں ان لوگوں نے نقل کی ہیں۔ 
  1. "اجتہاد بالرائے" کیا ہے؟ اور کس طرح انجام پانا چاہئے؟ اس سلسلے میں اہل سنت کے یہاں خاصا اختلاف ہے۔ شافعی کو اپنی مشہور و معروف کتاب "الرسالہ" میں… جو علوم اصول فقہ میں لکھی گئی‘ پہلی کتاب ہے اور میں نے اسے پارلیمنٹ کی لائبریری میں دیکھا ہے‘ اس میں ایک باب "باب اجتہاد" کے نام سے بھی ہے‘ شافعی کو اس میں… اس بات پر اصرار ہے کہ احادیث میں "اجتہاد" کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے صرف "قیاس" مراد ہے۔ قیاس کا مطلب… اجمالی طور پر… یہ ہے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سامنے درپیش قضیہ میں ان ہی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں۔ 
  1. لیکن بعض دوسرے سنی فقیہوں نے اجتہاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نہیں جانا ہے بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ہے۔ استحسان کا مطلب یہ ہے کہ مشابہ موارد کو مدنظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائزہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ہو‘ نیز ہمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں۔ اسی طرح "استصلاح" بھی ہے‘ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ایسے ہی "تاوّل" بھی ہے یعنی اگرچہ کسی دینی نص‘ کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ہے لیکن بعض وجوہات کے پیش نظر ہمیں نص کے مفہوم و مدلول کو نظرانداز کر کے اپنی "اجتہادی رائے" مقدم کرنے کا حق ہے۔ ان اصطلاحوں کے متعلق تفصیلی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے اور اس طرح شیعہ سنی کی بحث بھی چھڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں یعنی نص کے مقابلے میں اجتہاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور شاید سب سے اچھی کتاب "النص و الاجتہاد" ہے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے۔ 
  1. شیعہ نقطہ نظر سے اس طرح کا اجتہاد ناجائز ہے‘ شیعوں اور ان کے آئمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیاد ہی… یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی فکر و رائے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے… درست نہیں ہے‘ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ ہر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ہے کتاب "وافی" میں باب البدع والمقائیس" کے بعد ایک باب ہے جس کا عنوان یہ ہے: 
  1. باب الرد الی الکتاب والسنة وانہ لیس شئی من الحلال و الحرام وجمیع ماتحتاج الیہ الناس الا وقد جاء فیہ کتاب او سنة(کافی‘ جلد ۱‘ کتاب العلم‘ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ہر حلال و حرام اور عوام کی ضروریات قرآن و سنت میں موجود ہیں) 
  1. قیاس و اجتہاد کو قبول یا اسے رد کرنے کے متعلق دو جہتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہی جہت جسے میں نے بیان کیا کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سرچشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ہوئے کہیں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا حکم وحی کے ذریعے بیان نہیں ہوا ہے‘ اب یہ مجتہدوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم بیان کریں‘ دوسری جہت یہ ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل‘ مثلاً خبر واحد سے استفادہ کرتے ہیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ہے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ہے اسے طریقیت کی حیثیت دیں۔ 
  1. شیعہ فقہ میں قیاس و اجتہاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نہیں ہے‘ پہلی جہت اس لئے معتبر نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کا حکم (چاہے کلی طور پر سہی) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ہو‘ دوسری جہت اس لئے باطل ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ہے اور یہ شرعی احکام میں بہت زیادہ خطا و لغزش سے دوچار ہوتے ہیں۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وہی پہلی جہت ہے اگرچہ اصولیوں کے یہاں دوسری جہت زیادہ مشہور ہوئی ہے۔ 
  1. "اجتہاد" کا حق اہل سنت کے یہاں زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ سکا‘ شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں‘ کیونکہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رہے‘ خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف جائز سمجھتے ہیں اور ہر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رہے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا‘ شاید یہی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتہاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشہور مجتہدوں اور اماموں ابوحنیفہ‘ شافعی‘ مالک بن انس‘ احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لے جائیں اور انہیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پہلے (ساتویں صدی میں) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی۔ 


  1. جائز اجتہادلفظ "اجتہاد" پانچویں صدی ہجری تک اسی طرح مخصوص معنی میں… یعنی قیاس و اجتہاد بالرائے جو شیعہ نقطہ نظر سے ناجائز ہے… استعمال ہوتا تھا۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں "باب الاجتہاد" اسے رد کرنے اور باطل و ناجائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے‘ جیسے شیخ طوسی کتاب "عدہ" میں لیکن آہستہ آہستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنی سے باہر آ گیا اور خود سنی علماء نے بھی… جیسے ابن حاجب "مختصرالاصول" میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ہے اور مدتوں جامعة الازہر کے درسی نصاب میں شامل رہی ہے اور شاید آج بھی شامل ہو۔ ان سے پہلے غزالی نے اپنی مشہور کتاب "المستصفٰی" میں… لفظ اجتہاد کو اجتہاد بالرائے کے اس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے جو کتاب و سنت کے مقابلے میں ہے‘ بلکہ انہوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عالم معنی میں استعمال کیا ہے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ استفراع الوسع فی طلب الحکم الشرعی اس تعریف کے مطابق اجتہاد کا مطلب‘ "معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعے شرعی احکام کے استنباط کی انتہائی کوشش کرنا ہے۔" اب رہی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ہیں؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ہیں یا نہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ 
  1. اس وقت (پانچویں صدی) سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتہاد کے پہلے سے قائل تھے۔ یہ اجتہاد‘ جائز اجتہاد ہے‘ اگرچہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنی و مفہوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نہیں لینا چاہا اور اس کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ علماء بہت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجہتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے‘ مثلاً اہل سنت‘ اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے‘ جبکہ شیعہ اسے نہیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ہیں‘ لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکھ دیا۔ اہل سنت کہتے تھے شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ اجتہاد (قیاس)۔ شیعہ علماء نے کہا‘ شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ عقل۔ انہوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکھ دی۔ 
  1. بہرکیف اجتہاد رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ہونے لگا یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مہارت ضروری ہے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ہیں۔ علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ہوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استخراج و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ہے‘ جیسے عربی ادب‘ منطق‘ تفسیر قرآن‘ حدیث‘ رجال حدیث‘ علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم۔ اب مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو ان تمام علوم میں مہارت رکھتا ہو۔ 
  1. یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ شیعوں میں اجتہاد و مجتہد کا لفظ اس معنی میں سب سے پہلے علامہ حلی نے استعمال کیا ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب "تہذیب الاصول" میں "باب القیاس" کے بعد "باب الاجتہاد" تحریر فرمایا ہے‘ وہاں انہوں نے اجتہاد اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ہے اور رائج ہے۔ 
  1. پس شیعی نقطہ نظر سے وہ اجتہاد ناجائز ہے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اب چاہے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سرچشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ‘ لیکن جائز اجتہاد سے مراد فنی مہارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ہے۔ 
  1. پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اجتہاد کیا چیز ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد جس معنی میں آج استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے مراد صلاحیت اور فنی مہارت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کی تفسیر‘ آیتوں کے معانی‘ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت‘ نیز معتبر و غیر معتبر حدیثوں میں تمیز دینے کی صلاحیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صحیح عقلی اصولوں کی بنیاد پر حدیثوں کے آپسی ٹکراؤ کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ہو‘ مذہب کے اجمالی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ہو‘ خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر کرتے ہوئے ہیں‘ دنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق‘ تمرین‘ تجربہ اور ممارست ضروری ہے۔ ایک ماہر صنعت کار کی طرح اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ہے‘ اس میں مہارت و استعداد ہونی چاہئے۔ خاص طور سے حدیثوں میں بہت زیادہ السٹ پھیر اور جعل سازی ہوئی ہے‘ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط ملط ہیں‘ اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراہم ہونی چاہئیں کہ واقعاً اس میں اہلیت‘ قابلیت‘ صلاحیت اور فنی مہارت پیدا ہو جائے 


  1. شیعوں میں اخباریت کا رواجمیں یہاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں اجتہاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ہے اور وہ "اخباریت" کی تحریک ہے۔ اگر کچھ جید و دلیر علماء نہ ہوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سرکوب نہ کرتے تو نہیں معلوم آج ہماری کیا حالت ہوتی۔ دباستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نہیں ہے‘ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ہیں‘ جو بذات خود بہت ذہین تھے اور بہت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ہے۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں… جو عقل کی حجیت کی منکر ہو‘ قرآن کی حجیت و سندیت کی‘ یہ بہانہ بنا کر منکر ہو کہ قرآن صرف پیغمبر کے اہل بیت۱ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری فقط اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ہے اور اجماع سنیوں کی بدعت ہے‘ لہٰذا ادلہ اربعہ یعنی قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ عقل میں سے صرف سنت حجت ہے اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی "کافی"، "من لایحضرہ الفقیہ"، "تہذیب" اور "استبصار" میں بیان ہوئی ہیں‘ صحیح و معتبر بلکہ قطعی الصدور ہیں یعنی رسول خدا اور آئمہ طاہرین۱سے ان کا صادر ہونا یقینی ہے ان اصولوں کا پیرو اسکول… چار سو سال پہلے موجود نہ تھا۔ 
  1. شیخ طوسی نے اپنی کتاب "عدة الاصول" میں بعض قدیم علماء کو "مقلدہ" کے نام سے یاد کیا ہے اور ان پر نکتہ چینی کی ہے‘ تاہم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں مقلدہ اس لئے کہا ہے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے۔ 
  1. بہرحال اخباریت کا اسکول‘ اجتہاد و تقلید کے دبستان کے خلاف ہے‘ جس صلاحیت‘ قابلیت اور فنی مہارت کے مجتہدین قائل ہیں اخباری اس کے منکر ہیں۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ہیں‘ اس اسکول کا حکم ہے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ہے اور اس میں بھی کسی کو اجتہاد و اظہار نظر کا حق نہیں ہے‘ لہٰذا عوام پر فرض ہے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں‘ بیچ میں کسی عالم کو مجتہد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں۔ 
  1. ملا امین استر آبادی نے… جو اس دبستان کے بانی ہیں اور بذات خود ذہین‘ صاحِ مطالعہ اور جہان دیدہ تھے‘ انہوں نے… "الفوائد المدینتہ" نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ہے‘ موصوف نے اس کتاب میں مجتہدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ہے‘ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوڑی کا زور صرف فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل (جیسے ریاضیات) میں حجت ہے‘ اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ 
  1. بدقسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسی فلسفہ نے جنم لیا تھا‘ وہ لوگ علوم (سائنس) میں عقل کی حجیت کے منکر ہوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے‘ اب یہ نہیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کہاں سے حاصل کی‘ ان کی اپنی ایجاد ہے یا کسی سے سیکھا ہے؟ 
  1. مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۳ء کے موسم گرما میں بروجرد گیا ہوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ بروجرد ہی میں مقیم تھے‘ ابھی قسم تشریف نہیں لائے تھے۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی‘ آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ 
  1. "اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسی فلسفہ کی لہر کے زیراثر عمل میں آئی ہے۔" 
  1. یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی‘ جب آپ قم تشریف لائے اور آپ کے درس اصول میں "حجیت قطع" کا موضوع زیر بحث آیا‘ تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وہی بات فرمائیں گے‘ لیکن افسوس! انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انہوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نہیں آئی ہے اور بعید نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ حسی فکر مغرب سے مشرق تک پہنچی ہو‘ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میں نے اس سلسلے میں ان سے سوال کیوں نہیں کیا۔ 


  1. اخباریت کا مقابلہبہرصورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی‘ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرما تھا۔ خوش قسمتی سے وحید بہبہانی… معرف بہ آقا "آل آقا" حضرات آپ ہی کی نسل سے ہیں… آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 
  1. وحید بہبہانی کربلا میں تھے اس زمانے میں‘ ایک ماہر اخباری‘ صاحب "حدائق" بھی کربلا میں ساکن تھے‘ دونوں کا اپنا اپنا حلقہ درس تھا۔ وحید بہبہانی اجتہادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی۔ آخرکار وحید بہبہانی نے صاحب حدائق کو شکست دے دی۔ کہتے ہیں کاشف الغطا بحرالعلوم اور سید مہدی شہرستانی جیسے وحید بہبہانی کے جید شاگرد‘ پہلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے‘ بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔ 
  1. البتہ صاحب حدائق‘ نرم مزاج اخباری تھے‘ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وہی ہے جو علامہ مجلسی کا مسلک تھا‘ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ہے۔ علاوہ برایں وہ بڑے مومن‘ خدا ترس اور متقی و پرہیزگار انسان تھے‘ باجودیکہ وحید بہبہانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے‘ لیکن وہ اس کے برعکس‘ کہتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے کہتے ہیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بہبہانی پڑھائیں۔ 
  1. اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جدوجہد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم اصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا۔ کہتے ہیں‘ خود شیخ انصاری فرمایا کرتے تھے کہ اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو میرا اصول مان لیتا۔ 
  1. اخباری اسکول اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار… جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ہیں‘ لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو سال تک چھائے رہے… ذہنوں سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ حدیث کے بغیر‘ قرآن کی تفسیر جائز نہیں سمجھتے۔ بہت سے اخلاقی و سماجی مسائل بکہ بعض فقہی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ہے‘ فی الحال ان کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ 
  1. ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ہوئی وہ اس کا عوام پسند پہلو ہے‘ کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہتے‘ ہم کلام معصوم۱کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے سروکار ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے معصوم۱کا کلام بیان کرتے ہیں۔ 
  1. شیخ انصاری "فرائدالاصول" میں "برائت" و "احتیاط" کی بحث میں سید نعمت اللہ جزائری سے…جو اخباری مسلک کے پیرو تھے… نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: 
  1. "کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ (یعنی کسی اخباری) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین۱کے حکم کے مطابق عمل کیا‘ جہاں کہیں معصوم۱کا فرمان مجھے نہیں ملا میں نے احتیاط کی‘ کیا ایسے شخص کو جہنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بہشت میں جگہ دی جائے گی‘ جو کلام معصوم۱کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور ہر حدیث کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھکرا دیتا تھا (یعنی اجتہادی دبستان کا پرو شخص)!! ہرگز نہیں۔" 
  1. مجتہدین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم‘ قول معصوم۱کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں ہے بلکہ جہالت کے آگے سر جھکانا ہے‘ اگر واقعاً یہ معلوم ہو جائے کہ معصوم۱نے فلاں بات کہی ہے تو ہم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں‘ لیکن آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم سنیں (اس کی سند اور معنی و مفہوم میں تحقیق کئے بغیر) جاہلوں کی طرح اسے قبول کر لیں۔ 
  1. اب ہم یہاں چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں جس سے اخباریت کے جامہ طرز فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا۔ 


  1. دو طرز فکر کا ایک نمونہبہت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث یہ ہے: 
  1. الفرق بین المومنین و المشرکین التلحی 
  1. "مومن و مشرک کا فرق‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ہے۔" 
  1. کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کہا ہے کہ تحت الحنک ہمیشہ گلے میں پڑا رہنا چاہئے‘ لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے… باوجودیکہ اجتہاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اپنی کتاب "وافی" کے باب "الزی و التجمل" میں اس سلسلے میں ایک قسم کا اجتہاد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں‘ قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رہتے تھے اور اس عمل کو "اقتعاط" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ہوں‘ چنانچہ یہ حدیث اس عملی و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل (Symbol) کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ہے‘ لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ہو چکا ہے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نہیں رہا ہے‘ آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ہے‘ کیونکہ اس صورت میں وہ "لباس شہرت" کی شکل اختیار کر لے گا اور لباس شہرت حرام ہے۔ 
  1. یہاں اخباریت کا جمود کہتا ہے کہ حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ہوا ہے‘ لہٰذا اس کے بارے میں بحث و اجتہاد کرنا فضول ہے‘ لیکن اجتہادی فکر کہتی ہے ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شہرت سے پرہیز۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹے رہنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع متنفی ہو چکا ہے۔ اب یہ مشرکوں کا سمبل نہیں رہا ہے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب کوئی شخص یہ عمل بجا لاتا ہے تو وہ لباس شہرت کا مصداق ہے اور حرام ہے۔ ایک نمونہ تھا‘ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔ 
  1. وحید بہبہانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تواتر کی حد تک ثابت ہو گیا‘ اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آ کر چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ مجھے یقین آ گیا۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا‘ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود تم نے چاند دیکھا نہیں جن کی عدالت مسلم ہے انہوں نے گواہی بھی نہیں دی‘ پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا؟ میں نے کہا خبر متواتر ہے اور تواتر سے مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے۔ کہنے لگے کہ کس حدیث میں ہے کہ تواتر حجت ہے؟ 
  1. وحید بہبہانی کا بیان ہے کہ 
  1. "اc
  2. اسماعیل یشھد ان لا الہ الا اللہ 
  1. "اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔" 
  1. وحدانیت کی گواہی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے؟ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق۱نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی۔ 
  1. اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ اسماعیل کے کفن میں یہ عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ہوا ہے تو خود ان ہی کا نام کیوں نہ لکھا جائے؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں؟!! اخباری کہتے تھے یہ ساری باتیں اجتہاد اور عقل کا استعمال ہیں‘ ہم اہل تعبد و تسلیم ہیں‘ ہمیں صرف "قال الباقر و قال الصادق" سے مطلب ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ 


  1. ناجائز تقلیدتقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے: 
  1. انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون 
  1. "ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔"(زخرف‘ ۲۳) 
  1. ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔ 
  1. آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔ 
  1. اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں: 
  1. و اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللقوام ان یقلدوہ 
  1. یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔ 
  1. یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے: 
  1. و منھم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یطنون(بقرہ‘ ۷۸) 
  1. یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے: 
  1. "ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔" 


  1. ناجائز تقلید اور امام صادق۱مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے: 
  1. "ایک شخص نے امام صادق۱سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔" 
  1. حضرت۱نے فرمایا: 
  1. بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیہود و علمائھم فرق من جھة وتسویة من جھة: اما من حیث استووا فان اللہ قد ذم عوامنا بتقلیدھم علمائھم کما قد دم عوامھم و امامن حیث افترقوا فلا 
  1. "ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔" 
  1. اس شخص نے عرض کیا: 
  1. "فرزند رسول توضیح دیجئے۔" 
  1. حضرت۱نے فرمایا: 
  1. "یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔" 
  1. اس کے بعد حضرت۱نے فرمایا: 
  1. و اضطروا بمعارف قلوبھم الی ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق وبین اللہ 
  1. "وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول۱کا قول نہیں ماننا چاہئے۔" 
  1. یہاں امام۱یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔ 
  1. منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے: 
  1. قضایا قیاسھا معھا 
  1. جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت۱فرماتے ہیں: 
  1. و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقہائھم الفسق الظاہر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامھا‘ و اھلاک من یتعصبون علنہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ وان کان للاذلال و الا ھانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل ھولا فھم(احتجاجی طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں "بالترفق" کے بجائے "بالترفرف" آیا ہے) 
  1. "ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری… چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں… اپنے مخالفوں کی سرکوبی… چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں… اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔" پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں  بلکآنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔ 



Thursday, April 9, 2015

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

جنابِ صدر!سہارے زندگی ہیں کیونکہ دیوار کیلئے در سہارا۔۔۔۔۔در کیلئے گھر سہارا گھر کیلئے سر سہارا۔۔۔۔ سر کیلئے دھڑ سہارا بلکہ میں تو کہتی ہو ں کہ ۔۔۔زندگی سہاروں سے جنم لیتی ہے۔۔۔تخلیقِ آدم کی کہانی نغمہءِ الست کے سہارے کی محتاج ہوئی۔ پیدائش نوع انسانی ماں اور مامتا کے توسط سے جنم لیتی ہے۔پھول اور پھل ثمر ہیں اس درخت کے وجود کا جس کے سہارے یہ تتلیوں اور خوشبوں کو مسحور کرتے ہیں۔پرندے پروں کے سہارے۔۔۔۔سنگ و خشت دروں کے سہارے۔۔۔۔گھر گھروں کے سہارے۔۔۔دل دلبروں کے سہارے۔۔۔رنگ رنگت کے سہارے۔۔خوشبو پھول کے سہارے۔۔۔اور زندگی خدا کے سہارے
جنابِ والا!
سہارا استعارہ ہے پیار اور محبت کا، کہ جب باپ بوڑھا ہو جائے تو جوان اولاد سہارا کہلایا کرتی ہے۔سہارا نام ہے بھائی چارے اور اخوت کا، کہ تمام مسلمان ملک اسلامی سربراہی کانفرنس کی لڑی میں پرو ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بنا کر تے ہیں۔سہارا نام ہے اس حوصلے کا ، اندلس کے ساحلوں پر کھڑے طارق کی فوجوں کو وہ تقویت سونپ دیتی ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دیتے ہیں۔سہارا نام ہے اس سعی کا جو سندھ کے ڈاکوؤں کے مقابلے میں بن قاسم کو حجاز سے بر صغیر کھینچ لاتی ہے۔سہارا نام ہے اس تسلسل کا کہ جس کے سہارے محمود غزنوی ہند وستان پر 17حملے کرتا ہے۔سہارا نام ہے اس فضائے بدر کا کہ جب 313ہزاروں کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں۔سہارا نام ہے اس صبر کا ۔۔۔کہ جب پر وانے کیلئے، چراغ اور بلبل کیلئے پھول بس اور صدیق کیلئے اللہ کا رسولؐ بس ہو،۔۔۔ حضورؐ پوچھیں کہ صدیق گھر میں کیا چھوڑ آ ئے ہو تو صدیق کہیں اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نام۔سہارا نام ہے اس اعتماد کا جب حضرت موسیٰ کی والدہ ان کو نیل میں بہا دیں اور موسیٰ فر عون کے محل میں پرورش پائیں۔سہارا نام ہے اس غیبی مدد کا جو شداد کو بحری بیڑے کی تباہی کے بعد بچ کر جزیروں میں پرورش پا ئے اور با لآ خر ایک ملک کا بادشاہ بن جا ئے۔
ارے سہارا تو وہ سہارا جو ابراہیم کے آگ میں گر نے سے پہلے اس کو گلزار کر دے۔ارے سہارا تو وہ سہارا جو یوسف کے چاہ میں گر نے سے پہلے جبرائیل کے پروں کی صورت نمودار ہو ا کر تا۔ارے سہارا تو وہ سہارا ،جو صلیب پر سے عیسیٰ کو زندہ سلامت اٹھا لیا کرتا۔ارے سہارا تووہ سہاراہے، کہ میرا رسولؐ صدیقؓ سے کہے، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے ،جوحضرت علی کو ہجرت کی رات آنحضورؐ کے بستر پر سلا تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہاراہے جو ابر ہہ کے ہاتھیوں کو پرندے کے ہاتھوں موت بھیجتا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے،جو ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ لشکر پر بابر کے 10ہزار کو فتح دیا کرتا ہے۔ارے سہاراتو وہ سہارا ہے جو در یا ئے نیل میں راستے بنا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا
جو عصا ے موسیٰ بن کر سا نپوں کو نگل جا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے، کہ شہادت کی آرزولیکر میرے جوانوں کو ٹینکوں کی باڑوں کے آگے لٹا دیتا ہے۔ارے حسبی اللہ کی قسم سہارا تو وہ سہارا ہے کہ نبی مکرم کہیں،اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دو تو بھی اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔
ارے تم کہتے ہو سہارے۔۔۔ استقامت چھینتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ زندگی تو چلتی ہی سہاروں کے ذریعے ہے۔
جنابِ صدر! آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز دوسری چیز کے دم سے ہے۔ ہم اگر سفر کر رہے ہیں تو اس جگہ کے مقابلے میں جو ساکن کھڑی ہے۔اور مسلمانوں کو جب عضوِ واحد کہا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جاتا کہ ہر عضو دوسرے عضو کو سہارا دیتا ہے۔ جب دل کی بات ہو تی ہے تو لہو ’’دماغ‘‘ کے حکم سے جگہ جگہ پہنچتا ہے۔جب زندگی کی بات چلتی ہے تو غدائی چکرسے لیکر فضائی چکر تک ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔جی ہاں یہی سہارے ہیں جو زندگی دیتے ہیں۔ جو زندگی دیتے ہیں، خوشیاں با نٹتے ہیں، اور حوصلہ سوپنتے ہیں ۔۔۔کہ طے کر لیا سمندر اللہ کے سہارے۔

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل ث)
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے۔ ہو گا تو وہی جو میری چاہت ہے۔ اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دو ں گا تجھ کو جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں وہ جو تیری چاہت ہے۔ اور پھر وہی ہوگا جو میری چاہت ہے۔ 
جنابِ صدر! میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں ۔ تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے ۔۔۔کہ ہر تدبیر، تدبر کے زعم میں حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔ قسمت کی بساط پر تقدیر کے پیادے تدبر و تدبیر کے شاہوں کو شہ مات کرتے آئے ہیں۔ تدبیر تو تقدیر کے منہ میں پانی کا آخری گھونٹ ہے۔ جب شہر کا ہر شہری آگ کے انگارے دینے سے منکر ہو، اور سورج سوا نیزے پر آکر شا ہ شمس کے لئے گو شت کا ٹکڑاپکا جائے، تو تدبیریں ہار جا یا کر تی ہیں۔ جب شداد اپنی رعنائیوں کے ساتھ حور و بہشت کے تصور کو لے کر ایک ارضی جنت تخلیق کرے اور اس کے دروازے میں ہی ڈھیر ہو جائے تو تدبیریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔جب نو ح ؑ کی بستی والے کشتی کو گندہ کر نے کی تدبیر کرتے ہیں، تو ان کی تدبیروں کو اپنے منہ اسی غلا ظت سے دھونے پڑتے ہیں۔ اور جب برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو چاہ میں پھینکا کرتے ہیں، تو جبرائیلؑ کے پر کی ضرب سے سبھی تدبیریں دو نیم ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی ہٹلر ،دنیا فتح کرنے کا گھمنڈ لے کر میدان میں اتر تا ہے ،تو اس کی ساری تدبیریں نا ر منڈی کی بندر گاہ پر منجمند ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی خر ناٹ سپیرا اپنی رسیوں کو تدبیرِ جادو گری سے سانپوں میں ڈھال دے، تو حکم خدا وندی سے عصائے موسیٰؑ ان سبھی تدبیروں کو نگل جاتا ہے۔ ارے تدبیر کے پجاریو، آنکھیں کھولو! فر عون کی لاش پکار پکار کے کہتی ہے۔۔۔ تدبیرکے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے۔
ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب 313نے 1000کو مار بھگا یا تھا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب سپر پاور امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر لمحوں میں خاک کر دئے گئے۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،کہ تورہ بورہ کی پہاڑیا ں توزمین بوس ہو گئیں ،مگر بن لادن کا پتہ نہ چلا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں، جب سکیورٹی کے باوجود مجاہدوں نے بھارتی پار لیمنٹ پر حملہ کیا تھا۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج تو:
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھر تے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج بھی روز مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ:
ماں کو تلاش رزق نے رستہ بھلا دیا
بچی ٹھٹھر کے رات کے سائے میں مر گئی
ارے کہاں ہیں تدبیریں، کہ آج بھی جتوئی سے صدا آتی ہے کہ اس دیس میں تدبیریں مر چکی ہیں۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ روز دس بچے بسوں تلے کچلے جاتے ہیں۔ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

آدم نے بہشت کے میوے کھا کر غلطی کی ، اس غلطی کے نتیجے میں اسے جنت بدر کر دیا گیا۔زمین پر آکر مسائل نے جنم لیا یہ مسائل الجھتے گئے تو تنازعات بن گئے۔ قابیل نے ہا بیل کو قتل کیا تو دنیا میں جنگ کی آہ وفغاں شروع ہو گئی۔ کہیں گھوڑا آگے بڑ ھانے پر 40نسلیں تباہ ہو ئیں تو کہیں پانی پلانے پر تنازعہءِ لا حاصل نے جنم لیا۔ فر عون خدائی دعوے کے ساتھ اپنے جنگی جرائم کو جنم دیتا رہا اور تنازعات در تنازعات بنتے گئے ۔مسائل کے ریشم زلف یار کی طرح الجھتے گئے۔ جنگ نسل در نسل وراثت کا حصہ بنتی گئی۔ غریب کی کٹیا کا تیل لٹتا رہا۔ کئی جوانوں کی جوانیوں کے گلا ب مر جھا گئے۔ سہاگ لٹتے رہے۔ عصمت گری کا بازار گرم رہا۔ اور پھر فاران کی چوٹیوں سے اک نور ہویدا ہوا۔ جس نے خاندانی دشمنیوں کو، نفرتوں کے جلتے الاؤ کو، مذاکرات کی سیج پر بیٹھ کر صلح حدیبیہ کی گتھی میں اس طرح سلجھا یا کہ تاریخ کو خود پر رشک آنے لگا۔
جنابِ صدر ! اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں ، قتل کا بدلہ قتل، چوری کا بدلہ ہاتھ کاٹنا۔ کسی نے آنکھ پھوڑی تو آنکھ پھوڑ دو۔ پتھر کا جواب پتھر سے دینا ممنو عات تو نہیں ہیں مگر میرے نبی ؐ کا اسوہ بھی نہیں ہیں۔ آخری خطبہ کے موتع پر فر ماتے ہیں۔کہ تمہارے لئے دوسرے مومن کے مال و جان کو حرام قرار دیتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل جو زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔ آج اس کو ختم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے چچا زاد ابنِ ربیعہ کا خون معاف کر تا ہوں۔
جناب والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مذہب تو امن لیکر آیا ہے۔ یہ تو صلح کا پیغام لا یا ہے۔ اجڑے دلوں کو ملانے آیا ہے ۔یہ کائنات کیلئے وجہِ رحمت ہے اگر کوئی قتل کرے تو صلہ قتل ہی ہے مگر عظیم وہی کہلاتا ہے جو مذاکرات کی میزپر دشمن کیلئے معافی کا اعلان کرے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے کہ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ حلف الفضول کے نام سے عہدِ نبویؐ میں ہی لکھا گیا ۔ 
آج اقوام عالم کے مسائل کا جائزہ لیجئے ۔ سرحدوں کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، آزادیءِ نسواں کا مسئلہ، وسائل کا مسئلہ، قبائل کا مسئلہ، دین و لادینیت کا مسئلہ، نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اسلحے کے سوداگر، رات کے اندھیروں میں ہینڈ گر نیڈ اور بم بیچنے والے ہر مسئلے کو جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے آج
؂کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دھول کی چادر
اڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہومیں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
کیا یہ پھر ہلاکو خاں کی طرح کھو پڑیوں کے مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ کیا پھر بغداد کی وادیاں لہو رنگ ہو نے کو ہیں۔ کیا یہ پھر ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تاریخ رقم کر نا چاہتے ہیں ۔کیا پھر ورلڈ وار آرڈر کی آڑ میں 35لاکھ معصوموں کا خون ہونے کو ہے۔ کیا کسووو میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے ان عقل کے اندھوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کیا یہ جنگ سے مسائل حل کرنے والے عراق کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی روس کی طرح ٹو ٹ کر بکھر نا چاہتے ہیں۔
ان نا سمجھی کی تفسیروں سے میں یہی کہوں گا کہ یہ آخر کیوں بستیوں کو اجاڑ نے پر تلے ہو ئے ہیں۔ معصوموں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کب تک یہ لوگ بہنوں کی ردا ؤں کو نو چتے رہیں گے، کب تک عزتوں کو نیلام کر تے رہیں گے۔کب تک راقمِ تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے۔ الجنت تحت ظلال السیوف کے نعرے لگانے والے فتح مبین کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ فتح خیبر کے موقع پر آنحضور ؐ علیؓ سے فر ماتے ہیں اگر کوئی ایک شخص بھی بات چیت سے اسلام لے آئے تو سو سرخ او نٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر ہے۔ 
؂یہ کون لوگ ہیں نوکیلے ناخنوں والے
جو بے گنا ہ لہو کا خراج لیتے ہیں
سنوارتے ہیں جو بارود کے دھویں سے نقوش
درند گی کی ہوس میں اجاڑ دیتے ہیں
ضعیف ماؤں کے آنسو ، ہر ایک موڑ پہ آج
امیر شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں۔
جناب والا! جب 40برسوں کی لڑائیاں سمٹتی ہیں تو با ت چیت سے۔ جب کبھی جنوبی کوریا اور شمالی کوریا ملے ہیں تو بات چیت سے۔ جب کبھی یونان متحد ہوا تو مذاکرات کی میز پر۔ جب کبھی دلوں میں کینے مٹے تو بات چیت سے ، جب کبھی محبتیں بڑھیں تو بات چیت سے، جب کبھی پھول مسکرائے تو بات چیت سے، جب کبھی پاکستان بنا تو جنگ سے نہیں بات چیت سے اور جب کبھی تنازعات کی دیوار برلن گری تو بات چیت سے۔جزائر آسڑیلیا کے مسائل حل ہوتے ہیں تو بات چیت سے،کفار اور مسلمانوں میں کوئی معاہدہ ہوا تو بات چیت کے ذریعے۔
؂اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد 
جنابِ والا! سر درد کے دو حل، دو گولی ڈسپرین یا دو گولی 12بور۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں آرام دونوں گولیوں سے آ جاتا ہے۔ آپ کیسا علاج چاہتے ہیں۔ دو گو لی ڈسپرین کا یا دو گولی بارہ بور۔

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)




آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
جی ہاں صاحبِ صدر! آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔۔۔۔، کیونکہ میرا اور اقبال کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مانا کہ مصائب کڑے ہیں ،مانا کہ اسباب تھوڑے ہیں۔ مانا کہ آج دھرتی ماں مقروض ٹھہری۔ ارے مانا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہاں چھا گئے۔ ارے ما نا کہ ترقی کی رفتار کم ہے ۔ ارے ما نا کہ یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی۔ ارے مانا کہ یہاں بم بھی پھٹتے ہیں ۔ ارے مانا کہ شمشیر و سناں آخر ہو گئی اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے ۔ ارے سب مانا۔ لیکن میرے غازی علم دین نے ایسے ہی حالات میں جنم لیا تھا۔ میرا جناح پونجا پھولوں کی سیج سے نہیں اگا تھا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے آسائشوں کے پالے ہوئے نہیں تھے۔ 
صاحبِ صدر!
گوہر اور جوہر حالات کی بھٹی میں جل کر کند ن ہوئے ۔ارے نسل تو اس وقت بھی عیاش تھی، قوم تو اس وقت بھی کمزور تھی، بھوک اور افلاس تو تب بھی تھی، لوگ تو تب بھی مرتے تھے۔ لیکن اقبال کے شاہین نے ،اس مشکل کی گھڑی میں گھروں میں روٹیاں نہیں بانٹیں ،بلکہ ایک فکری انقلاب بر پا کیا ،کہ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس ذوقِ یقیں کا، جو پیدا ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں کٹ جا یا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس سوچ کا جوآدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس تصور کا، جو نوجواں کو اتنا عظیم کرتی ہے کہ منزل خود انہیں پکار ا کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس جذبے کا ،کہ جہاں صلہءِ شہید ، تب و تابِ جا ودانہ ہوا کرتا ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس اڑان کا، جہاں عشق کی ایک جست سبھی قصے تمام کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین۔۔۔جو خاکی تو ہے ’’خاک سے پیوند نہیں رکھتا‘‘۔ جو ’’زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا‘‘ اور جو رہے ۔۔۔۔آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش ‘‘ اور۔۔۔’’ جہاں ہے جس کے لئے وہ نہیں جہاں کے لئے‘‘ اور اقبال کا شاہین تو نام ہے اس قوت کا کہ:
دونیم جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی
ارے
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الٰہی
اور
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جنابِ صدر!
مرد حالات کے تھپیڑوں سے ڈر کر چوڑیاں نہیں پہن لیتے ۔ بھوک کے ڈر سے مردار نہیں کھاتے کہ’’شاہین کاجہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔۔۔۔سر چھپانے کے ڈر سے اپنا منہ مٹی میں نہیں ٹھو نستے ۔کہ ’’شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی‘‘دوسروں کے سر سے کلاہ نہیں اتارتے کہ’’شاہین حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہو تا‘‘۔ارے اقبال کا شاہین تو وہ ہے جو جھپٹنے اور پلٹنے کا گُر جانتا ہو، جو جینے کیلئے مرنے کا ہنر جانتا ہو۔
اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اتنا بلند حوصلہ ہے کہ دشمن کی ہر گولی کا جواب ایک غوری سے دے سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اور نگزیب حفی کی صورت اہلیانِ یورپ کی 210ملین روپے کی انعامی رقم واپس کر سکتا ہے ۔ برطانیہ کی سکونت کو ٹھوکر مار سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نو جوان ’’ڈھولا کے ڈھول‘‘ سے پلٹ کر سہارا فاؤنڈیشن کی بنیاد یں رکھ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اتنا ’’مال و مال‘‘ ہو گیا ہے ،کہ صغریٰ شفیع ہسپتا ل کی بنیادیں اپنے لہو سے سینچ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان گیند بلے کو چھوڑ کر سسکتی ،بلکتی انسانیت کیلئے کوئی شوکت خانم بنا نے کی سعی رکھتا ہے اور آج میرے دیس کا نوجوان دنیا کی سب سے زیادہ ایمبو لینسوں پر مشتمل ٹرسٹ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی سے چلا سکتا ہے۔ ارے مانا! کہ ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر شہید ہونے والے پرانے ہو گئے۔ ارے مانا کہ غداروں کو مارنے کے لئے اپنے ہی طیارے زمین میں گھسا نے والے پرانے ہو گئے۔ارے سب مانا ۔۔۔۔۔۔مگر ربّ احد کی قسم:آج بھی میرے دیس کا ہرنوجوان اپنے وطن کی ناموس کے لئے اپنے لہوکی آخری بوند تک بہا سکتا ہے۔ ارے ہم سب کچھ سہی۔ ۔۔لوٹے بھی سہی، لٹیرے بھی سہی ، لیکن’’کتابِ مقدس‘‘ کی قسم جب آج بھی کوئی ہماری غیرت کو للکارتا ہے تو ایک ہی رات میں 9چوکیاں فتح ہو جایا کرتی ہیں۔ آج بھی کوئی ایک پر تھوی بنا تا ہے تو دو غوری میدان میں آتے ہیں۔ کوئی ایک دھماکہ کر تا ہے تو جواب پانچ سے ملتا ہے۔ارے ہم آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ ہماری سوچ زندہ ہے اور جس کی سوچ زندہ ہو، وہی اقبال کاشاہین ہے ،اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اقبال کا شاہین ہے۔اور میرا ایمان کہتا ہے، کہ
ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)
گلستانِ سوچ میں ایک پھول کھِلا۔ اک نئی روح نے جنم لیا ،جس نے اقبال کے شاہین کا نام پا یا۔ خودی جس کا زیور اور خوداری، جس کا پیر ہن ہو نا تھا۔ ۔۔لیکن اب وہ پیر ہن بالِ جبریل اور ضرب کلیم کے لفظوں میں ہی کہیں کھو گیا ہے۔ اک موہوم سی امید کے سہارے میں اقبال کے شاہین کے دل پہ دستک دیتا ہوں، اُس کے ضمیر کو آواز دیتا ہوں لیکن۔۔۔
جناب صدر! لاشیں کہاں بو لتی ہیں۔۔۔ مجھے ضمیر کے مقبرے سے اپنی صدا کی باز گشت سنائی دیتی ہے، کہ آج کا نوجوان، کھو یا گیا ہے جس سے جذبِ قلندرانہ ، نہ حیرتِ فارابی، نہ تب و تابِ رومی، نہ جستجو ئےِ غزالی، عقل کا ہے اندھا ،لباس کتنا عالی، کہ جس کے صوفے ہیں افرنگی، قالین ایرانی۔۔۔۔۔ ہا ئے تن آسانی ، ہائے تن آسانی، جو ساز کا ہے دیوانہ، سوز سے ہے بیگانہ، ٹو ٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ، کہاں گیا وہ اس کا اندازِ دلبرا نہ ۔ ارے
یوں ہاتھ نہیں آتا ،وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے انداز ملوکانہ
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرہءِ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ
کہ میرا نوجوان تھا کبھی افسرِ شاہانہ۔ آج گلی گلی میں دیوانہ۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔جی ہاں جناب صدر!
اقبال کا شاہین آج ناپید ہے۔کِشتِ ویراں کی نمی میں کمی نہیں آئی لیکن ابھی وہ گلِ مراد نہیں کھِلا، کہ جسے آزادی کے جوُڑے میں سجایا جاتا۔ وہ خوشحالی نہیں آئی کہ جس کا جھومر بنا کر ماتھے پہ ٹکایا جاتا، گو کہ کبھی کبھار غیرت کے تلاطم سے ابھر کر اُس نے حیدری نشان کو سینے کا ہار بھی کیا۔ آب و گِلِ ایراں تو وہی رہی، لیکن عجم کے لالہ زاروں سے کوئی رومی نہ اٹھا۔ کہ 
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے 
کہ جسے ستاروں پہ کمندیں ڈالنا تھیں ،آج آسماں نے اُسے ثر یا سے زمین پر دے مارا ہے۔تقدیر سے پہلے خودی کو بلند کرنے والا، آج فلم ، سٹیج، ڈراموں اور کلبوں میں اپنا مقام تلاش کرتا ہے۔ آسمانوں پر اپنی منزل رکھنے والا، آج بازارِ حسن کے سب سے اونچے چو بارے پہ ملتا ہے۔ جہاں اقبال کا یہ شاہیں ،تماش بینی کا لبادہ اوڑھے رقص و سرود کے مزے لینے میں مصروف نظر آتا ہے تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں 
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم ِ شاہبازی
جنابِ صدر! طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کی تفسیر لیکر آج وہ مشرقی روایات پر شر مندہ اور مغربی تہذیب پر شاداں و فرحاں ہے۔ آدابِ فر زندی کی شقوں پر کچھ یوں پورا اترا ہے کہ آدھی نسل ’’ممی ڈیڈی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ مغربی تہذیب کے آلودہ معاشرے نے اسے وہ ذوقِ یقین بخشا ہے کہ مشرقیت کی ساری زنجیریں توڑ کر آج وہ دفعہ 44کی پرواہ کئے بغیر کسی ’’بلو اور چھنو‘‘ کی آنکھوں میں ڈوب گیا ہے۔ آج نگاہِ مسلماں کُند ہو چکی ہے۔ آج بت ہیں جماعت کی آستینوں میں۔ آج رہ گئی رسمِ اذاں ،روحِ بلالی نہ رہی۔ آج تلواروں کی چھاؤں میں سجدہ کرنے والوں کی آنکھیں جلوہءِ دانشِ فرنگ سے خیرہ ہو چکی ہیں۔آج کوئی بن قاسم، کوئی طارق نہیں۔آج اقبال کا شاہین اپنے آباء کی بہادری کی داستانیں سینے سے لگائے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فر دا ہے۔ کہ
شاہیں کا جہاں ممو لے کا جہاں ہے 
ملتی جلتی ملاسے مجاہد کی اذاں ہے
ہر طرف پھیلی اس کی ہی فغاں ہے۔ لیکن میرانو جواں کہاں ہے۔۔۔ میرا نوجواں کہاں ہے۔۔۔ کہ وہ تو سگریٹ اور چرس کے دھو ئیں میں کہیں کھو گیا ہے۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے اس کا یوں گھیراؤ کیا ہے کہ صدائے
لا ا لہ دب کے رہ گئی ہے۔اورایسے حالات میں
؂ مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خوں بھی روئے تو کس خاک پہ سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہو گی